اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

حضرت امام زین العابدین (رض) کے اخلاق کریمہ بے مثال

حضرت عبد الوہاب شعرائی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ میں سادات کرام کی بیحد تعظیم کرتا ہوں۔ چونکہ سادات کرام کا سلسلہ دنیا بھر میں وارث نبوت، چراغ امامت، امام زین العابدین بن حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام سے جاری و باقی ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے محبوب آپ فرما دیجئے کہ میں اس پر تم لوگوں سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت (سورہ شوریٰ)سیدنا امام شافعی فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ پر درود نہیں بھیجتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ حضرت عبد الوہاب شعرائی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ میں سادات کرام کی بیحد تعظیم کرتا ہوں۔ چونکہ سادات کرام کا سلسلہ دنیا بھر میں وارث نبوت، چراغ امامت، امام زین العابدین بن حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام سے جاری و باقی ہے ۔

ان خیالات کا اظہار مولانا قاری محمد مبشر احمد رضوی نے مدرسہ دینیہ غوثیہ، رضویہ میں منعقدہ اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ آپ کی سیرت مبارکہ پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سید الساجدین، امام زین العابدین کی ولادت باسعادت ۵ شعبان بروز پنجشنبہ ۳۸ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی کنیت ابو محمد، ابو الحسن اور لقب سجاد سید العابدین، ذکی اور امین ہے ۔

مولانا نے کہا کہ امام زین العابدین علیہ السلام اپنے اسلاف کے اخلاق و خصائل کے پیکر تھے ۔ بڑوں کا ادب، مصیبت زدوں کی فریاد رسی ، مفلوک الحال اور غرباء سے بے پناہ ہمدردی آپ کی ذات بابرکات میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ کے اوصاف حمیدہ نے خلق خدا کو آپ کا گرویدہ بنا دیا ہے ۔ شعراء نے آپ کی نجابت و شرافت ، تقویٰ شعاری اور عبادت گزاری پر بے شمار قصائد لکھے ہیں۔

امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے کسی قریش کو امام زین العابدین علیہ السلام سے افضل و اعلیٰ نہیں دیکھا۔ ایثار و قربانی کا عالم یہ تھا کہ آپ نے دو مرتبہ اپنا سارا مال و اسباب خدا کی راہ میں خیرات کردیا۔ اہل مدینہ کے غرباء کی پوشیدہ طریقہ سے رقم بھجوا کر مدد فرماتے ۔ آپ بہت ہی حلیم و صابر و شاکر تھے ۔ یزید کے دور حکومت میں آپ کو کربلا سے دمشق تک ہتھکڑی اور بیڑی پہنا کر لایا گیا۔ گلے میں بھاری طوق ڈال کر مدینہ منورہ سے ملک شام تک چلنے پر مجبور کیا گیا۔ آپ نے ان تمام مشقتوں کو برداشت فرما کر شکوہ و شکایت سے گریز کیا۔ بلکہ ہر قدم پر صبر و شکر کے پیکر بنے رہے ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد دنیا کی لذتوں کو بالکل ترک کردیا اور یاد الہٰی میں مشغول ہوگئے ۔ شب و روز واقعات کربلا و مصائب آل عباء کو یا د کر کے اشکبار ہوتے ۔ نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام۔ حضرت سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام ہر روز شب میں ایک ہزار رکعات نماز نفل ادا فرماتے تھے ۔ ایک روز آپ اپنے مکان میں نماز نفل ادا فرما رہے تھے کہ اچانک آپ کے مکان کو آگ لگ گئی۔ لوگ آگ بجھانے لگے لیکن آپ اسی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے رہے ۔ جب آگ بجھ گئی تو آپ نماز سے فارغ ہوئے، لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کے مکان کو آگ لگ گئی تھی، ہم لوگ بجھانے میں مصروف تھے مگر آپ نے اس کی پرواہ نہ فرمائی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ دنیا میں آگ بجھا رہے تھے اور میں آخرت کی آگ بجھانے میں مصروف تھا۔

 

 


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام

 
user comment