اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

انتقام مختار

کاروانِ بیکساں

باہر قیامت بپا تھی اور اندر رسول کی بہو بیٹیاں خیموں کے پردوں سے جھانک کر کربلا کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ روتے روتے آنکھوں کے آنسو خشک ہوگئے مگر ان سے بجائے چیخوں کے آہیں نکلتی تھیں۔ جب مصائب کی انتہا ہوجائے تو انسان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ یہی کیفیت ان غریب الوطن سیدانیوں کی تھی جو ٹکٹکی باندھے مجروح و ناتواں حسین کی آخری کشمکش دیکھنے میں ایک کرب انگیز خلش کا احساس کررہی تھیں۔

دفعتاً خولی کے نیزہ پر فاطمہ کے لعل کاسر نظر آیا۔ سیدانیاں اب تک خاموش تھیں مگر جب انہوں نے اس خونچکاں منظر کو دیکھا تو ان کی حالت ایک ایسے شخص کی سی ہوگئی جو ایک خوفناک خواب دیکھتے دیکھتے بیدار ہوجائے اور حقیقت کو خواب سے بھی زیادہ ہیبت انگیز پائے۔ جنابِ زینب  نے پردہ سے جھانک کر دیکھا تو ایک دلخراش منظر سامنے تھا۔ عمروسعد کے حکم سے جسم مبارک گھوڑوں کے سموں تلے روندا جارہا تھا۔ اب ایسا معلوم ہوتا تھا گویا شہداء کی لاشوں پر مسلمان نہیں__مردم خور جانور اور کریہہ منظر بھوت رقص کررہے ہیں۔ بنت ِ زہرا کی آنکھیں اس منظر خونیں کی تاب نہ لاسکیں۔ اُن کے ضبط کا دل ٹوٹ گیا اور کہا:

عمروسعد! اگر فرزند ِرسول کو قتل کرنے اور اہلِ بیت  ِ رسول کو خانماں برباد بنادینے کے بعد بھی تمہاری پیاس فرو نہیں ہوئی تو اپنے درندوں کو ہٹا دے کہ میں بھائی کی لاش کو گود میں لے لوں اور تیرے گھوڑے لاشِ امام کے ساتھ اس تباہ حال سیدانی کو بھی کچل ڈالیں۔

مگر عمروسعد اپنی وحشیانہ تفریح میں اس قدر منہمک تھا کہ سیدہ  عالم کی بیٹی کی صدائے درد اس کے کانوں میں نہ پہنچی ور نہ کیا عجب تھا کہ وہ یہ پیشکش قبول کرکے بھی اپنی حیوانیت کا ایک اور ثبوت دے ڈالتا۔

امامِ شہید کے جسم مبارک پر ظلم کرنے کے بعد وہ اور اُس کے رفقاء خیمہ عصمت و طہارت کا پردہ چاک کرکے حرمِ حسین  میں داخل ہوگئے۔ اس پیغمبر آخرالزماں کے زنان حرم خانہ میں، جس نے دوسروں کی برہنہ بیٹیوں کو ملبوسات دئیے اورغیروں کی بہوؤں کی چادریں اڑائیں، سیدة النساء کی غیور بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں مخدراتِ خانہٴ رسول کی یہ بے حرمتی برداشت نہ کرسکی۔ بدسیرت شمر کو سامنے کھڑا

دیکھ کر بولیں:

”او ملعون! مجھ پر نظر ڈالنے سے پہلے تیری آنکھیں پھوٹ کیوں نہ گئیں؟قدرتِ کاملہ نے تیری بصارت کیوں نہ چھین لی؟ اوجفاکار! دیکھ خوب اچھی طرح دیکھ کہ تیری آنکھوں کو اس جرم کی سزا دینے والے اس دنیا میں نہیں۔ دیکھ! میں رسول زادی ہوں۔ اس شاہِ کونین کی نورِ نگاہ جس نے حاتم کی بیٹی کو اپنے ہاتھ سے چادر اڑھائی تھی۔

یہ ہنگامہ سن کر عابد ِ  بیمار نے آنکھ کھولی۔ فوراً اُٹھے کہ یزید کے دو زخمی کتوں کو اس گستاخی کا مزہ چکھا دیں مگر فرطِ نقاہت سے جہاں کھڑے تھے، وہیں کھڑے رہے اور اپنی بے بسی پر ایک سرد آہ بھر کر بیہوش ہوگئے۔

اس وقت عمروسعد خیمہ میں پہنچ گیا اور اس نے حکم دیا کہ فاطمہ کی بہوبیٹیوں کی رِدائیں اُتار کر انہیں رسیوں سے جکڑ کر اونٹوں پر بٹھادیا جائے۔ وہ منظر نہایت دردناک تھا جب یزیدی شیطانوں کے ہاتھ ان مقدس خواتین کے مبارک سروں کی طرف بڑھے اور انہیں بے نقاب و بے حجاب کرکے اونٹوں پر بٹھادیا،اس حالت میں کہ ان کے چہرہ ہائے اقدس پر ہر نامحرم کی نظر پڑتی تھی۔ یزیدی درندے دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔ مسلمان__آہ! رسولِ اکرم کا کلمہ پڑھنے والا مسلمان اپنے ہادی و پیغمبر کو خراجِ عقیدت ادا کررہا تھا۔ کتنا خوفناک خراج تھا یہ کہ جس نواسی کو رسول نے اپنے ہاتھ سے رِد اُڑھائی، اُسی کا ناموس آج اُس کے نانا کے پیروؤں کے ہاتھوں لٹ رہا تھا؟ اُف اُف!اگرحیرت ہے تو یہ کہ آفتاب اس منظر کو دیکھ کر زمین میں کیوں نہ دھنس گیا؟ قہر الٰہی نے فرزندانِ گیتی کو کیوں نہ پھونک ڈالا؟

کاروانِ بیکساں ایک پڑاؤ پر جاکر ٹھہرگیا۔ چاندنی رات تھی مگر دردوفغاں نے چاروں طرف پھیل کر اسے اس قدر تاریک بنا دیا تھا کہ چاند کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔ صحرا کی ریت کے ذرّے اس طرح چمکتے تھے جیسے چشم غزالیں میں موٹے موٹے آنسو۔ ریگستان کی فضاکبھی کبھی عابد ِ  بیمار کے نعرئہ”یا حسین “ سے گونج اٹھتی تھی۔وہ اپنے شہیدبابا کو یاد کرتے تو کلیجہ میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی۔ دل کا دھواں دماغ تک پہنچتا اور ہر دوسرے لمحہ بیہوش ہوجاتے۔ہر چند کہ غمزدہ پھوپھی نے کلیجہ سے لگارکھا تھا لیکن انہیں کسی پہلو قرار نہ تھا۔ علی  کے پوتے کی صدائے غمناک نے شجروحجر کے کلیجے مسل ڈالے مگر عمروسعد ، شمر اور خولی برابرہنستے اور قہقہے لگاتے رہے۔ ان کیلئے یہ شب ِ برات تھی نہ کہ شب ِغم۔

صبح ہوئی تو عورتوں اور عابد ِشب زندہ دار نے نمازِ فجر ادا کی۔ وضو کیلئے پانی میسر نہ آیا تھا۔ اتنے دم تیمم کرکے خالقِ موجودات کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے لیکن اب ہاتھ بھی بیکار تھے۔ رسیوں نے انہیں اتنی مضبوطی سے باندھ رکھا تھا کہ تیمم کرنا بھی ناممکن تھا۔ صبح ماتم کے نمودار ہوتے ہی بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے نماز سے فارغ ہوکر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا دئیے اور کہا:خداوندا! میں جانتی ہوں کہ ہم اسیرانِ کربلا کی یہ نماز قضا کے برابر ہے مگر کیا کریں، تیری رضا یہی ہے کہ ہمیں وضو کیلئے پانی تو کجا تیمم کا موقعہ بھی نصیب نہ ہوا۔ اگر یہ خطا ہے تو معاف کردینا اور اگر یہ مجبوری ہے تو اپنے بندوں پر کرم کرنا۔

مجبورو رسن بستہ زینب  کے الفاظ جب عمروسعد کے کان میں پہنچے تو وہ گھبرا کر بولا: اگر رسیوں کی گرفت سخت ہے تو مجھ سے کہتی، میں پھندہ ڈھیلا ڈال دیتا ، نماز کا یہ عذر قطعاً غلط ہے۔

بی بی زینب  نے نگاہ آسمان سے ہٹائے بغیر فرمایا:

میں جس سے عذر کررہی ہوں، وہ بہتر جانتا ہے کہ میرا عذر صحیح ہے یا غلط۔ عمروسعد! کیا وہ نہیں دیکھتا کہ رسیاں ہمارے جسموں میں کھب گئی ہیں اور ہم اتنی بھی طاقت نہیں رکھتے کہ ہاتھ تک ہلاسکیں۔خدا گواہ ہے کہ میں خاندانِ رسو ل کی واحد نشانی ہوں اور خاتونِ جنت کے پوتے کا بخاراپنی پیشانی کو اُن کی گردن پر رکھ کر دیکھا ہے۔ ظالم! جس نے فرزند ِ رسول کی جان لی ہے، جس نے رسول زادیوں کو بے حرمت کیا، جس نے رسول اللہ کے بیمار نواسے کو پابہ زنجیر کیا، اُس سے رحم کی کیا توقع ہوسکتی ہے اور اُ س سے پھندہ ڈھیلا کرنے کی درخواست

کیوں کرتی؟

عمروسعد سے بنت ِ فاطمہ کی ان کھری کھری باتوں کا کوئی جواب نہ بن پایا ۔ لیکن امامِ عابد  نے فرمایا: عمروسعد! اگر تو اب بھی اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہے کہ کشتگانِ ستم پر کرم کرے تو میرے بابا کا سر میری جھولی میں ڈال دے، میں اسے سینہ سے چمٹا کر دل کا غبار نکال لوں گا۔

بد طینت خولی بو لا: تو لب ِمرگ ہے،مگر ابھی تک دماغ سے بوئے بغاوت نہیں گئی؟ ارے حسین  باغی تھا، اُس کا سر صرف اس شرط پر مل سکتا ہے کہ تو اسے پاؤں سے ٹھوکر مارے!

بیمار  نے ایک آہ بھری۔ وہ آہ جو ایک بھبھوکا تھی اور شیاطین یزید کو جلانے کیلئے کافی تھی۔ مظلوم جب ظلم کا انتقام نہ لے سکے تو اس کے سینے سے آہیں ہی نکلتی ہیں۔ لیکن مسلم کی شہزادی نے خولی کو پھنکارا اور کہا: چپ رہ! جس کی شان میں تو گستاخیاں کررہا ہے، اب بھی وہ دو جہاں کا مالک ہے۔

قافلہ مظہر تھا ماتمِ شہداء کا۔ کسی دولہا کی برات نہ تھی لیکن جب سیدہ  عالم کی بہو اور بیٹی برہنہ سر کوفہ میں داخل ہوئیں تو انہوں نے دیکھا کہ شہر کو دلہن کی طرح آراستہ کیا گیا ہے۔ قلعہ کی آرائش کا اہتمام اس سے بھی زیادہ وسیع پیمانہ پر کیا گیا تھا۔مسلح سپاہیوں نے مظلوم و بے نقاب سیدانیوں کو اونٹوں سے اُتارا اور ابن زیاد کے سامنے لے چلے۔ دربار میں پہنچے تو سطوتِ شاہی کا مظاہرہ قدم بہ قدم ہورہا تھا۔گویا ابن زیاد نے اس امر کا اہتمام کیا کہ ہر شے پر نظر پڑتے ہی اہلِ بیت علیہم السلام کو اپنی بیکسی اور ابن زیاد کی شوکت و دولت کا احساس ہو۔ اس نے سیدانیوں کے دربار میں پہنچتے ہی جو کچھ کہا، اُس سے یہ امر پایہٴ ثبوت کو پہنچ گیا کہ اس آرائش و زیبائش کا مقصد زخم خوردگانِ کربلا کے دلوں پر چرکے لگانے کے سوااور کچھ نہ تھا۔وہ بی بی زینب کو دیکھ کر ہنسا اور بولا:باغی بھائی کی سرکش بہن! تو نے حسین کا انجام دیکھ لیا؟ خدائے ذوالجلال نے اسے اس کے اعمال کی سزا دے دی۔

بی بی زینب کا دل یہ سن کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ لیکن یہ وقت رونے اور چلّانے کا نہ تھا۔ علی کی بیٹی کو اگرچہ اپنی بے پردگی کا سخت قلق تھا ، تاہم اُس  نے مغرور اورکمینے دشمن کے سامنے جھکنا نہ سیکھا تھا۔

ابن زیاد کھسیانا سا ہوگیا اور اپنی خفت مٹانے کیلئے حسین  کے سر کو چھڑی سے چھیڑنے لگا۔زید بن ارقم ، صحابیِ سول اللہ، یہ دیکھ کر خاموش نہ رہ سکے اور بولے: یہ بے ادبی؟ عبید! میں نے ان رخساروں پر رسولِ خدا کو بوسہ لیتے دیکھا ہے۔

جنابِ زینب  نے سر اونچا کرکے فرمایا:حسین خدا اور اُس کے رسول کا حکم بجالایا، اُس نے جان دے دی مگر تجھ جیسے موٴمن نما کافر کے ہاتھ میں ہاتھ دینا قبول نہ کیا۔ یہ ہے بنت ِ فاطمہ  کی شانِ امتیازی۔

ابن زیاد کی آنکھیں سرخ ہوگئیں، غضبناک ہوکر بولا: اگر کوئی اور شخص ایسا کہتا تو اس کی زبان گدی سے کھنچوا لیتا۔ مگر صحابہٴ رسول ہیں،اس لئے درگزر کرتا ہوں۔

زید کی غیرت جوش میں آئی، کہنے لگے: اگر میرے قتل کا ارمان دل میں ہے تو وہ بھی نکال لے۔ تو نے اپنے دربار میں رسول زادیوں کو بے پردہ کیا۔ اس دن کا انتظار کر جسے یومِ استحقاق کہتے ہیں۔ اسی دن تیرے ناموس کی بربادی ہوگی۔آج تیری بہن برقعہ میں ہے اور فاطمہ  کی بہو بیٹیاں کھلے منہ نامحرموں کے سامنے ہیں ۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب تیرا کیا تیرے سامنے آئے گا۔

ابن زیاد چپ رہا۔ کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہ تھی۔ چند گھنٹے بعد قافلہ نے شام کی طرف مراجعت کی۔جونہی ابن سعد اسیرانِ کربلا کے ساتھ موصل پہنچا، شہر کے دروازے بند کردئیے گئے۔ اس کے تعجب و غضب کی انتہا نہ رہی۔ اس نے اہلِ موصل کو پکڑ کر بآوازِ بلند کہا:

تم جانتے ہو کہ خلیفة المسلمین سے بغاوت کرنے کی سزا کیا ہے؟ دروازے کھولو ورنہ یزید کا قہر تمہیں تباہ کردے گا۔ تمہارے مکان جلادئیے جائیں گے۔ تمہاری عورتیں حرمِ حسین کی طرح اسیر ہوجائیں گی اور تمہارے بچے مصرویونان میں جاکر فروخت ہوں گے۔ حسین کا سر دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔ اس کی مثال اور اپنی وفاداری کا ثبوت دو۔

مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ اہلِ شہر کے بوڑھوں نے کہا: عمر سعد! یہ موصل ہے، کوفہ نہیں، یہاں سے چلے جاؤ ورنہ یاد رکھو کہ ہم سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔

عمر سعد اپنی دھمکی کارگر نہ ہوتے دیکھ کر پڑاؤ ڈالے بغیر چل پڑا۔ آخر مظلوموں کا قافلہ دمشق پہنچا۔ جب غریب الوطن سیدانیاں دربارِ شام میں حاضر کی گئیں، اس وقت بی بی زینب  نے فرمایا: یزید! تو نے جو کچھ کیا، اُس کا بدلہ تجھے خدا سے ملے گا۔ ظالم! ظلم کی کوئی حد ہوتی ہے۔ جس رسول کا تو کلمہ پڑھتاہے، اُس کی بچیاں تیرے دربار میں بے نقاب کھڑی ہیں۔ ڈر اُس قہار و جبار سے جس کے انتقام سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

یزید ہنسا اور بولا:انتقام؟ کیااپنے دشمن کو، تخت ِخلافت کے باغی کو، شہنشاہیت ِ اسلام کے منکر کو سزادینا گناہ ہے؟حسین  نے خدا کے حکم کے خلاف بغاوت کی اور اس کی سزا پائی۔ میں نے صرف اپنا فرض پورا کیا ہے۔

یہ کہہ کر اُس نے حکم دیا کہ سیدانیاں، عابد ِ  بیمار اور بچے وغیرہ سب زندان خانے میں بھیج دئیے جائیں۔

رات کا وقت تھا۔ تمام دنیا محو ِخواب تھی،مگر یزید شاہی محل میں کروٹیں بدل رہا تھا۔ سونے کی کوشش کرتا مگر کیا مجال کہ آنکھ چھپکے!وہ اُٹھا اور ساغر بلوری میں شراب انڈیل کر پینے لگا۔ اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے شراب انسانی لہو بن کر رہ گئی ہو۔ وہ سوچنے لگا: خون؟ اُف!میں خاندانِ رسالت کے مہ پاروں کا خون پی رہا ہوں؟ اور ساغر ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جا پڑا۔

اسی وقت ایک چیخ کی آواز سے فضا میں تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی۔ آواز جانبِ زندان سے آئی تھی۔ یزید دیوانوں کی طرح اٹھ کھڑا ہوا اور مجلس اہلِ بیت علیہم السلام کی طرف چلا۔ وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ ایک تنگ و تیرہ کوٹھڑی میں بی بی زینب  ماں جائے بھائی کا سرگود میں لئے بین کررہی ہیں۔ یزید نے آہنی سلاخوں کو زورسے تھام لیا اور بولا: زینب ! جو ہونا تھا، ہوچکا۔ اب یہ سر مجھے دیدے کہ تیرا سوگ ختم ہو اور تجھے صبر آجائے۔

زینب سرِ حسین کوسینہ سے لپٹا کر بولیں: ہاں! توکہتا ہے کہ جو ہونا تھا، ہوچکا، یہ ٹھیک ہے مگر تو اندھا ہے۔ ہمارے مصائب ختم ہوئے، اب ہم بیکسوں کی آہیں تیرے لئے ایک دوزخ تیار کررہی ہیں جس میں تاقیامت جلتا رہے گا۔

اُسی دن سے یزید ایک باطنی آگ میں جلنے لگا۔ یہ آہ مظلوموں کا اثر ہویا کچھ اور، لیکن کہتے ہیں کہ کئی برسوں بعد جب اُس کی لاش قبر سے نکالی گئی تو اُس کی ہڈیاں بھی جل کر سیاہ ہوچکی تھیں۔

قسمت کا پھندہ

ابن زیاد، حاکمِ کوفہ کے دربار میں رسولِ خدا کی بہو بیٹیاں سربرہنہ کھڑی تھیں، سینوں سے آہوں کا دھواں اور زبان سے فغاں کے شعلے نکل رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خواتین عصمت و طہارت کا زخمِ جگر اور حرماں نصیب بہنوں کا شرارِ غم ایک آگ کی شکل اختیار کررہا تھا اور اس آگ میں ابن زیاد بد نہاد کی شاہی وجاہت اور حاکمانہ تمکنت سب جل کر راکھ ہوجائے گی۔بیوگانِ ویتامیٰ کے منہ سے ہر لمحہ واحسینا، واحسینا کے جگرسوز نعرے بلند ہوتے تھے اور دربار کے احاطہ میں گنے چنے موٴمنین کے دل و جگر کو چیرتے چلے جاتے تھے۔ دربار میں ایک ہنگامہ بپا تھا۔ یہ غم کا نوحہ تھا اور ابن زیاد ایک پابستہ زنجیر قیدی سے ، جو ہتھکڑیوں سے اپنا سر پھوڑنے کی سعیِ ناکام میں مصروف تھا، کہہ رہا تھا: مختار دیکھو، جی بھر کر دیکھو، یہ اُس حسین کا سر ہے جس کیلئے تم نے یزید کی بادشاہت کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کیا تھا۔یہ اُس باغی کے انصار و احباب کے سر ہیں جس کے ایک نائب کو بچانے کیلئے تم کوفہ کی گلیوں کو زرم گاہ میں بدل دینے کے متمنی تھے۔تم نے حالت ِکفر میں خاندانِ یزید کی مستورات کو بیوہ اور ان کے بچوں کو یتیم کردیا تھا۔ دیکھو! آج خانہٴ بو تراب کی عورتیں ، بچے بیوگی اور آتش یتیمی میں جل رہے ہیں۔

ہتھکڑیوں سے اپنا سر پھوڑنا چاہتے ہو؟نہیں، میں تمہیں اتنی آسان موت مرنے نہ دوں گا۔ دیکھو! جی بھر کر دیکھو، اپنے آقاو مولا کے سر کو، اتنا دیکھو کہ تمہارا دل چھلنی چھلنی ہوجائے۔ تمہارے سینہ کے ناسور بہنے لگیں اور تمہارا جگر خون ہوجائے۔ میں تمہیں قتل نہیں کروں گا ، زندہ رکھوں گا، اس لئے کہ تم اس آگ میں جلتے رہو، ہمیشہ__ہمیشہ!

مختار نے کہا: ابن زیاد! آج تمہارا قانون ہے، تم آلِ محمد کو جتنا چاہو، ستالو۔ ہائے مجھ بد نصیب کے مقدر میں یہ منظر دیکھنا بھی لکھا تھا کہ بناتِ حیدرِ کرارمیرے دوش بدوش کھڑی ہوں اور ان کی زبان پر آہ و بکا ہو۔ لیکن یاد رکھو! باپ کابیڑہ بھر کر ڈوبتا ہے۔ میں رسول اور ان کے فرزند ِشہیدکی محبت کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر قید سے زندہ نکل آیا تو ایک ایک سے امامِ مظلوم کے خون کا بدلہ لوں گا۔ ابن زیاد ہنسا اور کہا: تمہیں اس بوسیدہ روایت پر بھروسہ ہے، جس روز جنگ ِ تبوک کو گئے، اُس روز تمہارے علاوہ اور بھی سینکڑوں بچے قبولِ عرب میں پیدا

ہوئے تھے۔

مختار کی آنکھیں فرطِ غضب سے سرخ ہوگئیں۔ اُس نے کہا: او بیوقوف! لیکن رسول اللہ نے ہر بچہ کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ قاتلانِ حسین کو تلوارکے گھاٹ اُتار دے گا۔

تھوڑی دیر کے بعد دربار میں سناٹا چھاگیا۔ اُمرائے دربار کے دل میں یہ سوال اُٹھنے لگا کہ اگر رسولِ مقبول کے متعلق علی کی یہ حدیث سچ ثابت ہو تو___؟

ابن زیاد فوراً بھانپ گیا کہ سرداروں کے دماغ میں کیا خیالات چکر لگا رہے تھے، اُس نے کہا کہ ابوتراب کی یہ حدیث ان ماتم زدہ عورتوں کو سناؤ تاکہ ان کی تسلی ہو لیکن سمجھ لو کہ زندان سے تمہاری لاش ہی نکلے گی۔

مختار نے حقارت سے منہ پھیر لیا۔ وہ اس بدباطن کی صورت بھی نہ دیکھنا چاہتے تھے جو رسولِ اکرم کے قول سے منکر ہو۔ ابن زیاد کے سپاہی اسے جیل خانہ میں لے گئے۔

مختار نے کہاتھا کہ باپ کا بیڑہ بھر کر ڈوبتا ہے۔ شاید یزید اور اُس کے حواریوں کے گناہوں کا پیمانہ لبریز ہونے میں ہنوز کچھ کسر تھی۔ کوفہ میں تشدد کا چکر چلنے لگا۔ علی کا نام لینا جرم قرار دیا گیا۔ خود حاکم شہر نے دربارِ عام میں اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص حسین  کے قتل پر آنسو بہاتا پایا گیا تو اُسے گرفتار کرلیا جائے اور یزیدی حکومت اس کا مال ضبط کرلے ۔ کوفہ غداروں کا شہر تھا، اُس نے ان احکام پر خوشیاں منائیں،جشن کئے گئے اور شب کو چراغاں ہوا۔ جو دو چار محب ِاہلِ بیت شہر میں موجود تھے، ان کے خوف و ہراس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اگر روتے بھی تو چھپ کر کہ کوئی دیکھ نہ لے۔

دن گزرتے گئے لیکن جبروکراہ میں کمی واقع نہ ہوئی۔ حاکم کے آدمی شبانہ روز کوفہ کی گلیوں میں اس کے جابرانہ احکام کا اعلان کرتے تھے۔ جس پر محبت ِحسین کاشبہ ہوتا، اُسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جاتا۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ جبر کی حکومت میں ایسا ہونا قدرتی بات ہے۔ کوفہ میں ایک معلم تھا ، کثیر بن عامر۔ اُس کے بزرگ ہمدان کے رہنے والے تھے۔ گردشِ روزگار انہیں کوفہ لے آئی۔ یہاں اعلیٰ خاندانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت ان کے سپرد ہوئی۔ آدمی لائق تھے، دنوں میں ہی طاعت و رسوخ کے مالک ہوگئے۔کثیر کو بھی بنظر احترام دیکھا جاتا تھا۔ وہ عالمِ باعمل تھے اور امام حسین علیہ السلام کے خونِ معصوم نے ان کے دل پر گہرا اثر کیا تھا۔

صبح و شام یزید کے جبر پر لعنت بھیجتے اور دل ہی دل میں شہادتِ حسین  پر کڑھتے تھے۔ لیکن کیا مجال کہ احساسِ باطن کو زبان پر لاسکتے۔ ابن زیاد کی حکومت میں یہ ایک ایسا جرم تھا جس کی کوئی معافی نہیں تھی۔ ایک دن مکتب میں بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ پیاس لگی، ایک طالب علم سے آبخورہ لے کر پانی پیا۔ یکایک انہیں سید  الشہداء کی پیاس یاد آگئی۔ بیتاب ہوکر بولے: لعنت ہے اُن پر جنہوں نے امامِ مظلوم کو پیاسا ذبح کردیا۔

یہ بات معمولی تھی لیکن شیطان کے گھر میں شیطان ہی پیدا ہوتے ہیں۔ سنان ابن انس کے بیٹے کو اُستاد کا یہ فقرہ ناگوار گزرا۔ مکتب سے چھٹی پاتے ہی وہ ایک تنہا جگہ گیا، وہاں اُس نے پتھر مارکر اپنا جسم لہولہان کرلیا اور ناک میں کچھ ایسے انداز سے ایک لکڑی ٹھونس دی کہ خون بہنے لگا۔ باپ نے یہ حالت دیکھی تو بیتاب ہوا اور بولا: میری آنکھوں کے نور! بتاکہ تیرا یہ حال کس نے بنایا؟ میں اُس کی نسل کا خاتمہ کرکے دم لوں گا۔

ان شیطان نے سسکیاں بھرتے ہوئے ایک من گھڑت داستان باپ کو کہہ سنائی۔ اوّل تو کثیر کے محب ِ اہلِ بیت ہونے کی شکایت کی اور اس کے فقرے دہرائے، پھر کہاکہ جب میں نے ان فقرات پر اعتراض کیا تو کثیر نے مجھے قتل کرنا چاہا اور اگر میں بھاگ کر جان نہ بچاتا تو اب تک میرا قیمہ ہوچکا ہوتا۔

غضب آلود باپ شیطان مجسم بیٹے کو ابن زیاد کے پاس لے گیا اور بولا: عبیددیکھ! تیری مملکت میں اب بھی ایسے لوگ بستے ہیں جو امام کے قتل کا انتقام بچوں سے لیتے ہیں۔

ابن زیاد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ ساری کہانی سن کر اُس کے منہ سے کفر جاری ہوگیا اور وہ کہنے لگا: اس کثیر کے بچے کی اتنی ہمت؟ اسی وقت سپاہیوں کو بلاؤ کہ وہ اس مردود کو گرفتار کر کے میرے حضور میں پیش کریں۔ کثیر پکڑے گئے۔ اُنہوں نے بہت کہا کہ میں بے گناہ ہوں اور شہادت کیلئے اپنے دیگر شاگردوں کو بلانا چاہا لیکن جہاں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہو، وہاں انصاف گونگا اور بہرہ ہوجاتا ہے۔ ابن زیاد کے حکم سے کثیر بن عامر کو جیل میں بند کردیا گیا۔

زندان میں جب مختار نے کثیر کی داستانِ غم سنی تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے فاضل قیدی کو گلے لگا کر کہا: گھبراؤ نہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یزیدی حکومت کا انجام قریب ہے۔ کوفہ کے لوگ جب دیکھیں گے کہ ان کے بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تو وہ بہت جلد تمہیں چھڑوا لیں گے۔

چند لمحوں کی ملاقات ہی میں کثیر کو مختار سے محبت ہوگئی۔ وہی محبت جو ایک خدا، ایک رسول اور ایک امام کے ماننے والوں میں ہوجاتی ہے۔ مختار تلوار کا دھنی تھا،کثیر علوم کا خزینہ۔ دونوں کی طبائع بھی ایک دوسرے سے مختلف تھیں لیکن اہلِ بیت علیہم السلام کی محبت نے انہیں ایک کردیا۔ کثیر بن عامر نے پوچھا: اور تم؟

مختار نے آبدیدہ ہوکر کہا: مجھے اپنی قید کا غم نہیں لیکن یہ خیال سوہانِ روح ہورہا ہے کہ اگر مجھے رہائی نہ ملی تو خونِ امام کا انتقام کون لے گا؟

کثیر بولے: رفیق! اگر میں آزاد ہوگیا تو اپنی جان پر کھیل کر بھی تمہیں زندان سے چھڑا لوں گا۔

سچ؟ مختار نے پوچھا۔کثیر بولے: سچ۔ میں پنجتن  پاک کے خونِ معصوم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ زندگی و موت ہر حال میں تمہارا ساتھ دوں گا۔وقت گزرنے لگا۔ کثیر ایک علم دوست آدمی تھا اور طبعاً آرام پسند۔ اسے قید و بند کی اذیتیں سہنے کی عادت نہ تھی لیکن مختار کی صحبت نے اسے جفاکش بنا دیا۔یہ احساس اس کے اطمینان کیلئے کافی تھا کہ اسے یہ سزا آلِ رسول کے عشق کی وجہ سے ملی ہے، نہ کہ کسی اور دنیاوی خطا کے باعث!

ان دنوں مدرسوں کا رواج نہ تھا۔ تعلیم کو حصولِ زر کا ذریعہ نہ سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم و تدریس پیشہ لوگ بہت کم تھے۔ رفتہ رفتہ کثیر ابن عامر کی عدم موجودگی میں احساس زور پکڑنے لگا۔ خود ابن زیاد کے لڑکوں کیلئے کوئی قابل معلم نہ تھا اور اُمرائے شہر حیران تھے کہ اس مسئلہ کو کیونکر حل کریں۔ کثیر بن عامر کی رہائی کیلئے ایک خاموش احتجاج شروع ہوگیا۔کثیر کی ایک بھتیجی حاکم کوفہ کے بچوں کی دایہ تھی، اُس نے یہ موقعہ غنیمت جانا ، بال بکھیر لئے اور کپڑے پھاڑ ڈالے اور یاس و غم کی تصویر بن کر حاکم کوفہ کے بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے حرم سرا میں پہنچی۔

ابن زیاد کی بیوی کے پوچھنے پر اُس نے کہا: بیگم! میں تباہ ہوگئی۔ میرے بزرگ چچا کو آقا نے قید کررکھا ہے، حالانکہ وہ بالکل بے قصور ہیں۔ اپنے جگر پاروں کو دیکھو ، جس دن سے وہ قید ہوئے ہیں، اُسی دن سے ان کی تعلیم چھوٹ گئی ہے۔ نہ اب ادب، نہ اخلاق۔ جب دیکھو، آوارہ پھرتے ہیں۔ میری حالت پر رحم کھاؤ، اپنے بچوں کے مستقبل پر غور کرو ۔ میں تم سے اپنے چچا، کوفہ کے معلم کی رہائی کی بھیک مانگتی ہوں۔ اگر تم چاہو تو میرا دامن گوہر مقصود سے بھر سکتی ہو۔

نئے آفتاب کی پہلی کرن فاضل قیدی کیلئے آزادی کا پیغام لائی۔ آہنی سلاخوں کے حجرہ سے باہرآنے سے پہلے وہ مختار کے پاس گیا۔ دونوں میں چپکے چپکے کچھ باتیں ہوئیں، آخر میں کثیر نے ذرا بلند آواز سے کہا: خدا گواہ ہے کہ میں تمہارے حکم کی تعمیل میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال دوں گا۔

اسی وقت شاہی پہرہ دار جیل خانہ میں داخل ہوا اور بولا: کثیر! تم جاسکتے ہو۔ حاکم نے تم پر رحم کرکے تمہیں آزاد کردیا ہے۔ کثیر جیل سے باہر آیا تو اُس کا دماغ تفکرات کے بوجھ سے دبا ہوا تھا۔ اُس کی ذمہ داریاں کتنی عظیم تھیں، کتنی گراں ، کیا وہ ان سے عہدہ براہو سکے گا؟

اُسی دن شام کو ایک مزدور جس کے سر پر لذیز کباب روٹیوں اور میوہ جات سے بھرا خوان تھااور ہاتھ میں ایک ہزار دیناروں کا تھیلا۔ داروغہٴ جیل کے دروازے پر آکر رُکا، دستک دینے پر ایک عورت باہر آئی۔ مزدور نے خوان اور تھیلی اُس کے حوالے کی اور کہا کہ یہ چیزیں کثیر بن عامر نے بھیجی تھیں کہ رہائی کے بعد آپ کے شوہر کی کچھ خدمت کریں گے۔ جیل افسر بڑا جہاندیدہ ہوتا ہے، داروغہ تاڑ گیا کہ منّت محض ایک حیلہ ہے، ورنہ در حقیقت ان تحائف کی تہہ میں کثیر کی کوئی غرض پنہاں ہے۔

دوسرے دن بھی اسی قسم کے تحائف بھیجے۔ تیسرے دن تحائف بردار کے ہمراہ کثیر بھی چلاآیا۔ داروغہ نے اُس کی تواضع کی اور کہا: کثیر! میں تیرا عندیہ سمجھتا ہوں، بتا کہ تو مجھ سے کیا کام لینا چاہتا ہے؟

رشوت کام کرگئی، جب کثیر بن عامر نے دیکھا کہ داروغہ مٹھی میں ہے تو اُس نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ مختار، ابن زیاد کے ظلم کا شکار ہورہا ہے۔ اسے کاغذ ،قلم اور دوات پہنچادی جائے اور جو خطوط وہ لکھے، وہ مجھ تک پہنچ جائیں۔ باقی انتظام میں خود کرلوں گا۔

داروغہٴ جیل ابن زیاد کے خوف سے لرز اُٹھا۔ بات معمولی ہے لیکن اگر حاکم کو پتہ چل گیا ؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُسے ایک تدبیر سوجھی۔ اُس نے کہا: کثیر! پرسوں تم بہت سا کھانا پکوا کر لے آنا، میں یہ مشہور کردوں گا کہ تم نے اسیروں کو کھانا کھلانے کی منّت مانی تھی۔ قلم، دوات اور کاغذ روٹیوں میں چھپا کر مختار کو پہنچادئیے جائیں گے اور کسی کو شبہ تک نہ ہوگا۔

بات پختہ ہوگئی۔ داروغہ اور کثیر یہ سمجھتے تھے کہ یہ راز ان کے سینوں میں محفوظ رہے گا لیکن روٹیاں آئیں تو ابن زیاد بھی بلائے

بے درماں کی طرح ان کے سر پر پہنچ گیا اور داروغہ سے بولا: نمک حرام! تو بھی ان باغیانِ سلطنت میں شامل ہوگیا؟

ابن زیاد نے روٹیوں کی تلاشی لی، نامعلوم اُس کو کیا اطلاع دی گئی تھی؟ داروغہ مارے خوف کے بید ِمجنوں کی طرح کانپ رہا تھا اور کثیر خدا کے حضور میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگ رہا تھا کہ اے پروردگار! ہماری عزت رکھنا۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو مختار کی رہائی کی سبیل نہ رہے گی۔لیکن مارنے والے سے بچانے والا زبردست ہے۔ابن زیاد کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی کہ اُسے قلم دوات نظر ہی نہ آئی۔ تلاشی ختم ہونے کے بعد داروغہ نے اس کی قبا کوبوسہ دے کر کہا: حضور کو کسی دشمن نے غلط اطلاع دی ہے۔ کثیر نے منّت مانی تھی کہ رہا ہونے کے بعد

اسیروں کو کھانا کھلاؤں گا، یہ وہی روٹیاں ہیں۔ اس خوان میں سوائے اشیائے خوردنی کے اور کچھ نہیں ہے۔ابن زیاد مطمئن ہوکر چلا گیا لیکن دل ہی دل میں وہ خفیف بھی ہورہا تھا۔

ایک ساعت گزرنے پر داروغہ اندر سے دو خطوط لایا۔ ایک اُس کی بہن صفیہ کے نام تھا، دوسرا اُس کے شوہر عبداللہ بن عمر کے نام۔ کثیر بن عامر نے دونوں خطوط اپنی آستین میں چھپا لئے اور داروغہ کا شکریہ ادا کرکے اپنے گھر کی طرف چلا۔اُسی رات وہ غائب ہوگیا۔ ابن زیاد حیران تھا کہ معلم کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔تلاشِ بسیار پر بھی اُس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

اُدھر کوفہ اپنے فاضل معلم کی اتفاقیہ گمشدگی پر انگشت بدنداں تھا۔ ادھر مدینہ منورہ میں ایک سرتاپا گرد سے اَٹا ہوا مسافر ایک عالیشان مکان کے دروازہ پر دستک دے رہا تھا۔ صاحب ِ خانہ نے باہر آکر پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ اجنبی بولا: کوفہ سے، کیا عبداللہ ابن عمر آپ ہی ہیں؟عبداللہ نے کہا: ہاں۔

قاصد نے کہا کہ باقی باتیں گھر جاکر ہوں گی اور عبداللہ کے ساتھ مکان کے اندر چلا گیا۔ جب میزبان و مہمان بیٹھ گئے تو ایلچی نے کہاکہ میں کوفہ کا ایک معلم ہوں۔ میرا نام کثیر بن عامر ہے۔ مختار کے خطوط لایا ہوں۔ ایک آپ کے لئے، ایک اُن کی بہن کیلئے۔

عبداللہ دونوں خطوط لے کر اندر چلا گیا۔ چند لمحوں تک زنان خانہ میں خاموشی رہی۔ اس کے بعد رونے پیٹنے کی صدائیں آنے لگیں۔مختار کی بہن کہہ رہی تھی: خدا غارت کرے ابن زیاد کو جس نے میرے نازوں کے پالے بھائی کو قید کررکھا ہے۔میں سر پیٹ لوں گی، بال نوچ ڈالوں گی، اپنا خون کرلوں گی، جب تک وہ آزاد نہ ہو،مجھے کھاناپینا حرام ہے۔

اُس کا شوہر کہہ رہا تھا: صفیہ! تم صبر کرو، یزید ہماری طاقت سے بے خبر نہیں۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے بعد ایک نیا فتنہ جگانا نہیں چاہتا۔ میں اُسے خط لکھتا ہوں، وہ مختار کی رہائی کا حکم دینے سے انکار نہیں کرے گا۔ لیکن بہن کو تسلی نہ ہوئی۔ اُس نے بھائی کے فراق میں اور اُس کی بیٹیوں نے ماموں کے غم میں اپنے سر کے بال نوچ لئے اور عبداللہ سے کہا: اپنے خط کے ساتھ ہمارے بال بھی ایک سیاہ تھیلی میں بند کرکے بھیج دینا کہ اس بے رحم کا پتھر دل پگھل جائے۔

عبداللہ نے خط لکھا، بیوی اور بچیوں کے بالوں سے بھری تھیلی کثیر کے حوالے کی اور کہا: اے فاضل محترم! خط کے ساتھ یہ تھیلی بھی یزید پلید کی نذر کردینا اور کہنا کہ یہ مختار کی بہن کے غم کا زندہ ثبوت ہے۔

غمزدہ صفیہ کی دعائیں لے کر کثیر بن عامر نے دمشق کا رُخ کیا۔

اٹھارہ دن__ایک نہیں، دو نہیں__پورے اٹھارہ دن گزر گئے، کثیر ہمدانی ہر صبح نماز سے فارغ ہونے کے بعد دریدہ پر جاتالیکن پہرے دار روک لیتے۔ انتظار کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، کثیر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔وہ بیقرار و مضطرب رہنے لگا۔ ایک سبزی فروش نے ، جو یزید کے محل میں ترکاری پہنچاتا تھا، اس مردِ موٴمن کو مغموم دیکھ کر پوچھا: اے اجنبی! تمہارے غم کا سبب کیا ہے؟ تم زاہد و پاکباز نظر آتے ہواور معلوم ہوتا ہے کہ تم آلِ محمد کے پیارے ہو، کیا تمہارے غم کا سبب شہادتِ حسین  ہے یا کچھ اور بھی؟

یہ کہتے کہتے وہ سبزی فروش بے اختیار رودیا۔ کثیر نے اُسے ہمدرد پاکر اپنا راز اُس سے کہہ دیا۔ سبزی فروش بولا:یہ کام تو چنداں مشکل نہیں، میں کل ہی تمہیں محل میں پہنچا دوں گا۔ یزید کا ایک سیاہ پوش غلام محب ِ اہلِ بیت  ہے، اُس سے ملنا، وہ تمہیں یزید کے سامنے پیش کردے گا۔

خوشی کے مارے معلمِ کوفہ کی باچھیں کھل گئیں۔ آخر وہ وقت آہی گیا جس کیلئے اُس نے طویل مسافت کی کٹھن منزلیں طے

کی تھیں۔

اگلی صبح نماز سے فراغت پاکر وہ سبزی فروش کے ساتھ محل میں داخل ہوا۔ یزید کے سیاہ پوش غلام کو ڈھونڈنے میں زیادہ دقت نہ ہوئی۔ لیکن وہ سخت متحیر ہوا جب اُس نے دیکھا کہ وہ اس کی طرف بڑھا اور بولا: بھائی! تم اٹھارہ دن تک کہاں رہے؟ اتنے دن تمہارے انتظار میں میری تو آنکھیں تھک گئیں؟

عبداللہ کا ایلچی سخت حیران ہوا اور خوفزدہ بھی کہ یاالٰہی! یہ کیا ماجرا ہے؟ اس شخص سے کسی نے کہہ دیا کہ میں اٹھارہ روز سے یہاں ہوں۔ اسے گھبرایا ہوا دیکھ کر اُس شخص نے کہا کہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اٹھارہ دن قبل میں نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا کہ اُن کے گلوئے مبارک سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ خواب میں دیکھا ، مجھ سے فرمانے لگے کہ مختار کی رہائی کیلئے ایک ایلچی یہاں آرہا ہے، اُسے یزید کے پاس لے آؤ اور اُس کی حاجت پوری کرو۔ میں اُسی دن سے تمہارا منتظر تھا۔

یہ سن کر معلم پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ سسکیاں بھر بھر کر رونے لگا۔ جب آنسو رُکے تو سیاہ پوش غلام اُسے یزید کے پاس لے گیا۔ یزید نے خط پڑھااور معلم سے پوچھا: کیا یہ خط تم لائے ہو؟ سیاہ پوش غلام بول اُٹھا: ہاں! یہی لایا ہوں لیکن کیا جناب کو یاد ہے کہ حضور نے میری حاجت روائی کا وعدہ کیا تھا؟ آج وہ قول پورا کیجئے۔

مگر غلام اپنی بات پر بضد رہا۔ یزید نے کچھ دیر سوچا، اُسے مستقبل کی بھیانک تصویر نظر آرہی تھی۔ کون جانے اس درخواست کو نامنظور کرنے سے حسین  کے قتل کے خلاف بے چینی کی دبی ہوئی آگ پھر سلگ اُٹھے۔ اس نے قلم ہاتھ میں لیا اور مختار کی رِہائی کا حکم نامہ لکھ دیا۔ یزید کا یہ فیصلہ ایک سیاسی مصلحت پر مبنی تھا اور سمجھتا تھا کہ اس نے اپنی دور اندیشی سے سلطنت ِشام کا تختہ اُلٹنے سے بچالیااور اب خوف نہ رہا تھا۔

اُس کی بیوقوفی کہ وہ سب کچھ جاننے کا بہانہ کرتا تھا لیکن تقدیر کا پھندہ کتنا مضبوط ہے، یہ اُسے معلوم نہ تھا۔اگر وہ یہ جانتا کہ مختار کی رہائی کا حکم دے کر وہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کررہا ہے، تو___

لیکن قسمت اپنے شکار پر ہمیشہ لاعلمی میں وار کرتی ہے۔ جب ابن زیاد نے یہ حکم نامہ پڑھا تو سر پیٹ لیا اور کہا: بس! اب میرا انجام نزدیک آگیا ہے اور وقت نے بتا دیا کہ اُس کے اندیشے غلط نہ تھے۔

انقلابِ مختار

ایک حاکم اپنے بہنوئی کو قتل کردے، بہن کی مانگ اُجاڑ دے، ہمشیرہ کا سہاگ چھین لے، اس سے بڑی اذیت اور کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن مسلمانوں نے یہ اذیت بھی برداشت کی۔ دکھ بھی گوارا کیا، کیوں؟ محض اس لئے کہ اسلام کی محبت، رسول کا عشق اور اللہ تعالیٰ کا حکم اس کا تقاضا کرتا تھا۔ مسلمان اپنا سب کچھ دے سکتا ہے لیکن اگر اس سے ایمان مانگ لیا جائے تو وہ آگ بگولا ہوجائے گا۔ ایک زخمی شیر کی طرح کانپ اُٹھے گا۔ مرنے مارنے کی تیاری کرنے لگے گا۔ یہی راز ہے دنیا میں اسلام کی کامیابی کا کہ محمدرسولاللہ کے دین کو دوسرے مذاہب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔

امیر مختار کا دورِ حکومت امام حسین علیہ السلام کے قتل کے پانچ سال بعد شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کا زمانہٴ اقتدار بہت مختصر تھا لیکن اس خادمِ اہلِ بیت  نے اس قلیل سی مدت میں بھی وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جن کا ذکر زبان پر آتے ہی آج بھی شیعانِ حیدر کرارپھڑ ک اُٹھتے ہیں اور جوشِ ایمانی سے دلوں میں ایک طوفان سا پیدا ہوجاتا ہے۔ ہاں! نمودِ اسلام پر مر مٹنے کی، جہاد فی سبیل اللہ میں قربان ہوجانے کی، خونِ شہدائے کربلا کا انتقام لینے کی بیتاب خواہش تڑپ اُٹھتی ہے۔ امیر مختار کی حمیت یہ گوارا نہ کرسکی کہ اس کی نیام میں تلوار اور اُس کے بازوؤں میں طاقت ہو اور قاتلانِ سبطِ رسولِ خدا عظیم ترین گناہ کے مرتکب ہوکر بھی صحیح اسلامی سینہ گیتی کو پامال کرتے رہیں۔ اُس نے چن چن کر اشقیاء کو مارا۔ کسی سے رعایت نہیں کی اور اس قتلِ عام میں اس کے اپنے اقارب بھی کشتہ تیغ ہوگئے۔ اس آتش انتقام میں اس کے اپنے خویش و اعزا بھی جل گئے۔ اس طوفان میں اس کے اپنے پرائے سب بہہ گئے۔

عمروبن سعد امیر مختار کا بہنوئی تھا۔ اس کی بہن کا سرتاج، لیکن جب دوسروں کی بہنوں کے شوہر قتل ہورہے ہوں، جب دوسروں کی بیویوں کے بھائی تلوار کے گھاٹ اتارے جارہے ہوں، جب عبداللہ کامل جیسے نمک حلال اور وفادارِ حکومت درباری سالے کو بھی نہ بخشا گیا ہو، اس صورت میں امیر کے اپنے بہنوئی کے بچنے کی کیا اُمید ہوسکتی ہے؟

اور عمرو تو سب سے زیادہ گناہگار تھا۔ کیا اُسی نے لشکر حسین  پر فرات کا پانی بند نہ کیا تھا؟ کیا اُسی نے شہید ِکربلاکے لشکر پر تیر پھینک کر مدینہ کے غریب الوطنوں کو جنگ کی دعوت نہ دی تھی؟کیا اسی نے حسین مظلوم کوتیروں کی بارش میں فریضہ نماز ادا کرنے پر مجبور نہ کیا تھا؟ کیا اسی نے تشنہ لب اصغر کو ایک گھونٹ پانی پلانے کی بجائے ہدفِ تیر نہ بنایا تھا؟ کیا اسی کے حکم سے سبطِ رسول کی نعش مبارک کو گھوڑوں کے سموں تلے روندا نہ گیا تھا؟اور کیا اسی کے حکم سے خیامِ اہلِ بیت  جلائے نہ گئے تھے؟ سیدانیوں کو ذلیل و رسوا نہ کیا تھا؟امام زین العابدین

علیہ السلام کو زنجیروں کا طوق نہ پہنایا گیا تھا؟

پھر امیر مختار اسے کیسے چھوڑ دیتا؟عمرو کو خوب معلوم تھا کہ فرمانِ رسول کے مطابق حسین کو ایذا دینا ایک ایسا گناہ ہے جس کیلئے کوئی عافی نہیں، کوئی کفارہ نہیں، کوئی شفاعت نہیں۔ وہ ایک صحابیِ رسول کا فرزند تھا اور اُس نے دیدہ و دانستہ امامِ برحق کے خون سے ہاتھ رنگا۔ اندریں حالات مختار اسلام سے غداری کرتا، احکامِ رسول سے منہ موڑتا، رضائے الٰہی کے خلاف بغاوت کرتا؟وہ اس ملعون کو محض اس لئے چھوڑ دیتا کہ وہ اس کا بہنوئی ہے اور اس وجہ سے اس کے نزدیک قابلِ عزت و احترام ہے؟مختار نے وہی کیا جو اُسے کرنا چاہئے تھا۔ سرتن سے علیحدہ ہوکر زمین پر گر پڑا۔

اپنے باپ کے قتل کی خبر سن کر عمروبن سعد کا بڑا فرزند وہاں آیا اور رونے لگا۔ سپاہی اُسے امیر کے پاس لے گیا۔ مختار نے دریافت کیا: اے ابن ملکیا! تو اس وقت بھی رویا تھا جب تیرا باپ حسین کا سر لے کر فاتحانہ طور پر کوفہ میں داخل ہوا تھا؟

اُس نے کہا: یا امیر! اُس وقت میں نہیں رویا تھا۔ روتا بھی کیونکر جبکہ حسین  سے میرا کوئی خونی رشتہ نہ تھا؟

امیر نے اُسی وقت کافر باپ کے کافر بیٹے کو قتل کروادیا اور کہا: جو آنکھ حسین کی شہادت پر پُرنم نہیں ہوئی، وہ اس قابل ہے کہ اُسے تلوا رکی نوک سے نکال پھینکاجائے۔

اس کے بعد عمروبن سعد کے چھوٹے بیٹے کی باری آئی۔ وہ صاحب ِ ایمان تھا۔ اپنے باپ اور برادرِ اکبر کے سر دیکھ کر مطمئن ہوا اور بولا: یا امیر! میں نے اپنے پدرِ ناہنجار کو بہت سمجھایا کہ دنیا کیلئے دین بگاڑنا اور ایمان فروخت کرکے دنیا خریدنا مناسب نہیں لیکن اُس نے ایک نہ سنی۔ اُس نے جیسا کیا، ویسا پایا۔

امیر مختار کو عمروبن سعد کے خاندان سے ذاتی عناد نہ تھا۔ اُسے اگر بیر تھا تو کفر سے ۔ وہ محب ِرسول و اہلِ بیت تھا۔ اُس نے چھوٹے لڑکے کو چھوڑ دیا اور کہا: جا! میں نے تجھے چھوڑا۔ میرے نزدیک روا نہیں کہ تو محب ِحسین ہے، نہ کہ اپنے باپ کی طرح دشنِ آلِ رسول۔

مختار نے اپنا فرض کادا کردیا۔ اُس نے اپنے بہنوئی کو قتل کروادیا لیکن دشمنِ ایمان کے فرزند کو چھوڑ دیا۔ ایک سچے مسلمان کیلئے ایمان ہی سب سے بڑی کسوٹی ہے اور حُبِ دین ہی سب سے بڑی سفارش۔

اس کے برعکس عمروبن سعد کا جو انجام ہوا، خدا وہ کسی کو نصیب نہ کرے۔ مختار وحشی نہ تھا، جابر نہ تھا، بربریت پسند بھی نہیں تھا لیکن انتقامِ حسین کی آگ اُس کے دل میں کچھ اس طرح بھڑک رہی تھی کہ عمروبن سعد کو کفن دفن بھی نصیب نہ ہوا۔اُس کا ناپاک جسم ایک ناکارہ شے کی طرح کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیا گیااور جلد ہی اس میں کیڑے پڑ گئے۔ لوگ اُسے دیکھتے تھے، اس پر تھوکتے تھے، لعنت بھیجتے تھے اور کہتے تھے: اچھا ہوا، یہ مردود اسی سلوک کا مستحق تھا۔


source : http://www.islaminurdu.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن و ماہ رمضان
از نہج البلاغہ
امامت آیہ ابتلاء کی روشنی میں
قیام حسین اور درس شجاعت
ایران کا نیوکلیر معاہدہ ۔۔۔۔ مجرم کے سر منصف کا ...
نفس كى تكميل اور تربيت
آخرت میں بخشش کی دعائیں
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یوم شہادت
موت کے وقت دوبارہ پلٹانے کی درخواست
امام بخاری کی مختصر سوانح حیات بیان کیجئے؟

 
user comment