اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اسلام کی حیات کا روشن باب جو رزم گاہ کربلا میں مکمل ہوا

اسلام کی صداقت و سچائی کے مقابل باطل ہمیشہ سے سرگرم کار رہا ہے۔ اس نے حق کی راہ سے انحراف کے لیے فکر و نظر کو اسیر بنانے کی اَن تھک کوششیں  کی ہیں ۔ ایک عرصہ تک باطل قوتوں  کی سازشیں  ناکام رہیں ۔ اسلامی تعلیمات نے ذہنوں  کو حق کی طرف مائل رکھا۔ سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد جب کہ عاشقان نبوی نے بشارت نبوی کے مطابق قیصر و کسریٰ اور دیگر باطل قوتوں کو فتح کیا۔ وقت کی سپر پاورز کے تکبر و نخوت کو خاک میں  ملا دیا ایسے حالات میں  پے در پے شکست نے دشمنانِ اسلام کے باطل عزائم کے بلند محلوں  کو زمیں  بوس کر دیا۔ وہ وقت کی تلاش میں  تھے۔ اسلام کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔

آخرایک ایسا بھی وقت آیا جسے اسلام کے لیے اک لمحۂ آزمایش کہہ لیں ۔ دشمنان اسلام کو یزید کی شکل میں  ایک شخص مل گیاجس نے ایک طرف اسلام کے نظام عدل و انصاف کا خون کیا۔ دوسری طرف شریعت اسلامی کے اصولوں  اور انسانیت کی قدروں  کو پامال کیا۔ ظلم و ستم کو مطمح نظر بنایا۔یزید نے ہر اس فعل کو روا جانا جس سے اسلام نے روکا۔ اسلام کے فطری ضابطوں  سے اس نے تجاوز کیا۔ نفس کی پیروی کی۔

ایک شبہہ ابھرتا ہے، یزید کی اطاعت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیوں  نہیں  کی؟ اگر اطاعت کر لیتے تو اتنا بڑا معرکہ برپا نہ ہوتا!… لیکن حقیقت یہ ہے کہ یزید کی اطاعت سے واقعہ برپا تو نہ ہوتا حق کا چہرہ ضرور مسخ ہو جاتا۔ اپنی جان اسلام کی راہ میں  نذر کر کے امام حسین نے شریعت کی حفاظت کی ہے۔ اسلامی قانون کو تحفظ دیا۔ آپ کی قربانی نے ایک آفاقی درس دیا ہے۔ وہ درس یہ ہے کہ جان تو جانی ہی ہے لیکن جو جان راہِ خدا میں  جائے وہ بیش قیمت ہو جاتی ہے۔ گویا کہ:

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

عقل بھی تائید کرتی ہے کہ سچی راہ کی حفاظت کے لیے جان دینا ہی اصل زندگی ہے۔ وہ کیسے ہیں  جو یزید سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ یزید کو حق پر جانتے ہیں ۔ کیا طریقۂ نبوی سے جدا راہ درست قرار دی جا سکتی ہے؟ کیا قیصر و کسریٰ طرز کی آمریت کو جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟ نہیں !! حقیقت حال یہ ہے کہ یزید کا منشا نفس کی پیروی میں  قیصر کی آمریت کو راہ دینا تھا، کسریٰ کے جور وستم کی مثال قائم کرنی تھی۔ اسی مراد کے حصول کے لیے وہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حمایت چاہتا تھا، ان کی رضا مندی اسے درکارتھی، اس وقت تک اسلام میں  دیانت و انصاف ہی کی حکمرانی رہی تھی۔ ظلم کی حکمرانی کا اجرا یزید چاہتا تھا، امام حسین اسلام کے نظام انصاف کی بالادستی چاہتے تھے، آپ نے اس کی حمایت نہ کر کے بتا دیا کہ آمریت کی راہ جو یزیداپنارہا ہے وہ الگ راہ ہے، اور اسلام کی پاکیزہ راہ الگ ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس سے یزید مضطرب تھا اور پھر اس کی حکومت ظلم و ستم اور باطل کا استعارہ بن گئی، محض اس لیے کہ امام حسین نے اس کی اطاعت نہیں  کی۔

تاریخ کا یہ خونین باب گرچہ دلوں  کو لرزا دینے والا ہے لیکن عظیم باب ہے۔ اس لیے کہ اس سے حق کی زندگی مربوط ہے۔ اسلام کی فطری سچائی جڑی ہے۔ انصاف کے لیے ظالم حکمراں  کے سامنے حق کہنے کی وہ مثال قائم ہوئی جس نے ہر مظلوم کو سہارا دیا۔ واقعہ کربلا کو ١٤صدیاں  بیت گئیں  لیکن اس سے ملنے والا درس ہر حق پسند کا سہارا ہے، ہر باطل کے مقابل صداقت کا استعارہ ہے، ہر آمر کے مقابل انصاف کا آوازہ ہے۔

ایک سفر تھا جس نے منزل کے نشانات واضح کر دیے، جدا راہیں  اجاگر کر دیں ۔ یزیدی راہ اور حسینی راہ۔ اور فطرت کا یہ اصول رہا ہے کہ حق ہی غالب آتا ہے، اس نکتے پر شاید حیرت و استعجاب ہو اس لیے بھی ہو کہ کبھی ایسا ہوا کہ بہ ظاہر طاقت و افرادی قوت کے سبب باطل غالب آیا لیکن وہ غلبہ ظاہری تھا جس میں فکر و نظر کو اسیر نہیں  کیا جا سکا، کربلا کا واقعہ ایسا ہی ہے، بہ ظاہر یزید فاتح رہا لیکن یہ فتح اس کی فکر کی موت ثابت ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھی حسینی تعلیمات مشعل راہ ہیں  لیکن یزیدی فکر شکست کی علامت بن گئی ہے، کیا آپ نے کبھی یہ دیکھا کہ یزید کی شان میں  قصیدے پڑھے جاتے ہوں ؟ نہیں  ! ایسا نہیں  ہوا، یزید ''علامت شر'' بن چکا ہے اور امام حسین ''علامت حق'' بن چکے ہیں ، اب حق کا جب بھی اظہار ہو گا اس کی تمثیل حسینِ اعظم بن کر ابھریں  گے۔ یہ تاریخ اسلام کا وہ روشن باب ہے جو مسلمانوں  کو عزم محکم دیتا رہے گا۔ فکر کی دنیا عزم حسینی سے آباد ہوتی رہے گی۔ حق کی روشنی ذہنوں  کو اجلا بناتی رہے گی۔ حوصلوں  کے چراغ تعلیمات حسینی کے روغن سے جلتے رہیں  گے، دلوں  کو مسرور اور فکروں  کو معمور کرتے رہیں  گے، بہ قول علامہ اختررضا بریلوی:

نگاہِ ناز سے نقشہ بدل دیتے ہیں  عالَم کا

اداے سرورِ خوباں  پہ ندرت ناز کرتی ہے۔(یو این این)

 


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article


 
user comment