اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

پیغامِ عاشورہ حق پسندی اور عدل گستری

امام حسین نے عاشور ۂ محرم کے دن واضح الفاظ میں امت مسلمہ کو اپنا پیغام سنایا کہ میں یہاں (میدانِ کربلامیں)اس لئے آیاہوں تاکہ ظالم اورجابر کامقابلہ کرکے اس کے ظلم اورجبر کے محلات کو ویران کرکے دُنیا کو عدل وانصاف دے کر اسلام اور آزادی زندہ کردوں۔

امام حسین  نے عاشورہ کے دن جو قیام کرکے اور قرآن مجید کی واضح صراحت پر عمل پیر اہوکر کسی کے لئے ظلم وتعدی کے سامنے خاموش اور بے حرکت رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑ دی ۔ قلتِ انصار اورعدم مودگی ٔوسائل کا بہانہ امام حسین  نے جمود پسندوں سے چھین لیا ۔ واقعہ کربلاکے بعد کسی کے لئے ساتھیوں کی قلت کا جواز دے کر خاموش بیٹھنا جائز نہیں ہے ۔

روز عاشورہ امام حسین  کو اسلام اور مسلمین کے مستقبل کی فکر تھی ۔امام عالی مقام نے آنے والے ایام سے بخوبی واقف تھے کہ اسلام ان کی فداکاری اور اسلامی طریقِ جہاد سے پھیلے گا ۔آپ  نے یزید کی مخالفت کی تاکہ اسلام کا سیاسی اور اجتماعی نظام ہمارے معاشرے میں قائم ہوسکے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے مبارزہ کیا اور اپنے آپ کو اسلام ومسلمین کے درخشندہ مستقبل کے لئے قربان کردیا۔

’’کل یوم عاشورہ کل ارض کربلا ‘‘کی مثال بن کر جب بھی حق اور باطل کا ٹکراؤہوتو حق کی فولادی دیوار بن کر اس کی حمایت او رمدد کرو ۔ جس وقت امام حسین علیہ السلام نے عاشورہ محرم61ہجری کو بوقت نمازِعصریہ نعرہ دیا ،اُس وقت ان کے تمام عزیز واقارب اصحاب وشیر خوار بچہ ان ہی لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے تھے جن لوگوں کے سامنے امام حسین علیہ السلام نے یہ تاریخی الفاظ دہرائے ۔

ہے کوئی جو اس وقت میری مدد کرے۔

اس کے وجوہات ہوسکتے ہیں۔

امام عالی مقام امام زماں تھے ، حجت خدا وندی تھے ۔آپ نے معرکہ کربلا کے دوران یہ صداان ظالموں کو دی جو لشکر عمر ابن سعد میں شامل تھے تاکہ آخری بار ان پر حجت کا اتمام ہوسکے ۔

ہر ایک عظیم ترین شہید کوئی نہ کوئی پیغام تاریخ کے جبین پر رقم کردیتا ہے ۔ امام حسین ؑ نے عاشورہ کا انقلابی پیغام آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑا۔

حضرت امام حسین درحقیقت حق ،عدل ،آزادی ،اسلام کی سربلندی ، حق طلبی ، عدل خواہی کے علامت تھے ۔حق کے دفاع میں یہ استعاثہ عدل وآزادی کا پیامبر تھاگویا حق عدل اورآزادی پکار رہی تھی ، ہے کوئی جو ہماری مدد کرے۔ یہ ایک درس ابدی ہے جو پیغام عاشورہ کا مرکز سبق کہلاتاہے ۔

روزِ عاشورہ جب امام عالی مقام  کی نظر شہداء کربلا کے اجساد مبارک پر پڑی تو ایک جملہ فرمایا جس کے معنی یہ ہیں ۔

میں روئے زمین پر ان جیسےشہداء کے بغیر کسی اورکو زندہ نہیں سمجھتاہوں یعنی میرے نزدیک یہی لوگ زندہ ہیں جو بظاہر مردہ دکھائی دے رہے ہیں اور جو لوگ یہاں میرے سامنے بظاہر زندہ ہیں وہ درحقیقت مردہ لوگ ہیں۔

ظاہر ہے اُس وقت ’’زندہ لوگ ‘‘خود خواہی ،خودپرستی ،لالچ اور دنیا پرستی کی زنجیروںمیں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کا ضمیر مرچکا تھا اور ان کوزندہ کہنا زندگی کی توہین ہے۔

اس لئے امام عالی مقام نے جو نصرت طلبی کا نعرہ دیا دراصل وہ ان شہیدوں کے اجساد واطہار سے خطاب تھا ۔ دراصل ندائے امداد گوناگوں وجوہات سے بھرا پڑا تھا۔پیغام شہید تھا ۔ اتمام حجت تھا اور اضطراب تنہائی تھا۔ آپ اپ کو امام عالی مقام نے تنہا پاکر اپنے شہیدوں کے اجساد اظہار کو یوں پکارا۔

’’اے میرے پاک بہادرو!اے شجاعت کے شیروں اور اے شریف زادو اُٹھو اور اپنی گہری نیند سے بیدارہوجائو تمہیں معلوم نہیں کہ یہ سفلہ صفت اور پست فطرت لوگ آپ کے پیغمبرؐ کے حرم اور ناموس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اُٹھو اور اپنے پیغمبر کے حرم اور ناموس کا دفاع کرو ‘‘۔اور اس کے بعد خود ہی فرماتے ہیں …سوجائو اور آرام کی نیند کرو کیونکہ میں جانتاہوں کہ تمہارا مقدس جسموں سے پاکیزہ سروں کے درمیان جدائی واقع ہوچکی ہے     

اسلام کے دامن میں دو ہی چیزیں ہیں

اِک ضربِ یدالٰہی اِک سجدۂ شبیری

یہ اُس سجدۂ شبیر کی گونج ہے جو عالم اسلام آج بھی اسی آب وتاب سے درس ابدی دے رہی ہے ۔ الغرض مکتبِ حسینی کے نور کی کرنیں چار سُو پھیل کرحق کا درس دے رہی ہیں ۔یہ کرنیں ہرطرف توحید شناسی ، جلوہ شناسی ، ایمانِ کامل تاقیامِ قیامت تسلیم ورضاپروردگار،صبرو اطمینانِ نفس ، مردانگی ،ثبات واستقامت ، عزت وکرامت نفس ،حریت خواہی ، عدل گستری ، حق شناسی وحق طلبی ،ایثار ومحبت ، فداکاری ،سرفروشی اور وفاداری کوپھیلا رہی ہے اور ان ہی شعاعوں نے اسلام کے درخت کا منور کر رکھا۔ ظلم واستبداد کے ایوان جونبی اُمیوںنے تعمیر کئے تھے ،اس کے بعداطمینان کی سانس نہ لے سکے۔

یزیدی دور تو کربلا کے بعد چار سال کے دوران نیست نابود ہوا ۔ اس کے بعد آلِ مروان نے حکومت حاصل کی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کو کبھی اطمینان کی سانس لینانصیب نہ ہوا۔

پیغامِ عاشورہ حق پرستوں کے لئے حیاتِ ابدی بن اُبھرا جب زمانے او ربشریت کو ظالم اور حکمرانوں نے زیرکرنے کی کوشش کی ، یہ بے مثال پیغامِ حق اور آزادی کے متوالوں کے لئے قوت اور حوصلہ کا باعث بن گیا ۔یہ روح پرور اور ناقابل تسخیرقوت شہید اعظم حضرت امام حسین کے پیغامِ جاوداں کو دُنیا کے مظلوموں کے لئے زندگی کا سہارابناتی رہی۔حسینؑ کے دکھائے ہوئے نقوشِ قدم سے عظیم رہبری ،صلاحیت ،استقامت ،صبر وایثار ،حق اور آزادی ، اسلام کی سربلندی کے زینے طے کرتے کرتے آبِ حیات بن گئی اور درس ابدی کی صورت میں عالم ہستی میں باقی رہ گئی ۔

پیغامِ عاشورہ کا اصلی مقصد یہ ہے کہ حق اور باطل کے درمیان جب بھی ٹکرائو ہوتو ہم جان کی بازی لگاکر حق کا ساتھ دیں ۔امام حسین نے ہمارے لئے تحمل اور بردباری کا پیغام چھوڑا اور یہ بتادیا کہ مصائب میں کس قدر حق پرستی اور خداپرستی کی شاہرا ہ پر استقامت کے ساتھ رہا۔ صبر وایثار کا درس، خوفِ آخرت کا درس، وفاداری اور اخوت وبھائی چارے کادرس دیاجاتاہے ۔

غرض یہ کہ حضرت حسین نے انسانی زندگی کو معراج عطا کرنے والا درس ہمارے لئے چھوڑا ۔ افسوس صد افسوس ایسے افراد پرجو ظالم جابر غاصب کو دیکھ اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے ۔حالانکہ محض اس چیزنے امام حسین کو چین سے بیٹھنے نہ دیا ۔ اسلامی قوانین کی کھلم کھلا مخالفت ہی سب بڑی وجہ تھی کہ اس کے باعث امام حسین ؑ کو مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا آنا پڑا ۔ دراصل بقائے اسلام کا ہدف ان کی تحریک کا محور ومرکز تھا ۔ اب اگر کوئی ان ہی اسلامی قوانین کی دھجیاں اُڑائے تو امام حسین اُس سے خوش ہوکر شفاعت کریں گے ؟واللہ کبھی نہیں۔
حضرت امام حسین نے اپنا سب کچھ قربان کرکے دینی انقلاب اور اصلاح اُمت کی بنیاد ڈالی تاکہ لوگ پرہیزگار بنیں،نماز گذاربنیں ، حق شناس بنیں ۔ انسانیت کے دلدادہ بنیں اور قرآنی تعلیمات پر عمل کریں ۔ ایسے لوگ ہی شجاع ، دلیر ،باغیرت ،خداپرست ، حق پرست کہلاتے ہیں ،ظالم اورظلم سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں ۔ حق وعدل،اسلام کی سربلندی اور آزادی پر مرمٹنا اپنا فرض جانتے ہیں اور وقت پڑنے پر شریعت اسلام کے احیاء کے لئے حسین علیہ السلام کی تقلید میں جان کی بازی لگاتے ہیں ۔ یہی اصل پیغام عاشورہ ہے جو امام حسینؑ نے نہایت صبر آزما،کٹھن اور مصیبت کے حالات میںمیں کربلا کے میدان میں اپنے تمام عزیزاقارب ،اصحاب وشیرخوار بچہ کو قربان کرکے امت مسلمہ کے لئے رہتی دینا تک اپنے اور اپنے جانثاروں کے مقدس لہو سے راقم کردیا۔

 


source : /www.rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment