اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

فضیلت خاتم الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم قرآن اور سنت کے آئینے میں

 

اسلام عقل اور علم کو بہت اہمیت دیتا ہے یہاں تک کہ عقل کو ’’اندرونی پیغمبر‘‘ کا نام دیتا ہے اور اسی لیے صلے اور سزا کو عقل کی بنیادوں پر رکھا ہے اور قرآن مجید بار بار عقل استعمال کرنے (سوچنے اور غور و فکر کرنے) کا حکم دیتا ہے اور بہت زیادہ سورتوں اور آیات میں صرف اہل فکر اور اہل عقل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ کیونکہ قرآن مخاطب ہے فطرت انسان سے اور جب فطرت مردہ ہو جائے تو اس کو عقل اور فکر ہی زندہ کرتی ہے۔

 روایات کے لحاظ سے رسول کی دو قسم ہیں:

 ۱)رسول ظاہری: جو انبیاء کی صورت میں خدا نے بھیجے۔

۲)رسول باطنی: جو عقل کی صورت میں خدا نے دیا ہے۔

کیوں انبیاء کو انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے؟ جبکہ انسان کے پاس عقل ’’رسول باطنی‘‘ پہلے سے موجود تھی اس لیے کہ عقل انسانی خدا کی وحی کے بغیر ناقص اور نامکمل ہے لہٰذاخدا نے اپنی وحی انبیاء کے ذریعے بھیجی انبیاء معصوم ہیں وہ گناہ کے نزدیک بھی نہیں جاتے اور عقل وحی کے بغیر نامکمل ہے عقل پر وہم اور خیال غلبہ کرسکتا ہے۔ قرآن میں خدا فرماتا ہے:

وَعَسی أَنْ تَکْرَہُوا شَیْئًا وَہُوَ خَیْرٌ لَکُمْ وَعَسَی أَنْ تُحِبُّوا شَیْئًا وَہُوَ شَرٌّ لَکُمْ وَاﷲُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ  (۱)

اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیںناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو (جیسا کہ) ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

در اصل انسان کی معلومات بہت کم ہیں پس اسی وجہ سے ہمیں وحی خدا کی ضرورت ہے جسے انبیاء انسان تک پہنچاتے ہیں، کیونکہ خدا نے اس جہان کو اسباب اور مسببات کے تحت بنایا ہے۔

خدا نے ہر امت کے لیے نبی کو بھیجا تاکہ وہ اپنی امت کی ہدایت کرسکے اور ہدایت کے سلسلے کو تکمیل کرنے کے لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیجا گیا۔

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ (۲) 

ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے،جبکہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔

قرآنی لحاظ سے بعض انبیاء کو دوسرے بعض پر فضیلت خاص ہے:

تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ (۳)

ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّینَ عَلَی بَعْضٍ (۴)

اور بتحقیق ہم نے انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔

 قرآن میں انبیاء کی دو قسم بیان ہوئی ہیں:

 ۱)   اولو العزم

 ۲غیر اولو العزم

 فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ (۵) 

پس (اے رسول) صبر کیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا۔

ہمارے رسول کو آخری نبی قرار دیا گیا یعنی انبیاء کے سلسلے کو ختم کرنے والا قرار دیا گیا ۔

 مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اﷲِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ (۶)

محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں۔

اور تمام انبیاء کے اوپر گواہ بنایا گیا اور اس طرح فضیلت دی گئی ہے۔جیسا کہ قرآن میں ہے:

 فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئْنَابِکَ عَلٰی ھٰؤُلَائِ شَھِیْدًا (۷)

 پس (اس دن) کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے (ایک ان کا نبی) گواہ لائیں گے اور (اے رسولؐ) آپ کو ان تمام (انبیائ) پر بطور گواہ پیش کریں گے۔عرفاء کہتے ہیں کہ اللہ نے جب موسیٰ سے پوچھا کہ:

 وَمَا تِلْکَ بِیَمِینِکَ یَامُوسَی O تو جواب دیا موسیٰ علیہ السلام نے: قَالَ ہِیَ عَصَایَ أَتَوَکَّأُ عَلَیْہَا وَأَہُشُّ بِہَا عَلَی غَنَمِی (۸)

اور اے موسیٰ آپ کے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ موسیٰ نے کہا یہ میرا عصا ہے اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں۔

اگر یہی سوال خدا خاتم الانبیائ سے پوچھتے تو خاتم الانبیائ جواب یہ دیتے کہ اے خدا جو تم چاہتے ہو وہ ہے میرے ہاتھ میں۔

خدا سے قریب ہونے کے درجات مختلف ہیں جیسے:

وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّینَ عَلَی بَعْضٍ اور یہ فضیلت ایک نبی کو دوسرے نبی پر خدا کے قریب ہونے کے لحاظ سے ہے کوئی انسان خدا کے اتنا قریب نہیں ہوا جتنا ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے قریب ہوئے اوریہ قریب ہونا معنوی لحاظ سے ہے کیونکہ کمال (معرفت، ایمان اور صبرو عصمت) کے درجات مختلف ہیں اور قرآن اسی بات کی طرف اشارہ کررہا ہے:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی O فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی (۹)

 پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا۔

 لیکن قرآن بعض انبیاء کے بارے میں شکایت کرتا ہے پس خدا کے قریب ہونے میں معرفت اور ایمان کا اہم کردار ہے۔

 فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَتَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوتِ (۱۰)

 پس اپنے رب کے حکم تک صبر کریں یونس کی طرح نہ ہوں۔

 کتابِ خدا کی دو قسم ہیں:

۱)قرآن مجید جس کو کتاب تدوینی کا بھی نام دیا جاتا ہے۔

۲)یہ پورا جہاں خدا کی کتاب ہے اس کو کتاب تکوینی کا نام دیتے ہیں۔ آسمان زمین، انسان اس کی آیات ہیں۔ خدا نے قرآن میں اپنی رحمت کی ابتدا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کی اور خدا نے اس جہاں میں اپنی رحمت کی ابتداء نور محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کی۔

 وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ (۱۱)

 اور ہم نے فقط آپکو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔

 علامہ مجلسی  نے کتاب بحار الانوار میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے حوالہ سے ’’روایات طینت‘‘ میں سے ایک حدیث ذکر کی ہے، جو علامہ طباطبائی نے تفسیر میزان میں بھی ذکر کی ہے:

 قلتُ لرسول اللہ : اول شیء خلق اللہ ما ھو؟

 میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ خدا نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟

 فقال: نور نبیک یا جابر! خلقہ اللہ ثم خلق منہ کل خیر، ثم اقامہ بین یدیہ فی مقام القرب ماشاء اللہ

پیغمبر نے جواب دیا:

اے جابر! خدا نے سب سے پہلے تیرے  نبی کے نور کو پیدا کیا۔ پھر اسی نور سے ہر ’’خیر‘‘ ۔۔۔اچھائی اور اچھی چیز ۔۔۔کو پیدا کیا، پھر اس نے اس نور کو جب تک چاہا اپنے سامنے اور اپنے ’’قرب‘‘ میں رکھا۔(۱۲) 

عن جابر عن أبی جعفر قال کان اللہ وَلاَ شیْئَ غَیْرُہُ فَأَوَّلُ مَا اِبْتَدأَ مِن خلقٍ أَنْ خَلَقْنَا اَھْلَ البَیْتِ من نُوْرِ عَظَمَتِہِ

 جابر نے ابا جعفر سے روایت نقل کی ہے کہ امام نے کہا: اللہ تھا اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی، پھر پہلی چیز مخلوق میں سے محمد کو خلق کیا اور ہم اہل بیت کو خلق کیا اپنے عظیم نور سے۔(۱۳)

 

اللہ نے اس جہان کو بنایا دو صورتوں پر:

۱)جہان مادی:

جیسے: آسمان، زمین، سورج، انسان، حیوان

۲)جہان غیبی:

جیسے: عالم برزخ، عالم روح، جنت، جہنم، وحی وغیرہ

عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ  (۱۴)

خدا جو غیب اور شہادۃ کا عالم ہے جو عزت والا، حکمت والا ہے۔

عالم مادہ کوقرآن نے عالم شہادۃ ،عالم ملک اور عالم ظاہر جبکہ عالم غیب کو قرآن نے عالم ملکوت اور عالم باطن کا نام دیا ہے:

تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ (۱۵)

بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں عالم ملک ہیں اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔

یَعْلَمُونَ ظَاہِرًا مِنْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنْ الْآخِرَۃِ ہُمْ غَافِلُونَ (۱۶)

وہ سب دنیا کی ظاہری زندگی کو جانتے ہیں اور وہ سب آخرت سے خود غافل ہیں۔

اس آیت میں دنیا کی زندگی (عالم مادہ) کو ظاہر کا نام دیا گیا ہے اور آخرت جو ظاہر کے مقابلے میں ہے باطن کہلائے گا۔

فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْئٍ  (۱۷)

تو پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکوت ہے۔

جہان مادی کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ استطاعت رکھتے ہوں دیکھنے کی، سننے کی وغیرہ جیسے زمین کو ہم دیکھتے ہیں۔

جہان غیب کا معنی یہ ہے کہ آپ استطاعت نہ رکھتے ہوں اس کے دیکھنے کی جیسے برزخ، روح :

الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ (۱۸)

جو لوگ ایمان لاتے ہیں غیب پر اور نماز کو قائم کرتے ہیں۔

عجیب ہے کہ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنے پر مقدم ہوا ہے۔ اس جہان مادی میں بعض موجودات دوسرے بعض پر افضیلت اور تکامل رکھتے ہیں۔

جیسے انسان کامل تر ہے حیوان سے ، حیوان کامل تر ہے نباتات سے اور نباتات کامل تر ہیں، جمادات سے۔

آیا جہان غیب میں بھی بعض موجودات دوسرے بعض پر کامل تر ہیں؟

اس جہان مادی میں اگر کوئی انسان دوسرے انسان پر ظہور کرنے پر زمانے کے لحاظ سے مقدم ہو تو وہ افضل نہیں ہوگا جیسے حضرت آدم علیہ السلام زمانے کے لحاظ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مقدم ہیں۔ لیکن حضرت آدم علیہ السلام ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فضیلت نہیں رکھتے۔

جبکہ جہان غیب میں اگر کوئی پہلے خلق ہو تو وہ افضل ہوگا دوسروں سے۔

صرف خدا کے پاس دین مقبول اسلام ہے۔

إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اﷲِ الْإِسْلاَمُ (۱۹)

یقینا دین خدا کے نزدیک فقط اسلام ہے۔

اس جہان مادی میں اسلام لانا اور طریقے سے ہے اور جہان غیب میں اسلام لانا اور طریقے سے ہے۔

انسان اس جہان مادی میں آنے سے پہلے عالم ارواح میں تھا اور مرنے کے بعد اس کی روح عالم برزخ میں ہوگی، جہان غیب میں انسان کا اسلام لانا: أَلَسْتُ بِرَبّکُمْ (کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟) کے سوال کے جواب بَلیٰ(ہاں) کہہ کر ہے اور جن شخصیتوں نے بَلیٰسب سے پہلے کہا وہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں جہان غیب اصل ہے اور اس کی فرع جہان مادی ہے جیسے روح اصل ہے جسم فرع ہے قرآن کے لحاظ سے یہ عہدو پیمان (أَلَسْتُ بِرَبّکُمْ قَالُوْا بَلیٰ) سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لیا گیا اور اس عہد و پیمان کو میثاق غلیظ کے ساتھ نام دیا گیا۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِنْ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاہِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَأَخَذْنَا مِنْہُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا(۲۰)

اور یاد کرو جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی اور ان سے ہم نے پختہ عہد لیا۔

اس آیت میں سب نبیوں سے پہلے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عہد و پیمان لینے کی بات ہو رہی ہے پس یہ عہد و پیمان اس جہان مادی میں نہیں بلکہ عالم ارواح میں ہے اور قرآن باقی انبیاء علیہم السلام کے بارے میں وہی ترتیب لارہا ہے جو اس جہان مادی میں آنے کی تربیت تھی۔

سیوطی نے خصائص الکبریٰ کتاب میں اور ابن نعیم نے دلائل النبوۃ کتاب میں ایک حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کی ہے وہ یہ ہے: کُنْتُ أوَّلَ النَّاسِ فی الخلق و آخِرَہم فی البعث، میں لوگوں میں سے خلقت کے لحاظ سے پہلا اور ان میں سے مبعوث ہونے میں آخری ہوں۔

یعنی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ جہان غیب (عالم ارواح) میں سب سے پہلے مجھے خلق کیا گیا کیونکہ میں نے سب سے (بَلیٰ) جواب کہا: أَلَسْتُ بِرَبّکُمْ (کیا میں تمہارا رب نہیں) کے سوال میں۔ درحالیکہ جہان مادی میں ہر نبی اپنی امت کی نسبت پہلا مسلمان ہے قرآن نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہلا مسلمان ہونے کا خطاب دیا ہے اور نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ مسلمانوں میں سے ہے۔

قرآن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمارہا ہے:

لاَشَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (۲۱)

جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

قرآن حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں فرما رہا ہے:

إِنْ أَجْرِی إِلاَّ عَلَی اﷲِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ(۲۲)

میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

امام جعفر صادق نے فرمایا:

لمّا أرادَ اللّٰہ عزوّجلّ أنْ یخلُقَ الخلْقَ خلَقہُمْ و نَشَرھُمْ بین یدیہ ثمّ قالَ لہُم مَنْ ربُّکُمْ؟ فأوّل من نطَقَ رسولُ اللّٰہ (ص) و امیر المؤمنین (ع) والائمّۃ (ص) فقالوا أنْتَ ربُّنَا(۲۳)

جب خدائےعزوّجل نے مخلو ق کو خلق کرنا چاہا تو اس کو خلق کیا اور زندہ کیا اپنے سامنے پھر اس مخلوق سے سوال کیا تم سب کا رب کون ہے؟ پس جوسب سے پہلے بولے وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورامیر المؤمنین علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام ہیں تو انہوں نے جواب دیا: تم ہمارے رب ہو۔

پس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آل رسول علیہم السلام وہ پہلی مخلوق تھی جن کو بلاواسطہ خدا نے خلق کیا اور ان کے خلق کرنے کے بعد باقی تمام مخلوق کو ان کے واسطے سے خلق کیا گیا۔ پس محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آل محمد علیہم السلام واسطہ فیض ہیں ، مبدأ فیض (اللہ) اور تمام مخلوق کے درمیان۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

کُنْتُ نبیًّا و آدم بینَ المائِ والطین(۲۴)

میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدمؑ آب و گل کے درمیان تھے۔

امام حسینؑ فرماتے ہیں : کُنَّا اشباح نورحَوْلَ عَرْشِ الرحمٰنِ فَنُعَلِّمُ للملائکۃ التسبیحَ و التہلیلَ و التحمیدَ (۲۵) ہم وہ نور ہیں جو عرش الٰہی کے گرد گردش کرتا ہے اور ہم نے ہی فرشتوں کو تسبیح، تحلیل اور حمد (سبحان اللہ و لاالٰہ الا اللہ والحمد للہ) سکھائی ہے۔

یعنی ہم جہان غیب میں پہلے خلق ہوئے ہیں اور اس جہان مادی میں ہمارا ظہور آخر میں ہوا ہے۔ 

قرب الٰہی میں اولین اور آخرین انبیاء میں سے کوئی نبی اتنا خدا کے قریب نہیں پہنچا جتنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہنچے ہیں۔ یہاں تک خود خدا محمدؐ پر درود بھیجنے میں پہل کررہے ہیں۔ یہ عجیب مقام ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس مقام تک کوئی بھی نہیں پہنچا۔

إِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا (۲۶)

یقینا اللہ اور اس کے ملائکہ درود بھیجتے ہیں اپنے نبی پر اے ایمان والو،تم بھی اس پر درود و سلامتی بھیجو۔

کتاب احتجاج (طبرسی) میں ہے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنے آباء گرامی قدر علیہم السلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ایک یہودی نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معجزات کے بارے میں پوچھا کہ دیگر انبیاء اور آنحضرتؐ کے معجزات میں کیا فرق ہے؟ مثلاً آدمؑ اس قدر باعظمت تھے کہ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں سجدہ کریں۔ آیا محمدؐ کے لیے بھی خدا نے اس طرح کا کوئی کام کیا؟ حضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ درست ہے کہ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں اور یہ آدم علیہ السلام کی عظمت کا واضح ثبوت ہے لیکن فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا آدمؑ کی اطاعت و عبادت کے طور پر نہ تھا اور ایسا نہ تھا کہ فرشتوں نے خدا کے بجائے آدم علیہ السلام کی عبادت کی بلکہ خدا نے اس لیے انہیں حکم دیا کہ وہ آدمؑ کے لیے خدا کی طرف سے رحمت قرار پائے لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سے بڑھ کر فضیلت عطا کی گئی اور وہ یہ کہ خداوند عالم نے اپنی تمام تر عظمتوں اور جلالت و بزرگی کے ساتھ آنحضرتؐ پر درود بھیجا اور تمام فرشتوں نے بھی آنحضرت ؐ پر صلوات پڑھی اور مؤمنین نے آنحضرتؐ پر صلوات پڑھنے کی خدائی سنت کو اپنالیا تو یہ بات یقینا آنحضرتؐ کی برتری کی دلیل ہے۔

حــــواشــــی

۱)  بقرہ/۲۱۶

 ۲آل عمران/۱۶۴

 3   بقرہ/۲۵۳

 بنی اسرائیل/۵۵

 ۵)  احقاف/۳۵

 6 احزاب/۴۰

)7  نسائ/۴۱

 8طٰہٰ/۱۷۔۱۸

 9   نجم/۸۔۹

 10  قلم/۴۸

 11  انبیائ/۱۰۷

 12بحار الانوار/ج۔۵/باب۔۱۰/ ص۔۱۷۳

13حار الانوار/ج۔۳/باب۔۱۳/ ص۔۲۸۸

14تغابن/۱۸

 15ملک/۱

16 روم/۷

17 یٰس/۸۳

18   بقرہ/۳

 

 19آل عمران/۱۹

 20حزاب/۷

 21انعام/۱۶۳

 22  یونس/۷۲

 23  بحار الانوار جلد۱۵، ص ۴، باب ۱

 24   الرحیق المختوم/۹۳۔۹۴

 25 علل الشرایع/ج۔۱،ص۔۲۳

 26 احزاب/۵۶

 


source : /altanzil.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں

 
user comment