اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

عید الفطر اور عید قربان کی نمازکے احکام

(۱۴۹۷)امام عصر - کے زمانہٴ حضور میں عیدالفطر و عید قربان کی نمازیں واجب ہیں اور ان کا جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں جبکہ امام عصر - غیبت میں ہیں، یہ نمازیں مستحب ہیں اور باجماعت و فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہیں۔

(۱۴۹۸)نماز عید الفطر و قربان کا وقت عید کے دن طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے۔

(۱۴۹۹)عید قربان کی نماز سورج چڑھ آنے کے بعد پڑھنا مستحب ہے اور عید الفطر میں مستحب ہے کہ سورج چڑھ آنے کے بعد افطار کیا جائے، فطرہ دیا جائے اور بعد نمازِ عید ادا کی جائے۔

(۱۵۰۰)عید الفطر و قربان کی نماز دو رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں الحمد و سورہ کے بعد تین تکبیریں کہی جائیں اور بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے اور پھر دو سجدے بجا لائے اور اٹھ اکھڑ اور دوسری رکعت میں چار تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان قنوت پڑھے اور چوتھی تکبیریں کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام کہہ کر نماز کو تمام کر دے۔ 

(۱۵۰۱)عید الفطر وقربان کی نماز کے قنوت میں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ یہ دعا پڑھی جائے:

”اَللّٰھُمَّ اَھْلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَاَھْلَ الْجُوْدِ وَالْجَبَرْوْتِ وَاَھْلَ الْعَفْوِ وَالرَّحْمَةَ وَ اَھْلَ التًقْویٰ وَالْمَغْفِرَةِ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ ھٰذَا الْیَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَہ لَلْمُسْلَمِیْنَ عیِْدًا وَّلِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہذُخْرًا وَّشَرَفًا وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا اَنْ تُصَلِّیْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَنْ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍ اَدْخَلْتَ فِیْہِ مُحَمَّدًا وَاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ اَنْ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُلِّ سُوْءٍ اَخْرَجْتَ مِنْہُ مُحَمّدًا وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ صَلَواتُکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَ مَا سَئَلَکَ بِہ عِبَادَکَ الصَّالِحُوْنَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْہُ عِبَادُکَ الْمُخَلِصُوْنَ۔“

(۱۵۰۲)امام عصر - کے زمانہٴ غیبت میں اگر نماز عید الفطر و قربان جماعت سے پڑھی جائے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کے بعد دو خطبے پڑھے جائیں اور بہتر یہ ہے عید الفطر کے خطبے میں فطرے کے احکام بیان ہوں اور عید قربان کے خطبے میں قربانی کے احکام بیان کئے جائیں۔

(۱۵۰۳) عید کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں (الحمد کے بعد) سورہٴ شمس (۹۱ واں سورہ) پڑھا جائے اور دوسری رکعت میں (الحمد کے بعد ) سورہٴ غاشیہ (۸۸ واں سورہ) پڑھا جائے یا پہلی رکعت میں سورہٴ اعلیٰ (۸۷ واں سورہ) اور دوسری رکعت میں سورہٴ شمس پڑھا جائے۔

(۱۵۰۴)نماز عید صحرا میں پڑھنا مستحب ہے لیکن مکّہ مکرمہ میں مستحب ہے کہ مسجد الحرام میں پڑھی جائے۔

(۱۵۰۵)مستحب ہے کہ نماز عید کے لیے پیدل اور پا برہنہ اور باوقار طور پر جائیں اور نماز سے پہلے غسل کریں اور سفید عمامہ سر پر باندھیں۔

(۱۵۰۶)مستحب ہے کہ نماز عید میں زمین پر سجدہ کیا جائے اور تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کیا جائے اور جو شخص نماز عید پڑھ رہا ہو خواہ وہ امام جماعت ہو یا فرادیٰ نماز پڑھ رہا ہو، نماز بلند آواز سے پڑھے۔

(۱۵۰۷)مستحب ہے کہ عیدالفطر کی رات کو مغرب و عشاء کے بعد اور عیدالفطر کے دن نماز صبح کے بعد اور نماز عیدالفطر کے بعد یہ تکبیریں کہی جائیں:

”اللّٰہ اکبراللّٰہ اکبر ، لا اِلہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد، اللّٰہ اکبر علی ماھدانا“۔

(۱۵۰۸)عید قربان میں دس نمازوں کے بعد جن میں سے پہلی نماز عید کے دن نماز ظہر ہے اور آخری بارہویں تاریخ کی نماز صبح ہے ان تکبیرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلے میں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اللّٰہ اکبر علی مارزقنا بھیمة الانعام والحمد للّٰہ علی ما ابلانا“ پڑھنا بھی مستحب ہے لیکن اگر عید قربان کے موقع پر انسان منیٰ میں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبیریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن میں سے پہلی نماز عید کے دن نماز ظہر ہے اور آخری تیرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے۔

(۱۵۰۹) احتیاط مستحب یہ ہے کہ عورتیں نماز عید پڑھنے کے لئے نہ جائیں لیکن یہ احتیاط عمر رسیدہ عورتوں کے لیے نہیں ہے۔

(۱۵۱۰)نماز عید میں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کو چاہئے کہ الحمد اور سورہ کے علاوہ نماز کے اذکار خود پڑھے۔

(۱۵۱۱)اگر مقتدی اس وقت پہنچے جب امام نماز کی کچھ تکبیریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع میں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبیریں اور قنوت اس نے امام کے ساتھ نہیں پڑھیں انہیں پڑھے اور اگر ہر قنوت میں ایک دفعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ“کہہ دے تو کافی ہے اگر اتنا وقت نہ ہو تو صرف تکبیریں کہے اور اگر اتنا وقت بھی ہو تو کافی ہے کہ متابعت کرتے ہوئے رکوع میں چلا جائے۔

(۱۵۱۲)اگر کوئی شخص نماز عید میں اس وقت پہنچے جب امام رکوع میں ہو تو وہ نیّت کر کے اور نماز کی پہلی تکبیر کہہ کر رکوع میں جا سکتا ہے۔

(۱۵۱۳)اگر کوئی شخص نماز عید میں ایک سجدہ بھول جائے تو ضروری ہے کہ نماز کے بعد اسے بجا لائے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا فعل نماز عید میں سرزد ہو جس کے لئے یومیہ نماز میں سجدہٴ سہو لازم ہے تو نماز عید پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ دو سجدہٴ سہو بجا لائے۔

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment