اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

حجاب، اقدار کا جلوہ

پہلا باب: اسلامی ثقافت میں حجاب کا مقام

فطری انسانی نظام

حجاب انسان کی فطرت سے ہم آہنگ اقدار کا جز ہے۔ دونوں صنف مخالف کا حد سے زیادہ آمیزش کی سمت بڑھنا، بے پردگی اور ایک دوسرے کے سامنے عریانیت فطرت انسانی اور مزاج انسانی کے خلاف عمل ہے۔ اللہ تعالی نے مرد و زن کی زندگی کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے اور فوائد کی بنیاد پر ایک فطری نظام قائم کیا ہے تاکہ وہ دونوں مل کر دنیا کا نظم و نسق چلائیں۔ کچھ فرائض عورتوں اور کچھ مردوں کے دوش پر رکھ دئے ہیں اور ساتھ ہی مرد و زن کے لئے کچ حقوق کا تعین کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر عورت کے حجاب کے سلسلے میں مرد کے لباس سے زیادہ سخت گیری کی گئی ہے۔ یوں تو مرد کو بھی بعض اعضا کو چھپانے کا حکم دیا گيا ہے لیکن عورت کا حجاب زیادہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عورت کے مزاج، خصوصیات اور نزاکت کو قدرت کی خوبصورتی و ظرافت کا مظہر قرار دیا گيا ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ کشیدگی، آلودگی اور انحراف سے محفوظ رہے اور اس میں گمراہی نہ پھیلے تو اس صنف (نازک) کو حجاب میں رکھنا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے مرد پوری طرح عورت کی مانند نہیں ہے اور اسے تھوڑی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس کی وجہ دونوں کی فطری ساخت اور اللہ تعالی کی نظر میں نظام حیات چلانے کے تقاضے ہیں۔ اسلام میں جمالیات کی اہمیت

اسلام میں جمالیات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ خوبصورتی، جمال پسندی اور خوبصورتی پیدا کرنا ایک فطری چیز ہے۔ البتہ یہ چیز جدیدیت سے کچھ مختلف ہے۔ جدیدیت اس سے زیادہ عام چیز ہے جبکہ آرائش اور پوشاک کا مسئلہ ایک خاص چیز ہے اور انسان بالخصوص نوجوان کو خوبصورتی پسند ہوتی ہے، اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ خود بھی خوبصورت لگے۔ ہم اکثر و بیشتر سنتے ہیں : " ان اللہ جمیل و یحبّ الجمال" اللہ تعالی جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ احادیث کی کتابوں میں وضع قطح درست رکھنے کے تعلق سے بہت سی روایات منقول ہیں۔ نکاح سے متعلق احادیث میں تفصیلی بیان ہے کہ عورت اور مرد اپنی وضع قطح پر توجہ دیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مردوں کو ہمیشہ سر منڈوائے رہنا چاہئے۔ جی نہیں، شریعت نے نوجوانوں کے لئے بال رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ روایت میں ہے: " الشعر الحسن من کرامۃ اللہ فاکرموہ" خوبصورت بال الہی وقار کی چیز ہے لہذا اس کی عزت کیجئے۔ اسی طرح روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم جب اپنے احباب سے ملنے جاتے تو پانی کے برتن میں اپنا چہرا دیکھتے اور اپنے بالوں کو سنوارتے تھے۔ اس زمانے میں آج کی طرح ہر گھر میں آئینہ نہیں ہوتا تھا۔ مدینہ کا معاشرہ یوں بھی غریبوں کا معاشرہ تھا۔ پیغمبر اکرم کے گھر میں ایک برتن میں پانی رکھا رہتا تھا اور جب بھی آپ اپنے احباب و اصحاب سے ملنے جاتے تو اس برتن کو آئینے کے طور پر استعمال فرماتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وضع قطح درست رکھنا اور اچھا لباس زیب تن کرنا شریعت اسلامی میں مستحسن چیزیں ہیں۔ برائی تب پیدا ہوتی ہے جب یہ چیزیں فتنہ و فساد کا باعث بننے لگیں۔

حجاب، اقدار کا جلوہ

مرد و زن کے ما بین ایک حد بندی کا موضوع مسلمانوں کے نزدیک ایک بنیادی اصول ہے۔ یہ واقعی ایک بنیادی اصول ہے۔ مسلمانوں کا اس پر ایقان ہے۔ حالانکہ یہ فروع دین کا جز ہے۔ حجاب فروع دین کا حصہ ہے۔ ناجائز طریقے سے مرد و زن کی آمیزش کی حرمت فروع دین کا جز ہے لیکن مرد و زن کے مابین حدود کا مسئلہ بذات خود اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ یہاں سیاہ چادر کی بات نہیں ہے، یہ خود کو اوپر سے ڈھانپ لینے کی بات نہیں ہے، یہ مسئلہ نہیں ہے کہ حجاب کی شکل کیا ہو۔ کیونکہ ممکن ہے کہ مختلف ادوار میں، مختلف مقامات پر اور مختلف مناسبتوں کے لحاظ سے اس کی شکل بھی مختلف ہو۔ لیکن بذات خود یہ حد اور یہ حفاظتی دیوار اسلامی نظرئے سے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ حجاب کا مسئلہ اقدار سے تعلق رکھتا ہے۔ حجاب حالانکہ خود تو بلند تر چیزوں کے لئے مقدمے اور تمہید کا درجہ رکھتا ہے لیکن بجائے خود بھی یہ اقدار میں شامل ہے۔ ہم جو حجاب پر اتنی تاکید کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حجاب سے عورت کو یہ آسانی ہوتی ہے کہ اپنے مطلوبہ معنوی و روحانی مقام پر پہنچ جائے اور اس کے سر راہ موجود لغزش کے اسباب و علل سے اس کے قدم نہ ڈگمگائیں۔

مرد اور عورت کے روابط

مرد و زن کے درمیان ایک حد بندی ہے، وہ آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کریں، لین دین رکھیں، بحث و تکرار کریں، دوستانہ انداز میں گفتگو کریں لیکن اس حد بندی اور حفاظتی فاصلے کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ یہ چیز اسلام میں ہے اور اس کا پاس و لحاظ ضروری ہے۔ مرد و زن کے درمیان قائم سرحد سے تجاوز اور عورت کے انسانی وقار کو مجروح کرنا اور اسے لذت کے سامان یا زرق برق مصنوعات کے استعمال کی مشین بنا دینا ممنوع ہے۔

اسلام عورت کو ایسا با شرف اور با وقار دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ قطعا اس بات پر توجہ نہ دے کہ کوئی مرد اسے دیکھے۔ یعنی عورت ایسی با وقار رہے کہ اس پر اس کا کوئی فرق نہ پڑے کہ کوئی مرد اسے دیکھ رہا ہے یا نہیں۔ یہ کہاں اور وہ کہاں کہ عورت کا اپنے لباس، اپنے میک اپ، اپنے طرز گفتگو اور چلنے کے انداز کے سلسلے میں سارا ہم و غم یہ ہو کہ مرد اسے دیکھیں؟! ان دونوں کے مابین کتنا فرق ہے؟!

خود نمائی ممنوع

اسلام میں تبرج ممنوع ہے۔ تبرج یعنی فتنہ انگیزی کی غرض سے مردوں کے سامنے عورتوں کی خود نمائی۔ یہ ایک طرح کا فتنہ ہے اور اس سے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے یہی ایک مسئلہ پیدا نہیں ہوتا کہ ایک نوجوان لڑکی یا نوجوان لڑکے سے گناہ سرزد ہو رہا ہے، یہ تو بالکل ابتدائی چیز ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب سے معمولی چیز ہے، اس کا سلسلہ خاندانوں تک پہنچتا ہے۔ بے روک ٹوک اور بے لگام روابط خاندانوں کے لئے سم مہلک کا درجہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ خاندانوں کا دار و مدار عشق و محبت پر ہوتا ہے۔ خاندان کی عمارت عشق و الفت پر ٹکی ہوتی ہے۔ اگر یہ (جذبہ) عشق، خوبصورتی کا عشق اور صنف مخالف کا عشق، کسی اور جگہ تسکین پانے لگے تو کنبے کی محکم بنیاد ختم ہو جائے گی اور خاندان متزلزل ہو جائیں گے اور ان کی وہی درگت ہوگی جو آج بد قسمتی سے مغربی دنیا بالخصوص شمالی یورپ کے ممالک اور امریکا میں ہوئی ہے۔ خاندان بکھر کر رہ جائیں گے، یہ بہت بڑی بلا ہے۔ اس بلا کا نقصان سب سے پہلے خواتین کو ہی پہنچتا ہے۔ یوں تو مردوں کو بھی بے شمار مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن عورتوں کو زیادہ خسارہ ہوتا ہے اور پھر اس نسل کو جو دنیا میں آ رہی ہے۔ دنیا اور امریکا کی اس گمراہ نسل کو آپ دیکھ رہے ہیں؟ اس کا سرچشمہ وہی ہے۔ یعنی یہ چیز اس شر کا مقدمہ اور کنجی ہے جس سے پے در پے شر وجود میں آتا ہے!

حجاب اور عورت کی سماجی ترقی

اسلام چاہتا ہے کہ عورتوں کا فکری، علمی، سماجی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر روحانی ارتقاء اپنی بلند ترین منزل تک پہنچے اور ان کا وجود معاشرے اور انسانی کنبے کے لئے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر ثمرات اور فوائد کا سرچشمہ قرار پائے۔ اسلام کی تمام تعلیمات منجملہ حجاب کی بنیاد اسی چیز پر رکھی گئی ہے۔ حجاب، عورت کو معاشرے سے الگ کر دینے کے معنی میں نہیں ہے۔ اگر پردے کے سلسلے میں کسی کا تصور یہ ہے تو بالکل غلط ہے تصور ہے۔ حجاب، معاشرے میں مرد اور عورت کی بے ضابطہ آمیزش کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ یہ آمیزش معاشرے اور مرد و زن دونوں کے بالخصوص عورت کے نقصان میں ہے۔

دوسرا باب: مغربی تہذیب میں حجاب

اسلام اور مغربی تہذیب میں حجاب کا چیلنج

میں نے بارہا کہا ہے کہ یہ ہماری مجبوری نہیں ہے کہ ہم اپنے موقف کا دفاع کریں۔ دفاع تو مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت کو کرنا چاہئے۔ عورتوں کے سامنے جو بات ہم پیش کرتے ہیں اس کا کوئی بھی با شعور اور منصف مزاج انسان منکر نہیں ہو سکتا۔ ہم عورت کو عفت، پاکیزگی، حجاب، مرد و زن کی حد سے زیادہ آمیزش سے اجتناب، انسانی وقار کی حفاظت، غیر مردوں کے سامنے سجنے سنورنے سے اجتناب کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا یہ بری چیز ہے؟ یہ تو مسلمان عورت کے وقار کی ضمانت ہے، یہ عورت کے عز و شرف کی بات ہے۔ جو لوگ عورت کو اس انداز کے میک اپ کی ترغیب دلاتے ہیں کہ گلی کوچے کے لوگ اسے ہوسناک نظروں سے دیکھیں، انہیں اپنے اس نظرئے کا دفاع کرنا چاہئے کہ انہوں نے عورت کو اتنا کیوں گرا دیا ہے اور اس کی اس انداز سے تذلیل کیوں کر رہے ہیں؟! ان کو اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہماری ثقافت تو ایسی ثقافت ہے جسے مغرب میں بھی با شعور افراد اور اچھے انسان پسند کرتے ہیں اور اسی انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہاں بھی با عفت و متانت خواتین اور وہ عورتیں جو اپنی شخصیت کو اہمیت دیتی ہیں کبھی بھی غیروں کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کا ذریعہ بننا پسند نہیں کرتیں۔ مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت میں ایسی مثالیں بہت ہیں۔

یورپ میں حجاب کی قدر و قیمت کی نفی

مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں جواب دے جس نے گزشتہ ادوار سے موجودہ دور تک عورتوں کی اتنی توہین کی اور انہیں اتنا گرا دیا! آپ دیکھئے کہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتوں کو مالیاتی اختیارات حاصل نہیں تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجدو اور عجیب و غریب انداز کی بے پردگی کے باوجود جو مغرب میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس بے لگام جنسی اختلاط اور آمیزش کے باوجود جسے وہ عورت کے احترام اور قدر و قیمت کی علامت قرار دیتے ہیں، ان ساری چیزوں کے باوجود عورت کو یہ حق نہیں تھا کہ اس ثروت کو بھی جو اس کی اپنی ہوتی تھی، اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے! شوہر کے سامنے وہ اپنے مال و متاع کی بھی مالک نہیں ہوتی تھی۔ یعنی جو عورت شادی کرتی تھی اس کی ساری دولت اس کے شوہر کی ہو جاتی تھی۔ اسے یہ حق نہیں ہوتا تھا کہ خود اسے استعمال کرے۔ پھر رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل میں عورت کو مالکانہ حقوق ملے اور کام کی آزادی دی گئی۔ یعنی اس چیز سے بھی عورت کو محروم رکھا تھا جو بنیادی ترین انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہے۔ ان کا سارا زور اقدار کا درجہ رکھنے والے امور کے منافی چیزوں پر تھا۔ حجاب کے سلسلے میں ہم جو اتنی تاکید کرتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔

عریانیت اور الکحل ازم، یورپی روایت

اس وقت دنیا میں کچھ مخصوص چیزوں کے سلسلے میں بڑی حساسیت دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کسی شخصیت، کسی فلسفی، کسی سیاستداں نے عورت کی عریانیت کی مخالفت کر دی تو اس پر دنیا میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے! بہت سی بری عادتوں اور حرکتوں کے سلسلے میں یہ حساسیت نہیں ہے! اگر کوئی ملک پالیسی کے تحت شراب کی مخالفت کرنے لگے تو ایک شور شرابا مچ جاتا ہے اور تمسخرانہ مسکراہٹیں نظر آنے لگتی ہیں، اسے رجعت پسند کہا جانے لگتا ہے! یہ بھی کوئی ثقافت ہوئی؟ ثقافت کے جز کے طور پر عورت کی عریانیت اور نشے کو عمومی رواج کے طور پر متعارف کرانا کس کا کام ہے؟ اس کا تعلق یورپ سے ہے اور یہ چیز ان ممالک کی قدیمی تہذیب سے نکلی ہے۔ یہی چیزیں اب دنیا کے دیگر علاقوں میں مسلمہ رواج کا درجہ حاصل کر چکی ہیں اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو گویا اس سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ہو۔

مغرب کی متضاد باتیں

یورپی ممالک میں جو خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور اپنے پروپیگنڈوں میں ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی حقوق اور انسانوں کی آزادی کا موضوع ان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے یعنی انہی برطانیہ اور فرانس نے چند عورتوں یا لڑکیوں کو اتنی بھی اجازت نہیں دی کہ وہ اسلامی حجاب کے ساتھ آمد و رفت کر سکیں اور اسکولوں میں جائیں! اس مرحلے میں تو اکراہ و اجبار سب کچھ ان کے لئے جائز ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں رہ جاتا! لیکن اسلامی جمہوریہ پر اس وجہ سے کہ وہ معاشرے میں حجاب کو لازمی سمجھتا ہے ان حلقوں نے شدید اعتراض کیا ہے! اگر عورتوں کو کسی وضع قطع یا کسی لباس میں رہنے پر مجبور کرنا برا ہے تو یہ برائی حجاب کو ضروری قرار دئے جانے کی برائی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ (حجاب) سلامتی و تحفظ سے زیادہ نزدیک ہے۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ دونوں کی باتوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے لیکن مغرب کا نظریہ یہ نہیں ہے۔

مغربی ثقافت میں عورت کی تذلیل و تحقیر

عورتوں کے مسئلے میں ہمارا موقف دفاعی نہیں، جارحانہ ہے۔ مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہیں، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گيا ہے۔ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ عورتوں کے قضیئے میں ان کی مشکل اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گيا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ یہ جو سفارت کاری کے امور میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں اس سے اس کاری ضرب کی تلافی نہیں ہو سکتی جو مغرب نے عورت پر لگائی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں ہے۔ اسے چاہئے کہ سجے سنورے تاکہ مردوں کو اچھی لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔

حجاب، اسلامی ثقافت کی کنجی

کسی ملک پر دائمی قبضے اور تسلط کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی ثقافت بدل دی جائے۔ یعنی اس ملک کو قابض ملک کی ثقافت میں ڈھال دیا جائے تاکہ وہ پوری طرح ہتھیار ڈال دے۔ مغرب والوں نے ماضی میں مشرقی خطوں میں یہ کام کیا لیکن انہیں بہت کامیابی نہیں ملی۔ اس وقت وہ افغانستان میں یہی کام کرنا چاہتے ہیں اور یقینا ان کا ایک ہدف یہ ہے کہ شخصیت اور تشخص ساز بنیادوں کو ختم کر دیں۔ بات اسلام سے شروع کرتے ہیں۔ حجاب کی مخالفت کرتے ہیں، لوگوں کی دینداری اور مذہبی علامتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان اقدار کی حفاظت کرنا چاہئے انہیں تقویت پہنچانا چاہئے۔

مغرب اسلامی جمہوریہ کو، جہاں عورتوں کی پوشاک کی ایک لازمی شکل معین ہے، تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن ان ملکوں کے سلسلے میں اس کی تیوریوں پر کبھی بل نہیں پڑتے جنہوں نے عریانیت اور عورت اور مرد کے ما بین بے پردگی کو جبرا لازمی قرار دے دیا ہے! اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ (حجاب) مغرب کی عام ثقافت کے برخلاف ہے۔ یہ (مغرب والے) اس سلسلے میں بہت حساس ہیں۔

یورپ میں حجاب پر پابندی

ان حالیہ چند برسوں میں یورپ میں، فرانس، جرمنی اور کچھ دیگر ممالک میں حجاب کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے۔ کچھ لڑکیاں اسکارف کے ساتھ اسکول جا رہی تھیں، انہیں صاف منع کر دیا گيا کہ "بالکل ہو ہی نہیں سکتا" اس کی مخالفت کی گئی! دوسری طرف آپ یہ دیکھیں گے کہ عالمی معیاروں کی بات کی جا رہی ہے۔ جب وہ اسلامی جمہوریہ کو کچھ فرائض کی انجام دہی کی تلقین کرنا چاہتے ہیں تو جس چیز پر ان کی سب سے زیادہ تاکید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ " ایران کو خود کو عالمی معیارات سے ہم آہنگ کر لینا چاہئے" معیارات سے مراد یہی چیزیں ہیں! یعنی وہ چیزیں جو مغربی ثقافت سے میل کھاتی ہوں۔ تو مغرب کی جانب سے یہ سخت گیر رویہ اور یہ دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، جب بھی کوئی ثقافت بالخصوص یہ اسلامی ثقافت، جو اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتی ہے اور کمزور اور دفاعی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، آگے آنا چاہتی ہے تو اسے تذلیل، توہین اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تیسرا باب: ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں حجاب

حجاب کا اثر و نفوذ

آپ دیکھ رہے ہیں کہ عورتیں مختلف ممالک میں، خواہ وہ ایسے اسلامی ممالک ہوں جہاں حجاب کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور جو مغربی ثقافت میں غرق ہیں یا خود یورپی ممالک، حجاب میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ البتہ یہ میلان پہلے مسلمانوں کے یہاں نظر آیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم نے دیکھا کہ دور دراز کے ممالک نے بھی جو مغربی و یورپی تہذیب کے دلدادہ یا زیر اثر تھے، ایرانی خواتین کے حجاب کو اختیار کیا اور اس میں دلچسپی دکھائی۔ آج بھی مغربی دنیا اسلامی حجاب کی سمت بڑھ رہی ہے۔ میں نے شمالی افریقا کے مسلمان نشین علاقے کے ایک ملک میں دیکھا کہ عورتیں اور لڑکیاں ایرانی عورتوں کے حجاب کی طر‌ز پر حجاب استعمال کر رہی ہیں۔ آج مغربی دنیا بھی رفتہ رفتہ اسلامی حجاب کی جانب راغب ہو رہی ہے۔

عالم اسلام کے مشرقی علاقے میں، جہاں تک اطلاعات حاصل ہو رہی ہیں، حقیقی و خالص و انقلابی اسلام کی عملی تصویر، ملت ایران کی اس عظیم تحریک کے اثرات لوگوں کے دلوں پر پڑے ہیں۔

یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض مغربی ممالک میں، غیر اسلامی حکومتوں والے مسلم ممالک میں حجاب دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، یہ عورتوں میں حجاب کی گہری رغبت کی علامت ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں جہاں پردے پر توجہ نہیں دی جاتی تھی، اسلامی ممالک میں جہاں میں نے خود نزدیک سے مشاہدہ کیا کہ پردے اور حجاب کا نام لینا گوارا نہیں کیا جاتا تھا انقلاب کے بعد عورتیں بالخصوص روشن خیال خواتین اور خصوصا طالبات میں حجاب کی شدید رغبت نظر آنے لگی۔ انہوں نے حجاب کو اپنایا اور اس کی حفاظت کی۔

مغربی ثقافت کی جبری ترویج

جس نے مغربی تہذیب یعنی در حقیقت ایران پر مغرب کے تسلط کے حق میں اور برطانیہ کے سامراجی قبضے کے مفاد میں اس زمانے میں سب سے بڑا قدم اٹھایا وہ (سابق شاہ ایران) رضا خان تھا۔ موجودہ حالات میں یہ اقدامات کتنے شرمناک سمجھے جاتے ہیں کہ کوئی بادشاہ یکبارگی ملک کے قومی لباس کو بدل دے! ہندوستان اور دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں قوموں کے پاس اپنی پوشاک اور اپنا لباس ہے اور وہ اس پر فخر بھی کرتی ہیں، کسی طرح کی خفت محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن ان (ایران کے شاہی دربار سے متعلق) لوگوں نے یکبارگی اعلان کر دیا کہ یہ (قومی) لباس ممنوع ہے! کیوں؟ کیونکہ اس لباس کے ساتھ صاحب علم نہیں ہوا جا سکتا! واہ بھئی واہ! ایران کے عظیم ترین سائنسداں جن کی کتابیں اب بھی یورپ میں پڑھائی جاتی ہیں اسی ثقافت اور اسی ماحول میں پلے بڑھے۔ اس لباس کا (ان پر) کیا (منفی) اثر پڑا؟ یہ کیا بات ہوئی؟! اس طرح کی مسخرے پن کی باتیں کی گئيں۔ ایک قوم کا لباس ہی بدل دیا گيا۔ عورتوں کی چادر کو ممنوع کر دیا گيا۔

اعلان کر دیا گيا " چادر میں رہ کر عورت دانشور اور سائنسداں نہیں بن سکتی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی" میں سوال کرتا ہوں کہ ایران میں چادر پر پابندی لگا دینے کے بعد عورتوں نے سماجی سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیا؟ کیا رضا خان کے دور حکومت میں یا رضا خان کے بیٹے کے دور میں عورتوں کو سماجی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دی گئی؟! نہ مردوں کو اس کی اجازت دی جاتی تھی اور نہ عورتوں کو اس کا موقع ملتا تھا۔ جس وقت ایرانی خواتین سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اتریں اور انہوں نے ملک کو اپنے مقتدر ہاتھوں پر بلند کیا اور ملک کے مردوں کو بھی جد و جہد کے میدان میں کھینچا اس وقت وہ چادر پہنے ہوئے میدان میں آئی تھیں۔ چادر کے کیا منفی اثرات ہیں؟! کسی مرد یا کسی عورت کی سرگرمیوں میں لباس کب رکاوٹ بنتا ہے؟! یہ نادان، ان پڑھ غنڈہ رضاخان دشمن کے ہاتھوں میں پڑ گیا اور اس نے اچانک ہی ملک کا لباس بدل دیا۔ اس لئے کہ مغربی عورتوں کے ہاں سر برہنہ باہر نکلنے کا رواج تھا! مغرب سے یہ چیزیں لائی گئی تھیں۔ قوم کو جن چیزوں کی اشد ضرورت تھی وہ نہیں لائی گئیں۔ علم و دانش لانے کی کوشش نہیں کی گئی، تجربات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، سعی و کوشش اور محنت کی عادت کی پیروی نہیں کی گئی، مہم جوئی (کے جذبے) کو لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہر قوم میں کچھ اچھی صفات و خصائص ہوتے ہیں، ان صفات کو اپنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جو چیزیں لائی گئیں انہیں آنکھ بند کرکے قبول کر لیا گيا۔ جو افکار و نظریات لائے گئے وہ بغیر غور و فکر کے من و عن قبول کر لئے گئے۔ کہا گیا کہ چونکہ یہ مغربی (افکار و نظریات) ہیں اس لئے انہیں قبول کر لینا بہتر ہے۔ لباس، غذا، انداز گفتگو اور چلنے کی روش چونکہ مغربی ہے اس لئے اسے اپنا لینا چاہئے! اس میں کسی پس و پیش کی گنجائش نہیں ہے! کسی بھی ملک کے لئے یہ صورت حال مہلک زہر کی مانند ہوتی ہے۔ یہ قطعا درست نہیں ہے۔

مسلمان عورت پر مظالم

بے ضمیر اور پست سلطنتی نظام میں عورت حقیقت میں ہر لحاظ سے مظلوم تھی۔ اگر وہ علمی میدان میں وارد ہونا چاہتی تو اسے دین و تقوا و عفت و پاکیزگی سے کنارہ کشی کرنی پڑتی تھی۔ یہ کہاں ممکن تھا کہ مسلمان خاتون یونیورسٹی، تعلیمی مراکز، علمی و ثقافتی اداروں میں آسانی سے اپنے حجاب، متانت اور وقار کو برقرار رکھتی؟ یہ کہاں ممکن تھا کہ تہران اور بعض دیگر شہروں کی سڑکوں پر مسلمان خاتون اسلامی متانت و وقار کے ساتھ یا حتی آدھے ادھورے حجاب کے ساتھ آسانی سے گزر جائے اور اسے مغربی فحاشی و فساد کے دلدادہ افراد کے رکیک جملوں کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ نوبت یہ آ گئی تھی کہ اس ملک میں عورتوں کے لئے حصول علم تقریبا نا ممکن ہو گیا تھا۔ البتہ اس میں کچھ استثنا بھی ہے لیکن اکثر و بیشتر عورتوں کے لئے علمی میدان میں وارد ہونا ممکن نہیں ہو پاتا تھا۔ اس کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ حجاب ترک کر دیں اور تقوی و اسلامی وقار سے خود کو الگ کر لیں۔

ایران میں حجاب اور عورتوں کی سماجی ترقی

اسلام، انقلاب اور امام (خمینی رہ) نے اس ملک میں آکر عورت کو سیاسی سرگرمیوں کے محور و مرکز میں پہنچا دیا اور انقلاب کا پرچم خواتین کے سپرد کر دیا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ عورتوں نے اپنے حجاب و وقار و اسلامی متانت، دین و تقوا اور عفت و پاکدامنی سے بھی خود کو آراستہ رکھا۔ آج مسلمان ایرانی عورت کی گردن پر کوئی حق باقی نہیں رہ گيا ہے جو ادا نہ ہوا ہے۔

آپ غور کیجئے! جب ایک مسلمان عورت اپنی فطرت اور حقیقت کی سمت لوٹتی ہے تو کیسے کیسے شاہکار تخلیق کرتی ہے! بحمد اللہ ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام میں اس کا مشاہدہ کیا گيا اور آج بھی یہ چیز ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے کب عورتوں کی یہ قدرت و عظمت دیکھی تھی جو آج مادران شہدا کے ہاں دیکھ رہے ہیں؟! ہم نے نوجوان لڑکیوں کا یہ ایثار کہاں دیکھا تھا کہ وہ اپنے عزیز شوہروں کو محاذ جنگ پر بھیجیں اور یہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ ان میدانوں میں سرگرم عمل رہیں؟ یہ عظمت اسلام ہے جو انقلاب کے ایام میں اور آج بھی ہماری انقلابی خواتین کے چہروں سے ہویدا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ نہیں کیا جانا چاہئے کہ حجاب اور عفت کی حفاظت کے ساتھ، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کے ساتھ انسان علمی میدانوں میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ آج ہم اپنے سماج میں بحمد اللہ کتنی خاتون سائنسدانوں اور مختلف میدانوں کی ماہر عورتوں کو دیکھ رہے ہیں! محنتی، با صلاحیت اور با ارزش طالبات سے لیکر فارغ التحصیل خواتین اور ممتاز و صف اول کی ڈاکٹروں تک! اس وقت اسلامی جمہوریہ میں مختلف علمی شعبے خواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان عورتوں کے ہاتھوں میں جنہوں نے اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کی ہے، حجاب کی بھی مکمل پابندی کی ہے، اسلامی روش کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش بھی کی ہے، جو اسلام کا حکم ہے اسی انداز سے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض بھی انجام دئے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ علمی اور سیاسی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں۔ اسلامی ماحول میں، اسلامی مزاج کے ساتھ خاتون حقیقی کمال تک پہنچ سکتی ہے۔ آرائشی سامان اور استعمال کی چیز بنے بغیر۔

ایران کی مسلمان خواتین کا پیغام

ایرانی خواتین بالخصوص وہ عورتیں جو مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں، اسلام اور اسلامی احکامات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر حجاب کی پابندی کے ساتھ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہیں، وہ اپنے عمل سے دنیا کی عورتوں، لڑکیوں اور طالبات کو یہ دکھائیں کہ نہ تو تعلیم کے معنی بے راہروی کے ہیں اور نہ ہی تحصیل علم کا لازمہ مرد اور عورت کے ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے متعلق اخلاقی اصول و ضوابط سے بے اعتنائی ہے۔ ان ضوابط اور اقدار کی مکمل پابندی کرتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا بھی جا سکتا ہے اور ساتھ ہی مسلمان خاتون کے وجود کو اسلام کے عالمی پیغام کے ایک نمونے کے طور پر پیش بھی کیا جا سکتا ہے۔

 

 

 


source : http://rizvia.net/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment