اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

اتحاد بین المسلمین عصر حاضر کی اهم ضرورت

 

آج امت مسلمه جس نازک دور سے گذرر ہے ہیں شاید14سوصدیوں میں کوئی ایساوقت نهیں آیا. آج پورا عالم کفرتمام تر دوریوں، مختلف اغراض و مقاصد کے باوجود، مسلمانوں کےخلاف متحد نظر آتا ہے لیکن مسلمان هر دن ایک دوسرے سے دورهوتاجارهاهے پهلے تودشمن کانعره یه تارکه «مسلمانوں میں اختلاف ڈال دواورحکومت کرو» جب انهوں نے یه محسوس کیاکه وه اس هدف میں کامیاب هوچکے هیں تواب وه صرف مسلمانوں پرحکومت کرنے په هی راضی نه رهے بلکه اب توان کانعره یه هے «مسلمانوں میں اختلاف ڈال دواورنابود کرو» اسی ناپاک مقصدکی تکمیل کی خاطرپورے مسلمان خطے میں دشمن مختلف محاذکوحل چکےهیں لیکن مسلمانوں کی یه بدنصیبی هے که وه مل کراسلام دشمن طاقتوں کا مقابله کرنے کے بجائے خود هی دشمن کے جال میں پنسچ رهےهیں اورآپس کے فروعی اختلافات میں گرفتار نظر آتا هے اب یه دور ایک دوسر کے مقدسات کااحترام کرتے ملک وقوم کی وسیع ترمفادات کی خاطر متحد هونے کا هے.

قرآن وسنت کے رو سے جیسااتحاد و وحدت قائم کرناواجب ہے،ویساهی اختلاف وتفرقه سے بچناضروری امر ہے.ائمه اطهار(علیهم السلام)اورمعتبراسلامی شخصیات کی زندگی بھی،امت مسلمه کو اختلافات سے بچاکر،اتحادووحدت برقرارکرنے میں بسرهوئی .

قرآن کریم همیشه مسلمانوں کووحدت کی طرف بلاتانظرآتا ہے.قرآن کی نگاه میں وحدت کے بغیر،معاشرتی ترقی کاکوئی تصور نهیں ملتا.انسانی تکامل اورترقی کادارومداراسی پر ہے.اتحادوهم آهنگی هی کے سایے میں بشردین ودنیاکی سعادتیں حاصل کرسکتا ہے.قرآن پورے انسانوں میں،مومنین سے مخاطب هوکرا سے دستوردے رهاہے که معاشره میں اتحادقائم کریں ( آل عمران: 10۲ـ103)

اس آیه مبارکه میں قابل توجه نکته یه ہے که الله تعالی نے،بیک وقت چارچیزو ں کا حکم دیا ہے.تقوی الهی اختیارکرنا،حالت مسلمانی اورتسلیم میں زندگی گذارنا،حبل الله سے تمسک اورتفرقه سےبچنا. ایک معاشرے میں زندگی بسرکر نے کےلئے ،یه چارسنهرےاصول هیں.سیاق درونی اوربیرونی آیه سے پته چلتاہے اتحادواجب اورتفرقه حرام ہیں.امت مسلمه کےهرفردپرواجب ہےکه وه متحدرهنے کےساتھ ساتھ همه گیراتحاد کےلئے عملی قدم اٹھائے.جس طرح«اعْتَصِمُوا»فعل امرہے اوروجوب پردلالت کرتاہے اسی طرح«لا تَفَرَّقُوا»فعل نهی ہےجوحرمت پردلالت کرتاہےیعنی جس طرح وحدت ایجادکرناواجب ہےاسی طرح تفرقه کرناحرام ہے.

قرآن کریم مسلمانوں کودوسری طرف سے ایک اهم ترین عنوان دیتانظرآ رهاہے اوروه عنوان،« امت » کاعنوان ہے.(آل عمران:110). اس آیت میں ،مسلم امه کوبهترین امت کهاگیاہے که اس امت کی خلقت کامقصدهی رهبری اورهدایت ہے. اس امت کی تخلیقی هدف اورغایت هی انسانیت کی هدایت ہے.ظاهری بات ہےجوخودهدایت یافته نه هو،وه کسی دوسرے کی هدایت کیسے کرے؟سب سے پهلے یه خودامت بنے،امت بدون وحدت کیسے بن سکتی ہے ؟ اس وقت مسلمان کثیرتعداد میں هونے کے باوجودتمام بین الاقوامی پلٹ فارم په منفعل نظرآتا ہے ،جس کی بنیادی وجه یهی ہے که هم امت نهیں بنے.هم نےقرآنی دستورات په عمل نه کیا.قران نے جن چیزو ں کاحکم دیا تار ،مسلمانوں نے انهیں فراموش کیئے .قرآن چوده سوسال سے جس خطرکی طرف مسلمانوں کی توجه دلارها ہے، وه خطر،اختلاف (انفال:46) اگراختلاف کروگے توتمهاری شان وشوکت خاک میں مل جایے گی ،تمهاری عزت ختم هوگی،ذلت ورسوائی تمهاری مقدربن جائے گی.قران معاشرے میں، اسلامی بھائی چارے کی فضادیکناهچاهتاہےلهذاایک قانون اخوت قائم کرتاہے،اوراعلان کرتاہے مومن آپس میں بھائی بھائی ہے (حجرات:10) .

میرےخیال میں، مسلمانوں کےلئے یه ایک عمومی میثاق کی حثیت رکھتاہے که اگراس میثاق په عمل هوجائے تومسلم امه بدلنے میں دیرنه لگےگی.مسلمان ،صدراسلام کی وهی عزت واقتدارحاصل کرسکتا ہے. قران معاشره میں انسانی ،اسلامی فضاقائم کرنے کی غرض سے ایک اوراصل وقانون کانه تنهااعلان کرتا ہے،بلکه عملی طورپراس کانفاذ بھی چاهتا ہے.اور وه اصل، « قانون تعاون» ہے،تقوی اورنیکی کی بنیادپر. (مائده:2).

یه قانون معاشره میں،عدل وانصاف اورباهمی تعاون کوتقوی اورنیکی کی بناپر،پورےمعاشرے میں فروغ دیناچاهتا ہے ،جس کی وجه سےمعاشره،رشدوکمال کی طرف گمزن هوگا.معاشره میں انسانی اورالهی اقداربلندهوگا.قرآن معاشره کوفساد،فتنه،اوردوسرے اخلاقی اوراجتماعی برائیوں سے بچانے کی خاطرایک اوراصل وقانون کااعلان کرتا ہےاوروه اصل،« قانون عدم تعاون » ہے، گناه وسرکشی کی بنیادپر. «وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوان »(مائده:2).جب پورامعاشره،گناه اورتجاوزکی حوصله شکنی کرے گاتویقیناوه معاشره،ترقی کرےگااوریه قرآن کی نظر میں،ایک مطلوب معاشره هوگا.البته ایسے معاشرےمیں،رهبرکاکرداربهت اهم هوگا.کیونکه ایک حقیقی الهی رهبرهی لوگوں کےدرمیان اتحاد ووحدت کی کوشش کریں گے.

معاشرےمیں ،وحدت قائم کرنےسےمتعلق ،انبیاءکرام (علیهم السلام)،خاص کرهمارے نبی حضرت محمدمصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم)کاکرداربےمثال ہے.مخصوصامدنی زندگی میں هر طرف اتحادو بھائی چارے کی فضانظرآنےلگی،جس کےنتیجے میں مختلف جھنگوں میں فتوحات کےعلاوه ،اسلام دوسرے علاقوں میں پهنچ گیا. اسلام معاشرتی اور اجتماعی مسائل کوبهت زیاده ترجیح دیتا ہے اسلام مسلمانوں کوگوشه نشینی اوررهبانیت کی اجازت نهیں دیتا . اسلام کانظام اجتماع ایک دوسرے سے مربوط رهنےکی تلقین کرتانظرآتا هے. ایک دوسرے کاخیال رکنان،دکھ دردبانٹنایهی نظام اجتماعی کابنیادی فلسفه هے که جس کاخیال کئےبغیر،شخص مسلمان بیا، نهیں بنتا.جس نظام حیات اورآئین الهی کو،اجتماعی روابط کااتناخیال هو،وه بھلااختلاف وتفرقه اورآپس کی نفرتو ں کی اجازت کیسے دے سکتا هے؟.

اسلام معاشرے میں اتحاداورامن چاهتا ہے یهی وجه ہے که بهت ساری اسلامی روایتیں اتحادکےموضوع سےمتعلق هیں.ایک حدیث میں مرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)فرماتے هیں:«يدالله مع الجماعة ».خداکےهاتھ همیشه جماعت کےساتھ هیں.یعنی خداکی نصرت همیشه اهل جماعت کےشامل ہے.اصلی هدف تک پهنچنے کےلئے جمع هونا،خیر ہے اورتفرقه ، عذاب اورغضب الهی کا موجب اسلام اتحادکومعاشره کاایک نهایت هی اهم رکن سمجتا ہے

روایت کے مطابق دومسلمانوں کے درمیان تین دن سےزیادقطع تعلق جائزنهیں ہے.ایک اورحدیث مں جوشخص مسلمانوں کےامورکواهمیت نهیں دیتا،اسے مسلمان هی نهیں سمجتاط ہے«من اصبح و لم يهتم بامور المسلمين فليس بمسلم »اس حدیث میں ایک مسلمان کے کردارپه بحث هوئی ہے که یه کردارمعاشرے میں کتناوزن رکھتاہے ممکن ہے کسی شخص کی تقدیراسی ایک کردارسے بدل جائے.جوشخص معاشرے میں کسی دوسرےکواهمیت نهیں دیتا،کسی کےغم اورخوشی میں شرکت نهیں کرتا،دوسروں سے بے خبررهتا ہے تواس حدیث کےرو سےوه مسلمان نهیں.اس سے پته چلتا ہے که اسلام باهمی تعلقات کوکتنی اهمیت دیتا ہے.

یه ایک زنده دین ہے جوانسانوں کوزندگی سکارتا ہے.اسلام کی نگاه میں ،پورامومن معاشره،ایک هی بدن کی طرح ہے که جس کا هرایک عضو،دوسرے عضوکامحتاج ہے ایک عضواگرتکلیف میں هوتودوسرے کوقرار نهیں.نبی مکرم(صلی الله علیه وآله وسلم)ایک حدیث میں اسی حقیقت کی طرف اشاره کرتے هوئے فرماتے میں هیں: «مثل المؤمن في توادّهم و تراحمهم كمثل الجسد اذا اشتكي بعضه تداعي سائره بالسّهر و الحمي» ومن،محبت ورحمت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے، ایک بدن کی مانند هیں که اگرایک عضودرد میں مبتلاهوجائے،توپورابدن رات برحبےقرار،درد میں مبتلارهتا ہے.اسی حدیث کالب لباب ،ایک ایرانی شاعرجناب سعدی شعرکی صورت میں یوں بیان کرتے هیں:

بنـي آدم اعضـاي يـك پيكرند

چو عضوي به درد آورد روزگار

كه در آفرينش ز يك گوهرند

دگــر عضـوها را نماند قـرار

ائمه اطهار(علیهم السلام)کی زندگی اتحاد کےحوالےسے ایک بهترین نمونه ہے. ائمه اطهار(علیهم السلام) سے مروی روایتوں میں اتحادپه بهت زیادزوردیاگیا ہےاورتفرقه سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے.

هردور میں علماءکاکردار بھی وحدت قائم کرنے میں قابل ستائش رهی. علماء کابهت مثبت کردار ہے.اس دور میں ،سب سےزیاده جس شخص نے وحدت کانعره لگایااوراس نعرےکوعملی جامه پهنایا،وه شخص امام خمینی(رح)هی کی ذات ہے.آپ نےمسلمانوں کوایک حقیقی اتحادکاتصوردیااوراسی طرح اسلامی حکومت ایران کے تمام ترمادی اورمعنوی وسائل کواسی اتحادکی راه میں قربان کردئے.وحدت کےبارے میں آپ کے بےشمارتقریریں اورمکتوبات موجود هیں.

ایک مقام پرآپ فرماتے هیں:«هم اسلام اوراسلامی ملکوں کی حفاظت اوراستقلال کے واسطے،هرحال میں (ان سے)دفاع کےلئےتیار هیں.همارامنشور،وهی اسلام کامنشور ہےهمارامنشوراتحادکلمه اوراسلامی ممالک کےدرمیان اتحادقائم کرناہے.تمام مسلمان مکاتب فکر کےبرادری چاهتے هیں. هم اسرائیل کےمقابل ، دنیاکےگوشه گوشه، میں رهنے والے مسلمان حکومتوں کے ساتھ اظهاریکجهتی چاهتے هیں.هم استعماری حکومتوں کےمقابل متحدهونا چاهتے هیں.

آپ کےجانشین حضرت آیه الله خامنه ای(مدظله العالی)وحدت مسلمین سے متعلق فرماتے هیں:« هم وحدت کےبارے میں پرعزم هیں.هم نے مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی اورمفهوم بیان کئے هیں. مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی یه نهیں ہے که مسلمان اورمختلف مکاتب فکراپنے مخصوص کلامی اورفقهی عقیدےسے منصرف هو،اتحادکادواورمعانی هیں که جسےپوراهوناچاهیے.پهلایه که مختلف مکاتب فکر،حقیقی دشمنو ں کےمدمقابل ایک همدلی،همفکری اورباهمی تعاون کےذریعے ایک دوسرےکاساتھ دیں.دوسرایه که مختلف مکاتب فکرکی یه کوشش هوکه ایک دوسرےکےقریب جائے اورآپس میں ایک تفاهم ایجادکریں اسی طرح فقهی مسالک کاایک تطبیقی مقایسه هو.اگرتحقیقانه طورپربحث هوتوبهت سارے فقهاءاورعلماءکےفتاوی، جزی تغییرکےساتھ دونوں مذهب کے فتاوی ایک دوسرے کےقریب هونگے».

شیعه علماءاورمفکرین همیشه وحدت کی بات کرتے هیں اس راه میں قدم اٹھانا،دراصل قرآنی اهداف کےتحقق کی راه میں قدم اٹھانا ہے دونوں مکتب فکر (شیعه،سنی)کےپیروکارصدیو ں سے ایجادوحدت کی تلاش میں سرگرم ر ہے هیں اوراس راه میں هرقسم کی قربانی دیتے آیئے هیں.بهت سارے اهل سنت علماء اتحاداسلامی کی خاطراپنے مثبت اورقابل تحسین کرداراداکرتے رهے هیں.

مصر کےجامعه الازهرکےسابق چانسلرمفتی شیخ محمودشلتوت کهتے هیں: «میں اورمیرے جوساتیق جامعه الازهرتھے،مختلف فقهی امور میں فتوی دیتے هوئے فقه جعفری سے بی برےپورفائده اٹھاتے هیں بلکه بعض امورمیں شیعه نقطه نظرکواهل سنت مذاهب پرترجیح دیتے هیں،حالانکه هم سنی هیں.مصرکے«سول لاء» میں طلاق کے مسئله میں شیعه نقطه نظرکےمطابق فیصله دیاجاتا ہے،نه اهل سنت کےمطابق. اسی طرح رضاع کے مسئله میں، میں بذات خود شیعه نقطه نظرکوهی قوی جانتاهوں،لهذااسی کے مطابق فتوی دیتاهوں.ایک منصف مزاج فقیه جهاں بیا شیعه نقطه نظرکو دوسرے نظریات کے مقابلے میں دلیل واستدلال کےاعتبار سے قوی دیکتاو ہے اسی کےمطابق فتوی دیتا ہے،یهی وجه ہےکه،آج میں اپنی ذمه داری اورفریضه جانتاهوں که الازهریونیورسیی کے «اسلامی لاءکالج» میں شیعه سنی فقه پرمشتمل« فقه تطبیقی» کاشعبه قائم کروں،اس کام. سےهمارامقصدصرف یه ہے که صحیح اسلامی احکام کومختلف اسلامی فرقوں کی« فقه» سےاخذکرسکیں،اس سلسلے میں شیعه فقه یقیناسب سے آگے ہے».

جناب شیخ محمودشلتوت نے تمام اسلامی ممالک کےنام ایک تاریخی فتوی جاری کیاجس میں فقه جعفری کی پیروی کوبی دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح جائزقراردیا ہے. اس فتوی کی تائیدبهت سارے اهل سنت علماءنےکی،جن میں شیخ عبدالمجیدسلیم،شیخ محمدضحام،شیخ عبدالحلیم محمود(الازهرکےسابق چانسلرز)، اسی طرح استادشیخ محمدغزالی اورعبدالفتاح عبدالمقصودقابل ذکر هیں.آج تمام مسلمانوں،خاص کردانشوروں،علماء،زعماءاورجوانوں کافریضه ہے که باهمی اتحادکومضبوط بناتےهوئے،فروعی اورجزئی اختلافات کوبالای طاق رکےورهوئے،قرآن وسنت کی بالادستی کےلئےملکرکام کریں. پاکستان کی بقا،سالمیت اورتحفظ کے لئے ضروری هے شیعه سنی اتحادقائم هو

 


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحید افعالی
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صلح اور اس کے ...
کتاب علی علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے؟
سفر امام رضا (ع)، مدینہ تا مرو
ماہ رمضان المبارک خطبۂ شعبانیہ کے آئینہ میں
دین است حسین(ع) / دیں پناہ است حسین(ع)
شیعوں کاعلمی تفکر
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
حدیث غدیر پر علمائے اہلسنت کے اعتراضات اور ان کے ...
دو سوالوں کے جواب اکیسویں فصل

 
user comment