اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اسلامی اتحاد

 

سیرت نبوی کا تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ،اتحاد اسلامی کے مسئلہ اور اس کو منتشر کرنے میں پیغمبر اکرم کا کردار ایسا اہم موضوع ہے جس سے ہر مسلمان متفکر کو روبرو ہونا پڑتا ہے ۔ ”قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرة انا و من اتبعنی“ ۔

اسلامی اتحاد کو پیش کرنے کی ضرورت

تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان متفکرین کے درمیان سیرت نبوی ہمیشہ ایک اہم موضوع رہا ہے ۔ حوادث اور واقعات خصوصا تاریخ اسلام کی تحلیل اور مختلف حوادث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی برخورد ایسا موضوع ہے جس سے تاریخ اسلام کی تحلیل کرنے والے روبرو ہوتے رہتے ہیں ۔

اسلامی اتحاد کا مسئلہ اور اس کو پھیلانے اورایجاد کرنے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا کردار بہت ہی موثر رہا ہے ، ایسے موضوعات کی تحقیق تین لحاظ سے کی جا سکتی ہے :

الف : سیرت شناسی کی اہمیت

سیرت نبوی کا تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ،اتحاد اسلامی کے مسئلہ اور اس کو منتشر کرنے میں پیغمبر اکرم کا کردار ایسا اہم موضوع ہے جس سے ہر مسلمان متفکر کو روبرو ہونا پڑتا ہے ۔بیشک اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نصیحتیں، مسلمانوں کے لئے بہت ہی قیمتی گوہر ثابت ہوں گی کیونکہ خداوند عالم فرماتا ہے : ” لَقَدْ کانَ لَکُمْ فی رَسُولِ اللَّہِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کانَ یَرْجُوا اللَّہَ وَ الْیَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَکَرَ اللَّہَ کَثیراً“ (سورہ احزاب ، آیت ۳۱) ۔ مسلمانو! تم میں سے ہر اس کے لئے رسول کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے ۔

”اسوہ “ یعنی رہبر، راہنما، نمونہ اور ”تاسی“ اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنی زندگے لئے نمونہ عمل بنائیں ۔

لہذا اس آیت کے مطابق یہ تمام واقعات جیسے تاریخی واقعات جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندکی اور ان کے عمل سے مرتبط ہیں وہ سب بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور حجت و دلیل کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کا بھی وظیفہ ہے کہ وہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں غور وفکر کریں ۔

علامہ طباطبائی (رحمة اللہ علیہ) لکھتے ہیں : ”اسوہ“ کے معنی اقتداء اور پیروی کے ہیں ․․․ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سلسلہ میں اسوہ کے معنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی ہے اور اگر ”لکم فی رسول اللہ“(رسول کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے ) کی تعبیر کودیکھا جائے تو گذشتہ میں استمرار پر دلالت کرتا ہے ، اسی وجہ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم ہمیشہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے رہو اور آیت کے معنی یہ ہیں ان کے قول اور رفتار میں ان کی پیروی کرو ۔

اس بناء پر اسلامی اتحاد کو ثابت کرنے کیلئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔

ب : سیاسی سیرت کی توضیح و تفسیر کی ضرورت

معاشرہ کے سیاسی مسائل میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نقش آفرینی ، ان کی حکمتیں اور اہداف ، آنحضرت (ص) کی سیاسی سیرت پر بہترین دلیل ہیں ۔ اس نقطہ نظر سے ہدایت و راہنمائی میں پیغمبر اکرم کی تدابیراوراسلامی معاشرہ کی رہبری، معاشرہ کے سیاسی امور پر مدیریت کو مشخص کرتی ہے اور چونکہ ”اسلامی اتحاد کا مسئلہ“ ایک سیاسی موضوع ہے اس لئے اس کے متعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کردار کی تحقیق نیز اس کے متعلق بہترین راستہ ، پیغمبر اکرم کی سیاسی سیرت کی وضاحت ضروری ہے،امت اسلام کو محفوظ رکھنے اور مسلمانوں کے لئے مستقبل میں بہترین راستہ دکھانے کیلئے اسلامی اتحاد کی تاثیر اس موضوع کی سیاسی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے اور بے شک اس راستہ میں پیغمبر اکرم کے کردار پر نظر ڈالنے سے ہماری سیاسی سیرت کی تحلیل کا راستہ ہموار ہوجائے گا اور اس طرح یہ نمونہ عمل نیز پیغمبر اکرم کی اطاعت میں ایک مقدمہ ہوگا۔ ” مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطاعَ اللَّہَ وَ مَنْ تَوَلَّی فَما اٴَرْسَلْناکَ عَلَیْہِمْ حَفیظاً “ ۔ جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ لے گا تو ہم نے آپ کو اس کا ذمہ دار بناکر نہیں بھیجا ہے ۔

ج : سیرت اتحاد کی شناخت

آج کے زمانہ میں دنیائے اسلام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ،امت واحد کی تشکیل کیلئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت ، ایک اصول ا ور معیار بن سکتی ہے ۔ اس ترتیب کی بنیاد پر اسلامی اتحاد نہ صرف پیغمبر اکرم کی سیرت کے تمام مباحث یاسیاسی سیرت ، بلکہ ایسے موضوع کے عنوان کے تحت ضروری اور لازمی ہوجاتا ہے جس میں آج اسلامی معاشرہ مبتلا ہے ۔اس وجہ سے تاریخ اسلام اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت پر نظر ڈالنے سے آج کے زمانہ کے لئے بہترین دستورالعمل کواستخراج اوراستنباط کرنا ممکن ہوگا۔ ” یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا“ ۔

امت اسلامی کا اتحاد

امت کے اتحاد کو تشکیل دینے کیلئے پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کو مختلف زوایا سے دیکھا جاسکتا ہے ، اس عنوان کی پہچان کے ذریعہ اس کے مختلف ابعاد کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

”امت اسلامی کے اتحاد “ کے معنی یہ ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان اس طرح سے اتحاد برقرار ہوجائے کہ اسلامی امت کے ایک تشکل کی نوید سب کے کانوں میں پہنچ جائے ۔ ” وَ إِنَّ ہذِہِ اٴُمَّتُکُمْ اٴُمَّةً واحِدَةً وَ اٴَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُون“ ۔ اور تمہارا سب کا دین ایک دین ہے اور میں ہی سب کا پروردگار ہوں لہذا بس مجھ سے ڈرو ۔

اس مفہوم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ امت اسلامی کا اتحاد دوسرے مفاہیم کے ساتھ تجزیہ اور تحلیل کے لائق ہے :

اولا : امت کے اتحاد کا واقع ہونا ایک حسرت وامید کی علامت اور دین کی خواہش ہے، یعنی ایک اسلامی امت کی تشکیل ۔

ثانیا : امت اسلامی کا اتحاد ، مسلمانوں کی موجودہ حالت کے لئے آخری امید اور ہدف ہے ۔ یقینا ایک امت کا متحد ہونا مسلمانوں کے موجودہ شرایط کو مد نظر رکھے بغیر ممکن نہیں ہے ، کیونکہ اسلامی امت یعنی اسلامی معاشرہ کے تمام افراد کو ان کی خصوصیت کے ساتھ متحد کرنامراد ہے ۔

ثالثا : ”امت اسلامی کے اتحاد“ کے مفہوم سے ایک دوسرامفہوم بھی اخذ کی جاسکتا ہے اور وہ اسلامی اتحاد کا لفظ ہے ۔ کیونکہ امت کے اتحاد کو دنیا کی ایک امت کے اصل کے تحت اس کو ایک محور اور ملاک کے عنوان سے مد نظر رکھا جاسکتا ہے اور ہم مسلمانوں کی موجودہ حالت کو بدلنے کے لئے ایک بہترین راہ حل کے محتاج ہیں جس سے امت واحدہ کو مقصد مطلوب تک پہنچا سکیں اور یہ وہی اسلامی اتحاد ہے ۔

اس طرح سے تین بنیادی مفہوم کی تعریف اور تفکیک کی ضرورت،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کی تحقیق کے عنوان سے روشن اور واضح ہوجاتی ہے ، یعنی اسلامی معاشرہ ، اسلامی ایک امت اور اسلامی اتحاد ۔

اس سلسلہ میں اگر ہم مفصل بحث کریں گے تو اس مقالہ کے مقصد سے خارج ہوجائیں گے ، اس بناء پر ہم یہاںپر ان میں سے ہر لفظ کے متعلق ایک اجمالی بحث کریں گے :

ب : اسلامی معاشرہ

اسلامی معاشرہ ایک سرزمین پر موجود تمام مسلمانوں سے تشکیل پاتا ہے جن میں دینی اعتقادات پائے جاتے ہیں ، حقیقت میں ایک مخصوص سرزمین پر الہی نظام کے محقق ہونے کو اسلامی معاشرہ جانا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے : ” ․․․․ ومن ذریتنا امہ مسلمة لک․․․․“ (سورہ بقر ة ، آیت ۱۲۸) ۔

جب کسی ”نظام“ کی بات آتی ہے تو اس میں تمام افراد، ارکان اور خاص اجتماعی روابط مد نظر ہوتے ہیں جو ایک اتحاد کی بنیاد پر ایک خاص ہدف اور سمت کی طرح حرکت کرتے ہیں ،اس بناء پر معاشرہ کا مفہوم ”نظام مند “ ہونے کی خصوصیت کے ساتھ ”فرد کے مفہوم“ کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ،لہذا معاشرہ کو افراد کی جمع عددی اور صرف انسانوں کاایک مجموعہ نہیں کہا جاسکتا ، جیسا کہ بعض علماء نے لفظ ” معاشرہ“ کو انسانوں کے ایک جگہ ایک عام تجمع میں استعمال کیا ہے اور اس طرح کہا ہے : اس گروہ کے اہم ترین ملاک و ارتباط اور اس ارتباط کے بنیادی معنی ان سب کا ایک جگہ جمع ہونا ہے ۔

اس بناء پر ہر معاشرہ میں ایک خاص اجتماعی نظام پایا جاتا ہے جس کی اجتماعی بنیادیں اس کے ملاک سے متشکل ہوتی ہیں، اسی بات کو کچھ فرق کے ساتھ کتاب نقد دینداری و مدرنیزم میں کہاگیا ہے : معاشرہ صرف انسانوں کے ایک جگہ جمع ہوجانے کانام نہیں ہے بلکہ اس میں معاشرہ کی دو اہم خصوصیات پائی جاتی ہیں: اول : معاشرہ میں ایک اجتماعی نظام پایا جاتا ہے (Social Order) ۔

دوم : معاشرہ کا اجتماعی نظام ، اجتماعی فعل صادر ہونا کی بنیاد ہو سکتا ہے ۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جو چیز بھی انسانوں کا انسانوں کے ساتھ ارتباط کو ان کے دوسرے روابط سے جدا کرتا ہے وہ ان کی محبت اور انسانوں کا ایک دوسرے کی پیروی ہے : ”یا اٴَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَ اٴُنْثی وَ جَعَلْناکُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ اٴَتْقاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلیمٌ خَبیرٌ “ (سورہ حجرات ۱۳) ۔ انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے ۔

اس ترتیب کی بناء پر انسانوں کے تمایلات اور عقاید ، اجتماعی تعامل کا راستہ ہموار کرتے ہیں اوریہ خود اجتماعی فعل صادر ہونے کی بنیاد ہے ، اسی کو ” اجتماعی ولایت کے نظام“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ،پس اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاشرہ کا اجتماعی نظام اجتماعی فعل صادر ہونے کی بنیادبھی ہوگی ، یعنی نظام کا مفہوم ، اجتماعی ولایت کے برابر ہے ، اور یہ بات واضح ہے کہ ”الہی “قید ،اسلامی معاشرہ میں دین کی علامت ہے ۔ البتہ دین میں محبت کی بحث اور انسانی پیروی کا کردار بہت وسیع ہے ،لیکن اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے : الہی آیات کی بنیاد پر ”محبت“ انسانی امتیاز کو معین کرتی ہے ۔ محبت اپنے بلند درجہ کے ساتھ خداوند عالم سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ انسان اپنے ماوارء حقیقت سے تعلق نہیں رکھتا ” انا للہ و انا الیہ راجعون“ ۔ اسی وجہ سے فرمایا : ”الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ پس محبت انسان کو خدا کی طرف لے جانے کے اتصال کا نام ہے ، اسی طرح محبت، اجتماعی نظام کو تشکیل دینے کا نام ہے : ”ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا و جعل بینکم مودة و رحمة “۔ اسی بنیاد پر خاندانوں کے اجتماع یہاں تک کہ انسانوں کے بڑے اجتماع کا ملاک ،محبت اور مودت پر استوار ہے ۔

مومنین کے معاشرہ کے متعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک خوبصورت حدیث میں یہی قاعدہ ایمان کے آثار کی قید کے ساتھ بیان ہواہے ”مثل المومنین فی توادھم و ترحمھم و تعاطفھم کمثل جسد واحد“ ۔

نہج البلاغہ میں بیان ہوا ہے : ” ایھا الناس ، انما یجمع الناس الرضا والسخط وانما عقد ناقة ثمود رجل واحد فعمھم اللہ بالعذاب لما عموہ بالرضا ،فقال سبحانہ : فعقدوھا فاصبحوا نادمین․․․“ ۔ اے لوگو ! انسانوں کے جمع ہونے کا ملاک خشنودی اور غضب ہے ۔ جی ہاں صرف ایک آدمی تھا جس نے ثمود کے ناقہ کو قتل کیا تھا ،لیکن چونکہ پوری قوم ثمود اس پر راضی تھی لہذا خداوند عالم نے سب پر عذاب کیا ۔ اور خداوند عالم کے کلام کے یہی معنی ہیں : اس نے ناقہ کو قتل کیا اور سب پشیمان ہوگئے ۔

اسلامی معاشرہ کی تعریف میں اس نکتہ کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اس نظریہ ”دینی معاشرہ“ اور ”اسلامی معاشرہ“ کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔

حقیقت میں دینی معاشرہ ، دین کے اہداف کا معاشرہ ہے جس کی تعریف میں اس دین کی آخری خصوصیات اور اہداف کو مد نظر رکھا جائے گا۔ جب کہ اسلامی معاشرہ کا ہدف اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کی موجودہ حالت اور وضعیت سے بحث کی جاتی ہے اور اس میں امت کے اعتقاد یااس کا اجتماعی نظام کے ساتھ سازگار ہونے کی وجہ سے ”اسلامی عنوان آگیا ہے ۔ لغات میں ”جماعت “ کو جو ”لوگوں کے ایک گروہ“ میں معنی کیا جاتا ہے وہ بھی اس مدعا پر دلیل اور گواہ ہے ۔

بعض علماء نے ”اسلامی معاشرہ“ کے مفہوم کو ”امت“ کے لفظ کے ساتھ اسلام کی سیاسی لغت میں مترادف بیان کیا ہے اور کہا ہے : امت (اسلامی معاشرہ) ایک منظم اور ہماہنگ معاشرہ کا نام ہے جس کے افراد کا ہدف اور مقصد مشتر ک ہے ․․․ اس بناء پر امت میں عقیدہ اور ایمان کے علاوہ کوئی سرحد نہیں پائی جاتی اور وہی اس معاشرہ کے افراد کا مشترک ہدف اور راستہ ہے 

ج : اسلامی ایک امت

اسلامی ایک امت کا مفہوم بھی گذشتہ توضیحات کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے ۔ حقیقت میں اسلامی ایک امت، دنیا کی سطح پر اسلامی معاشروں سے تشکیل ہوا ہے جس میں مسلمانوں کی تمام امت کے ایک ہونے کی خصوصیت پائی جاتی ہے ۔یعنی خدا کے اجتماعی نظام ولایت کا دنیا کی سطح پر اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ محقق ہونا : ”ان ھذہ امتکم امة واحدة و انا ربکم فاعبدون“ ۔ سورہ انبیاء ، آیت ۹۲) ۔ بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہذا میری ہی عبادت کیا کرو ۔

جیسا کہ کہا گیا ہے اور اس آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ”ایک امت“ کی تعبیر اسی کی حکایت کرتی ہے اسلامی معاشرہ اپنے اتحاد کو وجود بخشنے کے لئے ایک ایسی جگہ پہنچ جائیں جو اسلامی ایک امت کو تشکیل دے سکیں، اور یہ بلند ہدف انسان کی خلقت کے ہدف میں چھپا ہوا ہے : ”ولو شاء ربک لجعل النسا امة واحدة و لا یزالون مختلفین الا من رحم ربک ولذلک خلقھم“۔

وضاحت : اس آیت میں ”ذلک“ امت کے ایک ہونے کی طرف اشارہ ہے یعنی ہدف و مقصدیہ ہے کہ تمام لوگ ایک ملت کی پیروی کریں اور خداوند عالم نے انسانوں کو اسی ہدف کے لئے خلق کیا ہے ۔

حضرت امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) نے فرمایا ہے : اسلام اس لئے آیا ہے تاکہ دنیا کی تمام ملتوں کو عرب سے لے کر عجم تک اور ترک سے کر فارس تک متحد کردے اور دنیا میں ایک امت ،اسلامی امت کے نام سے قائم کرے ۔

 


source : http://www.taqrib.info/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment