اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

امام جعفر صادق(ع)اور مختلف مکاتب فکر

ہم دیکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اتنی بڑی مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی اسلامی طریقے سے تربیت کرنے کی بھرپور کو ششیں کیں۔ قرآت اور تفسیر میں ا مام علیہ السلام نے انتہائی قابل ترین شاگرد تیار کیے جو لوگوں کو قرآن مجید کی صحیح طریقے سے تعلیم دیتے اور ان کو صحیح تفسیر سے متعارف کراتے‘ جہاں کہیں کسی قسم کی غلطی دیکھتے فوراً پکار اٹھتے اور بروقت اصلاح کرنے کی کوشش کرتے۔ پھر ایسے ہونہار طلبہ بھی میدان میں آئے جو علم حدیث میں پوری طرح سے مہارت رکھتے۔ نا سمجھ لوگوں کو بتایا جاتاکہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کا سلسلہ پیغمبر اسلام تک پہنچتا ہے اور یہ حدیث من گھڑت ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اتنی بڑی مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی اسلامی طریقے سے تربیت کرنے کی بھرپور کو ششیں کیں۔ قرآت اور تفسیر میں ا مام علیہ السلام نے انتہائی قابل ترین شاگرد تیار کیے جو لوگوں کو قرآن مجید کی صحیح طریقے سے تعلیم دیتے اور ان کو صحیح تفسیر سے متعارف کراتے‘ جہاں کہیں کسی قسم کی غلطی دیکھتے فوراً پکار اٹھتے اور بروقت اصلاح کرنے کی کوشش کرتے۔ پھر ایسے ہونہار طلبہ بھی میدان میں آئے جو علم حدیث میں پوری طرح سے مہارت رکھتے۔ نا سمجھ لوگوں کو بتایا جاتاکہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کا سلسلہ پیغمبر اسلام تک پہنچتا ہے اور یہ حدیث من گھڑت ہے۔

فقہی مسائل کے حل اور لوگوں کی شرعی احکام میں تربیت کے لیے آپ کے لائق ترین شاگردوں نے بھر پور کردار ادا کیا۔ جو لوگ فقہ سے ناآشنائی رکھتے یہ نوجوان طلبہ قریہ قریہ جا کر لوگوں کو حلال و حرام اور دیگر مسائل فقہی کی تعلیم دیتے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ برادران اہل سنت کے تمام بڑے مذہبی رہنما کسی نہ کسی حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے علمی فیض حاصل کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کی تمام کتب میں درج ہے کہ جناب ابو حنیفہ دو سال تک امام علیہ السلام سے پڑھتے رہے ہیں۔جناب ابوحنیفہ کا ایک قول بہت مشہور ہے اور یہ قول تمام کتب اہلسنت میں موجود ہے کہ ملت حنفیہ کے سربراہ جناب ابو حنیفہ نے فرمایا کہ” لولا اسنتان لھلک نعمان“

”اگر میں نے وہ دو سال امام علیہ السلام کی شاگردی میں نہ گزارے ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا۔ “

جناب ابو حنیفہ کا اصل نام نعمان ہے۔ کتب میں آپ کو نعمان بن ثابت بن زوطی بن مر زبان “ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔آپ کے آباؤ اجداد ایرانی تھے۔

اسی طرح اہلسنت کے دوسرے امام جناب مالک بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہم عصر تھے ۔ جناب مالک نے بھی امام علیہ السلام سے کسب فیض کیا اور عمر بھر اس پر فخر کرتے رہے۔ امام شافعی کا دور بعد کا دور ہے انہوں نے جناب ابوحنیفہ کے شاگردوں ، مالک بن انس اوراحمدبن حنبل سے استفادہ کیا۔ لیکن ان کے اساتذہ کا سلسلہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔اپنے وقت کے جید علماء ،فقہا، محدثین امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و دینی فیوضیات سے مستفیض ہوئے۔ امام علیہ السلام کے حلقہ درس میں علماء و فضلاء کا ہمہ وقت ٹھٹھ لگا رہتا تھا۔ اب میں اہل سنت کے بعض علماء کے امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں تاثرات پیش کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ہمارے محترم قارئین اسے پسند فرمائیں گے۔

امام جعفر صادق علیہ السلامکے بارے میں جناب مالک کے تاثرات

جناب مالک بن انس مدینہ میں رہائش پذیر تھے۔ نسبتاً خود پسند انسان تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں جب بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ کو ہمیشہ اور ہر وقت ہنستا مسکراتا ہوا پاتا۔

”وکان کثیر التبسم“

”آپ کے ہونٹوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کے پھول کھلے ہوئے ہوتے تھے۔“

گویا آپ کو میں نے ہمیشہ خوش اخلاق پایا۔ آپ کی ایک عادت یہ تھی کہ جب آپ کے سامنے پیغمبر اسلام کا نام مبارک لیا جاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ یکسر بدل جاتا۔ میں اکثر اوقات امام علیہ السلام کے پاس آتا رہتا تھا۔ آپ اپنے زمانے کے عابد و زاہد انسان تھے۔ تقوی و پرہیز گاری اور راستبازی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔جناب مالک ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا جب ہم مدینہ سے نکل کر مسجد الشجرہ پر پہنچے تو ہم نے احرام باندھ لیا ہم چاہتے تھے کہ لبیک کہیں اور رسمی طور پر محرم ہو جائیں ‘چنانچہ ہم نے لبیک کہنا شروع کیا اور احرام باندھا تو میری نگاہ امام علیہ السلام پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ اقدس کا رنگ یکسر بدل گیا ہے‘ اور آپ کا بدن کانپ رہا ہے۔ یوں لگتا تھے کہ شاید سواری سے گر جائیں۔ خداخوفی کی وجہ سے آپ پر عجیب قسم کی کیفیت طاری تھی۔ میں نے عرض کیا اے فرزندرسول !اب آپ لبیک کہہ ہی دیں تو آپ نے فرمایا میں کیا کہوں اور کیسے کہوں اگر میں لبیک کہتا ہوں؟!؟ تو مجھے جواب ملے کہ لا لبیک تو اس وقت میں کیا کروں گا؟ اس روایت کو آقا شیخ عباس قمی اور دوسرے مورخین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ اس روایت کے راوی جناب مالک بن انس ہیں جو اہل سنت حضرات کے بہت بڑے امام ہیں جناب مالک کا کہنا ہے کہ”مارات عین ولا سمعت اذن ولا خطر علی قلب بشرافضل من جعفر بن محمد“

”آنکھ نے نہیں دیکھا کان نے نہیں سنا اور کسی کے خیال خاطر میں نہیں آیا کہ کوئی مرد امام جعفر صادق علیہ السلام سے افضل نظر سے گزرا ہو۔“

محمد شہر ستانی جو کتاب الملل و النحل کے مصنف ہیں آپ پانچویں ہجری میں بہت بڑے عالم، متکلم ، فلاسفی ہو کر گزرے ہیں۔ دینی و مذہبی اور فلسفیانہ اعتبار سے یہ کتاب دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مصنف کتاب ایک جگہ پر امام جعفر صادق علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

”ھو ذوعلم غریر“

”کہ آپ کا علم ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔“

”وادب کامل فی الحکمة“

”حکمت میں ادب کامل تھے ۔“

”وزھد فی الدنیا وورع تام عن الشھوات“

”آپ غیر معمولی طور پر متقی و پرہیز گار تھے آپ خواہشات نفسانی سے دور رہتے تھے۔“

”ویفیض علیٰ الموالی لہ اسرار العلوم (ثم دخل العراق)“

”آپ سر زمین مدینہ میں رہ کر دوستوں اور لوگوں کو علم کی خیرات بانٹتے تھے۔ “پھر آپ عراق تشریف لے آئے یہ مصنف امام علیہ السلام کی سیاست سے کنارہ کشی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ۔ “

”ولا نازع فی الخلافة احدا“

”کہ آپ نے خلافت کے مسئلہ پر کسی سے کسی قسم کا اختلاف و نزاع نہ کیا۔“

اس کنارہ گیری کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ آپ علم و معرفت کے سمندر میں غوطہ زن رہتے تھے اس لیے دوسرے کاموں کے لیے آپ کے پاس وقت ہی نہ تھا۔ میں محمد شہرستانی کی توجیہ کو صحیح نہیں سمجھتا۔ میرا مقصود اس سے یہ ہے کہ اس نے کھلے لفظوں میں امام کی غیر معمولی معرفت کا اعتراف کیا ہے لکھتا ہے ۔

”و من غرق فی بحر المعرفة لم یقع فی شط“

”کہ جو دریائے معرفت میں ڈوبا ہوا ہو وہ خود کو کنارے پر نہیں لے آئے گا “اس کے نزدیک خلافت و حکومت ایک سطحی سی چیزیں ہیں جبکہ علم و معرفت کی بات ہی کچھ اور ہے۔

”ومن تعلیٰ الیٰ ذروة الحقیقة لم یخف من حط“

”کہ جو حقیقت کی بلند و بالا چوٹیوں پر پہنچ جائے وہ نیچے کی طرف آنے سے کیسے ڈرے گا۔“

باوجود یکہ شہر ستانی شیعوں کا مخالف شخص ہے‘ لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں مدحت سرائی کر رہا ہے۔ اس نے اپنی کتاب الملل و النحل میں شیعوں کے خلاف بہت زیادہ زہر اگلا ہے ۔ لیکن اس نے امام علیہ السلام کو بہت ہی اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کیا ہے۔ اگرچہ یہ دشمن تھا لیکن حقیقت کو ماننے پر مجبور ہو گیا ۔ یہ نہ مانتا تو کیسے نہ مانتا؟ امام جعفر صادق علیہ السلام جیسا کوئی ہوتا تو یہ سامنے لاتا۔ سورج کا بھلا چراغوں سے کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ اب بھی دنیا میں ایسے علماء موجود ہیں جو شیعیت کے سخت دشمن ہیں۔ لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیحد احترام کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات سے جن باتوں پر ہمارا اختلاف ہے۔ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان کردہ باتوں میں نہیں ہے کیونکہ صادق آل محمد علیھم السلام ایک انتہائی باکمال شخصیت و بے نظیر حیثیت کے مالک انسان تھے اور آپ کی علمی خدمات اور دینی احسانات کو کبھی اور کسی طور بھی نہیں بھلایا جا سکتا۔

 

احمد امین کی رائے

فجر الاسلام ، ضحی الاسلام ، ظہر الاسلام ، یوم الاسلام یہ احمد آمین کی معروف ترین کتب ہیں۔ احمد آمین ہمارے ہم عصر عالم دین ہیں ۔اور یہ شیعوں کے سخت مخالف ہیں۔ ان کو مذہب شیعہ کے بارے میں ذرا بھر علم نہیں ہے ۔سنی سنائی باتوں کو وجہ اعتراض بنا کر شیعوں کے خلاف اپنی کتابوں میں انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ حالانکہ اس سطح اور اس پائے کے عالم دین کو حق کو سامنے رکھ کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی جتنی تعریف کی ہے اتنی کسی اور سنی عالم نے نہیں کی۔ امام علیہ السلام کے فرامین اور ارشادات کی تفسیر و تشریح اس انداز میں کی ہے کہ کوئی عالم دین بھی نہ کر سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیر ت اور تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ ملت اسلامیہ ، مذہب جعفریہ کے بارے میں ذرا بھر بھی تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کاش وہ شیعوں کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیتے اور ایک عظیم اور شریف ملت پر الزامات عائد کر کے اپنی کتب کے صفحات کو سیاہ نہ کرتے؟

جاحظ کا اعتراف

میرے نزدیک جاحظ کی علمی صلاحیت اور دینی قابلیت دوسرے سنی علماء سے بڑھ کر ہے ۔ یہ شخص دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کے اوائل کا سب سے بڑا عالم ہے۔ یہ شخص ذہانت و مطانت کا عظیم شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی حد تک صاحب مطالعہ تھا۔ جاحظ نہ صرف اپنے عہد کا بہت بڑا ادیب ہے بلکہ ایک بہت بڑا محقق اور مورخ بھی ہے انہوں نے حیوان شناسی پر ایک کتاب الحیوان تحریر کی تھی آج یہ کتاب یورپی سائنسدانوں کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بلکہ ماہرین حیوانات اس کتاب پر نئی نئی تحقیقات کر رہے ہیں۔ جانوروں اور حیوانات کے بارے میں اس سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں ہے ۔ یہ کتاب اس دور میں لکھی گئی جب یونان اور غیر یونان میں جدید علوم نے اتنی ترقی نہ کی تھی۔ اس وقت ان کے پاس کسی قسم کا مواد نہ تھا۔ انہوں نے اپنی طرف سے حیوانات پر تحقیق کر کے دنیا بھر کے جدید و قدیم ماہرین کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیاہے۔

جاحظ ایک متعصب سنی عالم ہے۔ انہوں نے شیعوں کے ساتھ مناظرے بھی کئے اور انتہا پسندی کے باعث شیعہ حضرات ان کو ناصبی بھی کہتے ہیں ۔لیکن میں ذاتی طور پر کم از کم ان کو ناصبی نہیں کہہ سکتا۔ یہ شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کا عالم ہے۔ ہو سکتا ہے اس نے امام علیہ السلام کا آخری دور پایا ہو ؟!؟شاید یہ اس وقت بچہ ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام علیہ السلام کا دور ایک نسل قبل کا دور ہو ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کا دور اور امام علیہ السلام ایک دوسرے کے بہت قریب ہے ۔بہرحال جاحظ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

 ”جعفر بن محمد الذی ملا الدنیا علمہ و فقھہ“

”کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے پوری دنیا کو علم و دانش اور معرفت و حکمت سے پر کر دیا ہے۔“

”ویقال ان ابا حنیفة من تلامذتہ و کذلک سفیان الثوری“

کہا جاتا ہے کہ جناب ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کا شمار امام علیہ السلام کے شاگردان خاص میں سے ہوتا ہے سفیان ثوری بہت بڑے فقیہہ اور صوفی ہو کر گذرے ہیں۔

میر علی ہندی کا نظریہ

میر علی ہندی ہمارے ہم عصر سنی عالم ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں اظہارے خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

”لا مشاحة ان انتشار العلم فی ذلک الحین قد ساعد علی فک الفکر من عقالہ“

”علوم کا پھیلاؤ اس زمانے میں ممکن بنایا گیا اور لوگوں کو فکری آزادی ملی اور ہر طرح کی پابندیاں ختم کر دی گئیں۔“

”فاصبحت المناقشات الفلسفیة عامة فی کل حاضرة من حواضر العالم الاسلامی“

”دنیا بھر کے اسلامی حلقوں میں علمی و عقلی اور فلسفیانہ مباحث کو رواج ملا ۔“

جناب ہندی مزید لکھتے ہیں کہ :

 ”ولا یفوتنا ان نشیر الی ان الذی تزعم تلک الحرکة ھو حفید علی ابن ابی طالب المسمی بالامام الصادق علیہ السلام“

”ہم سب کو یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ جس عظیم شخصیت نے دنیائے اسلام میں فکری انقلاب کی قیادت کی ہے وہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پوتے ہیں اور انکا نام نامی امام صادق۱علیہ السلامہے۔“

 امام جعفر صادق علیہ السلام …

”وھو رجل رحب افق التفکیر“

”وہ ایسے انسان تھے کہ جن کا افق فکری بہت بلند ہے یعنی جن کی فکری و سعت کی کوئی حد نہ تھی ۔ “

”بعید اغوارالعقل “

”ان کی عقل و فکر بہت گہری تھی۔ “

”ملم کل المام بعلوم عصرہ“

”آپ اپنے عہدکے تمام علوم پر خصوصی توجہ رکھتے تھے۔ جناب ہندی مزید کہتے ہیں۔ “

”ویعتبر فی الواقع ھواول من اسس المدارس الفلسفیة المشھورة فی الاسلام“

”در حقیقت سب سے پہلے جس شخصیت نے جدید علمی مراکز قائم کیے ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام ہی ہیں۔“

”ولم یکن یحضر حلقة العلمیة اولئک الذین اصبحوا مؤسسی المذاہب الفقھیة فحسب بل کان یحضر ھا طلاب الفسفة والمتفلسفون من انحاء الواسعة“

 وہ کہتا ہے کہ آپ نہ صرف ابو حنیفہ جیسی بزرگ شخصیت کے استاد تھے بلکہ جدید علوم کی بھی طلبہ کو تعلیم دیا کرتے تھے گویا جدید ترقی امام علیہ السلام کی مرہون منت ہے۔

احمد زکی صالح کے خیالات

کتاب امام صادق علیہ السلام میں آقائے مظفر احمد زکی صالح ماہنامہ الرسالة العصریہ سے نقل کرتے ہیں کہ شیعہ فرقہ کی علمی پیشرفت تمام فرقوں سے زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علوم کی ترقی اور پیشرفت میں اہل ایران کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ایران میں شیعوں کی اکثریت نہ تھی۔ ابھی ہم اس کے بارے میں بحث نہیں کرتے یہ پھر کبھی سہی یہ مصری لکھتا ہے :

 ”من الجلی الواضح لدی کل من درس علم الکلام الفرق الشیعة کانت انشط ایفرق الاسلامیة حرکة“

”کہ واضح سی بات ہے کہ ہر وہ شخص جو ذرا بھر علمی شعور رکھتا ہے وہ اس بات کا معترف ہے کہ شیعہ فرقہ کی مذہبی و علمی پیشرفت تمام فرقوں سے زیادہ ہے۔ 

”وکانت اولیٰ من اسس المذاہب الدینیة علی اسس فلسفیة حتیٰ ان البعض ینسب الفلسفة خاصة بعلی بن ابی طالب“

یعنی شیعہ پہلا اسلامی مذہب ہے کہ جو دینی مسائل کو فکری و عقلی بنیادوں پر حل کرتا ہے۔ شیعہ یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور امامت میں مختلف علوم کو عقلی و فکری لحاظ سے پر کھا جاتا تھا ۔اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ اہل تسنن کی احادیث کی ان کتابوں (صحیح بخاری ، صحیح مسلم جامع ترمذی سنن ابی داؤد صحیح نسائی) میں صرف اور صرف فروعی مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ وضو کے احکام یہ ہیں‘ نماز کے مسائل کچھ اس طرح کے ہیں۔ روزہ‘ حج، جہاد، وغیرہ کے احکام یہ یہ ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر اسلام نے سفر میں اس طرح عمل فرمایا ہے لیکن آپ اگر شیعہ کی احادیث کی کتب کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے شیعہ احادیث میں سب سے پہلے عقل و جہل کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے‘ لیکن اہل سنت حضرات کی کتب میں اس طرح کی باتیں موجود نہیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کی بنیاد صرف امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں ‘بلکہ امام صادق علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس میں تمام آئمہ طاہرین علیھم السلام کی کوششیں بھی شامل ہیں ۔ اس کی اصل بنیاد تو خود حضرت پیغمبر اکرم کی ذات گرامی ہے۔ اس عظیم مشن کا آغاز حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا اور اسے آگے آل محمد علیہ السلام نے بڑھایا ہے۔

چونکہ امام جعفر صادق علیہ السلامکو کام کرنے کا خوب موقعہ ملا ہے اس لیے آپ نے اپنے آباؤاجداد کی علمی میراث کو کما حقہ محفوظ رکھا ہے۔ اور اس عظیم ورثہ کو قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ثمر آور بنا دیا۔ ہماری احادیث کی کتب میں کتاب العقل والجھل کے بعد کتاب التوحید آتی ہے ۔ ہمارے پاس توحید الٰہی کے بارے میں ہزاروں مختلف احادیث موجود ہیں۔ ذات خداوندی، معرفت الٰہی، قضاء و قدر، جبرو اختیار سے متعلق ملت جعفریہ کے پاس نہ ختم ہونے والا ذخیرہ احادیث موجود ہے ۔ شیعہ قوم فخر سے کہہ سکتی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور ہمارے جلیل القدر دیگر آئمہ طاہرین نے جتنا ہمیں دیا ہے اتنا کسی اور پیشوا نے اپنی ملت کو نہیں دیا ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فکری ، علمی اور عقلی و نظریاتی لحاظ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے نئے علوم کی بنیاد رکھ کر بنی نوع انسان پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

جابر بن حیان

ایک وقت ایسا آیا کہ ایک نئی اور حیرت انگیز خبر نے پوری دنیا کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیا وہ تھی جابر بن حیان کی علمی دنیا میں آمد ۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم ہیرو کو جابر بن حیان صوفی بھی کہا جاتا ہے ۔ اس دانائے راز نے علمی انکشاف اور سائنسی تحقیقات کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کر کے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ ابن الندیم نے اپنی مشہور کتاب الفہرست میں جناب جابر کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جابر بن حیان ایک سو پچاس علمی و فلسفی کتب کے مصنف و مؤلف ہیں۔ کیمسٹری جابر بن حیان کے فکری احسانات کا صلہ ہے۔ ان کو کیمسٹری کی دنیا میں باپ اور بانی کا درجہ دیا جاتاہے۔ ابن الندیم کے مطابق جناب جابر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دستر خوان علم سے خوشہ چینی کرنے والوں میں سے ایک ہےں۔

ابن خلکان ایک سنی رائٹر ہیں۔ وہ جابر بن حیان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کیمسٹری کا یہ بانی امام جعفر صادق علیہ السلام کا شاگرد تھا ۔ دوسرے مورخین نے بھی کچھ اس طرح کی عبارت تحریر کی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جن جن علوم کی جناب جابر نے بنیاد رکھی ہے وہ ان سے پہلے بالکل و جود ہی نہ رکھتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ جابر بن حیان نے نئی نئی اختراعات ایجاد کر کے جدید ترین دنیا کو حیران کر دیا۔ اس موضوع پر اب تک سینکڑوں کتابیں اور رسالہ جات شائع ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر کے سائنسدان اور ماہرین نے جناب جابر کی جدید علمی خدمات کو بیحد سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جابر نہ ہوتے تو پوری انسانیت اتنے بڑے علم سے محروم رہتی۔ ایران کے ممتاز دانشور جناب تقی زادہ نے جابر بن حیان کی علمی و دینی خدمات پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ میرے خیال میں جابر کے متعلق بہت سی چیزیں مخفی اور پوشیدہ ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ شیعہ کتب میں بھی جناب جابر جیسے عظیم ہیرو کا تذکرہ بہت کم ہوا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ علم رجال اور حدیث کی کتابوں میں اسی بزرگ ہستی کا نام کہیں پہ استعمال نہیں ہوا۔ ابن الندیم شائد شیعہ ہو اس لئے انہوں نے جناب جابر کا نام اور تذکرہ خاص اہتمام اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا کو بالآخر ماننا پڑا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس طرح لائق وفائق علماء تیار کئے ہیں اتنے اور کسی مذہب نے پیشوانہیں کئے۔

ہشام بن الحکم

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک اور معروف شاگرد کا نام ھشام بن الحکم ہے ۔ یہ شخص واقعتا نابغہ روزگار ہے‘ اپنے دور کے تمام دانشوروں پر ہمیشہ ان کو برتری حاصل رہی ہے۔ آپ جب بھی کسی موضوع پر بات چیت کرتے تو سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ اس مرد قلندر کی زبان میں عجیب تاثیر تھی۔ جناب ہشام سے بڑے بڑے علماء آ کر شوق و ذوق کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے اور سمندر علم کی جولانیوں اور طوفان خیزیوں کو دےکھ کر وہ اپنے اندر ایک خاص قسم کا اطمینان و سکون حاصل کرتے ۔ یہ سب کچھ میں اہل سنت بھائیوں کی کتب سے پیش کر رہا ہوں۔ ابوالھذیل علاف ایک ایرانی النسل دانشور تھے۔ آپ علم کلام کے اعلی پایہ کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ شبلی نعمانی تاریخ علم کلام میں لکھتا ہے کہ ابو الھذیل کے مقابلے میں کوئی شخص بحث نہیں کر سکتا تھا ۔ لیکن یہی ابوالھذیل ھشام بن الحکم کے سامنے آنے کی جرآت نہ کرتا تھا۔ جناب ہشام نے جدید علوم میں جدید تحقیق کورواج دیا۔ آپ نے طبعیات کے بارے میں ایسے ایسے اسرار و رموز کو بیان کیا ہے کہ وہ لوگوں کے و ہم و خیال میں بھی نہ تھے۔ان کا کہنا ہے کہ رنگ و بو انسانی جسم کا ایک مستقل جزو ہے اور وہ ایک ایسی چیز ہے جو فضا میں پھیل جاتی ہے۔ ابو الھذیل ھشام کے شاگردوں میں سے تھا اور وہ اکثر اپنی علمی آراء میں اپنے استاد محترم جناب ھشام کا حوالہ ضرور دیا کرتے تھے۔ اور ھشام امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی پر نہ فقط فخر کیا کرتے تھے بلکہ خود کو ”خوش نصیب“ کہا کرتے تھے۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے تعلیم و تربیت اور تہذیب و تمدن کے فروغ اور احیاء کے لیے شب و روز کام کیا۔ فرصت کے لمحوں کو ضروری اور اہم کاموں پر استعمال کیا ‘چونکہ ہمارے آئمہ میں سے کسی کو کام کرنے کا موقعہ ہی نہ دیا گیا ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام واحد ہستی ہیں کہ جنھوں نے بہت کم عرصے میں صدیوں کا کام کر دکھایا۔ پھر امام رضا علیہ السلام کو بھی علمی و دینی خدمات کے حوالے سے کچھ کام کرنے کا موقعہ میسر آیا۔ ان کے بعد فضا پھر بدتر ہوتی چلی گئی، حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا دور انتہائی مصیبتوں، پریشانیوں اور دکھوں کا دور ہے۔ آپ پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئیں، بغیر کسی وجہ اور جرم و خطا کے آپ کو زندگی بھر زندانوں میں رہ کر اسیرانہ زندگی بسر کرنی پڑی۔

ان کے بعد دیگر آئمہ طاہرین علیھم السلام عالم جوانی میں شھید کر دئیے گئے۔ ان کا دشمن بھی کتنا بزدل تھا کہ اکثر کو زہر کے ذریعہ شہید کر دیا گیا۔ ان پر عرصہ حیات اس لیے تنگ کر دیا تھا کہ وہ علم و عمل کے فروغ اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام نہ کر سکیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو ایک تو کام کرنے کا موقع مل گیا دوسرا آپ نے عمر بھی لمبی پائی تقریباً ستر (۷۰)سال تک زندہ رہے۔

اب یہ صورت حال کس قدر واضح ہو گئی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے ادوار میں کتنا فرق تھا؟ امام عالی مقام علیہ السلام کو ذرا بھر کام کرنے کا موقعہ نہ مل سکا‘ یعنی حالات ہی اتنے نا گفتہ بہ تھے کہ مصیبتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے سخت پریشان رہے۔ پھر انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ کو شہید کر دیا گیا‘ لیکن آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی مظلومیت نے پوری دنیا میں حق و انصاف کا بول بالا کر دیا اور ظالم کا نام اور کردار ایک گالی بن کر رہ گیا۔ امام حسین علیہ السلام کے لیے دو ہی صورتیں تھیں ایک یہ کہ آپ خاموش ہو کر بیٹھ جاتے اور عبادت کرتے دوسری صورت وہی تھی جو کہ آپ نے اختیار کی ‘یعنی میدان جہاد میں اتر کر اپنی جان جان آفرین کے حوالے کر دی ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو حالات و واقعات نے کام کرنے کا وقت اور موقعہ فراہم کر دیا۔ شہادت تو آپ کو نصیب ہونی تھی۔ آپ کو جونہی موقعہ ملا آپ نے چہار سو علم کی شمعیں روشن کرکے جگہ جگہ روشنی پھیلا دی۔ علم کی روشنی اور عمل کی خوشبو نے ظلمت و جہالت میں ڈوبی ہوئی سوسائٹی کو از سرنو زندہ کر کے اسے روشن و منور کر دیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئمہ اطہار علیہ السلام کی زندگی کا مقصد اور مشن اور طریقہ کار ایک جیسا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر امام صادق علیہ السلام نہ ہوتے تو امام حسین علیہ السلام بھی نہ ہوتے۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام نہ ہوتے تو امام صادق نہ ہوتے ۔یہ ہستیاں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہےں۔ امام حسین علیہ السلام نے ظلم اور باطل کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہادت پائی۔پھر آنے والے آئمہ اطہار علیہ السلام نے ان کے فلسفہ شہادت اور مقصد قیام کو عملی لحاظ سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

امام جعفر صادق۱علیہ السلامنے اگر چہ حکومت وقت کے خلاف علانیہ طور پر جنگ شروع نہیں کی تھی۔ لیکن یہ بھی پوری دنیا جانتی ہے کہ آپ حکام وقت سے نہ فقط دور رہے بلکہ خفیہ طور پر ان کے ساتھ بھر پور مقابلہ بھی کیا۔ ایک طرح کی امام علیہ السلام سرد جنگ لڑتے رہے۔ آپ علیہ السلام کی وجہ سے اس وقت کے ظالم حکمرانوں کی ظالمانہ کارروائیوں کی داستانیں عام ہوئیں اور ان کی آمریت کا جنازہ اس طرح اٹھا کہ مستحق لعن و نفریں ٹھہرے، یہی وجہ ہے کہ منصور کو مجبور ہو کر کہنا پڑا کہ

 ” ھذا الشجی معترض فی الحلق۔۔۔“

”کہ جعفر بن محمد میرے حلق میں پھنسی ہوئی ہڈی کے مانند ہیں۔میں نہ ان کو باہر نکال سکتا ہوں اور نہ نگلنے کے قابل رہا ہوں نہ میں ان کا عیب تلاش کر کے ان کو سزادے سکتا ہوں‘ اور نہ ان کو برداشت کر سکتا ہوں۔ “

یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ہمارے خلاف ہے … برداشت کر رہا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ امام علیہ السلام نے ہمارے خلاف لوگوں کو ایک نہ ایک دن اکٹھا کر ہی لینا ہے۔ اس کے باوجود بھی میں اتنا بے بس ہوں کہ ان کے خلاف ذرا بھر اقدام نہیں کر سکتا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنی حسن سیاست اور بہترین حکمت عملی کی بدولت اپنے مکار، عیار اور با اختیار دشمن کو بے بس کیے رکھا۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے دشمنوں ، مخالفوں کے مقابلے میں ہمہ وقت تیار رہیں۔ ہوشیاری و بیداری کے ساتھ ساتھ ہمارا قومی وملی اتحاد بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارا بزدل دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ وہ کسی وقت بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے۔ طاقت و غلبہ کے تصور کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو وقت کی نبض تھام کر سوچ سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں اور پھر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

 


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیغمبر اکرم کے کلام کی فصاحت و بلاغت
فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں
امام سجاد (ع) کی عبادت
دسویں مجلس ـ مصائب سیدالشہداء امام حسین علیہ ...
جشن مولود کعبہ اور ہماری ذمہ داری
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
امام حسین کا وصیت نامہ
اکیس رمضان المبارک یوم شہادت امیرالمؤمنین علیہ ...
حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ بطور نمونہ عمل
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment