اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

امام جعفر صادق کے ہاں ادب کی تعریف

ہم نے ابن راوندی کی سوانح حیات کی معمولی سی ایک جھلک دکھائی تاکہ پتہ چلے کہ جس مذہبی ثقافت کی بنیاد امام جعفر صادق نے رکھی تھی اس میں کس قدر بحث کیآزادی تھی اور ہر کسی کو اظہار خیال کی کھلی چھٹی تھی یہی ابن راوندی ایران کے علاقے عراق اور جعفر صادق کے مذہبی ثقافتی مکتب میں جو چاہتا سو لکھتا لیکن عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں اپنی تحریروں کے نتیجہ میں دو مرتبہ موت سے بال بال بچا ایک مرتبہ خلیفہ کے ہاتھوں اور دوسری بار لوگوں کے ہجوم کے قہر و غضب سے بچ نکلا اگر عباس صروم اسکی مدد نہ کرتا تو اس کا قتل یقینی تھا ۔

جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کی قوت کا راز اس میں تھا کہ اسکے چار ارکان میں سے صرف ایک رکن مذہبی باقی تین ارکان ادب ‘ علم اور عرفان تھے دنیا کی تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی مذہب کے مکتب میں علم و ادب کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی ہے جتنی جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں ہوئی ۔ جعفر صادق کی مذہبی ثقافت میں علم و ادب کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ محقق اپنے آپ سے پوچھتا ہیکہ مذہبی ثقافت میں ادب کی اہمیت زیادہ تھی یا مذہب کی اور کیا علم کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی یا مذہب کو ۔ جعفر صادق اس بات سے اگاہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ ایک مومن چونکہ متقین کے ایمان کا حامل ہوتا ہے پس اسے علم و ادب سے روشناس ہونا چاہیے آپ کہا کرتے تھے ایک عام شخص کا ایمان سطحی اور بے بنیاد ہے وہ چونکہ ایک عام انسان ہوتا ہے لہذا وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہو سکتا کہ کس پر ایمان لایا ہے اور کس کیلئے ایمان لایا ہے اور اسکے ایمان کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی اس لئے اسکے خاتمہ کا امکان ہوتا ہے ۔

لیکن وہ مومن جو علم و ادب سے بہرہ مند ہو گا اس کا ایمان مرتے دم تک متزلزل نہیں ہو گا کیونکہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہے کہ کس لئے اور کس پر ایمان لایاہے ؟

جعفر صادق یہ دکھانے کیلئے کہ علم و ادب کس طرح ایمان کی جڑوں کو گہرا اور مضبوط کرتا ہے دوسرے مذاہب کی مثال بھی دیتے تھے اور کہا کرتے تھے جب اسلام پھیل گیا اور جزیرہ العرب سے دوسرے ممالک تک پہنچا تو ان ممالک کے عام لوگوں نے اسلام کو جلدی قبول کر لیا لیکن جو لوگ علم و ادب سے آگاہ تھے انہوں نے اسلام کو جلدی قبول نہیں کیا بلکہ ایک مدت گذر جانے کے بعد جب ان پر ثابت ہو گیا کہ اسلام دنیا اور آخرت کا دین ہے تو پھر انہوں نے اسے قبول کیا۔

جعفر صادق نے ادب کی ایسی تعریف کی ہے جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کی اس سے اچھی تعریف کی گئی ہو گی انہوں نے فرمایا ادب ایک لباس سے عبارت ہے جو تحریر یا تقریر کو پہناتے ہیں تاکہ اس میں سننے اور پڑھنے والے کیلئے کشش پیدا ہو یہاں پر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جعفر صادق یہ نہیں فرماتے کہ تحریر یا تقریر اس لباس کے بغیر قابل توجہ نہیں اپ اس لباس کے بغیر بھی تقریروں اور تحریروں کو پر کشش سمجھتے ہیں لیکن آپ کے فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ ادب کے ذریعے تحریروں اور تقریروں کو مزید پر کشش لباس پہنایا جاتا ہے ۔

کیا امام جعفر صادق کی وفات سے لیکر اب تک اس ساڑھے بارہ سو سال کے عرصے میں اب تک کسی نے ادب کی اتنی مختصر جامع اور منطقی تعریف کی ہے ؟

جعفر صادق کا ادب کے متعلق دوسرا نظریہ یہ کہتا ہے ( ممکن ہے ادب علم نہ ہو لیکن علم کا وجود ادب کے بغیر محال ہے ) علم و ادب کے رابطے کے متعلق یہ بھی ایک جامع اور مختصر تعریف ہے اور جیسا کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے علم میں ادب ہے لیکن ممکن ہے ہر ادب میں علم نہ ہو ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ جعفر صادق علم سے زیادہ شغف رکھتے تھے یا ادب سے زیادہ لگاؤ رکھتے ؟ کیا آپ کے خیال میں شعر کی قدر و منزلت زیادہ تھی یا علم طبعیات کی بعض ایسے لوگ ہو گزرے ہیں جو علم و ادب دونوں سے برابر دلچسپی رکھتے تھے لیکن ایسے لوگوں کا شمار صرف انگلیوں پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ انسانوں کی اکثریت کی استعداد اتنی ہی ہے کہ یا تو وہ علم سے لگاؤں رکھتے ہونگے یا ان کی دلچسپی ادب سے ہو گی ۔ جو لوگ ادب سے شغف رکھتے ہیں وہ علم کو غم و غصے کا آلہ قرار دیتے ہیں اور مادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں جس کا مقصد محض ریا کاری اور لہو لعب ہے اور لم کی جانب رجوع کرنے والے کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ با ذوق اور خوش مزاج شمار کرتے ہیں ۔

جو لوگ علمی استعداد کے حامل ہوتے ہیں وہ ادب کو بچگانہ کام یا خیالی پلاؤ پکانے والے انسانوں کا خاصہ سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں ادب سے لگاؤ کسی سنجیدہ اور سلجھیہوئے انسان کا کام نہیں کاروباری طقبے کی نظر میں ادب محض زندگی کو فضول بسر کرنے کا نام ہے حتی کہ یہ طبقہ ادیبوں کی عقل سلیم کو بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کا خیال ہے کہ اگر ادب کے متوالوں میں عقل سلیم ہوتی تو وہ ہر گز ایسے فضول کام میں زندگی نہ گنواتے اس طبقے کو چھوڑئے کیونکہ یہ نہ صرف ادب کے قائل نہیں بلکہ جب علم نے صنعت کو فروغ دیا اور صنعت نے مادی ترقی میں مدد دی تب کہیں جا کر یہ لوگ علم کی اہمیت کے قائل ہوئے یعنی اٹھارویں صدیعیسوی کے آغاز سے اس کی اہمیت اجاگر ہوئی جب کاروباری طبقے نے محسوس کیا کہ صنعتیں مادی ترقی میں ممدو معاون ہیں تو تب انہوں نے صنعتوں کی طرف توجہ دی ۔

لیکن امام جعفر صادق ان نادر روزگار افراد میں سے تھے جو علم و ادب دونوں کے متوالے تھے جعفر صادق کی تدریس کے مقام پر اوپر یہ بیت رقم تھا ۔

لیس الیتیم قلمات والدہ ان الیتیم یتیم العلم والالب

یعنی یتیم وہ نہیں جس کا باپ فوت ہو گیا ہو بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہے عربوں میں جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کے وجود میں آنے سے پہلے ادب کا اطلاق صرف شعر پر ہوتا تھا جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں دور جاہلیت میں عربوں میں ثری ادب کا وجود نہ تھا اور پہلی صدی ہجری میں عربوں کے نثری ادب کے آثار معدود ہیں ان آثار میں حضرت علی کا تہج البلاغہ خاصی اہمیت کا حامل ہے جعفر صادق کو دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران نثری ادب کا شوق پیدا ہوا جیسا کہ کہاجا سکتا ہے کہ نثری ادب کو وجود میں لانے والے امام جعفر صادق تھے ۔

کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عرب قوم میں ادبی انعام کا رواج ڈالا اگر ادبی انعام سے مراد یہ ہے کہ شاعر یا مصنف کو کوئی چیز عطا کی جائے تو یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ شعراء کو نوازنے کی رسم جزیرة العرب میں زمانے سے جاری تھی اور اسلام کے بعد بھی یہ رسم جاری رہی اور جب کوئی شعر پڑھتا اور اسے اشراف کے پا س لے جاتا تو انعام سے نوازا جاتا تھا لیکن وہ لوگ جو نثری ادب میں اضافہ کرتے تھے انہیں صلہ دینے کا رواج تھا اور نہ ہی عرب قوم نثری عبارات کو ادب کا جزو شمار کرتی تھی چہ جائیکہ نثری عبارت کا صلہ ادیب کو ملتا ایک روایت کے مطابق نثری یاد گار اور انعام و اکرام عطا کرنیکی ابتدا امام جعفر صادق سے ہوئی ۔

اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ جعفر صادق نے ادبی نثر کے انعام کا تعین کیا لیکن البتہ یہ بات مشکوک ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے نثری ادیبوں کو انعام عطا کرنیکا رواج شروع کیا یا ان کے والد بزرگوار امام محمد باقر نے اس کام میں سبقت لی شروع شروع میں ادبی انعام دینے کیلئے تین ججوں کی کمیٹی تشکیل دی گئی ایک امامجعفر صادق اور دوسرے ان کے دو شاگرد ۔

اس کے بعد یہ کمیٹی پانچ ممبروں پر مشتمل ہو گئی اور اگر ان میں سے تین افراد ایک مصنف کو انعام کا حقدار قرار دیتے تو پھر مصنف انعام کا حقدار ٹھہرتا تھا ۔ جعفر صادق کی طرف سے جس عامل نے نثری ادب کی توسیع میں مدد دی وہ یہ تھا کہ انہوں نے کسی مصنف کو کسی خاص موضوع پر لکھنے کے لئے مجبور نہیں کیا اور ہر ایک اپنے ذوق کے مطابق لکھنے کیلئے آزاد تھا اور جو کچھ لکھتا بعد میں جعفر صادق کے سپرد کرتا اور آ اسے انعام کیلئے ججوں کے پینل کے سامنے پیش کر دیتے تھے اور اگر ججوں میں سے تین جج ‘ مصنف کو انعام کا حقدار قرار دیتے تو انعام اسکے سپرد کر دیا جاتا تھا جعفر صادق نے کھلے دل سے ہر قسم کی نظم و شعر کو ادب میں شامل کیا جعفر صادق کی نظر میں ادیب فقط وہ نہ ہوتا تھا جو شعر پڑھتا یا فی البدیہہ اشعار کے ذریعے اظہار خیال کرتا یا تقریر لکھتا اور پھر اسے ڑھتا بلکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی موضوع پر نظم یا شعر میں اظہار خیال کرتا جو امام جعفر صادق کے نظریئے کے مطابق ادب کی تعریف کے لحاظ سے دلچسپ ہوتا تو اس شخص کو ادیب شمار کیا جاتا تھا اور علم و ادب کو نہ صرف مذہبی ثقافت کے لحاظ سے ضروری گردانتے بلکہ انسانی وقار کی بلندی اور انسانوں میں اچھی صفات کے فروغ کیلئے بھیعلم و ادب کو لازمی خیال کرتے تھے ۔

آپ جانتے تھے کہ ایک ایسا معاشرہ جس کے افراد ادیب و عالم ہوں اس میں دوسروں کے حقوق کی پا مالی کم دیکھنے میں آتی ہے اور اگر سب علم و ادب سے آشنا ہو جائیں تو تمام طبقوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں امام جعفر صادق کی نظر میں مذہبی ثقافت جس کے چار رکن یعنی مذہب ادب علم و عرفان ہیں شیعہ مذہب کی تقویت و بقاء کیلئے بہت مفید اور موثر تھے امام جعفر صادق نے شیعہ مذہب کیلئے سن پیر کی مانند کوی بڑی عمارت تعمیر نہیں کی لیکن جو ثقافت وہ وجود میں لائے ہیں وہ سن پیر سے زیادہ دائمی ہے کیونکہ ایک مذہبی عمارت کو تباہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سن پیر کے پہلے کلیسا کو تباہ کر دیا گیا تھا لیکن جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کو کوئی ختم نہیں کر سکا ۔

سن پیر کا پہلا کلیسا قسطنطین (عیسائی روم کے پہلے بادشاہ) نے ۳۲۶ عیسوی میں بنانا شروع کیا اور چند سالوں کے بعد تکمیل کو پہنچا یہ کلیسا ماڈرن دور تک باقی رہا اس وقت جب ژول دوم عیسائی مذہب کے رہنما کے حکم سے اس کلیسا کو گرا دیا گیا اور جدید کلیسا کی تعمیر سروع کی گئی جو سن پیر کے نام سے روم میں پایا جاتا ہے اگر جعفر صادق مذہب شیعہ کیلئے ایک پر شکوہ عمارت تعمیر کرواتے تو ممکن تھا ایک ایسا آدمی پیدا ہوتا جو اس مذہب سے مخالفت کی بنا پر اس عمارت کو گرا دیتااور اج اس کا نام و نشان نہ ہوتا لیکن امام جعفر صادق نے شیعہ مذہبی ثقافت کی بنیاد کو اس طرح مستحکم اور مضبوط کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور اسے کوئی بھی تباہ نہ کر سکے اور نام و نشان نہ مٹا سکے آپ نے ثقافت کے چار ارکان کو جن کا ذکر اوپر آیا ہے تقویت پہنچائی خصوصا تین ارکان مذہب و ادب اور علم کیلئے کافی کوشش کی آ نے اس کیلئے اس قدر جدوجہد کی کہ دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں جو آپ کا تعلیم دینے کا زمانہ تھا اسلامی دنیا میں علم و ادب کی توسیع کا آغاز ہوا اور اگرچہ آپ تنہا علم و ادب کے محرک نہیں بنے لیکن آ نے سب سے پہلے اس راہ میں قدم رکھا اور دوسروں نے اس کی پیروی کی جعفر صادق علم و ادب کی توسیع اور علماء ادیبوں کو شوق دلانے کیلئے قدم آگے نہ بڑھاتے تو دوسری صدی کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران اور تیسری صدی جری کے تمام دور اور چوتھی صدی ہجری کے ساری عرصے میں جو بڑی ادبی و علمی تحریک وجود میں آئی ہر گز وجود میں نہ آ سکتی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ عباسی خلفاء نے علم و ادب کی ترویج میں سبقت حاصل کی وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔

&#پہلے عباسی خلفاء کا مقصد اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا اور ان کے بعد جو خلفاء آئے وہ زیادہ تر نفسانی خواہشات کے غلام تھے وہ کسی حد تک ہی علم و ادب کی طرف راغب ہوئے جیسا کہ ہم نے متوکل کے بارے میں مختصرا ذکر کیا ہے ۔

تیسری صدی ہجری اور چوتھی صدی ہجری میں علم و ادب کی جانب عباسی خلفاء کی توجہ کو اس زمانے کے رسم و رواج کی ضرورت سمجھا جا سکتا ہے نہ کہ علم و ادب کی طرف عباسی خلفاء کی خصوصی توجہ ‘ سنتیس ۳۸ عباسی خلفاء جنہوں نے مجموعا پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ حکومت کی ان میں سے صرف چند ہی علم و ادب کی طرف مائل ہوئے اور باقی مادی لذتوں کے حصول کی فکر میں لگے رہے ۔

بہر کیف اس بات سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ انہیں چند خلفاء کی علم و ادب سے دلچسپی ‘ علم و ادب کے فروغ کا باعث بنی اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ انہوں نے اس زمانے کی روش کے مطابق علم و ادب سے دلچسپی کا اظہار کیاچونکہ بیت المال ان کے تصرف میں تھا اور اس کے علاوہ وہ قیمتی تحائف بھی وصول کرتے تھے جو لگا تار ان کیلئے عوام بھیجتے تھے وہ شعراء خطیبوں مصنفین اور علماء کو بڑے بڑے انعامات سے نواز سکتے تھے اور یہ انعامات دوسروں کو علم و ادب کی تحصیل کی طرف مائل کرتے تھے تاکہ وہ بھی خلیفہ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا سکیں اور بڑے بڑے انعامات حاصل کریں ۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعراء جاہلیت کے زمانے میں عربی بدو قبائل کے سرداروں کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس فطرت ثانیا کی ابتدا خود عربوں نے کی تھی انہوں نے کسی اور قوم سے حاصل نہیں کی تھی کبھی کبھار ایسا ہوتا تھا کہ قبیلے کا سردار شاعرانہ ذوق کا حامل نہ ہوتا یا اشعار کا مفہوم نہ سمجھتا ت و بھی رسم و رواج کے مطابق وہ شاعر کے کلام کو ضرور سنتا تھا شو بہناور کے بقول چونکہ عرب بدووں کے قبائل کے سردار جب بیکار اور نکمے پن سے تنگ آ جاتے تھے تو اپنا وقت شاعروں کے نغمے سننے پر صرف کرتے تھے ۔

شو بنہاور ‘ عرب بدو قبائل کے اشعار سننے کو نہ صرف ان کی بیکاری پر محمول کرتا ہے بلکہ اس کے بقول ہر وہ کام جو انسان حصول معاش کے علاوہ انجام دیتا ہے وہ سب بیکاری میں شامل ہیں مثلا کھیلیں ‘تفریحات مہمان نوازیاں وغیرہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو فضول کاموں میں لگانا چاہتا ہے اس جرمن فلسفی نے اپنے کمرے میں اپنے سر کے اوپر ایک کتبہ نصب کیا ہوا تھا جس پر کندہ تھا کہ وہ انسان جو تمہیں دو پہر یا شام کے کھانے کی دعوت دے تمہارا سب سے برا دشمن ہے کیونکہ وہ تمہیں کام نہیں کرنے دیتا ۔

جب شاعر قبیلے کے سردار کے سمنے اپنے اشاعر پڑھتا تو وہ اسے انعام و اکرام سے نوازتا اور ادب کا تقاضا یہ تھا کہ شاعر اپنے اشعار میں قبیلے کے سردار کی شان میں چند بیت شامل کر دیتا تھا ۔

لیکن اس کی شان کے بیان کی ایک حد معین تھی اور اس طرح دور جاہلیت کے شعراء مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے تھے اور اپنے آ کو قبیلہ کے سردار کے مقابلے میں پست ظاہر نہیں کرتے تھے ان کی مدح میں ایسا شکر یہ ہوتا تھا جو ایک مہمان ‘ میزبان کی مہمان نوازی پر ادا کرتا ہے ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ شعراء جو شاعروں کے اجتماعی میں شعر پڑھتے تھے لوگوں سے رقم بٹورتے تھے جب کہ ایسا ہر گز نہیں ۔

دور جاہلیت میں عربی شعراء اپنی عزت و وقار کا خاص پاس رکھتے تھے وہ قبائل کے سرداروں سے انعام لیتے اسے ایک طرح کی مزدوری سمجھا جاتا تھا اس طرح قبیلے کے رئیس کو صرف اتنا ہی حق پہنچتا تھا جتنا شاعر اپنے شعروں میں ادا کر دیتا تھا شاعر یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوتا تھا اس نے قبیلہ کے سردار کی شان میں شعر کہہ کر اس پر احسان کیا ہے لیکن سردار قبیلہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے شاعر کو نواز کر احسان کیا ہے وہ لوگ جو شاعروں کے اجتماع میں شعر خوانی کرتے ان کا مقصد شہرت اور مقبولیت پانا ہوتا تھا وہ لوگوں سے کسی تحفے وغیرہ کے امیدوار نہیں ہوتے تھے ۔

لیکن امام جعفر صادق کے زمانے تک کسی دور میں ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ جزیرہ عرب میں کسی شاعر نے شاعروں کے اجتماع میں سردار قبیلہ کے سامنے نثر کا کوئی قطعہ پیش کیا ہو وہ مضامین جو شعر کے قالب میں نہیں ڈھلتے عربوں کی نظر میں ادب کا حصہ نہیں تھے ۔

حتی کہ قرآن نازل ہوا اور قرآن کی نثر عرب بدوؤں کا پہلا نثری سرمایہ قرار پائی لیکن عرب قوم چونکہ قرآن کو ایک معجزہ خیال کرتی تھی لہذا وہ اسے ادب سے بالا تر شے خیال کرتی تھی اس کے باوجود کہ قران نے عربوں کو اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ نثر بھی ادبی سرمایہ قرار پا سکتی ہے پہلی صدی ہجری میں ماسوائے حضرت علی اور آ کے پوتے زین العابدین اور پھر محمد باقر کے کسی نے بھی ادبی نثر پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی کوئی کتاب لکھی ۔

جعفر صادق کے زمانے تک جو لوگ کتاب لکھنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ انہیں اپنے افکار کو شعر ی قالب میں ڈھالنا چاہیے اور چونکہ شعر اوزان و بحروں کا محتاج ہوتا ہے اور شاعر قافیے کی رعایت کرتا تھا لہزا وہ لوگ ازادی سے اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کر سکتے تھے ۔

جعفر صادق نے ادبی نثر کی توسیع کی مدد سے ان اسلامی مفکرین کے افکار کو پر عطا کئے جو اس وقت تک شعر کی بحروں میں قید تھے اور اس کے بعد جو کوئی کتاب لکھنا چاہتا نثر سے کام لیتا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ادب میں شعر کی اہمیت پر بھی کوئی اثر نہ پڑتا ۔

جعفر صادق کا فرمان جو انہوں نے اپنے بیٹھنے کی جگہ اپنے سر کے اوپر کندہ کروایا ہوا تھا کس قدر شاندار ہے کہ " یتیم وہ نہیں جس کا باپ نہ ہو بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہو "


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment