اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

ہنگام شہادت مولا علی کی وصیت

''کُتِبَ علیکم اذا حضراحدکم الموت ان ترک خیراً الوصیة للوالدین و الاقربین بالمعروف حقاً علی المتقین'' (القرآن، بقرہ ١٨٠)

سب سے پہلے میں وصیت کے معنی و مفہوم کے حوالے سے یہاں کچھ اہم باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔

واضح رہے کہ وصیت ایک عربی لفظ اور ایک اسلامی و فقہی حکم ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے وصیت کے معنی کسی خاص آلت، وقت اور زمانے کی قید کے بغیر سفارش و نصیحت کے ہوتے ہیں۔ لیکن اسلامی و فقہی حکم ہونے کے لحاظ سے اصطلاح فقہ میں وصیت کی تعریف اس طرح سے کی گئی ہے: ''وصیت یعنی انسان یہ سفارش کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے کچھ امور انجام دئیے جائیں'' مرنے والا جس شخص کو انجام امور کی ذمہ داری سونپتا ہے اسے ''وصی'' کہا جاتا ہے١۔ عرف عام میں بھی وصیت سے یہی فقہی معنی مراد لئے جاتے ہیں۔ اور لفظ وصیت سے افراد عرف کا ذہن لغوی معنی کی طرف نہیں جاتا ہے۔ اگرچہ قرآن اور روایات میں وصیت لغوی و فقہی دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وصیت ایک فطری اور اجتماعی عمل ہے۔ چونکہ یہ ہر سماج اور معاشرے میں باقاعدہ رائج اور شائع ہے۔ غالباً دنیا کے ہر سماج میں اسے مرکز توجہ ، لائق عمل اور قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً مذہب اسلام نے وصیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور اسے فرائض و واجبات کے زمرے میں قرار دیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے سورۂ بقرہ کی آیت ١٨٠ میں ارشاد ہوتا ہے:

''کُتِبَ علیکم اذا حضراحدکم الموت ان ترک خیراً الوصیة''  تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب بھی تم میں سے کوئی قریب المرگ ہو تو اگر مال و متاع رکھتا ہے تو وصیت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسلام کے تمام انبیائ، اولیائ، اوصیاء اور علماء کی وصیتیں انتہائی اہتمام کے ساتھ باقاعدہ ثبت و ضبط نظر آتی ہیں۔ سردست ان سب سے غض ّ نظر کرتے ہوئے ہمیں صرف ولی خدا، وصی رسولۖ، امیر المومنین، امام المتقین حضرت علی بن ابی طالب کی وصیتوں کا مختصر تذکرہ کرنا مقصود ہے۔ 

یوں تو مولائے کائنات کی متعدد وصیتیں مختلف کتابوں میں نقل کی گئی ہیں۔ لیکن ہمیں آپ کی مشہورِ زمانہ اور شہرۂ آفاق کتاب نہج البلاغہ سے آپ کی وصیتوں کے کچھ اقتباسات پیش کرنا ہے۔

قارئین کرام! آپ بہتر جانتے ہیںکہ فطری اور عادی حالت میں مرنے والے انسان کے لئے بھی حکم وصیت پر عمل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ تو سوچئے کہ اس قریب المرگ انسان کے لئے وصیت کرنا کس قدر کٹھن ہوگا کہ جس کا سر زہرِہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سے مجروح اور پورا بدن مسموم ہو چکا ہو۔ لیکن یہ مولائے کائنات ہیں جو ایسے کربناک عالم میں بھی حکم وصیت پر کما حقہ عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور انتہائی ہدایت افروز اور ارشاد و حکمت سے لبریز وصیتیں فرماتے ہیں۔ جو واقعاً اپنی مثال آپ ہیں۔ اور دنیا کے تمام با شعور انسانوں کے لئے با عنوان وصیت  دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 

اب ہم اپنے موضوع کے تحت مولائے کائنات کی ان دو وصیتوں کے کچھ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیںجو آپ نے اپنے معصوم بیٹوں سے ابن ملجم ملعون کی ضربت کھانے کے فرمائی تھیں۔ مولا نے امام حسن اور امام حسین  کو خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلی وصیت اس طرح فرمائی:

(١)''اوصیکما بتقویٰ اللہ'' اے بیٹو میں تم دونوں کو تقوائے الہی کی وصیت کرتا ہوں ۔ اللہ رے تقوائے الہی کی اہمیت و عظمت کہ زندگی کے کٹھن اور انتہائی سخت لمحات میں بھی مولا اسے فراموش نہیں فرماتے۔ ایسے حساس ہنگام میں تقوائے الہی کا بطور وصیت دائمی حکم دینا اس کی غیر معمولی اہمیت و عظمت پر دلالت کرتا ہے اور کیوں نہ ہو اس لئے کہ قرآن کریم نے ''انّما یتقبل اللہ من المتقین'' ٢کہکر یہ واضح کردیا ہے کہ تمام اعمال کی قبولیت کا انحصار تقوائے الہی پر ہے۔ ظاہر ہے اعمال کی قبولیت ہے اعمال میں وزن و سنگینی پیدا کرتی ہے اور قبولیت جب تقوائے الہی کے بغیر ممکن نہیں ہے تو اس کا صاف سا مطلب یہ ہے کہ تقوا انسان کی عملی زندگی میں ایک کلیدی اور اساسی اہمیت رکھتا ہے۔

(٢) مولا نے دوسری وصیت کرتے ہوئے فرمایا :دیکھو بیٹو دنیا کی طرف راغب نہ ہونا اگر چہ وہ تمہاری طرف راغب ہو۔

اس وصیت کی اہمیت مرسل اعظمۖ کی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے ''حبّ الدنیا رأس کلّ خطیئة'' ٣  کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ مولا نے دنیا سے بے رغبتی کی وصیت فرما کر گویا ہر برائی سے نجات پانے کی بہترین تدبیر تعلیم فرما دی ہے۔ 

(٣) مولا نے تیسری وصیت کرتے ہوئے فرمایا: متاع دنیا میں جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرنا مولائے کائنات کی یہ وصیت قرآن کریم کے اس حکم ''لیکلاتأسوا علی ما فاتکم و تفرحوا بما آتٰکم'' ٤ سے ماخوذ ہے اور زہد کی بہترین تعلیم ہے۔

(٤) چوتھی وصیت میں مولا نے فرمایا: (ہمیشہ) حق بولتے رہنا۔ اللہ اکبر علی  عالم نزاع میں بھی دنیا کو حق گفتاری کا پیغام دے رہے ہیں۔ جو حدیث پیغمبرۖ  ''علی مع الحق  و الحق مع علی'' کی بہترین غمازی کررہا ہے۔ 

(٥) پانچویں وصیت کرتے ہوئے مولا نے فرمایا: ''تم دونوں اجر کے لئے عمل کرنا''۔ واضح ہے کہ کسی عمل پر اجر اسی وقت متحقق ہوتا ہے جب اسے قربت الہی کے لئے انجام دیا جائے اور اسی کا دوسرا نام اخلاص ہے۔

(٦) چھٹی وصیت کرتے ہوئے مولا نے فرمایا کہ: ''ظالم کے دشمن اور مظلوم کے ناصر و مددگار رہنا'' مولا کی اس وصیت کی اہمیت آنے والی حدیث رسولۖ سے بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے۔ مرسل اعظمۖ فرماتے ہیں کہ ''ظالمین اور انکے حامی و مددگار جہنمی ہیں''٥  ایک دوسری حدیث میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ جو مظلوم کی ندائے ''یالَلمُسلمین'' کو سنے اور اس کی فریاد رسی نکرے وہ مسلمان نہیں ہے۔ ٦

اس کے بعد مولا کا لہجۂ وصیت عمومیت اختیار کرتا ہوا نظر آتا ہے گویا مولائے کائنات تمام عالم انسانیت کو فلاح و ہدایت بخش تعلیمات سے فیضیاب کرنا چاہتے ہیں۔

(٧) اس حصّے میں آپ سبکو تقوائے الہی اختیار کرنے کی وصیت کے بعد اپنے امور کو منظم رکھنے کی تاکید فرماتے ہیں۔ مولا کی یہ وصیت بھی بہت اہم درجہ رکھتی ہے چونکہ تاریخ اس بات کی باقاعدہ گواہی دیتی ہے کہ دنیا کی تمام کامیاب شخصیتیں ''نظم و ضبط'' ہی سے منزل کمال تک پہونچی ہیں۔

(٨) آٹھویں وصیت میں مولا فرماتے ہیں کہ ''اپنے درمیان صلح و آشتی کو برقرار رکھنا'' اور اس اہم چیز کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے خود مولائے کائنات حدیثِ مرسل اعظمۖ  ''صلاح ذات البین افضل من عامّة الصلوٰة و الصیام'' ٧  سے استناد فرماتے ہیں۔

(٩) نویں وصیت میں مولانے فرمایا کہ ''یتیموں کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا خدا سے ڈرتے رہنا'' چونکہ یتیم ظاہراً حقیقی حامی و مدافع سے محروم ہوتا ہے۔ اس لئے اذیت و آزار کے وقت اسے اپنی محرومی و یتیمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے مرسل اعظمۖ نے بھی حکم دیا ہے کہ یتیم کے لئے پدر مہربان کی طرح رہو۔٨

(١٠) دسویں وصیت میں آپ نے فرمایا: ''ہمسایوں کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو'' دختر رسولۖ اور زوجۂ مولائے کائنات حضرت صدیقہ طاہرہ کا یہ قول بھی ہمسائیگی کی اہمیت کے سلسلے میں کافی شہرت رکھتا ہے۔ ''الجار ثمّ الدار''  

(١١) گیارہویں وصیت میں مولا فرماتے ہیں: ''قرآن کے سلسلے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اللہ سے ڈرتے رہنا'' قرآن کریم انسان کے لئے دستور زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر انسان اس سے غفلت برتے گا تو دنیا و آخرت دونوں جگہ یقینا خسارہ اور گھاٹا اٹھائیگا۔

(١٢) بارہویں وصیت میں آپ نے فرمایا: ''نماز کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو چونکہ وہ تمہاے دین کا ستون ہے'' ظاہر ہے اگر کسی عمارت کا ستون گر جائے تو اس کا پورا وجود خطرے کی زد میں آ جاتا ہے۔

(١٣) تیرہویں وصیت میں آپ نے فرمایا ''اللہ کے گھر کے سلسلے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اللہ سے ڈرتے رہنا'' شاید اسی عظیم وصیت کا اثر تھا کہ خانہ خدا کی تعظیم بجالاتے ہوئے آپ کی اولاد نے متعدد مرتبہ پاپیادہ حج انجام دئیے ہیں۔

(١٤) آپنے بعنوان وصیت فرمایا: ''اپنے اموال، جان اور زبان سے جہاد کرنے کے بارے میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو'' مولا نے تمام اسلامی سماج کو دین اسلام کے لئے ہر قسم کے جہاد کے لئے آمادگی کی تلقین فرما کر اسے مجاہدانہ زندگی گزارنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ یقینی ہے اگر ہر مسلمان ایسی زندگی گزارنے پر آمادہ ہوجائے تو اسلام کسی دور میں بھی غربت و بیچارگی کا شکار نہیں ہو سکتا۔

(١٥) اس وصیت میں مولا نے فرمایا : ''تم پر ایک دوسرے سے ملنا جلنا اور آپس میں جود و بخشش سے کام لینا فرض و واجب ہے'' بلا تردید مولا کی اس وصیت کو ہم آیۂ قرآنی ''انّما المومنون اخوة'' کی بہترین تفسیر قرار دے سکتے ہیں چونکہ حقیقتاً تواصل و تباذل ہی ایسی چیز ہے جس سے اخوّت و برادری کا پتہ چلتا ہے۔

(١٦)  ''اور (دیکھو ) امر بالمعروف و نہی از منکر کو ترک نہ کرنا'' ظاہر ہے کہ امر و نہی کا ترک کر دینا دین میں کمزوری کا باعث بنتا ہے اور یہ ایک غیرتمند مسلمان کے لئے قابل تحمل نہیں ہونا چاہیے۔

(١٧) ''اے فرزندان عبد المطلب میرے بعد ایسا نہ ہو کہ تم قتل امیر المومنین کے نعرے بلند کرتے ہوئے خون مسلمین سے ہاتھ رنگ بیٹھو خبردار میرے بعد فقط میرے قاتل کو قتل کرنا'' ٩  مولا نے یہ وصیت فرماکر عالم اسلام میں فتنہ انگیزی کا مطلقاً سدّ باب فرما دیا ہے۔ چونکہ آپ کی نظریں دیکھ چکی تھیںکہ کچھ دنیا پرست مشہور شخصیتیں قتل عثمان کے بہانے مسلمانوں کے خون سے با قاعدہ ہولی کھیل چکی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ سید رضی نے نہج البلاغہ ہی میں مولائے کائنات کی شہادت سے تھوڑی دیر پہلے کے ایک اور وصیت نامہ کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن ہم خوف طوالت کی وجہ سے اسے یہاں پیش کرنے سے معذور ہیں۔

حوالے:۔

١۔ توضیح المسائل، آیة اللہ فاضل لنکرانی، ص٥٣٠

٢۔ قرآن کریم سورۂ مائدہ ٢٧

٣۔ بحار الانوار جلد ٧٠ صفحہ ٢٣٩

٤۔ قرآن کریم سورۂ حدید ٢٣

٥۔ کنز العمال جلد ٣ صفحہ ٤٩٨

٦۔ اصول کافی جلد ٢ صفحہ ١٦٢

٧۔ نہج البلاغہ وصیت ٤٧ صفحہ ٣٩٨

٨۔ بحار الانوار جلد ٧٧ ص١٧٣

٩۔ اس مقالہ میں وصیت نامۂ مولا علی  کے تمام اقتباسات، وصیت ٤٧ صفحہ ٣٩٨سے ماخوذ ہیں۔


source : http://www.riyazulquran.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment