اردو
Saturday 20th of April 2024
1
نفر 0

ہم فروع دین میں تقلید كیوں كریں ؟

ذہن انسانی میں جہاں بہت سارے سوالات احكام شرعی كے سلسلے میں ابھر كر آتے ہیں وہیں سب سے زیادہ فلسفہ تقلید پر سوال ذہن میں پیدا ہوتاہے كیونكہ:

1) تقلید ایك ایسی ضرورت ہے كہ انسان چاہے تو اس مسئلے میں خود معلومات كرے اور كسی سے تقلید كے سلسلے میں سہارا نہ لے، اگر مكلف اس كی ضرورت كوسجھ گیا تو پھر مجتہدین كے فتوے كی اہمیت خود بخود سمجھ میں آجارئے گی ـ

2) فلسفہ تقلید در حقیقت وہی دلیل و استناد ہیں جو مكلف كے لئے تقلید كی ضرورت كو ثابت كررہے ہیں ـ

لزوم تقلید

اسلامی شریعت میں واجبات و محرمات 1 دونوں پائے جاتے ہیں، خدا نے ان كو انسان كی دنیا وآخرت كی سعادت كے لئے وضع كیا ہے، اگر اس نے ان دونوں پر عمل نہیں كیا تو نہ سعادت تك پہونچ سكتا ہے اور نہ ہی مخالفت كی صورت میں خدا كے عذاب سے امان میں ہے ـ

دوسرے یہ كہ ایسا نہیں ہے كہ ہر مسلمان قرآن وروایت یا اپنی عقل كے ذریعے احكام شرعی كو معلوم كرے قرآن نہ تو توضیح المسائل كی طرح ایك مسئلے كی كتاب ہے جس میں صریحی طور پر احكام شرعی بیان ہوئے ہیں اور نہ ہی معصومین علیھم السلام كی روایتیں ایسی ہیں اور نہ انسان اپنی عقل كے ذریعے سارے احكام كو معلوم كرسكتا ہے ـ

شرعی احكام كو سمجھنے كے لئے ان چیزوں آیات، روایات، حدیث صحیح اور غیر صحیح نیز ان سب كو ایك جگہ جمع كركے اور نہ جانے دسیوں دیگر مسائل كو سجھنے كا محتاج ہے ـ

ایسی صورت میں انسان كو تین صورتوں كا سامنا ہے ـ

(۱) علمی صلاحیت (كہ یہی اجتہاد ہے) كو بڑھائے ـ

(۲) تمام مجتہدین كے فتوے كو پڑھ كر اس طرح عمل كرے كہ سب كے فتوے كے مطابق (احتیاط كرے تا كہ) عمل صحیح ہوجائے ـ

(۳) ایسے صاحب علم كی رائے پر عمل كرے جو شرعی احكام میں ماہر ہو ـ

بے شك پہلی صورت میں انسان مجتہدین جائے گا اور بقیہ دوصورتوں سے سبك دوش ہوجائے گا اگر اس منزل تك نہیں پہونچ سكا تو دو ہی صورت ہے

دوسری صورت میں تمام آراء كی معلومات اور بہت سارے موارد میں طریقہ احتیاط كرنے كی ضرورت ہے اس صورت میں انسان كی معمولی زندگی مختل ہوسكتی ہے ـ

تیسری صورت انسان كو شرعی احكام سے مختل نہیں كرے گی اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو دیگر امور میں بخوبی پایا جاتا ہے مثال كے طور پر ـ

ایك ماہر انجینیئر كو فرض كرلیجئے كہ بیمار ہوگیا اپنے علاج كے لئے خود ڈاكٹری پڑھے یا تمام ڈاكٹروں كے نسخے كا مطالعہ كركے اس طرح دوا تجویز كرے كہ سب پر عمل در آمد ہوجائے اور بعد میں شرمندہ نہ ہو، یا پھر ایك ماہر ڈاكٹر كے پاس چلا جائے ـ

پہلی صورت اس كو جلدی صحتیاب نہیں كرسكتی ہے دوسری صورت ناممكن ہے اور اس كو اپنے امور سے اتنی فرصت نہیں ہے كہ نسخوں كو دیكھے اور پڑھے، لہذا ایك ہی صورت ہے كہ فوراً ایك ماہر ڈاكٹر كے پاس جائے اور اس كی رائے پر عمل كرے، وہ اس كام میں نہ خود پشیمان ہوگا اور نہ ہی اس كے دوست و احباب سرزنش كریں گے بلكہ اكثر موارد میں راہنمائی كریں گے ـ

مكلف بھی مجتہد عالم كے فتوے پر عمل كرے تو نہ آخرت میں پشیمان ہوگا اور نہ عذاب الہی كا مستحق، بلكہ مقتضائے زمان كے موافق احكام شرعی پر عمل كركے خود كو نجات دلائے گا، تقلید حقیقت میں جاہل كا عالم كی طرف رجوع كرنا ہے یہ چیز مقلد كے لئے باعث ننگ و عار نہیں ہے كیونكہ اس مقام پر جہالت كے معنی نسبی ہین یعنی ایسا شخص ہے جو مسائل شرعی میں مجتہد نہیں ہے اور اس كی معلومات ناقص ہیں اگر چہ دوسرے امور میں ماہر اور صاحب علم ہے یا فقہی مسائل میں تھوڑی معلومات ركھتا ہے ـ

مجتهدین خود دوسرے امور میں ماہرین كی طرف رجوع كرتے ہیں اس مراجعت كو علم سمجھتے ہیں اس كی روشن دلیل امام خمینی (رح) تھے كہ ان كے ڈاكٹر نے كہا یہ ـ

میں نے ابھی تك علاج میں اس قدر كسی انسان كو ڈاكٹر كافرمانبردار نہیں دیكھاہے ـ

انسان اپنی روزمرہ كی زندگی میں عمومی طور پر انھی امور كو انجام دلاتا ہے جس میں مہارت نہیں ركھتا ہے اور ماہر كی طرف رجوع كرتا ہے ڈاكٹر اپنی گاڑی كو بنوانے كے لئے مكینیك كے پاس جاتا ہے انجینیئر اپنے علاج كے لئے ڈاكٹر كے پاس ان میں كا كوئی بھی انسان خود كو جاہل اور گرا ہوا نہیں سمجھتا ہے كیونكہ اہل علم كی طرف رجوع كرنا یعنی ماہرین كے پاس جانا دور حاضر میں ایك انسان كے لئے سارے علوم كی تعلیم حاصل كرنا كافی اور غیر ممكن ہے آج علماء كی اكثریت مسائل شرعی میں تقلید كرتی ہے كیونكہ یا تو درجہ اجتہاد پر فائز نہیں ہوئے ہیں یا پھر اس كی ضرورت محسوس نہیں كرتے ہیں ـ

اور اپنے اوقات كو دوسرے علوم میں مہارت حاصل كرنے میں مشغول ہیں یہ جو كہا جاتا ہے كہ "مجتہدین نے اپنی طرف سے عوام پر تقلید واجب كر ركھی ہے" یہ دو وجہوں سے غلط ہے ـ

تقلید كرنا ایك ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں مجتہد كے فتوے مقلد كے لئے سود مند ہوں كیونكہ یہ ایك ایسا عقلی مسئلہ ہے كہ ہر عاقل اس كو اچھی طرح سمجھتا ہے پس تقلید اصولی نہیں ہے، ہاں فروعات كی تقلید جیسے دنیا سے جانے والے مجتہد كی تقلید پر باقی رہنا اور اس كے مانند دیگر مسائل میں تقلید ہے ـ

مكلف جب خود ہی تقلید كے ضروری یا جائز ہونے تك پہونچ گیا ہے تو وہ خود كسی مجتہد كی تقلید كرے اور اس كے فتوے كے اوپر عمل كرے ـ

آیات و روایات نے تقلید كرنے كا حكم دیا ہے جیسے (۱) فاسئلوا ھل الذكر ان كنتم لاتعلمون 2

اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھو

اور امام جعفر صادق علیہ السلام كا ارشاد ہےكہ ـ

"و اما من كان من الفقھاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ، مخالفا لھواہ، مطیعا الامرلاہ٬ فللعوام ان یقلدوہ" 3

اگر كوئی فقیہ اپنے نفس كی حفاظت اور دین كی محافظت كرے خواہشات نفسانی كی مخالفت اور اپنے مولی مطیع و فرمانبردار ہو تو عوام كو چاہئے كہ اس كی تقلید كرے ـ بظاہر یہ كہ علماء دین عوام كو جاہل سمجھتے ہیں یا اس كے مانند دیگر چیز یہ پرو پگنڈا ان لوگوں كی طرف سے ہے جو علماء اور عوام كے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں ـ

1. احكام شرعی صرف واجب و حرام میں منحصر نہیں ہے بلكہ ان دونوں (واجب وحرام ) كا بجالانا ہی احكام الزامی ہے ـ

2. سورہ نحل آیت ۴۲، اور انبیاء آیت ۷ ـ

3. وسائل الشیعہ ج۱۸، ص۹۴ ـ حر عاملی ـ 


source : http://www.shiastudies.com
1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
کیا یا علی مدد کہنا جائز ہے
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...

 
user comment

Suzy
Full of saienlt points. Don't stop believing or writing!
پاسخ
0     0
13 مرداد 1390 ساعت 1:44 بعد از ظهر