اردو
Saturday 20th of April 2024
1
نفر 0

مھدی منتظر اور اسلامی فکر

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے سلسلہ نسب کے بارے میں جو احادیث واردہوئی ہیں وہ سب کی سب ایک ہی نسب کوبیان کرتی ہیں ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کنانی ،قریشی اورہاشمی ہیں

مقدسی شافعی نے ’عقدالدرر میں حاکم نے "مستدرک "میں ایک حدیث نقل کی ہے جوحضرت امام مہدی علیہ السلام کے نسب کوکنانہ تک پھرقریش تک اور بنی ہاشم تک پہنچاتی ہے یہ قتادہ کی روایت ہے جسے اس نے سعید بن مسیب سے روایت کیاہے قتادہ کہتا ہے میں نے سعید بن مسیب سے کہا کیا (وجود)حضرت امام مہدی علیہ السلام حق ہے ؟۔

اس نے جواب دیاحق ہے ۔

میں نے کہا:وہ کس کی اولادسے ہوں گے ؟

اس نے جواب دیاکہ !کنانہ کی اولادسے۔

میں نے کہا:اس کے بعدکس سے؟۔

کہتا ہے :قریش سے

میں نے کہا:پھرکس سے ؟۔

کہتا ہے !بنی ہاشم سے شافعی لکھتے ہی اسے امام ابوعمر عثمان بن سعید مقری نے اپنی سنن میں ذکرہے اوراس کوذکرکے تھوڑے سے اختلاف سے قتادہ سے اورانہوں نے سعیدبن مسیب سے نقل کیاہے ۔

اس کے بعدتحریرکرتے ہیں کہ خوداسے امام ابوالحسین احمدبن جعفرمناوی اورامام عبداللہ نعیم بن حمادنے بھی ذکرکیاہے(عقدالددر۴۲۔۴۴ باب اول ،مستدرک حاکم ۴:۵۵۳مجمع الزوید ۷:۱۱۵)

 

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خود حدیث میں تضادہے کیونکہ ایک مرتبہ ا س حدیث میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کا سلسلہ نسب کنانہ بتایاگیا ہے ،دوسری مرتبہ قریش اورتیسری مرتبہ بنی ہاشم۔

ہاشمی قریشی ہیں اورہرقریشی کنانہ کی اولادسے ہے کیونکہ علماء انساب کا اتفاق ہے کہ قریش کنانہ کے بیٹے نضرکا لقب ہے

 

حدیث کی روشنی میں حضرت امام مہدی (عج)کا حضرت عبدالمطلب کی اولادسے ہونا

اس حدیث کو ابن ماجہ وغیرہ نے انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہتے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا:۔

نحن ولد عبدالمطلب سادةااہل الجنة :انا وحمزہ وعلی وجعفر ،والحسن،والحسین ،والمھدی

ہم اولادعبدالمطلب اہل بہشت کے سردارہیں "حمزہ ،علی جعفر،حسن ،حسین اورمہدی"(سنن ابن ماجہ۲:۱۳۶۸،باب خروج المہدی ،مستدرک حاکم ۳:۲۱۱، شیخ طوسی کی کتاب الغیبة :۱۱۳،سیوطی کی جمع الجوامع۱:۸۵۱)

اور عقد الدرر میں اسے ا ن الفاظ کے ساتھ ذکرکیاہے۔

"نحن سبعة بنو ابو مطلب سادات اہل الجنة :انا واخی علی وعمی حمزہ وجعفر ،والحسن،،والحسین ،والمھدی

عبدالمطلب کے ہم سات بیٹے اہل بہشت کیاسردارہیں "میں ۔میرا بھائی علی ۔میراچچا حمزہ ۔جعفر ۔حسن ۔حسین اورمہدی اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ محدثین کی جماعت نے اسے اپنی اپنی کتابو ں میں ذکرکیا ہے "۔

ان میں سے چندہیں امام ابوعبداللہ محمدبن یزیدبن ماجہ قزوینی نے اپنی سنن میں ابو القاسم طبرانی نے اپنی معجم میں حفاظ ابونعیم اصفہانی وغیرہ ۔

یہ حدیث پہلی حدیث کے ساتھ تضادنہیں رکھتی (عقدالدرر:۱۹۵باب ہفتم۔)کیونکہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابومطلب حضرت محمدکے داداہیں وہ ہاشم کے بیٹے ہیں پس عبدالمطلب کے بیٹے حتمی طورپرہاشمی ہیں لہذاحضرت امام مہدی علیہ السلام عبدالمطلب بن ہاشم قریشی کنانی کی اولا دمیں سے ہیں۔

 

حدیث کی روشنی میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کاحضرت ابو طالب کی اولادسے ہونا

اس حدیث کوشیخ مفیدنے ارشادمیں اورمقدسی شافعی نے عقدالدررمیں نقل کیا ہے اورلکھاہے کہ نعیم بن حمادنے کتاب الفتن میں اسے ذکرکیاہے۔

اوریہ حدیث سیف بن عمیرہ سے مروی ہے کہتے ہیں میں ابوجعفرکے پاس بیٹھاتھاکہ اس نے مجھے سے کہاکہ اے سیف بن عمیرہ آسمان سے ایک منادی اولادابو طالب میں سے ایک مردکا نام لیکرندادے گا۔

میں نے کہا آپ پرفداہوجاوں اے امیرالمومنین آپ یہ کیسی روایت سنارہے ہیں۔انہوں نے کہا ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جاں ہے اس لیے کہ میرے کانوں نے اسے سناہے۔

میں نے کہااے امیرالمومنین میں نے یہ حدیث اس سے پہلے نہیں سنی تھی۔

انہوں نے کہااے سیف بن عمیرہ یہ حق ہے اورجب یہ ہوگاہو سب سے پہلے میں اس پرلبیک کہوں گابیشک یہ ندا ہمارے چچا کی اولاد میں سے ایک مردکے لیے ہوگی میں نے کہاوہ اولادفاطمہ سلام اللہ علیھا سے ہوگا۔

انہوں نے جواب دیا!ہاں اے سیف اگراس میں نے اسے ابوجعفرمحمدبن علی سے نہ سنا ہوتاتوسارے اہل علم زمین مجھے یہ حدیث سناتے توبھی قبول نہ کرتالیکن کیا کروں یہ محمدبن علی نے مجھے سنائی ہے (ارشادشیخ مفید۲:۳۷۰۔۳۷۱،عقدالدرر:۱۴۹باب چہارم)

یہ حدیث بھی پہلی حدیث کے ساتھ تضادنہیں رکھتی کیونکہ جوابوطالب کی اولادمیں سے ہے وہ حتما آپ کے والدعبدالمطلب کی اولادمیں سے ہے

اوراس حدیث میں بیان ہواہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اولادفاطمہ سلام اللہ علیھاسے ہوں گے لیکن اس سے ہم بعدمیں بحث کریں گے۔

لہذااب تک کی بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخری زمانے میں جس امام مہدی علیہ السلام کے ظہورکی بشارت دی گئی اورابوطالب بن عبدالمطلب ہاشم قریشی کنانی کی اولادمیں سے ہوں گے۔ 

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اولادعباس سے ہونے والی احادیث

اس میں شک نہیں کہ ایسی احادیث حضرت امام مہدی علیہ السلام کے نسب کوابہام میں ڈال دیں گی کیونکہ عباس کی اولادابوطالب کی اولادنہیں ہے۔

اس لئے ایسی احادیث پرغورکرناضروری ہے تاکہ ابہام رفع ہوجائے۔اس سلسلہ میں واردہونے والی احادیث دوطرح کی ہیں۔

 

مجمل احادیث

یہ فقط جھنڈوں سے متعلق احادیث ہیں ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے احمدنے اپنی مسندمیں ثوبان سے روایت کیا ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا:۔

"اذارایتم الرایات السودقداقبلت من خراسان فاتوھا ولو حبوا علی الثلج فان فیھا خلیفة اللہ المھدی"

جب دیکھوکہ سیاہ جھنڈے خراسان کی طرف سے آرہے ہیں توان کے پاس آوچا ہے برف پرہی گھسٹ کرہی نہ آنا پڑے اس لئے کہ ان میں اللہ کا خلیفہ مہدی ہوگا(مسنداحمد۵:۲۷۷)اسی سے ملتی جلتی وہ حدیث ہے جسے ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکرکیا ہے(سنن ابن ماجہ ۲:۱۳۳۶۔۴۰۸۲)

اسی طرح ترمذی نے ابو ھریرہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم نے فرمایا

تخرج من خراسان رایات سود ،فلایررھا شی حتی تنصب پابلیاء"

"خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے انہیں کوئی شئی نہیں روک سکے گی حتی کہ انہیں ایلیا میں گاڑھ دیا جائے گا(سنن ترمذی ۴:۵۳۱۔۲۲۶۹)

ان احادیث میں اگرچہ واضح طور پر نہیں کہاگیاکہ حضرت مہدی علیہ السلام ،عباس کی اولادمیں سے ہیں لیکن بعض لوگوں نے اس کایہی معنی کیا ہے وہ یوں کہ یہ سیای جھنڈے ہوسکتا ہے وہ ہوں جنہیں ابو مسلم خراسان سے لے کرنکلا تھااوراس نے بنی عباس کی حکومت کو مضبوط کیا تھا لہذاان احادیث سے مرادمہدی عباسی ہے۔

 

مذکورہ مجمل احادیث پرایک نظر

مسنداحمدابن حنبل اورسنن ابن ماجہ کی حدیثوں کو کئی علماء نے ضعیف قراردیاہے ۔

ابن قیم المسنادالنیف میں لکھتے ہیں کہ "یہ (یعنی ابن ماجہ کی )حدیث اوراس سے پہلے والی حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو اس پردلالت کرتی ہو کہ مہدی عباسی ہی وہی مہدی ہے جوآخری زمانے میں ظہورکریں (المنازالنیف ابن قیم ۱۳۷۔۱۳۸۔۳۳۸ اور۳۳۹ نمبر حدیثوں کے ذیل میں )ان کی دلیل یہ ہے کہ مہدی عباسی کا ۱۶۹ئھ میں انتقال ہواتھااوراس کازمانہ ایسا تھا کہ عورتیں بھی امرمملکت میں مداخلت کرتی تھیں

چنانچہ طبری نے بیان کیاہے کہ خلیفہ مہدی عباسی کی بیوی خیزران امورحکومت میں مداخلت کرتی تھی حتی کہ اس کے بیٹے ھادی کے زمانے میں تویہ امورمملکت پر قابض ہوگئی تھی "(تاریخ طبری ۳:۴۶۶)اور جس کا یہ حال ہووہ کیسے زمین پرخداکاخلیفہ ہوسکتاہے۔

مزید یہ کہ مہدی عباسی بلکہ تمام خلفا ء آخری زمانے میں نہیں تھے نہ ان میں سے کسی کے ہاتھ کثیرمال لگا تھا اورنہ انہوں نے رکن ومقام کے درمیان لوگوں سے بیعت لی تھی اورنہ ہی دجال کو قتل کی تھا اورنہ ہی عیسی نے نازل ہوکران کے پیچھے نمازپڑھی تھی اورنہ ہی ان کے زمانے میں بیدانامی جگہ دھنسی تھی ۔

بلکہ ان کے پورے دورمیں ظہورحضرت مہدی علیہ السلام کی کوئی چھوٹی سی علامت بھی ظاہرنہ ہوئی

رہی ترمذی کی حدیث تواس کے بارے میں ابن کثیراس حدیث غریب قراردینے کے بعدکہتے ہیں :۔

یہ سیاہ جھنڈے وہ نہیں ہیں جنہیں ابومسلم خراسانی لے کرنکلا تھا اوراس نے ۱۳۲ئھ میں بنی امیہ سے حکومت چھین لی تھی بلکہ یہ سیاہ جھنڈے اورہیں جوحضرت امام مہدی علیہ السلام کے ہمراہ آئیں گے۔

مقصود یہ ہے کہ جس مہدی کے آخری زمانے میں ظہورکاوعدہ کیاگیا ہے اس کا خروج اورظہورومشرق کی طرف سے ہوگا(النہایة فی الفتن والملاحم ابن کثیر ا:۵۵)معیارصحیح قراردیاہے(مستدرک الحاکم ۴:۵۰۲)

 

واضح احادیث

۱۔یہ حدیث کہ (المہدی من ولد العباس عمی)

(کہ مہدی میرے چچا عباس کی اولادسے ہیں )کو سیوطی نے الجامع الصیغیر میں ذکرکیا ہے یہ ضعیف ہے(الجامع الصیغر ۲:۶۷۲۔۹۲۴۲)

مناوی شافعی فیض التقدیرمیں تحریرکرتے ہیں کہ اسے دارقطنی نے الافراد میں روایت کیا ہے اورابن جوزی کہتے ہیں اس کی سندمیں محمدبن ولیدمقری ہے کہ جس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے ۔

یہ احادیث گھڑتاتھااوران کے متون اسانیدتبدیل کرتاتھا۔اور ابن ابی معشرکہتا ہے کہ یہ بڑاجھوٹ شخص تھا

سمہودی کاکہنا ہے کہ اس سے پہلی اورباروالی حدیثیں اس سے زیادہ صحیح ہیں لیکن خوداس میں محمدبن ولیدہے وہ خوداحادیث وضع کرتاتھا"(فیض القدیرشرح الجامع الصغیر۶:۲۷۸۔۹۲۴۲)

اورسیوطی نے الحاوی میں ابن حجرنے صواعق محرقہ میں صبان بے اسعاف میں وہ ابوالفیض نے انرازالوھم المکنون میں اسے ضعیف قراردیاہے اس کے جعلی ہونے کے بورے میں بہت سارے اقوال نقل کئے ہیں(الحاوی للفتاوی ۲:۸۵،صواعق محرقہ :۱۶۶،اسعاف الراغبین: ۵۱ابوابر ازالوھم المکنون :۵۶۳۔)

۱۔ ابن عمرکی حدیث ہے کہ "رجل یخرج من ولدالعباس"

"عباس کی اولادمیں سے ایک شخص خروج کرے گا۔اسے خریدة العائب میں ابن عمرسے مرسل طورروایت کیاہے اوریہ حدیث ابن ابوموقوفہ ہے ()خریدة العجائب ابن وردی :۱۹۹)اس حدیث میں جومرسل ہونے کی وجہ دلیل نہیں بن سکتی مہدی کی وضاحت نہیں کی گئی ۔

پس بہتریہ ہے کہ اسے پہلی قسم یعنی مجمل احادیث میں شامل کی جائے اگرچہ اس میں عباس کانام ہے۔

۳۔ ابن عباس نے پیغمبراکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے اپنے چچا عباس سے فرمایا

ان اللہ ابتداء بی الاسلام وسیختمہ بغلام من ولدک وھو الذی یتقدم عیسی بن مریم

بیشک اللہ تعالی نے میرے ذریعے اس کا اختتام کرے گا اوریہ وہی ہے جوعیسی بن مریم کے آگے ہوگا۔

اسے خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے اوراس کی سندمیں محمدبن مخلدہے(تاریخ بغداد۳:۳۲۳،۴:۱۱۷) کہ جسے ذھبی نے ضعیف قراردیاہے اوراس کے ساتھ اس بات پرتعجب کا اظہارکیاہے کہ خطیب بغدادی نے اسے ضعیف کیوں نہیں دیا ! لکھتے ہیں :۔

اے محمد بن مخلدعطارسے روایت کیا ہے اورتعجب ہے کہ خطیب نے اسے اپنی تاریخ میں ذکرکیا ہے لیکن اسے ضعیف قرارنہیں دیاشایداسے اہمیت نہ دیتے ہوئے خاموشی اختیارکی ہو(میزان الاعتدال ۱:۸۹۔۳۲۸)

۴۔ام فضل نے پیغمبر اسلام سے توایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:۔

یا عباس ازا کانت سنة خمس وثلاثین ومائة فھی لک ولو لدک ،منھم السفاح ،ومنھم المنصور ،ومنھم المھدی"

اے عباس ۱۳۵ئھ تمہارااورتمہاری اولادکا سال ہے ان میں سفاح ، منصور اورمہدی ہوں گے

اس حدیث کوخطیب اورابن عسا کرنے ام فضل سے نقل کیا ہے ()تاریخ بغداد۱:۶۳،تاریخ دمشق ۴:۱۷۸

اس کے متعلق ذھبی تحریرکرتے ہیں :۔

اس کی سندمیں احمدبن راشدہلالی ہے اس نے سعیدبن خیشم سے بنی عباس کے بارے میں ایک باطل حدیث کی روایت کی ہے احمدبن راشدکے بارے میں ذھبی کانظریہ یہ ہے کہ اس نے جہالت کی وجہ سے اس حدیث کوگھڑاہے()میزان الاعتدال ا:۹۷

میں کہتا ہوں کہ :۔ ذھبی نے حدیچ کے گھڑنے میں احمدبن راشدکی جہالت کاحوالہ دیاہے جبکہ اس بات پراتفاق ہے کہ عباسیوں کی حکومت کاآغاز ۱۳۵ئھ میں نہیں بلکہ ۱۳۲ء ھ میں ہوااوراس سے پتہ چلتاہے کہ حدیث گھڑنے والے کوبنی عباس کی حکومت کے آغازکا بھی علم نہیں تھا۔

۵ اسی سے ملتی جلتی حدیث سیوطی نے ابن عباس سے اپنی کتاب " اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ"میں نقل کی ہے اور کہا ہے یہ حدیث جعلی ہے اور اس کا گھڑنے والاشایدغلابی ہے( " اللآلی المصنوعة۱:۴۳۴۔۴۲۵)

اسے ابن کثیر نے "البدایة والنھایة" میں ضحاک کی ابن عباس سے روایت کی صورت میں نقل کیا ہے اورکہا ہے یہ سندضعیف ہے اورصحیح یہ ہے کہ ضحاک نے ابن عباس سے کچھ نہیں سنا پس یہ منطقع ہے۔(البدایہ والنہایة ۶:۲۴۶)

اور حاکم نے اسے ایک اورسند کے ساتھ ذکرکیا ہے جس میں اسماعیل بن ابراھیم مہاجرہے(مستدرک الحاکم ۴:۵۱۴)ہے اورابوالفیض الغماری الشافعی نے ذھبی سے نقل کیا ہے کہ اسماعیل کے ضعیف ہونے پراجماع ہے جبکہ اس کاباپ ایسانہیں ہے۔(ابرازالوھم المکنون:۵۴۳)

یہی احادیث ہیں جن سے بعض سے لوگ دھوکہ کھاتے ہیں اورحضرت امام مہدی علیہ السلام کے نسب کو پہچاننے میں انہیں مانع تصورکرتے ہیں لہذا حضرت مہدی علیہ السلام کا اولادابوطالب سے ہوناجعلی ہیں اورجھنڈوں والی احادیث بھی اس نتیجے کے خلاف دلالت نہیں کرتیں۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام سے متعلق دیگراحادیث پرنظرڈالنے سے آپ کومزیدیقین ہوجائے گاکہ آپ اولادعباس سے نہیں ہیں ۔

چونکہ حضرت ابو طالب کی اولاد زیادہ تھی اس لئے احادیث نے معین کردیاکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ابوطالب کے فرزند حضرت علی کی اولادسے ہوں گے چنانچہ اس سلسلے میں کثیرروایات واردہوئیں ہیں ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

"ھورجل منی "مہدی مجھ سے ہیں(نعیم بن حماد کی "الفتن "۱:۳۶۹۔۱۰۸۴،سید ابن طاوس کی التشریف بالنن"۱۷۶۔۲۳۸ با ب ۱۹

یہ بات واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی اولادزیادہ ہے لیکن بہت ساری صحیح بلکہ متواترروایات میں ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اہلبیت علھیم السلام سے ہیں یا عترت سے ہے یا پیغمبرسے ہیں ۔

لہذا اس سلسلے میں کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ اہل بیت علیھم السلام ،عترت اوراولادنبی علی کی اولاد میں سے صرف ان کوکہا جاتا ہے جن کا سلسلہ فاطمہ زھرااسلام علیھا سے ہوابطورنمونہ چنداحادیث پیش کی جارہی ہیں۔ 


source : http://www.shiastudies.com
1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف

 
user comment

Idalee
Alakazaam-information found, problem slvoed, thanks!
پاسخ
0     0
13 مرداد 1390 ساعت 4:10 بعد از ظهر