اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

فرشتہ کی حقیقت کیا ہے ؟

جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ملائکہ اور فرشتوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ملائکہ کی صفات، خصوصیات ،ان کے کام اور ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں یہاں تک کہ ملائکہ پر ایمان رکھنے کو؛ خدا، انبیاء اور آسمانی کتابوں کی صف میں قرار دیا گیا ہے، جو اس مسئلہ کی اہمیت کی دلیل ہے: < آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ>(12)

”رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر نازل کی گئی ہیں اور سب مومنین بھی اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں“۔

بے شک فرشتوں کا وجود ”غیبی“ چیزوں میں سے ہے جن کو ان صفات اور خصوصیات کے ساتھ پہچاننے کے لئے صرف قرآن و روایات ہی کو دلیل بنایا جاسکتا ہے، اور غیب پر ایمان لانے کے حکم کی وجہ سے ان کو قبول کیا جانا چاہئے۔

۱۔ فرشتے ؛ صاحب عقل و شعور اور خدا کے محترم بندے ہیں، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: <بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُوْنَ>(13) ” بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں“۔

ملائکہ؛ خداوندعالم کے حکم کی فوراً اطاعت کرتے ہیں اور کبھی بھی اس کی معصیت نہیں کرتے: <لاٰ یَسْبَقُوْنَہُ بِالْقُوْلِ وَھُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُوْنَ>(14) ”جو کسی بات پر اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے ہیں“۔

۳۔ ملائکہ؛ خداوندعالم کی طرف سے مختلف قسم کی بہت سی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں:

ایک گروہ ؛ عرش کو اٹھائے ہوئے ہے۔ (سورہ حاقہ ، آیت ۱۷)

ایک گروہ ؛ مدبرات امر ہے۔ (سورہ نازعات ، آیت ۵)

ایک گروہ ؛ قبض روح کرتا ہے۔ (سورہ اعراف ، آیت ۳۷)

ایک گروہ ؛ انسان کے اعمال کا نگراں ہے۔ (سورہ انفطار ، آیت ۱۰ تا ۱۳)

ایک گروہ ؛ انسان کو خطرات اور حوادث سے محفوظ رکھتا ہے۔ (سورہ انعام ، آیت ۶۱)ایک گروہ؛ سرکش اقوام پر عذاب نازل کرتا ہے۔ (سورہ ہود ، آیت ۷۷)اور ایک گروہ ؛ جنگوں میں مو منین کی امداد کرتا ہے ۔(سورہ احزاب ، آیت ۹) اور بعض گروہ انبیاء علیہم السلام پر وحی اور آسمانی کتابیں نازل کرنے والے ہیں۔ (سورہ نحل، آیت ۲)

کہ اگر ہم ان کے ایک ایک کام اور ذمہ داری کو شمار کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہوجائے گی۔

۴۔ ملائکہ؛ ہمیشہ خداوندعالم کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

<وَالْمَلاَئِکَةُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِی الْاٴَرْض>(15)

”اور ملائکہ بھی اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں استغفار کر رہے ہیں“۔

۵۔ان تمام چیزوں کے باوجود انسان استعداد اور تکامل و ترقی کے لحاظ سے ان سے بلند و برتر ہے یہاں تک کہ سب فرشتوں نے جناب آدم کو سجدہ کیا اور جناب آدم علیہ السلام ان کے معلم قرار پائے۔ (سورہ بقرہ ، آیت ۳۰ تا ۳۴)

۶۔ ملائکہ؛ کبھی کبھی انسان کی صورت میں آجاتے ہیں اور انبیاء بلکہ غیر انبیاء کے سامنے ظاہر ہوجاتے ہیں، جیسا کہ سورہ مریم میں پڑھتے ہیں: <فَاٴَرْسَلْنَا إِلَیْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا>(16) ”تو ہم نے اپنی روح(جبرا ئیل) کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک اچھا خاصا آدمی بن کر پیش ہوا“۔

ایک دو سرے مقام پر جنا ب ابراہیم اور جناب لوط کے سامنے انسانی صورت میں آئے۔ (سورہ ہود ، آیت ۶۹و۷۷)

یہاں تک کہ درج ذیل آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط نے ان کو انسانی شکل و صورت میں دیکھا تھا۔ (سورہ ہود ، آیت ۷۸)

کیا انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہونا ایک حقیقت ہے؟ یا صرف خیالی اور سمجھنے کی حد تک؟ قرآن مجید کی آیات سے پہلے معنی ظاہر ہوتے ہیں، اگرچہ بعض مفسرین نے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔

۷۔ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ کسی بھی انسان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں پڑھتے ہیں: جس وقت امام علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ فرشتوں کی تعداد زیادہ ہے یا انسانوں کی؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”قسم اس خدا کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، زمین میں مٹی کے ذرات سے کہیں زیادہ آسمان میں فرشتوں کی تعداد ہے، آسمان میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر کسی فرشتہ نے خداوندعالم کی تسبیح و تقدیس نہ کی ہو“۔ (17)

۸۔ وہ نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ پانی پیتے ہیں، اور نہ ہی شادی کرتے ہیں، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہو اہے: ”فرشتے نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ پانی پیتے ہیں اور نہ ہی شادی کرتے ہیں بلکہ نسیم عرش الٰہی کی وجہ سے زندہ ہیں“۔(18)

۹۔ وہ نہ سوتے ہیں ،نہ سستی اور غفلت کا شکار ہوتے ہیں، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہو اہے ”ان میں سستی ہے اور نہ غفلت، اور وہ خدا کی نافرمانی نہیں کرتے ان کو نیند بھی نہیں آتی ان کی عقل کبھی سہو و نسیان کا شکار نہیں ہوتی، ان کا بدن سست نہیں ہوتا، اور وہ صلب پدر اور رحم مادر میں قرار نہیں پاتے۔(19)

۱۰۔ ان کے مختلف مقامات اور مختلف درجات ہوتے ہیں، ان میں بعض ہمیشہ رکوع میں رہتے ہیں اور بعض ہمیشہ سجدہ کی حالت میں:

<وَمَا مِنَّا إِلاَّ لَہُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ# وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّون# وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ >(20)

”اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقام معین ہے اور ہم اس کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے ہونے والے ہیں اور ہم اس کی تسبیح کرنے والے ہیں“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوندعالم نے کچھ فرشتوں کو ایسا خلق کیا ہے جو روز قیامت تک رکوع میں رہیں گے اور بعض فرشتے ایسے ہیں جوقیامت تک سجدہ کی حالت 

میں رہیں گے۔21)(22)

اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ تمام فرشتے ان تمام اوصاف کے ساتھ مجرد موجود ہیںیا مادی؟! اس میں شک نہیں ہے کہ یہ تمام صفات کسی مادی عنصر کے نہیں ہوسکتے، لیکن ان کے ”لطیف اجسام “سے پیدا ہونے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے، جو اس معمولی مادہ سے مافوق ہو۔

فرشتوں کے لئے ”مطلق طور پر مجرد“ یہاں تک کہ زمان ومکان اور اجزا سے بھی مجرد ہونے کا اثبات کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس سلسلہ میں تحقیق کرنے کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہم فرشتوں کو قرآن میں بیان ہوئے اوصاف کے ذریعہ پہچانیں، اور ان کو خداوندعالم کی بلند و بالا مخلوق مانیں، اور ان کے لئے صرف مقام بندگی و عبادت کے قائل ہوں،اور ان کو خداوندعالم کے ساتھ خلقت یا عبادت میں شریک نہ مانیں، اور اگر کوئی ان کو شریک مانے گا تو یہ شرک اور کفر ہوگا۔

فرشتوں کے سلسلہ میں ہم اتنی بحث و گفتگو کو کافی سمجھتے ہیں اور تفصیلی بحث کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کامطالعہ فرمائیں۔ توریت میں بہت سے مقامات پر فرشتوں کو ”خدا“ کہا گیا ہے جو نہ صر ف یہ کہ شرک ہے بلکہ اس وقت کی توریت میں تحریف کی دلیل ہے، لیکن قرآن مجید اس طرح کے الفاظ سے پاک و منزہ ہے، کیونکہ قرآن میں صرف ان کے لئے مقام بندگی، عبادت اور حکم خدا کی تعمیل کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانِ کامل کا درجہ فرشتوں سے بلند و بالا ہے۔(23)

________________________________________

(1) سورہٴ رحمن ، آیت ۱۵ (2) سورہٴ جن ، آیت ۱۱ (3) سورہٴ جن ، آیت ۱۵ 

(4)سورہٴ جن ، آیت ۹

(5)سورہٴ جن ، آیت ۶ 

(6) سورہٴ نمل ، آیت ۳۹

(7) سورہٴ سبا، آیت ۱۲۔۱۳ (8) سورہٴ حجر ، آیت ۲۷(9) سفینة البحار ، جلد اول ، صفحہ ۱۸۶(مادہ جن)

(10) کتاب ”کافی“، جلد ۶، صفحہ ۳۸۵ ،() کتاب الاطعمة والاشربة،باب الاوانی،حدیث۵

(11) اولین درسگاہ آخرین پیامیر ، جلد اول میں تقریبا ً۲۳ روایتیں اس سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں

(12) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۵، صفحہ ۱۵۴

(13) سورہٴ بقرہ ، آیت ۲۸۵ (14) سورہٴ انبیاء ، آیت ۲۶

(15) سورہٴ انبیاء ، آیت ۲۷

(16) سورہٴ شوریٰ ، آیت ۵(17) سورہٴ مریم ، آیت ۱۷(18) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۶ (حدیث ۷) ، اس کے علاوہ اور بہت سی دوسری روایتیں اس بارے میں نقل ہوئی ہیں (19) بحار الانوار، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۴ (حدیث ۴)

19) بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۵

(20) سورہٴ صافات ، آیت ۱۶۴۔ ۱۶۶

(21) بحار الانوار ، جلد۵۹، صفحہ ۱۷۴

(22)ملائکہ کے اوصاف اور ان کی اقسام کے سلسلہ میں کتاب ”السماء و العالم“، بحار الانوار ”ابواب الملائکہ“ (جلد ۵۹ صفحہ ۱۴۴ تا ۳۲۶ پر رجوع فرمائیں، اسی طرح نہج البلاغہ خطبہ نمبر ا، ۹۱، ۱۰۹، ۱۷۱ /پر رجوع فرمائیں 

(23) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۸، صفحہ ۱۷۳

 

 


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا زوجہ جعفر طیار اسماء بنت عمیس نے آپ کی شہادت ...
جناب موسیٰ (ع) نے دیدارخدا کی درخواست کیوں کی؟
حلالہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
شیعہ کب وجود میں آئے؟
خمس کا نصف حصہ سادات سے مخصوص ہونا؛ کیا طبقاتی ...
اسلام خواتین کے لئے کن حقوق کا قائل ہے؟
کیا یہ اوامر و نواھی الزامی هوتے ھیں یا ارشادی؟
طالوت كو ن تھے؟
کیا قبور کی تعمیر کرنا اور ان کو آباد کرنا شرک ہے
خدا كی بارگاہ میں مناجات كا كیا فلسفہ ہے؟

 
user comment