اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

امام مھدی عج کےظھور کی علامات

حضرت بقیۃ اللہ الاعظم عج کے ظہور کی علامات ایک جذاب ترین اور پیچیدہ ترین مباحثمیں شمار ہوتی ہیں کہ جوباعث بنی تا کہ مصنفین اس موضوع پر لکھیں اور مختلف مطالب کوزیر بحث لائیں کیونکہ انتظار فطری مباحث میں سے ہے کہ انسان اسکے بارے میں ایک خاص حساسیت رکھتاہے اور چاہتا ہے کہ جانے کہ کونسی علامات محقق ہوچکی ہیں اور کونسی بہت جلد انجام پذیر ہونے والی ہیں ،کونسی علامات حتمی ہیں اور کونسی غیر حتمی ہیں اس قسم کے سوالات خود پیامبر اکرم (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور آئمہ علیھم السلام کے سامنے مظرح ہوتے اور بہت سی روایات میں ان کو بیان کیا گیاہے کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں

ظھور کی حتمی علامات

ظھور کی حتمی علامات وہ علامات ہیں جوبغیر کسی قید وشرط کے اپنے مقررہ وقت میں یقینی طور پر ظاہر ہونگی جن میں(  بداء) نہیں ہےیہاں تک کہ اگر وہ علامات ظاہر نہیں ہونگی امام زمانہ عج کا ظہور نہیں ہوگا بہت سی روایات میں حتمی علامات بیان کی گئی ہیں مثلا امام معصوم علیہ السلام ان لوگوں کی بات کوپہلے رد فرماتے ہیں کی جو امام زمانہ عج کے ظہور کے وقت کومعین کرتے تھے اور بعد میں خود ان حتمی علامات کوبیان فرماتے ہیں جیسے یہ روایت کہ:

عن علی بن ابی حمزۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال :قلت لہ:

جعلت فداک متی خروج القائم علیہ السلام ؟فقال علیہ السلام

 

یا ابا محمد انا اھل البیت لانوقت وقد قال محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم :کذب الوقاتون ،، یا اب محمد ان قدام ھذاالامر خمس علات:

اولاھن النداء فی شھر رمضان وخروج السفیانی وخروج الخراسانی وقتل النفس الزکیۃ وخسف بالبیداء

ثم قال یا ابا محمد انہ لابد ان یکون قدام ذلک الطاعونان ؛الطاعون الابیض والطاعون الاحمر قلت :جعلت فداک وای شی ء ھما ؟

فقال علیہ السلام :اما الطاعون الابیض فالموت الفارف واما الطاعون الاحمر ،فالسیف ولا یخرج القائم حتی ینادی باسمہ من جوف السماء فی لیلۃ ثلاث وعشرین فی شھر رمضان لیلۃ جمعۃ قلت :بم ینادی ؟قال علیہ السلام :باسمہ واسم ابیہ ؛الا ان فلان بن فلان قائم آل محمد فاسمعوا لہ واطیعوہ فلا یبقی شیء خلق اللہ فیہ الروح الا یسمع الصیحۃ فنوقظ النائم ویخرج الی صحن دارہ وتخرج العذراء من خدرھا ویخرج القائم مما یسمع وھی صیحۃ جبرئیل علیہ السلام (نعمانی ،کتاب الغیبۃ ،باب ۱۲ص۲۸۹۔۔۲۹۰ح۶)

علی بن ابی حمزہ (بطائنی ) نےابوبصیر سےنقل کیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مولا آپ پر قربان جاوں حضرت قائم عج کا ظھور کب ہوگا ؟امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اے ابا محمد ہم خاندان اھل بیت بقیۃ اللہ کے ظھور کے زمانےکومشخص اور معین نہیں کرتے یاد رکھو کہ پیامبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :جھوٹ بولتے ہیں کہ جو ظھور کے وقت کومعین کرتے ہیں ) پھر فرمایا کہ آئے ابا محمد یادرکھو کہ( حضرت مھدی عج )کے ظھور سے پہلے پانچ علامات ظاہر ہونگی

الف:  ماہ رمضان میں آسمانی نداء کا آنا

ب :سفیانی کا خروج

ج:مرد خراسانی کا خروج

د: نفس زکیۃ کی شھادت

ھ: بیابان میں زمین کا دھنس جانا

پھر فرمایا کہ آئے ابامحمد ان علامات سے پہلے لوگ دو قسم کی طاعون کی بیماری کا شکار ہونگے سفید طاعون اور سرخ طاعون

ابوبصیر کہتاہے کہ میں عرض کیا کہ ان دوقسم کے طاعون سے کیا مراد ہے ؟

توآپ علیہ السلام نے فرمایا کہ سفیدطاعون سے مراد لوگوں کی گروہوں کی صورت میں موت ہے جوتباہی وبربادی کا سبب بنے گی اور سرخ طاعون سے مراد وہ اموات ہیں جواسلحہ (جیسے ایٹمی بمب ،کیمیائی ہتھیاروں )سے وقوع پذیر ہونگی

پھر فرمایا کہ ہمارا قائم اس وقت تک ظھور نہیں کرے گا یہاں تک کہ آسمان کے درمیان سے اس کانام لے کراسے نداء نہ دی جائے گی اور یہ نداء تیئیس ماہ مبارک رمضان جمعہ کی رات ہوگی

ابوبصیر کہتاہے کہ میں نے عرض کی کس نام مبارک کے ساتھ ان کونداء دی جائے گی ؟

توامام علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کوان کےنام اور ان کے والد گرامی کے نام کے ساتھ یوں صداء دی جائے گی کہ( آگاہ رہو کہ فلاں بن فلاں قائم آل محمد علیھم السلام ہیں انہوں نے ظھور کردیاہے پس ان کی بات کوسنو اور ان کے حکم کی اطاعت کرو)

پس کوئی مخلوق خدانہیں ہوگی کہ جس کے اندر روح ہومگر یہ کہ اس صداء کوسنے گی جوسوئے ہوئے ہونگے جاگ جائیں گے اور اپنے گھروں کے صحنوں میں نکل آئیں گے دوشیزہ لڑکی پردے سے باہر آجائے گی اور حضرت مھدی عج اس وقت ظھور فرمائیں گے اور وہ آواز اور صداء جبرائیل کی ہوگی

آخرمیں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آواز اور آسمانی نداء جبرائیل کریں گے

۲:عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال :خمس قبل قیام القائم علیہ السلام :الیمانی والسفیانی والمنادی ینادی من السماء وخسف بالبیداء وقتل النفس الزکیۃ(طبرسی ،کتاب اعلام الوری ص۴۵۵،منتخب الاثر ص۵۴۴)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ قائم آل محمد کے ظھور سے پہلے پانچ حادثے رونماء ہونگے یمن کے لوگوں میں سے ایک انقلابی مرد کی تحریک ،سفیانی کا خروج ،آسمانی فریاد کہ جو ہر جگہ سنی جائے گی بیداء میں زمین کا دھنس جانا اور پاک دامن انسان کا قتل

۳:عبداللہ بن سنان عن ابی عبداللہ علیہ السلام :انہ قال :النداء من المحتوم والسفیانی من المحتوم والیمانی من المحتوم وقتل النفس الزکیۃ من المحتوم وکف یطلع من السماء من المحتوم ' قال علیہ السلام :وفزعۃ فی شھر رمضان توقظ النائم وتفزع الیقظان وتخرج الفتاۃ من خدرھا(غیبت نعمانی ،ص۲۵۲ح۱۱،ص ۲۵۲ح۹)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ چھ علامات ایسی ہیں کہ حضرت مھدی علیہ السلام کے ظھور سے پہلے حتما وقوع پذیر ہونگی :اسمانی فریاد ،سفیانی کا خروج ،یمنی مرد کی تحریک ،پاک دامن انسان کا قتل ، آسمان سے ہاتھ کی ہتھیلی کا ظاہر ہونا اور یہ بھی فرمایا کہ ماہ مبارک رمضان میں لوگوں پر ایک وحشت طاری ہوگی جوسوئے ہوئے انسان کوبیدار کردے گی اور ہر جاگتے ہوئے انسان کو ڈرا دے گی جوان لڑکیاں پردوں سے نکل آئیں گی

۴:عمر بن حنظلۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام انہ قال :للقائم خمس علامات :ظھور السفیانی والیمانی والصیحۃ من السماء وقتل النفس والخسف بالبیداء (غیبت نعمانی ص۲۵۲)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ قائم آل محمد کے ظھور کی پانچ نشانیاں ہیں سفیانی کا خروج ،یمنی مرد کی تحریک ،آسمانی فریاد ،پاک دامن شخص کا قتل اور بیابان زمین کا دھنس جانا

۵محمد بن ابی عمیر عن عمر بن حنظلۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال :قبل قیام القائم خمس علامات محتومات :الیمانی والسفیانی والصیحۃ وقتل النفس الزکیۃ والخسف بالبیداء (کمال الدین وتمام النعمۃ ج۲ص۶۵۰ح۵۷)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ قائم آل محمد کے ظھور کی پانچ نشانیاں ہیں سفیانی کا خروج ،یمنی مرد کی تحریک ،آسمانی فریاد ،پاک دامن شخص کا قتل اور بیابان زمین کا دھنس جانا۔

ان روایات میں پانچ ایسی چیزیں ہیں جوتمام روایات میں مشترک ہیں

(۱)مردیمنی کی انقلابی تحریک

(۲)سفیانی کا خروج

(۳)آسمانی فریاد

(۴)بیابان میں زمین کا دھنس جانا

(۵)پاک دامن شخص کا قتل

ظہورکے بارے ميں حتمي نشانياں

بہت ساري روايات ميں جوکچھ بيان ہواہے جب ان کاجائزہ ليتے ہيں توحتمي علامات پانچ بنتي ہيں۔حضرت امام جعفرصادق(عليہ السلام)فرماتے ہيں کہ پانچ نشانياں قائم ٴ کے قيام سے پہلے ہيں ۔

١۔يماني کاخروج ٢۔سفياني کاخروج۔ ٣۔آسماني نداء

٤۔مدينہ اور مکہ کے درميان ،بيداء نامي زمين کادھنس جانا ٥۔نفس زکيہ کاقتل ہونا

ظہورکے سال کے واقعات اورحالات بہت زيادہ ہيں ،ہم ان واقعات ميں سے جوبہت ہي واضح ہيںاوروقوع کے زمانہ کے قريب ہيں، اس بارے روايات سے جوکچھ سمجھاجاسکتاہے اس کوسامنے رکھ کربعض علامات اورنشانات کي طرف اشارہ کرتے ہيں? اصل بحث شروع کرنے سے پہلے ان حالات اور واقعات جن کي طرف اجمالي اشارہ ہو چکا ہے جوکلي اورعمومي طورپرظہورکے سال پر اور اس سال کي خصوصيات پردلالت کرتي ہيں? ان کاجائزہ ليتے ہيں ۔

١۔ظہور کے سال کاطاق ہونا

حضرت امام جعفرصادق(عليہ السلام)سے روايت ہے کہ حضرت قائم آل محمد۰طاق سال ميں ظہورکريں گے( ١،٣،٥،٧،٩)کاعددہوسکتاہے ۔

(اعلام الوري ص٤٣٠،بحارالانوارج٢ص٢٩١ منخب الاثرص٤٦٤)

يہ حديث ظہورکے سال کو اجمالي طورپربيان کررہي ہے ليکن کچھ روايات اور ہيں جو ظہور کے سال کواس سے زيادہ مشخص اورواضح کرکے بيان کررہي ہيں۔

ابوبصير۱نے حضرت امام جعفرصادق (عليہ السلام)سے روايت بيان کي ہے کہ آپ ٴ نے فرمايا’’حضرت قائم ٴ عاشوراکے دن قيام فرمائيں گے اوريہ وہ دن ہے جب حضرت امام حسين(عليہ السلام) بن علي(عليہ السلام) کوقتل کياگيا?گوياميں ديکھ رہاہوں کہ وہ دن ہفتہ کا ہے اورمحرم الحرم کا عاشوراہے، آپ ٴ رکن اورمقام کے درميان کھڑے ہيں، جبرائيل ٴ آپ ٴ کے سامنے بيعت کے لئے آوازدے رہے ہوں گے، آپ ٴ کے شيعہ جوزمين کے اطراف ميں پھيلے ہوں گے وہ سب کے سب ہرطرف سے کھنچ کرآپ ٴ کے گردجمع ہوجائيں گے، آپ ٴ کے ہاتھ پربيعت کريں گے پس اللہ تعاليٰ زمين کو آپ ٴ کے وسيلہ سے عدالت اور انصاف کے ساتھ اس طرح بھردے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکي ہوگي ‘‘۔(الارشاد ج٢ص٣٧٩،اعلام الصرري ص٤٣٠)

يہ روايات اوراس قسم کي دوسري روايات جوہميںيہ بتا رہي ہيں کہ جس سال انشائ اللہ ظہور پرنورہوگااس سال کي خصوصيات کوہم ان روايات کي روشني ميں بيان کرسکتے ہيں ، ہم اس سال کوعدوي لحاظ سے اور اسلامي کيلنڈرکے اعتبارکوسامنے رکھ کربيان کرسکتے ہيں اور وہ کچھ اس طرح ہے ۔

آپ ٴ کے ظہورکاسال طاق ہوگا،آخري آفتاب امامت کاطلوع ہفتہ کے دن ہوگا (يا جمعہ کے دن ہوگا)محرم الحرام کي دس تاريخ ہوگي ،اوراس سال روز عاشورا ہفتہ کادن ہو گا يا جمعہ کا دن ہوگا۔

اس سال بارشيں بہت زيادہ ہوں گي 

ظہورکے سال کي نشانيوں سے ايک يہ ہے کہ اس سال بارشيں بہت زيادہ ہوں گي ان بارشوں کے نتيجہ ميں محصولات ،ميوہ جات ،کھجوريں، خراب ہوجائيں گي کيونکہ بارش بعض اوقات رحمت کاوسيلہ ہے اوربعض اوقات عذاب اور بدبختي کاسبب بن جاتي ہے۔

حضرت امام جعفرصادق(عليہ السلام)فرماتے ہيں

حضرت قائم(عليہ السلام) کے ظہورسے پہلے بہت زيادہ بارشيں ہوں گي، ان بارشوں سے پھل ،ميوہ جات ،محصولات ،درختوں پرلگي ہوئي کھجوريں خراب اورفاسد ہو جائيں گي آپ لوگ اس واقعہ کے رونماہونے کے بارے ميں شک مت کرنا۔

سعيدبن جبيرنے اس طرح نقل کيا ہے جس سال ميں حضرت قائم ٴقيام فرمائيں گے زمين پر٢٥بارشيں برسيں گي کہ تم ان بارشوں کے اثرات اوربرکات کامشاہدہ کروگے۔

اوراس بنيادپراس جيسي احاديث کے معاني کوسمجھ سکتے ہيں کہ نمونہ کے طورپرحضرت امام جعفر صادق (عليہ السلام)سے ايک اور روايت ملاحظہ ہو۔

’’کاميابي اورفتح کے دن دريائے فرات امڈپڑے گا،اس کاپاني کوفہ کي گلي کوچوں ميں داخل ہوجائے گا‘‘۔

ان روايات سے يہ بات بڑي واضح ہے کہ حضرت قائم ٴ نے جس سال خروج فرمانا ہے اس سال بارشيں بہت ہوں گي، فرات ميں بڑاسيلاب آئے گا۔

ظہورکي سرزمين 

آپ ان علامات ميں ايک بات مشترک پائيں گے کہ حضرت ٴکے قيام سے قبل اور آپ ٴ کے قيام کرنے والے سال ميں جن حالات اور واقعات کاتذکرہ ہے ان کاتعلق اور ان کے وقوع کي جگہ، سرزمين عرب ہے اوريہ شايداس لئے ہے کہ آپ ٴ کاظہورپرنورمکہ ميں ہوگا اور پھر آپ ٴکے انقلاب کاآغازبھي اسي جگہ سے ہوناہے اورعراق کويہ خصوصيت حاصل ہے کہ فرات کے کنارے کوفہ ونجف وکربلاہي میں آپ کي مرکزي حکومت قائم ہوگي، آپ کي آمد سے قبل جن ممالک ميں حالات نے دگرگوں ہوناہے ان ميں شام،مصر،لبنان ، حجاز مقدس ، عراق،يمن مجموعي طور پرجزيرۃ العرب اورايران،طالقان،فزوين ، شيراز، مسجد سلمان ، اصطخر،قم المقدسہ وخراسان کا خصوصي ذکرہے، البتہ عمومي نشانيوں ميں پوري دنياکے حالات کاذکرہے ،اس دور کي مادي ترقي ، اس دورکے انسانوں کے حالات ،جنگيں ، بيمارياں،قحط ،بدامني ،بے آرامي،بے چيني ?ان سب کاتذکرہ موجودہے، البتہ ظہورکے سال اور اس کے قريب قريب کے واقعات وحالات کا تعلق مرکزاسلام سے ہے ان روايات ميں اس جگہ اورعلاقہ، خطہ کے بارے ميںذکرہے جہاں پر آپ ٴ کاظہورہوناہے، جہاں سے آپ ٴ کاعالمي انقلاب شروع ہوگاجس علاقے ميں آپ کي حکومت کا ہيڈ کوارٹر ہوگا،پھران واقعات ميں مخاطب خودمسلمان اورشيعہ حضرات ہيںاور يہ وہ لوگ ہيں جواپنے زمانہ کے امام ٴ کي انتظار ميں ہيں،اور براہِ راست يہي لوگ مخاطبين سے ہيں، اسلئے ان کے اردگردکے ماحول ميں جوکچھ ہوناہے اس کا حوالہ ان روايات ميں ملتا ہے ۔

٣۔زمين پرزلزلوں ،عمومي پريشانيوں،اورفتنوں کاسال 

حضرت امام صادق ٴفرماتے ہيں کہ ’’آپ ٴ کے ظہورکي علامات سے ہے کہ آپ ٴ نے جس سال ظہور فرماناہے اس سال زلزلے بہت زيادہ ہوں گے ،سردي بہت پڑے گي۔

آپ نے فرمايا’’ميں آپ کوحضرت مہدي(عليہ السلام) کي آمدکے بارے ميںبشارت ديتاہوں کہ اس سال لوگوں ميں اختلافات بہت زيادہ ہو ںگے ،زلزلے ہوں گے، آپ ٴ کے ظہورسے پہلے ايساقتل وفسادہوگاجورکے گا نہيں ?يعني حضرت مہدي ٴ کي آمدپرہي يہ قتل وغارت گري وفتنہ وفسادکاسلسلہ رکے گا‘‘۔

(يوم الخلاص ص٥٤٣بيان الائمہ ج٢ص٤٣١،الممہدون للمہدي ص٤٩،کمال الدين ص ٦٥٥ ،بحارالانوارج٥٢ص١٧٢)

حضرت قائمٴ سے پہلے دو طرح کي اموات

٭ايک سرخ موت ہوگي ٭ايک سفيدموت ہوگي

اس طرح سے کہ ہرسات افرادسے پانچ مرجائيں گے ۔

(يوم الخلاص ص٥٤٣بيان الائمہ ج٢ص٤٣١،الممہدون للمہدي ص٤٩،کمال الدين ص٦٥٥ ،بحارالانوارج٥٢ص١٧٢)

حضرت علي(عليہ السلام) نے فرمايا’’حضرت مہدي(عليہ السلام)سے پہلے سرخ اورسفيدموت ہوگي، مکڑيوں کاحملہ ہوگا،اوريہ خون کے رنگوں کي مانندہوں گي، سرخ موت جنگ کے نتيجہ ميں ہوگي، سفيدموت بيماري طاعون (کينسر)کے نتيجہ ميں ہوگي ‘‘۔

(الغيبۃ النعماني ص١٨٥،الارشادج٣ص٣٧٢)،الغيبۃ شيخ الطوسي ص٢٦٧)

ماہ ِ صفر سے ماہ ِ صفرتک جنگ 

عبداللہ۱بن يسارنے بھي حضرت اميرالمومنين(عليہ السلام)سے نقل کياہے کہ آپ ٴ نے فرمايا ’’جس وقت اللہ تعاليٰ قائم آل محمد۰کے ظہورکاارادہ فرمائے گاتوماہ صفرسے جنگ کا آغاز ہوگا جو اگلے سال کے ماہ صفرتک رہے گي اور وہي ہمارے قائم کے خروج کازمانہ ہو گا ‘‘ ۔ (بيان الائمہ ج١ص٣٣٥)

بھوک اور خوف کے ذريعہ آزمائش 

جابرجعفي۲فرماتے ہيں کہ ميں نے حضرت امام محمدباقر(عليہ السلام) سے اس آيت کے بارے سوال کياکہ ’’ولنبلونکم بشئي من الخوف والجوع‘‘(سورئہ بقرہ آيت ١٥٥) ’’اورہم تمہيں ضرور آزمائيں گے کچھ خوف سے اورکچھ بھوک سے‘‘توآپ ٴ نے جواب ميں فرمايا’’اے جابر۱! يہ خوف اور بھوک دوطرح کي ہے

٭خاص ٭عام 

خاص قسم کاخوف اوربھوک توکوفہ ميں رونماہوگي اوريہ آل محمد۰کے دشمنوں کے واسطے ہوگي اور اللہ تعاليٰ اس کے ذريعہ ان کوہلاک کرے گا۔

عمومي بھوک اورخوف شام ميں ہوگا،ايساخوف ان پرمسلط ہوگااورايسي بھوک کا انہيںسامناہو گاکہ اس کي مثال پہلے موجود نہ ہوگي ?بھوک توحضرت قائم ٴ کے قيام سے پہلے ہوگي اور خوف حضرت قائم ٴ کے قيام کے بعدہوگا۔

حضرت امام محمدباقر ٴ اسي بارے ميںمزيد فرماتے ہيں 

’’حضرت قائم ٴ جب ظاہرہوں گے توہرگھرميں بہت ہي زيادہ خوف وہراس ہوگا، لوگ زلزلوں سے دوچارہوں گے، طاعون(کينسر)کي وبائ عام ہوگي، عرب کے درميان سخت ترين جنگ وجدال ہوگا،لوگوں ميں شديداختلافات ہوں گے، فرقہ واريت ہوگي ، دين ميں رخنہ ہوگا،دہشت گردي ہوگي ،اسلامي دنيا کے حالات دگرگوں ہوں گے ، لوگ صبح شام موت کے انتظارميں ہوں گے‘‘۔

آپ ٴ کاخروج سخت نااميدي اورمايوسي کے بعد ہوگا پس ان کے ناصران کے لئے خوشخبري ہے اور ان کے مخالفين کے لئے مکمل تباہي وبربادي ہے ۔

(بحارالانوارج٥٢ص٢٣١الزام الناصب ج٢ص١٦٢،المہدي ٴ ص١٩٧)

جناب ابوبصير۱نے حضرت امام جعفرصادق(عليہ السلام) سے بيان کياہے کہ آپ ٴ نے فرماياکہ ’’حضرت قائم ٴکے قيام سے پہلے ايک ايسافتنہ ہوگاجس ميں لوگ بھوکے مريں گے اور قتل و غارت گري سے سخت خوف ميں مبتلاہوں گے ۔

اموال کم ہوجائيں گے،جانيں چلي جائيں گي،محصولات ضائع ہوں گے پھر آپ نے سورئہ بقرہ کي آيت ١٥٥کي تلاوت فرمائي ’’لنبلونکم بشئي من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشراالصابرين‘‘اورہم تمہيں ضرور آزمائيں گے کچھ توخوف سے ،کچھ بھوک سے کچھ اموال ميں کمي سے اور تم صبرکرنے والوں کوبشارت دے دو‘‘ ۔(الغيبۃ نعماني ص١٦٨،بحارالانوارج٥٢ص٢٢٩)

بيان شدہ نشانيوں کانتيجہ

ٰ يہ روايات جو ہم نے نمونہ کے طورپربيان کي ہيں جن سے واضح ہوتاہے کہ حضرت قائم ٴ کے ظہورسے پہلے لوگوں کے اندرخوف وہراس ہوگا،بھوک ہوگي ،قحط سالي ہو گي معاشي بدحالي ہوگي،زمين لرزے گي ،زلزلے ہوں گے، بے تحاشابارشيں ہوں گي ،فتنہ و فسادہوں گے،اموال ميں کمي ہوگي،جانيں ضائع ہوں گي ،قتل ،جنگ وجدال ہو گا ، آفات وبلّيات ہوں گي،کھيت ضائع ہوں گے،سيلاب ہوں گے،بے وقت بارشيں ہوں گي،بے وقت آسماني اورزميني آفات ہوں گي،مکڑيوں کافصلوں پروقت بے وقت حملہ ہو گا ، ان سب پريشانيوں ميں، مصائب ومشکلات ہيں ، صبرکرنے والوں کے واسطے خوش خبري ہے اس دورکے بارے ميں ايک بات جوکہي جاسکتي ہے کہ حضرت ٴ کے ظہورسے پہلے کے سالوں ميں اوربالخصوص اس سال ميں جس ميں آپ ٴ ظہورفرمائيں گے پوراعالم جنگ وجدال ،فتنہ و فسادسے کھول رہاہوگا،امن نہ ہوگا،معاشي بدحالي ہوگي ہرطرف بے چيني اورپريشاني ہو گي ، فرقہ واريت ہوگي،دہشت گردي ہوگي،ہرشخص موت کي تمناکرے گا، بيمارياں ہوں گي، مايوسي ہي مايوسي ہوگي،خوف وہراس ہوگا،قحط ہوگا،خيانت ہوگي،بے راہروي ہوگي،امين خائن ہوگا،سچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ کہاجائے گا،ہرطرف ظلم کي داستانيں ہوں گي،دنيا کے ہر خطہ اور ملک ميں رہنے والے لوگ اپنے حکمرانوں سے سخت مايوس ہونگے ،رائج نظاموں سے کسي قسم کے امن بحال ہونے کي توقع بالکل نہ رہے گي ان حالات ميں عدالت الٰہي کے تخت پرجلوہ افروزہونے کے لئے حضرت امام مہدي ٴ کاظہورپرنورہوگاجن کي آمدسے ظلم کي طويل تاريک رات کاخاتمہ ہو گا اورصبح نورطلوع ہوگي ،انسانيت کواپنااصلي راستہ ملے گااورہرشخص خوشحالي کي منزل کوپا لے گا ۔

ظہورکے بعد

ظہورکے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام کعبہ کی ديوارسے ٹيك لگاکرکھڑے ہوں گے ۔ ابرکاسایہ آپ کے سرمبارک پرہوگا ، آسمان سے آوازآتےگی کہ  ”یہی امام مہدی ہیں “ اس کے بعدآپ ایک منبرپرجلوہ افروزہوںگے لوگوں کو خداکی طرف دعوت دیں گے اوردین حق کی طرف آنے کی سب کوہدآیت فرمائیں گے آپ کی تمام سیرت پیغمبراسلام کی سیرت ہوگی اورانھیں کے طریقےپرعمل پیرا ہوں گے ابھی آپ کاخطبہ جاری ہوگا کہ آسمان سے جبرائیل ومکائیل آکربیعت کریں گے ،پھرملائکہ آسمانی کی عام بیعت ہوگی ہزاروں ملائکہ کی بیعت کے بعد وہ ۳۱۳مومن بیعت کریںگے ۔ جوآپ کی خدمت میں حاضرہوچکے ہوںگے پھرعام بیعت کاسلسہ شروع ہوگا دس ہزار افراد کی بیعت کے بعد آپ سب سے پہلے کوفہ تشریف لے جائیںگے ،اوردشمنان آل محمد کاقلع قمع کریں گے آپ کے ہاتھ میں عصاٴموسی ہوگا جواژدھے کاکام کرے گا اورتلوارحمائل ہوگی ۔(عےن الحیات مجلسی ۹۲)تواریخ میں ہے کہ جب آپ کوفہ پہونچیں گے توکئی ہزار کاایک گروہ آپ کی مخالفت کے لئے نکل پڑے گا ،اورکہے گا کہ ہمیں بنی فاطمہ کی ضرورت نہیں ،آپ واپس چلے جائیے یہ سن کر آپ تلوار سے ان سب کاقصہ پاک کردیں گے اورکسی کوبھی زندہ نہ چھوڑیں گے جب کوئی دشمن آل محمد اورمنافق وہاں باقی نہ رہے گا توآپ ایک منبرپرتشریف لے جائیں گے اورکئی گھنٹے تک رونے کاسلسہ جاری رہے گا پھرآپ حکم دیں گے کہ مشہد حسین تک نہرفرات کاٹ کرلائی جائے اورایک مسجد کی تعمیرکی جائے ۔ جس کے ایک ہزار درہوں ،چنانچہ ایسا ہی کیاجائے گا اس کے بعد آپ زیارت سرورکائنات کے لئے مدینہ منورہ تشریف لے جائیں گے ۔ (اعلام الوری ۲۶۳،ارشادمفید ۵۳۲،نورالابصار۱۵۵)۔

قدوة المحدثین شاہ رفیع الدین رقمطرازہیں کہ حضرت امام مہدی جوعلم لدنی سے بھرپورہوںگے جب مکہ سے آپ کاظہورہوگا اور اس ظہورکی شہرت اطراف واکناف عالم میں پھیلے گی توافواج مدینہ ومکہ آپ کی خدمت میں حاضرہوںگی اورشام وعراق  کے ابدال اوراولیاٴ خدمت شریف میں حاضرہوںگے اورعرب کی فوجیں جمع ہوجائیں گی ،آپ ان تمام لوگو ں کو اس خزانہ سے مال دیں گے جوکعبہ سے برآمد ہوگا ۔ اورمقام خزانہ کو  ” تاج الکعبہ“ کہتے ہوں گے ،اسی اثناٴ میں ایک شخص خراسانی عظیم فوج لے کر حضرت کی مدد کے لئے مکہ معظمہ کوروانہ ہوگا ،راستے میں اس لشکرخراسانی کے مقدمہ الجیش کے کمانڈر منصورسے نصرانی فوج کی ٹکرہوگی ،اورخراسانی لشکرنصرانی فوج کوپسپا کرکے حضرت کی خدمت میں پہنچ جائے گا اس کے بعد ایک شخص سفیانی جوبنی کلب سے ہوگا حضرت سے مقابلہ کے لئے لشکرعظیم ارسال کرے گا لیکن بحکم خدا جب وہ لشکر مکہ معظمہ اورکعبہ منورہ کے درمیان پہنچے گا اورپہاڑمیں قیام کرے گا توزمین میں وہیں دھنس جائے گاپھرسفیانی جودشمن آل محمد ہوگا نصاری سے سازبازکرکے امام مہدی سے مقابلہ کے لئے زبردست فوج فراہم کرے گا نصرانی اورسفیانی فوج کے اسی نشان ہوں گے اورہرنشان کے نیچے ۱۲ہزار کی فوج ہوگی ۔ ان کا دارالخلافہ شام ہوگاحضرت امام مہدی علیہ السلام بھی مدینہ منورہ ہوتے ہوے جلد سے جلد شام پہنچیں گے جب آپ کاورود مسعود دمشق میں ہوگا ،تودشمن آل محمد سفیانی اوردشمن اسلام نصرانی آپ سے مقابلہ کے لئے صف آراہوںگے ،اس جنگ میں فریقین کے بے شمار افراد قتل ہوںگے بالاخر امام علیہ السلام کوفتح کامل ہوگی ،اورایک نصرانی بھی زمین شام پر باقی نہ رہے گا اس کے بعد امام علیہ السلام اپنے لشکریوں میں انعام کوتقسیم کریں گے اوران مسلمانوں کو مدینہ منورہ سے واپس بلا لیں گے جونصرانی بادشاہ کے ظلم وجورسے عاجزآکر شام سے ہجرت کرگئے تھے ۔(قیامت نامہ ۴)اس کے بعد مکہ معظمہ واپس تشریف لے جائیںگے اورمسجد سہلہ میں قیام فرمائیں گے (ارشاد۵۲۳)اس کے بعد مسجد الحرام کوازسرنوبنائیں گے اوردنیا کی تمام مساجد کو شرعی اصول پرکردیں گے ہر بدعت کوختم کریںگے اورہرسنت کوقائم کریں گے ،نظام عالم درست کریں گے اورشہروں میں فوجیں ارسال کریںگے ،انصرام وانتظام کے لئے وزراء روانہ ہوںگے ۔(اعلام الوری ۲۶۲،۲۶۴)۔

اس کے بعد آپ مومنین ،کاملین اورکافرین کوزندہ کریں گے ،اوراس ز ندگی کامقصد یہ ہوگا کہ مومنین اسلامی عروج سے خوش ہوں اورکافرین سے بدلہ لیاجائے ۔ ان زندہ کئے جانے والوں میں قابیل سے لے کر امت محمدیہ کے فراعنہ تک زندہ کئے جائیں گے ،اوران کے کئے کاپورا پورا بدلہ انھیں دیاجائے گا جوجوظلم انھوں نے کئے ان کامزہ چکھیں گے غریبوں ،مظلوموں اوربےکسوں پرجوظلم ہواہے اس کی (ظالم کو) سزادی جائے گی ،سب سے پہلے جوواپس لایاجائے گا وہ یزیدبن معاویہ ملعون ہوگا اورامام حسین علیہ السلام تشریف لائیں گے ۔ (غایۃ المقصود)۔

نزول حضرت عیسی علیہ السلام  :

حضرت مہدی علیہ السلام سنت کے قائم کرنے اوربدعت کومٹانےکاانصرام  وانتظام عالم میں مشغول ومصروف ہوں گے کہ ایک دن نمازصبح کے وقت بروآیتي نمازعصرکے وقت حضرت عیسی علیہ السلام دوفرشتوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے دمشق کی جامع مسجد کے منارہ ٴشرقی پرنزول فرمائیں گے حضرت امام مہدی ان کااستقبال کریں گےاورفرمائیں گے کہ آپ نمازپڑھئے ،حضرت عیسی کہیںگے کہ یہ ناممکن ہے ،نمازآپ کوپڑھانی ہوگی ۔چنانچہ حضرت مہدی علیہ السلام امامت کریں گے اورحضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے  نمازپڑھیں  گے اوران کی تصدیق کریںگے ۔(نورالابصار۱۵۴،غایۃالمقصود ۱۰۴۔۱۰۵،بحوالہ مسلم وابن ماجہ ،مشکوة ۴۵۸)

اس وقت حضرت عیسی کی عمرچالیس سالہ جوان جیسی ہوگی ۔وہ اس دنیامیںشادی کریں گے ،اوران کے دولڑکے پھی ہوںگے ایک کانام احمداوردوسرے کانام موسی ہوگا ۔(اسعاف الراغبےن برحاشیہ نورالابصار۱۳۵،قیامت نامہ ۹بحوالہ کتاب الوفاابن جوزی ،مشکوة ۴۶۵وسراج القلوب ۷۷)۔

امام مہدی اورعیسی ابن مریم کادورہ  :

اس کے بعد حضرت امام مہدی علیہ السلام اورحضرت عیسی علیہ السلام بلاد ،ممالک کادورہ کرنے اورحالات کاجائزہ لینے کے لئے برآمد ہوںگے اوردجال ملعون کے پہنچائے ہوئے نقصانات اوراس کے پد کئے ہوئے بدترین حالات کوبہترین سطح پرلائیںگے ،حضرت عیسی خنزیرکوقتل کرنے ،صلحوں کوتوڑنے اورلوگوںکے اسلام قبول کرنے کاانصرام وبندوبست فرماءیں گے ۔ عدل مہدی سے بلاد عالم میں اسلام کاڈنکا بجے گا اورظلم وستم کاتختہ الٹ جائے گا ۔(قیامت نامہ قدوة المحدثےن ۸بحوالہ صحیح مسلم)۔

یاجوج ماجوج اوران کاخروج

قیامت صغری یعنی ظہورآل محمداورقیامت کبری کے درمیان دجال کے بعد یاجوج اورماجوج کاخروج ہوگا ۔یہ سد سکندری سے نکل کرسارے عالم میں پھیل جائیںگے اوردنیاکے امن وامان کوتباہ وبربادکردیں گے میںپوری سعی کریںگے ۔

یاجوج ماجوج حضرت نوح کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں ،یہ دونوںچارسوقبیلے اورامتوںکے سرداراورسربراہ ہیں ،ان کی کثرت کاکوئی اندازہ نہیںلگایاجاسکتا ۔مخلوقات میں ملائکہ کے بعد انھیں کثرت دی گئی ہے ،ان میں کوئی ایسانہیں جس کے ایک ایک ہزار اولاد نہ ہو ۔یعنی یہ اس وقت تک مرتے نہیں جب تک ایک ایک ہزاربہادرپیدانہ کردیں ۔یہ تین قسم کے لوگ ہیں ،ایک وہ جوتاڑسے زیادہ لمبے ہیں ،دوسرے وہ جولمبے اورچوڑے برابرہیں جن کی مثال بہت بڑے ہاتھی سے دی جاسکتی ہے ،تیسرےوہ جواپناایک کان بچھاتے اوردوسرا اوڑھتے ہیںان کے سامنے لوہا ،پتھر،پہاڑتووہ کوئی چیزنہیںہے ۔یہ حضرت نوح کے زمانہ میں دنیاکے اخیرمیںا س جگہ پےداہوئے ، جہاں سے پہلے سورج نے طلوع کیاتھا زمانہ فطرت سے پہلے یہ لوگ اپنی جگہ سے نکل پڑے تھے اوراپنے قریب کی ساری دنیا کوکھا پی جاتے تھے یعنی ہاتھی ،گھوڑا ،اونٹ،انسان ،جانور،کھیتی باڑی غرضکہ جوکچھ سامنے آتاتھا سب کوہضم کرجاتے تھے ۔ وہاں کے لوگ ان سے سخت تنگ اورعاجزتھے ۔یہاں تکہ زمانہ فطرت میں حضرت عیسی کے بعد بروائتی جب ذوالقرنین اس منزل تک پہنچے توانھیں وہاں کاسارا واقعہ معلوم ہوا اوروہاں کی مخلوق نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں اس بلائے بے درمان یاجوج ماجوج سے بچائے ۔چنانچہ انھوں نے دوپہاڑوں کے اس درمیانی راستے کوجس سے وہ آیاکرتے تھے بحکم خدالوہے کی دیوارسے جودوسوگزاونچی اورپچاس یاساٹھ گزچوڑی تھی بند کردیا ۔اسی دیواررکوسد سکندری کہتے ہیں ۔کیونکہ ذوالقرنین کااصل نام سکندراعظم تھا ،سدسکندری کے لگ جانے کے بعد ان کی خوراک سانپ قراردی گئی ،جوآسمان سے برستے ہیں یہ تابظہورامام مہدی علیہ السلام اسی میں محصوررہیںگے ان کااصول اورطریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی زبان سے سد سکندری کو رات چاٹ کرکاٹتے ہیں ،جب صبح ہوتی ہے اوردھوپ لگتی ہے توہٹ جاتے ہیں ،پھردوسری رات کٹی ہوئی دیوارپھر پرہوجاتی ہے اوروہ پھراسے کاٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔

بحکم خداسے یہ لوگ امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں خروج کریں گے دیوارکٹ جائے گی اوریہ نکل پڑیں گے ۔اس وقت کاعالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنی ساری تعداد سمیٹے ساری دنیامیں پھیل کر نظام عالم کودرہم برہم کرنا شروع کردیں گے،لاکھوں جانیں ضائع ہوں گی اوردنیاکی کوئی چیزایسی  باقی نہ رہے گی جوکھائی اورپی جاسکے ،اوریہ اس پرتصرف نہ کریں۔ یہ بلاکے جنگجولوگ ہوںگے دنیاکومارکر کھاجائیںگے ادھرسے بحکم خدا خون آلودتیر آئے گا تویہ بہت خوش ہوںگے اورآپس میں کہیں گے کہ اب ہمارااقتدارزمین سے بلند ہوکر آسمان پرپہنچ گیاہے ۔اسی دوران میںامام مہدی علیہ السلام کی برکت اورحضرت عیسی کی دعا کی وجہ سے خداوندعالم ایک بیماری بھیج دے گا جس کوعربی میں  ”نغف “ کہتے ہیں یہ بیماری ناک سے شروع ہوکر طاعون کیطرح ایک ہی شب میں ان سب کاکام تمام کردے گی پھران کے مردارکوکھانے کے لئے ”عنقا “ نامی پرندہ پیداہوگا ،جوزمین کوان کی گندگی سے صاف کرے گا ۔اورانسان ان کے تیروکمان اورقابل سوختنی آلات جنگ کو سات سال تک جلائیں گے (تفسیرصافی ۲۷۸،مشکوة۳۶۶،صحیح مسلم ،ترمذی ،ارشادالطالبین ۳۹۸،غایۃ المقصودجلد۲ص ۷۶،مجمع البحرین ۴۶۶،قیامت نامہ ۸)۔

آسمانی فریاد

آسمانی فریاد امام مھدی عج کےظھور کی علامات میں سے ایک علامت ہے کہ بہت سی روایات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے یہ فریاد اور آواز جبرائیل امین کی ہوگی کہ تمام زمین میں سنی جائے گی اس طرح کہ ہر آدمی اپنے کانوں سے اسے سنے گا ابوحمزہ ثمالی امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھے اورپوچھا کہ (فکیف یکون النداء )وہ اسمانی صدا کیسے ہوگی امام معصوم نے فرمایا کہ ینادی مناد من السماء اول النھار یسمعہ کل قوم بالسنتھم ۔۔۔۔ فریاد کرنے والا دن کے شروع میں آسمان سے فریاددے گا یہاں تک کہ ھرمعاشرہ اور ہرقوم اپنی زبان میں اس کوسنے گی ایک اور حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ینادی مناد من السماء باسم القائم علیہ السلام فیسمع من بالمشرق ومن بالمغرب لایبقی راقد الااستیقظ ولاقائم الا قعد ولاقاعدالاقام علی رجلیہ فزعا من ذلک الصوت فرحم اللہ من اعتبر بذلک الصوت فاجاب فان الصوت الاول ھوصوت جبرئیل ۔۔۔۔۔۔۔آسمان سے آواز دینے والا قائم( آل محمدعج)کے نام سے آواز دے گا یہاں تک کہ شرق وغرب میں رہنے والا ہر فرد اس کی اس آواز کوسنے گا (وحشت اور اضطراب یہاں تک ہوگا کہ )سویا ہوا شخص جاگ جائے گا اور اٹھا ہوا شخص بیٹھ جائے گا اوربیٹھا ہوا شخص اٹھ کھڑا ہوگا پس رحمت الھی ان لوگوں کےلیے سزاوار ہے جواس فریاد اور آواز سے نصیحت لے اورمثبت جواب دے گاوہ پہلی آواز جبرئیل کی آواز ہوگی یقینا امین فرشتہ کی آوازمستضعفین اور مومنین کےلیے خوشی کاباعث ہوگی خصوصا وہ لوگ جوظالموں کے ظلم میں گرفتار ہوں گےاورظالموں کے لیے ڈراور اضطراب کی حالت پیش آئےگی کیونکہ ان کی عمر اور ان کا اقتدار ختم ہونے والا ہوگا اور ان کے پوشیدہ ظلموں سے پردہ ہٹ جائے گا اور جان لیں گت کہ متقم حقیقی حضرت حق نے اپنا کام شروع کادیاہے یہ آسمانی آواز آغاز ہوگا عدالت جھانی کا اور ظلم کے ساتھ جنگ کا اس لیے آسمان والے زمین والوں کی نسبت جلدی ان کی مدد کے لیے حاضر ہونگے خدایا :ہمیں ان افراد میں سے قرار دے جواس آسمانی آواز کوسنیں گے اور حضرت حق کی نصرت کریں گے اور اپنی زندگی کی بعض بھاروں کو ولی حق کی حکومت کے سائے میں گزاریں گے

سفیانی کا خروج (عثمان بن عنبسۃ)

سفیانی کا خروج ان علامات میں سے ہے جن بہت سی شیعہ وسنی روایات میں بیان ہوئی ہے تمام نے سفیانی کو ایک ظالم وجابر کہاہے اور لوگوں کو اس کی حکومت کے دور سے ڈرایاہے اور جوکچھ اس کے زمانے میں ہوگا افسوس کیاہے

امیرالمومنین علیہ السلام سفیانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

یخرج ابن آکلۃ الاکباد من الوادی الیابس وھورجل ربعۃ وحش الوجہ ضخم الھامۃ بوجھہ اثر جدری اذا رایتہ حسبتہ اعور اسمہ عثمان وابوہ عنبسۃ وھو من ولد ابی سفیان حتی یاتی ارضا ذات فرار ومعین فیستوی علی منبرھا (کمال الدین وتمام النعۃ ج۲باب ۵۷ص ۵۵۶)

جگر خوار عورت کابیٹا خشک صحرا (وادی یابس )سے خروج کرے گا اس کے چھار شانہ ہیں وحشتناک چہرے والا ہوگا اور بزرگ چہرے والا ہوگا جب اس کے چہرے کودیکھوگے اس کو ایک آنکھ والا دیکھو گے اس کا نام عثمان بن عنبسہ ہے وابوسفیان کی اولاد میں سے ہوگا اس کا خروج جاری رہے گا یہاں تک کہ کوفہ اور دجلہ کے کنارے پر قبضہ کرلے گا اس کے بعد وہیں پر اپنی سلطنت کا تخت قائم کرے گا

امام علی علیہ السلام ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ( الاوان السفیانی یدخل البصرۃ ثلاث دخلات یذل فیھا العزیزویسمی فیھاالحریم ۔۔۔۔۔۔۔۔)آگاہ رہو کہ سفیانی تین مرتبہ بصرہ پر حملہ کرے گا اور اس میں داخل ہوگا اس کے عزیزواقارب اس سرزمین کو تباہ وبرباد کردیں گے اور ان کی عورتوں کو اسیر کرلیں گے سفیانی کے خروج کی نشانیاں تین پرچموں کا آپس میں اختلاف ہے ایک پرچم مغرب سے مصر میں وارد ہوگا اور ظلم وستم کا مرتکب ہوگا ایک اور پرچم بحرین سے سرزمین فارس سے ہوتاہوا اھتزاز میں وارد ہوگا اور تیسرا پرچم شام سے بلند ہوگایہ فتنہ وفساد ایک سال تک جاری ہونگے اور اس کے بعد عباس کی اولاد میں سے ایک مرد خروج کرے گا اھل عراق کہیں گے ننگے پاوں والے اور مختلف نظریات رکھنے والے آئیں ہیں اس وقت اھل شام اور فلسطین پریشان ہونگے اور شام اور مصر کے بزرگان کی طرف رجوع کریں گے وہ کہیں گے کہ جاو اور سفیانی کولے کرآواور وہ بھی سفیانی کولے کرآئیں گے اور سفیانی ان کی درخواستوں کوقبول کرلے گا اور دمشق میں حرستا کے مقام پر ٹھرے گا اور اپنے تمام رشتہ داروں کوبلائے گا پھر دمشق کے ایک خشک بیابان میں اس کے مختلف طرف دار اس کے ارد گرد جمع ہوجائیں گے اس کے بعد جمعہ کے دن ان تمام کے ساتھ دمشق کی جامع مسجد میں داخل ہونگے اور پہلی بار منبر پر جھاد کی دعوت دے گا شامی اور بہت سے لوگ اس کے یاتھ پر بیعت کریں گے ۔۔۔۔اس کے بعد غوطہ نامی جگہ کی طرف حرکت کرے گا اور وہاں سے اپنے خروج کا آغاز کرے گا وہیں پر تین پرچموں کے درمیان شدیداختلاف کی وجہ سے جنگ ہوگی

(۱) سیاہ پرچم جس کی حمایت ترک اور عجم کررہے ہونگے

(۲)زرد پرچم جوعباس کے بیٹے سے مربوط ہوگا

(۳)تیسرا پر چم سفیانی اور اس کی فوج سے مربوط ہوگا

شدید جنگ ازرق نامی جگہ پر ہوگی کہ ساٹھ ہزار آدمی قتل ہونگے سفیانی جنگ جیت جائے گا اس کے بعد بہت زیادہ افراد کوقتل کرے گا پھر بہت زیادہ زمینوں کو قبضہ میں لے لے گا پھر ظاہرا عدالت کا پرچار کرے گا یہاں تکہ لوگ اس کے ظلم وستم کوبھول جائیں گے  اور کہیں گے کہ جوکچھ لوگ کہتے تھے جھوٹ کہتے تھے

جب امام علی علیہ السلام کی بات یہاں تک پہنچی توبڑی ناراحتی کے ساتھ ارشاد فرمایا:

خدا کی قسم وہ جھوٹ بولتے ہیں نہیں جانتے کہ سفیانی کی وجہ سے امت محمد پر کیا بدبختیاں وارد ہونگی اور کیا تباہی ہوگی اگر یہ جان لیتے تو ایسی بات ہرگز نہ کہتے

سفیانی اپنے گروہ کے ساتھ اپنے سفر کوجاری رکھے گا یہاں تک کہ پہلے شھر حمص میں پہنچے گا اور سب سے بد ترین سلوک اس کے بسنے والوں کے ساتھ کرے گا پھر فرات سے عبور کرکے مصر کے دروازوں تک پہنچے گا اور سباء نامی جگہ پر ایک بڑی جنگ رونماء ہوگی اور سفیانی اور اس کی فوج کا  ظلم وستم لوگوں پر ایسی وحشت طاری کرے گا شھر ایک کے بعد دوسرا فتح ہوتا جائے گا اور سفیانی بڑے غرور اور تکبر سے دمشق لوٹے گا اور لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرے گا اور مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کےلیے فوج تیار کرے گا اور ان کومدینہ کی طرف بھیج دے گا اور ایک اور فوج بغداد پر حملہ کرنے کے لیے تیار کرے گا سفیانی بغداد میں ستر ہزار لوگوں کاقتل عام کرے گااور تین سو حاملہ خواتین کا پیٹ چاک کے گا

پھر کوفہ پر حملہ کرے گا کہ جن سے آنکھیں روپڑیں گی اور دلوں پر وحشت طاری ہوگی سفیانیوں کا خروج مکہ ومدینہ کی طرف جاری رہے گا

اصبغ بن نباتہ کہتاہے کہ کہ اپنے مولا کے حضور تھا کہ انہوں نے ظھور کی علامات کوشمار کیا کہ اس وقت سفیانی کا خروج اور اس کا حملہ مکہ ومدینہ پرکرےگا اور فرمایا:

لذلک آیات وعلامات ۔۔۔۔خروج السفیانی برایۃ حمراء امیرھا رجل من بنی کلب واثنی عشر الف عنان من خیل السفیانی یتوجۃ الی مکۃ والمدینۃ امیرھا رجل من بنی امیۃ یقال لہ خزیمۃ اطمس العین الشمال علی عینہ ظفرۃغلیظۃ یتمثل بالرجال لاترد لہ رایۃ حتی ینزل المدینۃ فی دار یقال لھا دار ابی الحسن الموی ویبعث خیلافی طلب رجل من آل محمد وقداجتمع الیہ ناس من الشیعۃ یعود الی مکۃ امیرھا رجل من عطفان اذا توسط القاع الابیض خسف بھم فلاینجوالارجل یحول اللہ وجھہ الی قفاہ لینذرھم ویکون آیۃ لمن خلفھم ویومئذ تاویل ھذہ الایۃ (ولوتری اذفزعوافلافوت واخذوامن مکان قریب)سورہ سباء آیت ۵۱

امام مھدی عج کے ظھور کے لیے کچھ علامات ہیں من جملہ سفیانی کا خروج سرخ پرچم کے ساتھ اس کے لشکر کا ایک کمانڈر قبیلہ بنی کلب کا ایک مرد ہوگا سفیانی کی فوج میں سے بارہ ہزار کا لشکر مکہ اور مدینہ پر حملہ کرے گا اس لشکر کا کمانڈر بنی امیہ میں سے خزیمہ نامی ایک شخص ہوگا جوایک پلید اور ظالم شخص ہوگا کہ جس کی بائیں آنکھ اندھی ہوگی سفید ی نے اس کی آنکھ کو گھیرے ہوئے ہوگی خزیمہ بہت زیادہ آدمیوں کی لاشوں کو مثلہ کرے گا یعنی ان کے اعضاء وجوارح کو قطع کرے گا بہت ساری جگہوں پر کامیاب ہوگا یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہوگا ہواں ابی الحسن اموی کے گھر ٹھرے گا

پھر فوج کوایک آدمی کی گرفتاری کے لیے بھیجے گا جس کا تعلق آل محمد کے خاندان میں سے ہوگا کہ جس کوشیعیان نے اپنے گھیرے میں لے رکھاہوگا اس وقت اپنی فوج کے ہمراہ مکہ کی طرف جائے گا (مکہ کی طرف جانے والے لشکر کی سربراہی قبیلہ عطفان کے ذمہ ہوگی جس وقت یہ ایک خاص جگہ القاع الابیضیعنی سفید صحرا پہنچے گا خداوند متعال زمین کوحکم دے گا کہ سب کونگل جاو ان میں سے فقگ ایک آدمی باقی رہے گا خداوند متعال اس کے چہرے کو تبدیل کردے گا اور اس کو واپس بھیج دے گا تاکہ ظالموں کے لیے ایک درس عبرت ہو ۔۔ اس وقت  یہ اس آیت کی تفسیر ہوگی

(چنانچہ ان کودیکھوکہ سخت ہراساں ہیں فرار کےلیے کوئی راستہ نہیں ہے وہ نزدیک ترین راستے سے دوچار عذاب ہونگے)

ایک اور روایت میں حذیفہ بن یمان رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبزرگ صحابی نے آخری زمانے کے فتنے کوبیان کیاہے اورسفیانی کی بدترین عاقبت کو رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی یوں بیان کیا ہے

ویحل الجیش الثانی بالمدینۃ فینتھبونھا ثلاثۃ ایام بلیالیھا ثم یخرجون متوجھین الی مکۃ حتی اذا کانو بالبیداء بعث اللہ جبرئیل فیقول :یا جبرئیل اذھب فابدھم فیضربھا برجلہ ضربۃ یخسف اللہ بھم عندھا ولایفلت منھا الا رجلان من جھینۃ

سفیانی کا لشکر مدنہ میں داخل ہوگا وہاں پر تین دن تک قتل وغارت کرے گا اس کے بعد مدنہ سے مکہ کی طرف جیسے ہی وہ مکہ ومدینہ کے درمیان فلات (بیابان ،صحرا)میں پہنچے گا خداوند جبرائیل کوحکم دے گا تاکہ ان کونابود کرے جبرائیل اس زمین میں نازل ہوگا اور پاوں سے ایک ضرب وارد کرے گا زمین ان میں سے دو آدمیوں کے علاوہ سب کو نگل جائے گی ان دوافراد کا تعلق جھینہ قبیلہ سے ہوگا(تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنیں)

آخر میں ضروری ہے کہ کہاجائے سفیانی کی مدت حکومت تباہی وبربادی کے بعد، اعتقادی حدوں کوعبور کرنے کے بعد، عراق، حجاز، شام، فلسطین اور اردن پر حملہ کرنے کےبعد نوماہ ہوگی  اور مصلح بزرگ کی آمد کی خبر سننے کےبعد اپنے آپ کوجنگ کےلیے آمادہ کرے گا لیکن اس کے دل میں وحشت ایجاد ہوگی اور اور اپنے بعض ساتھیوں کے باعث حق کوقبول کرنے کےلیے تیار ہوجائے گا لیکن بعض سوسروں کے وسوسہ کی بنا پر اپنے عھد وپیمان کوتوڑدے گا اور بقیۃ اللہ الاعظم عج کے ساتھ جنگ کرے گا کہ تھوڑی مدت میں اس کی فوج ختم ہوجائے گی حجت خدا اپنی خوبصورت تدبیر کے ساتھ اور الھی مدد کی بنا پر اس پر اور اس جیسے دوسروں پر غلبہ حاصل کرلے گا اور سفیانی کی فوج کاملا تباہ وبرباد ہوجائے گی

بعض روایات کی بناء پر سفیانی اپنی فوج کی شکست کےبعد امام مھدی عج کے ہاتھوں گرفتار ہوجائے گا اور حضرت حجت عج اس کوبیت المقدس کےسامنے پھانسی دیں گے تاکہ ستم دیدہ افراد کے زخموں کےلیے مرہم بنے  ۔

دجال کا خروج

اہل سنت کی حدیثوں میں دجال کے خروج کو بھی حضرت مہدی (عج) کی علامتوں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ شیعہ کتب میں یہ موضوع موجود نہیں ہے اور نہ آیمہ اہل بیت (ع) نے اس پر گفتگو فرمایی،اہل سنت کی کتب میں اس پر بہت بحث ہوی اور اسے قیامت سے پہلے بہت بڑا واقعہ قرار دیا گیا ہے، بعض محققین کے مطابق چونکہ احادیث نبوی میں امام مہدی(عج) کے ظہور کو قیامت سے پہلے بہت بڑا تاریخی واقعہ قرار دیا گیا تھا تو بنی امیہ کے زمانہ میں اس مو ضوع کو اختراع کیا گیا تاکہ امام مہدی اور اہل بیت کی عظمت سے لوگوں کی توجہ ہٹایی جایے، اہل سنت کی کتب میں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے اس کی پیشانی کے درمیان ستارہ کی طرح چمکتی ہوئی ایک آنکھ ہے جس پر ، ک، ر، ف لکھا ہوا ہے ، اس طرح کہ پڑھے لکھے اوران پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے ، کھانے کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا، ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا ، اس کے حکم سے سے آسمان بارش برسائے گا، زمین گلہ اگائے گی، زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے ، مردوں کو زندہ کرے گا ۔ میں تمہارا عظیم خدا ہوں ، میں نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے اورمیں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو ، اوریہ جملہ اتنی بلند آواز میں کہے گا ک سارا جہان سنے گا۔

کہتے ہیں رسول اللہ کے زمانے میں بھی نکلا تھا ، اس کا نام عبداللہ یاصاید بن صاید تھا رسول اکرم اورآپ کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے ، وہ اپنی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، حضرت عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے ، لیکن پیغمبر اکرم نے منع کردیا تھا ، ابھی تک زندہ ہے اورآخری زمانے میں اصفہان کے مضافات میں یہودیوں کے گاوں” یہودیہ “ سے خروج کرے گا۔

(۔ صحیح مسلم ، ج۴، ص ۰۴۲۲، ۱۴۲۲، کتاب الفتن واشراط۔الساعة ، باب ذکر ابن صیاد؛ سنن ترمذی ، ابواب الفتن ، باب ماجاءفی علامات خروج دجال )

دجال کامعنیٰ:

دجال سے متعلق احادیث نقل کرنے سے پہلے دجال کے معنی ملاحظہ ہوں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ” العقیدة الحسنہ “ میں لکھتے ہیں یہ لفظ” دجل“ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ، مکر

وفریب اور حق وباطل میں خلط وتلبس، اور ان معنی کا دجال میں پایا جانا باالکل ظاہر ہے ۔

(۔ العقیدة الحسنہ ، ص ۸۰۲)

احادیث :

دجال کے وجود سے متعلق اہل سنت کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں ،پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے ، چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

1۔ بخاری ، حدثنا یحیٰ بن سلیمان ، قال: اخبرنی ابن وہب قال: حدثنی عمربن محمد ، انّ اباہ حدثہ عن ابن عمر قال: کنّا نتحدث بحجة الوداع ثم ذکرالمسیح الدجال فاطنب فی ذکرہ وقال: فابعث اللّہ من نبی الا انذر امتہ ، انذرہ نوح والنبیون من بعدہ وانّہ یخرج فیکم فما خفیٰ علیکم من شانہ یخفیٰ علیکم انّ ربکم لیس باعور وانّہ اعور عین الیمنیٰ کان غنیتہ غنہ طافیہ۔ الاّ انّ اللّہ حرّم علیکم دمائکم واموالکم کحرمة یومکم ہذا فی بلدکم ہذا (صحیح بخاری ، کتاب ا لمعازی باب حجة الوداع ، ج۲، ص۳۴۷۔)

بخاری ، ہم سے یحی بن سلیمان نے حدیث بیان کی، کہا مجھے ابن وہب نے خبردی کہا مجھ سے عمرو بن محمد نے حدیث بیان کی ، ان سے ان کے والدنے حدیث بیان کی اوران سے ابن عمر نے حدیث بیان کی اورانہوں نے کہا: کہ ہم حجة الوداع کا ذکر کیا کرتے تھے حضور اکرم(ص) باحیات تھے ، اورہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجة الوداع کا مفہوم کیا ہوگا ، آنحضرت (ص)  نے اللہ کی حمد کی اور مسح دجال کا ذکر پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ، آپ نے فرمایا جتنے بھی انبیاءاللہ نے بھیجے ہیں، سب نے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے، نوح نے اپنی امت کو ڈرایا ہے اور دوسرے انبیاءکرام  نے بھی جو آپ کے بعد مبعوث ہوئے

ہیں وہ تمہیں [ امت محمدی ] میں سے خروج کرے گا اور خدائی کا دعویٰ کرے گا ۔

2:”ابن مناوی حدثنا ہارون بن علی بن الحکم قال: حدثنا جماد بن الموسل ابو جعفر الفریز عن میمون بن مہران عن ابن عباس فی حدیث طویل یخرج الدجال فی یہودیة اصبہان“

ابن مناوی، ہم سے ہارون بن علی بن حکم نے حدیث بیان کی ، کہا: مجھے حماد بن موسل ابوجعفر فریز نے خبردی ان سے میمون بن مہران نے ، انہوں نے عبداللہ بن عباس سے کہ انہوں نے کہا: دجال اصفہان کے مضافات سے یہودیوں کے گاوں ” یہودیہ “ سے خروج کرے گا

۔( الملاحم ، ابن مناوی ، باب الدجال ، بیان الماثور فی قصّة ووکاید سحرہ؛ ص ۷۰۲۔)

3:”مقدسی عن عبداللہ بن عمر قال قال رسول اللّہ لاتقوم الساعة حتّٰی یخرج المہدی من ولدی ، ولایخرج المہدی حتّٰی یخرج ستون کذّاباً کلہم یقولون انا نبی ۔“

یوسف مقدسی، عبداللہ بن عمر نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا : اس وقت تک قیامت برپا نہ ہوگی جب تک میری اولاد میں سے مہدی ظہور نہ کرے ، اور مہدی ظہور نہیں کرے گا جب تک ساٹھ (۶۰)جھوٹے جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہوں گے ظاہر نہیں ہوں۔ ( عقد الدرر ، باب اول ، انّہ من ذرّیة رسول اللہ وعترتہ ، ص ۹۳۔)

4:”عن جابر بن عبداللہ انصاری قال قال رسول اللہ : من کذبا الدجال فقدکفرومن کذب بالمہدی فقد کفر۔“

جابرابن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: جس نے دجال کو جھٹلایا وہ کافر ہوگیا اور جس نے مہدی  کو جھٹلایا وہ بھی کافر ہو گیا۔

( عقد الدرر ، باب التاسع ،فی شرفہ [ امام مہدی] وعظیم منزلتہ ، ص ۹۰۲۔)

نوٹ :دجال کو جھٹلانے کا مطلب اس کے خروج کے بارے میں شک وشبہ کرنا مراد ہے کہ جس کے خروج کی خبر حضور نے خود دی ہے۔

5:”قال رسول اللّہ ، مابین خلق آدم الیٰ قیام الساعة اکبر من الدّجال۔“

رسول اللہ(ص) نے فرمایا : خلقت آدم سے لے کر قیامت برپا ہونے تک کوئی بھی دجال سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہوگا۔

(صحیح مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعة ، باب بقتہ من احادیث الدجال ، ج۴،ص۱۴۲۲)۔

6:”عن انس بن مالک رضی اللّہ عنہ آن رسول اللّہ قال: یتبع الدجال من یہود اصبہان سبعون الفاً علیہم الطیاسہ قال جابر: فما یخرج الدّجال حتی تفتح الروم “

انس بن مالک سے منقول ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اسفہان کے ستر(۰۷)ہزار یہودی دجال کی اطاعت ومدد کریں گے ۔ جابر  نے کہا: اس وقت تک دجال خروج نہیں کرے گا جب تک روم [ یورپ اور امریکا ] فتح نہ ہوجائیں ۔

(۔ عقد الدرر ، باب التاسع ،فی فتوحاتہ وسرتہ فصل فی ماذکر من الملاحم والفتن ، ص ۷۳۲)

7:”عن معاذ بن جبل عن النبی ، قال النبی ، الملحسمة العظمیٰ وفتح القسطنطنیة وخروج الدجال من سبعة اشہر“

معاذ بن جبل نقل کرتے ہی کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: جنگ جہانی ، اور قسطنطنیہ [ مغرب] کی فتح اورخروج دجال سات (۷)مہینوں کے اندر اندر ہوگا۔

( عقد الدرر ، باب ،۹،فی فتوحاتہ وسرتہ ،ص۰۷۲، ایضاً سنن ترمذی ، ابواب الفتن ، باب ماجاءفی علامات خروج الدجال ، ج۱،ص۹۰۸۔)

یہ تھیں چند احادیث دجال کے وجود اوران کے فتنے کے بارے میں، دجال سے متعلق اہل سنت کی کتب حدیث میں اتنی حدیثیں نقل ہوئی ہے اگر انہیں جمع کیا جائے تو ایک کتاب بن سکتی ہے

لیکن ہمارا مقصد ان تمام روایتوں کو جمع کرنا نہیں بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ” دجال“ کے خروج کو بھی ” حضرت مہدی (عج)“ کے ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ احادیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ دجال آخری زمانے میں خروج کرے گا ، یہاں پرایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دجال ہے کون ؟ آیا کسی خاص شخص کا نام ہے ؟ اس سوال کے جواب میں بعض محققین کا کہنا ہے کہ دجال وہی شخص ہے جو خود حضور اکرم رسول خدا(ص) کے زمانے میں تھا ، اس کا نام عبداللہ ، یاصاید بن صایدہے ، پیغمبر اکرم اورآپ کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے ، وہ اپنی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا حضرت عمر اس کو قتل کرنا چاہتے تھے ،لیکن پیغمبر اکرم(ص) نے منع کردیا تھا ، ابھی تک وہ زندہ ہے اورآخری زمانے میں اصفہان کے مضافات سے یہودیوں کے گاوں سے خروج کرے گا۔

لیکن بعض محققین کاکہنا ہے کہ دجال کسی معین ومخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ عرب میں ہر جھوٹے اوردھوکے باز کو دجال کہتے ہیں، پس دجال کا معنی جھوٹے اوردھوکے باز کے ہیں ۔

ہماری نظر میں یہی بات کچھ بہتر لگ رہی ہے کیونکہ اول الذکر بات بہت سے ابہام رکھتی ہے کہ اگر وہ مدینے میں تھا آیا عام انسان کی مانند تھا یا اسی قبیح شکل میں تھا کہ جیسا کہ ظہور کرے گا؟ مسلمان تھا یا غیر مسلم؟ جناب عمر اسے کیوں قتل کرنے لگے تھے؟ اور حضرت (ص)  نے کیوں روکا؟ پھر اگر وہ خدای کا دعوں کرتا تھا آپ(ص) نے اس سے بحث و مجادلہ کیوں نہیں کیا ؟ پھر یہ کہ اسلام کی معتبر تاریخوں میں ایسے  شخص کا ذکر کیوں نہیں ؟ا گر اب کیسی جگہ ہے تو تو میڈیا میں اسکا ذکر کیوں نہیں؟ حالانکہ آج اگر کویی چند سو سال کا بھی شخص موجود ہوتا تو اس وقت دنیا کی حیرت و دلچسپی کا مرکز ہوتا؟ ہوسکتا ہے کویی کہے وہ بھی امام مہدی کی طرح غایب ہے تو احا دیث میں اسکی غیبت کا ذکر کیوں نہیں ہوا؟

شاید یہ انہی قصوں میں سے ہو کہ جو بنی امیہ نے جناب عمر کی جنگ احد میں بھاگنے کی خفت چھپانے کے لیے اور اسکی شجاعت بر قرار رکھنے کے لیے گھڑے ہیں۔

البتہ دوسرے نظریے کی بہت سے احادیث بھی تائید کرتیں ہیں چنانچہ پیغمبراکرم (ص) کا ارشاد ہے ”لاتقوم الساعة حتّٰی یبعث کذّابون دجالون قریب من ثلاثین کلہم یذعم انّہ رسول اللّہ“ یعنی،قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک تیس(۳۰)جھوٹے دجال جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ظاہر نہیں ہوں گے۔

(سنن ترمذی ابواب الفتن،باب ماجاءلاتقوم الساعة حتی یخرج کذّابون ، ج۱، ص۸۹۷)

آپ(ص) ہی کا ارشاد ہے کہ اس وقت تک قیامت برپانہ ہو گی جب تک تیس(۳۰)جھوٹے دجال ظاہر نہ ہو جائیں اوروہ خدا اوراس کے رسول پر جھوٹ باندھیں گے ۔

(سنن ابی داوود ، کتاب الملاجم ، باب فی خبر ابن صاید، ص ۱۲۱)

مختصر یہ کہ اصل قضیہ کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے ، لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام مہدی (عج)کے ظہور کے وقت آخری زمانے میں ایک شخص کا خروج ہو گا جو فریب کا ر اور حیلہ گری میں سب سے آگے ہوگا اورجھوٹ بولنے میں پہلے والے دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے دعووں سے ایک گروہ کو گمراہ کرے گا ، کیونکہ کھا نا پینا اس کے ساتھ ہوگا(جدید ٹیلنالوجی کے ذریعے) ، اس لئے لوگ اس کی حقیقت سے غافل رہیں گے  اوربرفرض ” صاید بن صید“ کو حضورنے اگر دجال کہا بھی ہے تو وہ دورغ گو کے معنی میں ہوسکتا ہے نہ وہ دجال جو علائم ظہور میںایک ہے


source : http://www.islamshia-w.co
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیام عرفانی قیام امام حسین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...
امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

 
user comment