اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

عقیدہٴ مھدویت

اسلامی تہذیب قرآنی لہجہ ،انسان کی شرافت و برتری کا معیار خدا کی طرف رغبت پیدا کرنا ھے جس کو حکیم کی زبان میں تقوے سے تعبیر کیا گیا ھے ،وحی آسمانی انسانی معاشرے میں یہ اعلان کر رھی ھے کہ لوگوں میںسب سے محترم وہ لوگ ھیں جو سب سے زیادہ متقی ھیں ،کیونکہ تقویٰ کمال اور ترقی کی طرف پرواز کرنے کا ذریعہ ھے ۔

تقوے کی سب سے پھلی ممتاز شئی غیب پر ایمان رکھنا ھے

دوسری طرف سے خدا وند عالم کمال آفرین کیمیا کے اس شاخص کو انسانوں کے لئے بیان کر رھا ھے :

<ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدیً للمتقین ۔الذین یومنون بالغیب یقیمون الصلاة ومما رزقناھم ینفقون>[1]<اولئک علی ھدی من ربھم والئک ھم المفلحون >[2]

اس کتاب (کی حقانیت )میں کوئی شک نھیں ھے جو متقین کے لئے ھدایت کا ذریعہ ھے ۔

متقین وہ لوگ ھیں جو غیب پر ایمان رکھتے ھیں ،نماز قائم کرتے ھیں اور ھم نے جو کچھ ان کو رزق دیا ھے اس میں سے کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ھیں یھی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ھدایت یافتہ اور کامیاب ھیں ۔

قرآن کریم نے ”ایمان بہ غیب “کو تقوے کا سب سے پھلا قدم سمجھا ھے اور توحید شناسی کی بنیاد پر یہ عالم ھستی دو چیزوں ”شھود اور غیب “یعنی عالم مشھود ومحسوس اور عالم نامشھودوغیر محسوس سے مل کر وجود میں آیا ھے یعنی متقی ،موحد وہ شخص ھے جو عالم نا محسوس ”غیب “کے تمام عناصر واجزاء پر یقین کامل رکھتا ھو۔

اس کے متعلق علامہ طباطبائی (رہ) یوں فرماتے ھیں :

الغیب خلاف الشھادة ویطلق علیٰ ما لایقع علیہ الحس وھو اللہ سبحانہ آیاتہ الکبریٰ الغائبة عن حواسنا ۔۔۔“[3]

غیب مشھود کے بالکل بر خلاف ھے اور وہ تمام غیر محسوس اشیاء پر خدا وند متعال اس کی پوشیدہ آیات کا اطلاق ھوتا ھے ۔

جیسا کہ منجی موعود حضرت حجة ابن الحسن العسکری (ع) آیات الٰھی میں سے ایک پوشیدہ آیت اور اللہ کی بہت بڑی نشانی ھیں[4]کہ جن کے ظھور کا وعدہ قرآن میں خود خداوند عالم نے دیا ھے[5] تو گزشتہ آیتوں کی بنیاد پر آنحضرت پر ایمان لانے کو تقویٰ کی شرطوں اور کامیابی کا عامل شمار کیا ھے ۔

اسی طرح علامہ طباطبائی (رہ) نے اسی آیت کے روائی بحث کے ذیل میں اس حدیث کو امام صادق(ع)سے نقل کیا ھے :عن الصادق(ع) فی قولہ تعالیٰ <الذین یو منون بالغیب >قال :”من آمن بقیام القائم (عج)انہ الحق “۔اقول وہذا المعنی ٰ مروی فی غیر ھٰذہ الروایة“۔امام صادق (ع) نے فرمایا جو شخص امام قائم کے قیام پر ایمان لائے یھی حق ھے اور میں کہتا ھوںدوسری حدیثوں میں یھی معنی مراد ھیں ۔[6] 

امام نے پھر اس آیت <الذین یومنون بالغیب > کے بارے میں فرمایا :اس آیت سے وہ لوگ مراد ھیں جو قیام مھدی پر یقین رکھتے اور اس کو حق جانتے ھیں یھاں تک یہ بات معلوم ھو گئی کہ عقیدہ ٴمھدویت پر ایمان لانا ضروری ھے اور اس کے بعد ضرورت اس بات کی ھے کہ اس پر ایمان رکھنے کی ضرورتوں کی تحقیق کی جا ئے دوسرے لفظوں میں ھمیں یہ دیکھنا ھے کہ کس شخص کو ”مھدی “مانیں ؟تو اس موقع پر ایک بنیا دی سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ کیا حضرت کے نام و نسب کی شنا خت ،اور ان کے قیام کے متعلق ان کے کردار ،مقام ،سیرت اور دیگر معلومات ،مھدی (ع)پر ایمان لانے والوں کی تعداد میں داخل ھو نے کے لئے کا فی ھے ؟

جو شخص معلومات کو حاصل کرنے کی راہ میں صرف اپنی کوشش کے نتیجے میں کوئی توفیق پا گیا ھو تو کیا اس کو عقیدہ مھدی کھا جائیگا؟

اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایمان کی ماھیت اور اس کے اجزاء و مقدمات کے بارے میں مختصر طور پر تحقیق کرنی ھو گی اس لئے کہ ”عقیدہ ٴمھدویت “بھی ایمان کا ایک مصداق ھے اور یہ بھی واضح رھے کہ ایمان مطلق کی شنا خت پھر سے ھو سکے ،مجبوراًاور نا گزیرطور پر حضرت ولی عصر (عج)پر ایمان لانے کے مقدمات بھی کشف ھو جائیں گے لیکن اس موت میں تفصیل سے اس مطلب کی وضاحت ممکن نھیں ھے اس لئے اس بات میں اختصار پر اکتفا کرتے ھیں۔

ایمان کی تعریف

ھر چیز کی حقیقت دواعتبار سے انسان کی شخصیت میں رابطہ بر قرار کر سکتی ھے :ادراک اور محبت ؛اگر کسی شی ٴکا وجود خود ھی انسان کے عقل اور ذھن میں آجا ئے ،ایسی صورت میں انسان اس حقیقت کے ساتھ ”عقدالعقل“کا رشتہ بر قرار کرتا ھے لیکن اگر یہ چیز انسان کے دل اور قلب میں اتر جا ئے اور اس میں موثر ثابت ھو اور نرمی و ملائمت کا احساس کرے تو ”عقدالقلب “ کا رابطہ بر قرار ھو تاھے ۔

اگرعقد العقل کے محقق ھونے میں عقل کوئی عکس العمل دکھائے تو انسان کے لئے ”بینش اور دید “ نام کا عنصر حاصل ھو جا تا ھے اور عقد القلب کے متحقق ھو نے اورقلب کی طرف سے عکس العمل ظاھر ھو توانسان کے اندر ایک قسم کا جھکاوٴپیدا ھوجاتاھے ان دو عکس العمل میں ضروری نھیںھے کہ ایک دوسرے میں کسی قسم کا لازمہ پا یا جاتاھو اور آپس میں ایک دوسرے کے ملازم ھوں یعنی بہت سے دید اور بینش ذھن و ادراک میں باقی رہ جاتے ھیں لیکن عطوفت اور محبت کی منزل تک نھیں پھنچتے اور اس کے مقابل اکثر اور بہت سارے احساسات میں کسی قسم کی معرفت اور شناخت بھی نھیں ھوتی ۔

اس میں سے ایمان نہ تو بینش ھے اور نہ تو گرائش ،اور نہ ایمان صرف عقدالعقل ودید کی بنیادوں پر قائم ھے ۔

ایسے میں ایمان انسان کی سرشت اور خلقت میں موجود ھوتی ھے جو ایک درخت کے پودے کے جیسے ذھن انسانی میں لگا دیا گیا ھو جو اپنی جڑوں کو دل کی گھرائیوں میں جگہ بنا لیتا ھے ،ایمان ایک بادبانی کشتی کے جیسے ھے کہ جس کی قطب نمائی سوئیاں معرفت سے بھرے ھو ئے مدار ومحور پر گھومتی رہتی ھیں ۔

استاد شھید مطھری(رہ) اس کے متعلق فرماتے ھیں :ایمان یعنی اعتقاد ،ایمان یعنی فکر کا جذب ھو نا اور کسی فکر کا قبول کرنا کسی بھی فکر کے جذب ھو نے کے دو رکن ھوتے ھیں :اس میں سے ایک رکن علمی اعتبار سے ھے کہ جس کو انسان کی عقل قبول کرتی ھے اور اس کا دوسرا رکن احساس کے لحاظ سے ھو تاھے کہ جس کی طرف انسان کا دل جھکتا ھے۔[7]بلند مقام ،معنوی اور حیوان کے ما فوق انسان کا جھکاوٴجب فکری بنیا دوں پر قائم ھو تو اسی کا نام ”ایمان “ھو جاتاھے ۔[8]

اس بنا ء پر ان مطالب کو اس طرح جمع کیا جا سکتاھے کہ ایمان دو چیزوں ”کسی بڑی حقیقت کی معرفت “ اور ”اس کی طرف دل کے لگانے“سے پیدا ھو تا ھے ۔

اب ھم نے ایمان کے اجزاء اور اس کے مقدمات کو پہچان لیا اور اس مطلب کو آسانی سے سمجھ لیا کہ امام مھدی (ع)پر ایمان رکھنے کے لئے صرف آنحضرت کی معرفت اور ان سے مربوط امور پر ایمان لانا کافی نھیں ھوگا ،اس لئے کہ جو شخص بقیة اللہ ،مھدی (ع)اور زمانے کی حجت پر ایمان رکھتاھے ، اسے اس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اپنے مولاو مقتدا سے دلی طور پر مانوس ھو کر اس کے ساتھ ھم سفر ھو نا پڑےگا اور یہ سمجھ لے کہ سینکڑوں قافلے اس کے ساتھ ھیں جس کے سا تھ عطوفت و مھربانی کا رابطہ بھی بر قرار کرے اور دل کو اس کی ضمانت میں دے دے ۔[9]

اس کے بعد بطور مختصر رسول اعظم(ص) اور ائمہ معصومین(ع) کی وصیتوں کا ذکر ھو رھا ھے جو امام غائب کے چا ھنے والوں کے متعلق ھیں جس میں ان کی ذمہ داریوں کا ذکر ھو ا ھے ،حقیقت میںوہ ایسے کار آمدقوانین اور دستور العمل ھیںجو ان عطوفتی رابطے کو غیر مستقیم طور پر ایجاد کر تے ھیں وہ روح کا مانوس ھو نا اورایک قسم کا قلبی لگاوٴھے :

(۱)آنحضرت کو تحفہ دنیا یعنی ان کی رضا اور اسے اپنی چاہت کے مطابق خرج کرنا۔[10]

(۲)آپ سے تجدید بیعت کرنا ۔[11]

(۳)امام کی فرقت میں رونا اور آنسو بھانا۔ [12]

(۴)امام کی یاد کو زندہ کرنے کی غرض سے مجالس ودعا ووو۔۔۔کا انعقادکرنا۔[13]

(۵)امام کی نیا بت میں حج کرنا اور یوسف زھرا(س)کی سلامتی کے لئے صدقہ دینا ۔[14] 

(۶)جن کا موں سے امام کو اذیت ھو ان کو ترک کرنا[15]

(۷)قبلہٴ دل سے ملاقات کی دعاکرنا[16]

(۸)مستحبی نمازوں کا ثواب امام کے نام ھدیہ کرنا [17]

(۹)آنحضرت پر درودو صلوات بھیجنا [18]

(۱۰)امام کی خدمت میں توسل اور استغاثہ کرنا [19]

امام مھدی (ع)کاعقیدہ اور ذھنی سکون

عقیدہ مھدی (ع)کے آثار و نتائج کے باب میں مختلف چیزوں کو بیان کر سکتے ھیں

عقیدہ ٴمھدویت کے باب میں مختلف بحثوں پر گفتگو کی جا سکتی ھے اس لئے اس مقدس عقیدے کے بااھمیت پیغام کو پیش کرتے ھیں :

اس سے قبل خود مترجم کے مقدمہ میں یہ بات گزر چکی ھے کہ امام مھدی (ع)کا وجود مبارک لطف الٰھی ھے کہ جس کی دو صورت ھے (۱) تکوینی پھلو (۲) حمایتی پھلو

اب ھم اس دوسری صورت کو پیش کرنے جا رھے ھیں

امام مھدی (ع)کے وجود مبارک کی حمایت

جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ھو اھے [20]سکون وامن کی نعمت بہت بڑی نعمت ھے خود امنیت مختلف قسم کی ھوتی ھے جیسے فوجی امنیت ،قضائی اور اقتصادی امنیت و…اور اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ خود ذھنی امنیت اور سکون کو بہت بڑی اھمیت حاصل ھے اس لئے کہ اس طرح کی امنیت کے نہ ھوتوانسان مایوسی کا شکار ھو جاتاھے جو اس کو نا امید کر دیتا ھے ،اس لئے روحی تعادل اور کسی معاشرے کے افراد کی حیات میں پائداری عطا کرنے کا مر کزذھنی سکون ھی ھے جو معاشرے کا سب سے قیمتی سرمایہ ھے ۔

اس بنیا د پر ”منجی موعود “دنیا ئے اسلام کے اس وسیع جغرافیہ میں بلکہ پوری دنیا میں تاریخ کے ستم دیدہ مستضعفین کا محاذ اور عدالت خواہ و الٰھی لشکر کا گران بھا معنوی سر مایہ ھے ،اور اس سکون کو عطا کرنے کا مر کز و منبع امام مھدی (ع)ھی ھیں کہ جن سے مل کر حق کی راہ میں لڑنے والے اپنے ارادوں کو مستحکم بنائیں گے اور اپنے اس مستحکم ارادوں کو مزید پائداربنا سکیںگے تو معلوم ھوا کہ امام مھدی (ع)کے وجود کا یہ پھلو اور امت کی اس سے تفصیلی آگا ھی رکھنا کسی مبارک اور مھم پیغام کی خبر دے رھا ھے وہ بھی اس طرح کہ راہ حق میں جھاد اور مبارزہ کرنے میں مھم کردار اور کسی خاص فرد پر منحصر ھے ۔مناسب ھوگا کہ ایک تفصیلی مقدمہ کے ذریعہ اس کی تشریح کی جائے

امید ،شاھراہ موفقیت اور کامیابی کا راز

جب دوسری عالمی جنگ میں لنینگراڈکا شھر ھیٹلر کی فوج کے قبضے میں آیا جس کا محاصرہ بہت طولانی ھو گیا تھا اور سردی و خشکسالی اس حد تک پھنچ چکی تھی کہ جس کی وجہ سے روزانہ ہزاروں لوگ مرتے تھے وہ محاصرہ چار سالو ں تک کھنچا لیکن پھر بھی عوام پائداری کا ثبوت دے رھی تھی اسی دوران شھر لینگراڈ کا ریڈیو مسلسل لوگوں کی طرف سے یہ پیغام دے کر لوگوں کو مزید استحکام و پائیداری کی دعوت دے رھا تھا یہ پائیداری اس حالت میں نظر آرھی تھی کہ آخری دنوں میں تو حد یہ ھو گئی تھی کہ اس کے دو تھائی افراد بھوک سے مر گئے تھے ،لیکن ریڈیو ان کے مرنے کی طرف اشارہ کئے بغیر پیغام کے آخر میں ان کے ناموں کو پڑھتا تھا لیکن جب لائٹ چلی گئی اور دودنوں تک ریڈیو نے کوئی خبر نشر نھیں کی تو بہت سے لوگ ریڈیو اسٹیشن کے پاس جمع ھو گئے اور اعلان کر دیا کہ ھمیں کھانے پینے کی اشیاء نھیں چاہئے صرف ریڈیو کے پروگرام کو جا ری رکھا جا ئے تا کہ ھم لڑنے والوں کی خبروں کو سنتے رھیں ۔[21]

قرآنی حوالے سے دیکھا جائے توپوری تاریخ میں حق کے لئے لڑنے والے بہت کم نظر آئے اور باطل کی راہ میں لڑنے والوں کی تعداد بہت تھی ،ارشاد خداوندی ھے :<تلک القریٰ نقص علیک من انبائھا ولقد جا ء تھم رسلھم بالبینات فما کا نوا لیومنوا بما کذبوا من قبل کذالک یطبع اللہ علی قلوب الکافرین ۔وما وجدنا لاکثر ھم من عھد و ان وجدنا اکثرھم لفاسقین >(اعراف ۱۰۱۔۱۰۲۔)

یہ وہ سب بستیا ں ھیں جن کی خبریں ھم تم کو سنا رھے ھیں کہ اگر ھمارے پیغمبر ان کے پاس معجزات لے کر آئے مگر پھلے سے جھٹلانے کی وجہ سے ایمان نہ لا سکے ھم اسی طرح کافروں کے دلوں پر مھر لگا دیتے ھیںھم نے ان کی اکثریت میں عھد وپیمان کی پاسداری نھیں پائی بلکہ اکثریت کو فاسق اور اطاعت کے حدود سے خارج ھی پایا ۔

اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ھے:<وما یاٴمن رسول الا کا نوا بھم یستہزوٴن>(حجر ۱۱۔ )

<وما اکثر الناس و لو حرصت بموٴمنین>( یوسف ۱۰۳۔)

اور اسی طرح سورہ ٴقصص کی پانچویں آیت اور سورہ ٴانبیا ء کی ایک سو پانچویں آیت کے مطابق اور سورہٴ نور کی چھپنویں آیت کو نظر میں رکھیں تو یہ مطلب واضح طور پر سمجھ میں آ سکتا ھے کہ حقیقی مومنین اور صلحاء پو ری تار یخ میں ھوا پرست ،منکر ین کہ جن کے ھاتھوں میں اقتصادی ،سیاسی اور فوجی اختیارات جن کے ذریعے کمزور بنا ئے گئے ایسے بہت سے حق وباطل کے غیر عادلانہ جنگ میں اور حذ ب خدا کے چند گنے چنے اقلیت کی خستہ حالت[22] حق پرستوں کی پائیداری اور استقامت کا تنھا عامل خداکی نصرت اور اس کے وعدوں کی امید ھے جیسا کہ ارشاد ھو ا: <فان حزب اللہ ھم الغالبون>بے شک خداکے حذب والے ھی غالب ھونگے۔ 

اگر توحید پرست اور بغض وعناد رکھنے والے ظالم جنگجو طاقت اور انرژی دینے والے ”امید “عنا صر کو اپنے درمیان سے ختم کر دیں تو اس مقدس جھاد کو باقی رکھنے کا کوئی انگیزہ باقی نھیں رہ جا ئیگا اس لئے کہ جس راہ میں شکست ھی کا منہ دیکھنا ھے اس میں پائداری دکھانا عقل کے خلاف ھوگا ۔[23]تو کیوں خدافرما رھا ھے:<انہ لا ییاٴس من روح اللہ الا القوم الکافرون >یوسف ۸۷۔

بے شک کوئی بھی رحمت خداسے مایوس نھیں ھوتا مگر قوم کافرین جو خدا کی رحمت سے مایوس ھیں چونکہ مایوسی اور نا امیدی بہت بڑی کشتارگاہ ھے اس لئے کہ ابلیس نے انسان کے تمام حیثیتوں اور فضیلتوں کو ختم کرنے کے لئے آدمی کے راستوں کو سجا دیا ھے ”نا امیدی “یعنی انسان کو بغیر کسی عذر کے خلقت کے اسرار سے الوداع کھنا کہ جس سے وہ کمالات کی منزلوں کو طے نہ کر سکے ”نا امیدی “یعنی معراج اور ترقی کے زینوں کا ٹوٹنا ،”نا امیدی “یعنی خدا کی طرف بڑھتے ھو ئے قدموں کو روکنا ،”نا امیدی “یعنی اپنے وجود کو سفر سے روکنا،”نا امیدی “یعنی شکست کو قبول کر نا

اس پر معنی جملے پر غور کریں :کمتر کسی از خود شکست ،شکست خوردہ است ،اغلب ،قبول شکست است کی منجر بہ شکست می گردد،بہت کم ایسا ھو تاھے کہ انسان اپنے سے شکست کھا ئے بلکہ اکثر اوقات شکست کو قبول کرنے سے شکست ھوتی ھے ،اگر چہ ان کلما ت میں کھنے والے نے فلسفی انداز سے غور نھیں کیا لیکن اس نے اپنی نظر میں شکست کی دو قسم کی ھے[24]شکست ،اثبات کے مرحلے میں (شکست کھانے کو قبول اور اعتراف کرنا)

تو اب اس مطلب کے بعد یہ کھنا صحیح ھوگاکہ دوسری صورت (یعنی شکست کا اعتراف کرنا )کسی بھی انسان یا کسی امت کے قدم کو متزلزل کر کے اسکا کام تمام کر سکتی ھے ،نہ پھلی صورت کی شکست ، ھاں کیوں نھیں اس لئے کہ ”امید “ھی تو سب سے بڑی کامیابی ھے اور” ناامیدی “سے تو شکست ھوتی ھے۔[25] 

بلکہ یوں کھا جائے کہ خود ”امید “ھی کامیابی اور ”نا امیدی “شکست ھے۔

جیسا کہ شاعر کے چند اشعار ھیں جس کا خلاصہ اور تر جمہ یہ ھے کہ :ایک دن امید نے نا امیدی سے کھا :کہ اگر کوئی تیر اساتھی ھو جائے اور تجھ سے دل لگالے ،ھر سو سے اس کو شکست کا منہ دیکھنا ھو گا ، اس کو جتنی بھی رسوائی نصیب ھوگی وہ تیرے ھی وجہ سے ھوگی اور اس کے آنسووں کا سبب تو ھی ھوگا ،ھر آزاد انسان کا پیر تو باندھ کے رکھے ھوئے ھے اور ھر شخص کوتجھ ھی سے تکلیف پھنچتی ھے ،تیری ناامیدی آنکھوں کو تاریک اور عقل و فکر کو ضائع کر دیتی ھے ،وہ علامت اچھی ھے جو عشق کو دے خوشخبری اور اس دل کا کیا کھنا کہ جس کے اندر نور امید ھو اور امید تو بجلی کی طرح چمکتی ھے اور امید کی بجلی تو جس کے بھی میں چمک جا ئے وھی انسان خوشبخت اور کامیاب ھے۔

امید ایسی زرہ ھے جسے ھر انسان پھنتا ھے اور اس سے اپنے اور اس سے اپنے بدن کو مضبوط بناتا ھے لیکن ”مایوسی “پیر کے تلوے کی مانند ھے کہ اس میں جو بھی پھنس جا ئے وہ شکست کھا جائیگا ،جبران خلیل جبران تمام لوگوں کی زبانی اپنی طرف سے یوں خطاب کرکے کہتے ھیں :اے ”میں “اگر امید وارنہ ھوتا تو دنیا کی آوازیں کبھی بھی نہ سنتا بلکہ ابھی ھی اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا اور اپنے وجود کو اس دنیا میں کسی پوشیدہ راز سے تبدیل کر لیتا کہ جس کو قبریں چھپا لیتی اگر انسان کے لئے امید کی کرنیں نہ ھو تیں تو انسان کے لئے یہ دنیا کتنی تنگ ھو تی ۔[26]

حواشی

[1] بقرہ ،آیت ۳۔۲۔

[2] بقرہ ،،آیت ۵۔

[3] المیزان ،محمد حسین طباطبائی ،ج۱،ص ۴۹

[4] زیارت آل یٰس جو حضرت کی توقیع میں ھے اس میں یوں پڑھتے ھیں ”السلام علیکم یا داعی اللہ وربانی آیاتہ ،آنحضرت کوکلمہٴ نامہ الٰھی بھی کہتے ھیں

[5] فیض کاشانی اپنی منظوم کتاب میں امام مھدی (ع) کے لئے یوں فرماتے ھیں :

دردل زحق تعالیٰ شکریست بی نھایت گو در کتاب خود کرد درشان تو حکایت

در وعدہ ی وصایت سنستخلفھم گفت جان گر فشانم ارزد این لطف واین عنایت

[6] المیزان ،ج۱ ،ص۵۰۔

[7] جھاد مرتضیٰ مطھری ص۴۸ ۔

[8] مجموعہ آثار ج ۲ انسان وایمان ص ۲۴ ،انتشارات صدرا ،ر ۔ک،گفتار ھای معنوی ص ۲۰۰پاسخ استاد بہ نقد کتاب مساٴلہ حجاب ص۱۶۰؛حکمتھا واندرزھا ص۴۵اور المیزان طباطبائی ج ۱۸ ص۲۳۔

[9] ر۔ک :مجالس صدوق ص۸۸؛ الکافی ج ۸ ۲۲۹ ؛بحار الانوار ج ۳۶ ۴۱۔

[10] امالی صدوق ۳۲۶

[11] بحار الانوار ج۱۰۲۱۱۰

[12] الغیبةنعمانی ۱۵۲۔

[13] خصال صدوق ج۲۶۳۵

[14] الاقبال سید ابن طاووس ۶۸۷

[15] بحار الانوار ۳۵ ص۱۷۷

[16] الغیبةنعمانی ۱۵۹؛ بحار الانوار ج۱۰۲ ۱۱۰۰۱۰۲

[17] الکافی ج ۴ ۳۱۴

[18] معانی الاخبار شیخ صدوق ص۴۰۸ حدیث ۸۷

[19] معانی الاخبار شیخ صدوق ص۴۰۸ حدیث ۸۷

[20] الکافی ج ۴ ۳۱۴ ؛مجالس صدوق ۲۰۱۔

[21] مجلہ دید ز ڈائجسٹ تاریخ نشر مئی ۱۹۶۹آمریکا۔

[22] یہ شرائط حدیث” لوح فاطمہ (س)“میں جو مفصل ایک حدیث قدسی ھے اس کی وضاحت ھوئی ھے ۔ر۔ک :موسو عة الکلمہ آیة سید حسن شیرازی ج۱ ۱۱۹۔نقل از :عیون الاخبار ،مجالس الطوسی ،مشارق الانوار رجب حافۻ برسی اور الکافی ۔

[23] شکست ،ثبوت کے مرحلے میں (خود سے شکست کھانا)

[24]سب سے بڑی مصیبت ناامیدی ھے ۔غرر،ک ۲۸۶۰ و۳۱ ۷ ۶۔

[25] دیکھئے : فرھنگ انقلاب اسلامی ،شھید دکتر محمد جواد با ھنر ،ص ۳۴۶۔۳۴۹۔

[26] دیوان پروین اعتصامی ،ص۱۶۔


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment