اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

اسوئہ حسین علیہ السلام

آئیے سب سے پہلے آج ایک بھولی ہوئی صحبت ماتم کوپھرتازہ کریں ۔کتنے دن گذرگئے کہ راہ ورسم وماتم شیون سے ناآشناہیں ۔نہ صدائے ماتم کی نواسنجی ہے اورنہ چشم خونبارکی اشک فشانی کا کاروبارغم کی رونق افسردہ ہوچلی ہے اورروزبازاردردکی چہل پہل مدت سے موقوف ہے۔

طرابلس کے خون آلود ریگستان کواگرلوگوں نے بھلادیا۔مشہدمقدس تبریزکاقصہ ء عم اگرذہنوں سے گم ہوگیا ،مقدونیہ اورالبانیہ کے افسانہ ہائے خونین اگرفکروں سے فراموش ہوگئے توکچھ مضائقہ نہیں ارباب دردوالم کے لئے ایک ایسی داستان الم صدیوں سے موجودہے جوکبھی بھلائی نہیں جاسکتی اوراگرلوگ اسے بھی بھلادیں تو بھی ہرسال چندایسے ماتم آلوددن تازگی زخم کہن کے لئے آموجودہوتے ہیں ۔ایک ہزارتین سوبرس پیشترکے اک حادثہ عظیم کی یادسے پھرتازہ کردیتے ہیں پس میرااشارہ حادثہ ہائے کبریٰ یعنی شہادت حضرت سیدالشہدا علیہ وعالی اجدادہ الصلوٰة والسلام کی طرف ہے ۔سچ ہے کہ جن مردہ دلوں کی زندگیوں کے لئے سوزوتپش کی ضرورت ہوجن ارباب دردکوروح کی راحت کے لئے ،جسم کے لئے ماتم کی تلاش ہو،جن کی زبانیں آہ وفغاں کومحبوب اورجن کی آنکھیں خوننانہ فشانی کواپنا مطلوب ومقصودسمجھتی ہوں ان کی صحبت ماتم والم کی رونق کے لئے یہی افسانہ اتناکچھ سامان غم اپنے اندررکھتاہے کہ اگرخون کے بڑے بڑے سیلاب سمندرکی روانی سے بہہ جائیں گے اوربے شمارلاشوں کی تڑپ سے زمین کے بڑے بڑے قطعات یکسرجنبش میں آجائیں ۔جب بھی ان کی نداء حال اس الہام سرائی سے قاصررہے گی جواس کے ایک لفظ کے اندرسے توصیہ فرمائے عبرت وبصیرت ہے۔

لیکن آہ!!کتنے دل ہیں جنہوں نے اس واقعہ کواس کے حقیقی بصائرومعارف کے اندردیکھاہے اورکتنی آنکھیں ہیں جوحسین ابن علی شہیدپرگریہ وبکاکرتے ہوئے آس اسوئہ حسنہ کوبھی سامنے رکھتے ہیں جواس حادثہ ء عظمی کے اندرموجودہیں ۔فی الحقیقت یہ حق وصداقت،آزادی وحریت ،امربالمعروف اورنہی عن المنکرکی عظیم الشان انسانی قربانی تھی جوصرف اس لئے ہوئی کہ پیروان اسلام کے لئے،ایک اسوئہ حسنہ پیش کرے اوراس ھرح جہادحق وعدالت اوراس کے ثبات واستقامت کی ہمیشہ کے لئے ایک کامل ترین مثال قائم کردے۔پس جوبے خبرہیں ان کوروناچاہئے۔ان الم تبکوافتباکواورجوروتے ہیں ان کوصرف رونے پرہی اکتفانہ کرناچاہئے۔ان کے سامنے سیدالشہداء نے اپنی قربانی کاایک اسوئہ حسنہ پیش کردیاہے اورکسی روح کے لئے ہرگزجائزنہیں کہ محبت حسین کی مدعی ہوجب تک کہ اسوئہ حسینی کی مناسبت کااپنے اعمال کے اندرسے ثبوت نہ دے۔

 

اسوئہ حسینی:

ضرورت ہے کہ تفصیل کہ ساتھ اس حادثہ ہائے شہادت پرنظرڈالی جائے سب سے پہلے اس کی تاریخی حیثیت نمایاں کرکے ان تمام مواعظ ونتائج عظیمہ کوایک ایک کرکے بیان کیاجائے جواس ذبح عظیم کے اندرپوشیدہ ہیں اورجن کے لسان حیات آج بھی اسی طرح صدادے رہی ہے جس طرح کنارئہ فرات کی ریتیلی سرزمین پرآج سے تیرہ سوبرس پہلے زخم وخون کے اندرسے وعظ فرمائے،حقیقت وصداقت تھی۔دنیامیں ہرچیزمرجاتی ہے کہ فانی ہے،مگرخون شہادت کے ان قطروں کے للئے جواپنے اندرحیات الٰہیہ کی روح رکھتے ہیں کبھی بھی فنانہیں ۔(١)سب سے پہلا نمونہ جویہ حادثہ عظیمہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے دعوتِ ان الحق اورحق وحریت کی راہ میں اپنے تئیں قربان کرتا ہے بنی امیہ کی حکومت ایک غیرشرعی حکومت تھی کوئی حکومت جس کی بنیادجبرہ شخصیت پرہوکبھی بی اسلامی حکومت نہیں ہوسکتی،انہوں نے اسلام کی روح حریت وجمہوریت کوغارت کیااورمشورہ واجماع امت کی جگہ محض نبلہء جابرانہ اورمکروخذع پراپنی شخصی حکومت کی بنیادرکھی ان کانظام حکومت شریعت الٰہیہ نہ تھابلکہ محض اغراض نفسانیہ ومقاصد سیاسیہ ایسی حالت میں ضروری تھاکہ ظلم وجبرکے مقابلے کی ایک مثال قائم کی جاتی اورحق وحریت کی راہ میں جہادکیاجاتاحضرت سیدالشہداء نے اپنی قربانی کی مثال قائم کرکے مظالم بنی امیہ کے خلاف جہادحق کی بنیادرکھی اورجس حکومت کی بنیادظلم وجبرپرتھی اس کی اطاعت اوروفاداری سے انکارکردیا۔پس یہ نمونہ تعلیم دیتاہے کہ ظالمانہ وجابرانہ حکومت کااعلانیہ مقابلہ کرواورکسی ایسی حکومت سے اطاعت ووفادی کی بیعت نہ کرو،جوخداکی بخشی ہوئی انسانی حریت وحقوق کی غارت گرہواورجس کے احکام مستبدہ وجابرہ کی بنیادوصداقت وعدالت کی جگہ جبروظلم پرہو۔

(٢)مقابلہ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمہارے پاس قوت وشوکت مادی کاوہ تمام سازوسامان بھی موجودہوجوظالموں کے پاس ہے کیونکہ حسین ابن علی کے ساتھ چندضعفاء ومساکین کی جمیعت قلیلہ کے سوااورکچھ نہ تھا۔حق وصداقت کی راہ نتائج کی فکرسے بے پرواہ ہے نتائج کامرتب کرناتمہاراکام نہیں ۔یہ اس قوت ظاہرہ عادلہ الٰہیہ کاکام ہے جوحق کوباوجود ضعیف فقدان وانصارکے کامیاب وفتح مندکرتی اورظلم کوباوجود جمیعت عظمت دینوی کے نامرادونگوں سارکرتی ہے وکم من فیہ قلیلة غلبت فیہ کثیرة باذن اللہ ۔ایسے موقعوں پرہمیشہ مصلحت اندیشوں کاخیال دامن گیرہوتاہے جوفی نفسہہ اگرچہ عقل ودانائی کاایک فرشتہ ہے لیکن کبھی کبھی شیطان رحیم بھی اس کے بھیس میں آکرکام کرنے لگتاہے نفس دفاع حیلہ تراشیاں کرتا ہے کہ صرف اپنے تئیں کٹوادینے اورچندافسانوں کاخون بہادینے سے کیا حاصل؟توپ وتفنگ اورتخت وسلطنت کامقابلہ کس نے کیا ہے کہ ہم کریں ۔

آخری سوال کاجواب دے سکتاہوں تاریخ عالم کی صدہامثال مقدمہ ومحترمہ جہادسے قطع نظرتمہارے سامنے خودمظلوم کربلاکی مثال موجودہے تم کہتے ہوکہ چندانسانوں نے حکومتوں کی قوتوں اورسازوسامان کامقاولہ کب کیاہے کہ کبھی بھی جاوے میں کہتاہوں حسین ابنِ علی نے صرف بہتریاباسٹھ بھوکے پیاسے انسانوں کے ساتھ اس عظیم الشان حکومت قاہرئہ جابرکامقابلہ کیاجس کے حدودسلطنت ملتان اورسرحدفرانس تک پھیلنے والے تھے گویہ سچ ہے کہ اس نے آنکھوں کے سامنے اپنے دل کے ٹکڑوں کوبھوک ا ورپیاس کی شدت سے تڑپتے دیکھااورپھرایک ایک کرکے ان میں سے ہروجودمقدس خک خون میں تڑپااورجاں بحق تسلیم ہوااوریہ بھی سچ ہے کہ وہ دشمنوں سے پینے کے لئے نہ توپانی چھین سکااورنہ زندہ رہنے کے لئے اپنی غذاحاصل کرسکااس میں بھی شک نہیں کہ سرسے لے کرپیرتک وہ زخموں سے چورہوااوراس خلعت شہادت لالہ گوں سے آراستہ ہوکرتیارہواتاکہ اس کرشمہ سازعجائب کے حریم وصال میں پہنچے۔

جودوستوں کوخاک وخون میں تڑپتااوردشمنوں کومہلت دیتاہے۔اربدوصال وبریدقتلٰی ۔تاہم فتح اس کی تھی اورفتح مندی وکامرانی کاتاج صرف اس کے زخم خوردہ سرپررکھاجاچکاتھاوہ تڑپااورخاک وخون میں لوٹاپراپنے اس خون کے ایک ایک قطرے سے جوعالم اضطراب میں اس کے زخموں سے ریگ وسنگ پربہتاتھاانقلاب وتغیرات کے وہ سیلاب ہائے آتشیں پیداکردئیے جن کونہ تومسلم بن عقبہ کی خون آشامی روک سکی نہ حجاج کی بے اماں خونخواری اورعبدالملک کی تدبیروسیاست وہ بڑھتے اوربھڑکتے ہی رہے ظلم وجبرکاپانی تیل بن کران کی مشعلوں کی پرورش کرتارہااورحکومت وتسلط کاغرورہوابن کران کی ایک ایک چنگاری کاآتشکدئہ سوزاں بتاتارہایہاں تک کہ آخری وقت آگیااورجوکچھ ٦٢ھ میں کربلاکے اندرہواتھاوہ سب کچھ ١٣٤ھ میں نہ صرف دمشق بلکہ تمام عالم اسلام کے اندرہوا۔صاحبان تاج وتخت وخاک وخون میں تڑپے۔ان کی لاشیں گھوڑوں کے سموں سے پامال کی گئی فتح مندوں نے قبریں تک اکھاڑڈالیں اورمردوں کی ہڈیوں تک کوذلت وحقارت سے محفوظ نہ چھوڑااوراس طرح منعلم الذین ظلموامنقلب ینقلبون کاپوراپوراظہورہو۔کیا یہ سب کچھ جوہواوہ محض ابراہیم عباسی کی دعوت اورابومسلم خراسانی کی خفیہ ریشہ دوانیوں ہی کانتیجہ تھا۔کیااسی خون کااعجازنہ تھاجوفرات کے کنارے بہایاگیاتھاپھریہ فتح مندی توظاہرہے جس کے نتائج کے لئے ایک صدی کانتظارکرناپڑااورنہ فی الحقیقت مظلومیت کاخون جس وقت بہتاہے اسی وقت اپنی معنوی فتح مندی حاصل کرلیتاہے۔

(٣)بہرحال یہ توحق وصداقت کی قربانیوں کے نتائج ہیں جوکبھی ظاہرہوئے بغیرنہیں رہتے،لیکن حضرت سیدالشہداء کااسوئہ حسنہ بتلاتاہے کہ تم ان نتائج کی ذرابھی پرواہ نہ کرواگرَم وجابرانہ حکومت کاوجودہے تواس کے لئے حق کی قربانی ناگزیرہے اوراسے ہونا ہی چاہئے تعداکی قلت وکثرت یاسامان ووسائل کافقدان اس پرموثرنہیں ہوسکتااورظلم کاصاحب شوکت وعظمت ہونااس کے لئے کوئی الٰہی سندنہیں ہے کہ اس کی اطاعت ہی کلی جائے ظالم خواہ ضعیف ہوخواہ قوی ہرحال میں اس کامقابلہ کرناچاہئے کیونکہ وہ ظالم ہے اورحق وصداقت ہرحال میں یکساں اورغیرمتزلزل ہے۔

(٤) حق وصداقت کی رفاقت کی آزمائشیں زہرہ گدازاورشکیب رباہیں قدم قدم پرحفظِ جان وناموس اورمحبت فرزندوعیاجل کے کانٹے دامن کھینچتے ہیں لیکن یہ اسوئہ حسنہ مومنین ومخلصین کودرس دیتاہے کہ اس راہ میں قدم رکھنے سے پہلے اپنی ھلب وہمت کواچھی طرح آزمالیں ،نہ کہ چندقدموں کے بعدہی ٹھوکرلگے،جرم رااینجاعقوبت ہست،استغفارنیست،اس قتیل جادئہ حق وصداقت کے چاروں طرف جوکچھ تھااس کاعادہ ضروری نہیں کہ سب کومعلوم ہے خدائے تعالیٰ نے اپنی آزمائشوں کے متعدددرجے بیان کئے ہیں ۔

ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال ولانفس والثمرات وبشر الصابرین الذین اذااصابتھم مصیبتة قالوااللہ واناالیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ تمہیں آزمائشوں میں ڈالے گاوہ حالت خوف ہراس بھوک اورپیاس نقصان جان ومال اورہلاکت اولاد واقارب میں مبتلاکرکے تمہارے صبرواستقامت کوآزمائے گاپس اللہ کی طرف سے بشارت ہے ان کے لئے جن کے ثبات واستقامت کایہ حال ہے کہ جب مصائب میں مبتلاہوتے ہیں تواپنے تمام معاملات کویہ کہہ کراللہ کے سپردکردیتے ہیں کہ اناللہ وانا الیہ راجعون۔خوف وہراس بطوک پیاس نقصان اموال ومتاع قتل نفس واولادیہی چیزیں انسان کے لئے اس دنیامیں انتہائی مصیبتیں ہوسکتی ہیں اسی لئے انہیں چیزوں کورالٰہی آزمائش قراردیاگیاہے ،لیکن مظلوم کربلاکے سامنے یہ تمام مرحلے ایک ایک کرکے موجودتھے وہ ان تمام مصائب سے ایک لمحہ کے اندرنجات پاکرآرام وراحت اورشوکت وعظمت حاصل کرسکتے تھے،اگرحکومت ظالمانہ کی وفاداری واطاعت کاعہدکرلیتے اورحق وصداقت سے روگردانی کے لئے مصلحت وقت کی تاویل پرعمل کرتے۔پرانہوں نے خداکی مرضی کواپنے نفس کی مرضی پرترجیح دی اورحق کاعشق زندگی اورزندگی کی محبتوں پرغالب آگیااسی لئے اپنا سردے دیاکہ انسان کے پاس حق کے لئے یہی ایک آخری متاع ہے پراطاعت واقرارووفاداری کاہاتھ نہ دیاجوصرف حق وعدالت کے ہی آگے بڑھ سکتاتھا۔ومن الناس من بشری نفسہ انبغاء مرضات اللہ واللہ رئوف بالعباد۔

(٥)سب سے بڑااسوئہ حسنہ کہ اس حادثہ عظیمہ کی لسان حاصل اس کی ترجمانی کرتی ہے راہ مصائب وجہاد حق میں صبرواستقامت اورعزم ثبات ہے کہ انالنین قالواء بنااللہ ثم استقاموا اوردوسری جگہ کہافاستقتم کماامرت اللہ ردماقال

رویدکشادہ باید پیشانی فرخ

آنجہ کہ طمہج ہائے ید اللہ می زنند

فی الحقیقت اس شہادت عظمی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے تمام عزیزواقارب اہل وعیال اورفرزندواحباب کے ساتھ دشت وغربت ومصائب میں محصورہونا اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگرگوشوں کوشدت عطش وجوع سے آہ وفغاں  کرتے ہوئے دیکھناپھران میں سے ایک ایک کی خون آلاود لاش کواپنے ہاتھوں سے اٹھاناحتیٰ کہ اپنے طفل شیرخوار کوبھی تیرظلم وبربریت سے ننچیرپانامگرباایں ہمہ راہِ حق وصداقت میں جوپیمانِ صبرواستقامت باندھاتھااس کاایک لمحہ بلکہ ایک عشردقیقہ کے لئے بھی متزلزل نہ ہونااورحق کی راہ میں جس قدرمصائب واندوہ پیش آئے سب کو شکر منت کے ساتھ برداشت کرنا کہ رضینا بفضااللہ وصبر نا علیٰ بلاہ۔پیکان تربجان خریدار۔من مدہم دیگران نخزاہم ۔دوست کے ہاتھ سے جام زہربھی ملتاہے توتشنہ کام زلال محبت اسے غیروں کے جام شہدوشکرپرترجیح دیتے ہیں اسے جفاہائے توخوشترروفائے وگراں ''آج بھی اگرکوئی حقیقت نیوش بارہوتو خاک کربلاکاایک ایک ذرہ توصیہ فرمائے،صبرواستقامت ہے

شدیم خاک ولیکن ببوئے تربیت

تواں شناخت کریں خاک مردمی خیزد

اگراس صبرواستقامت کے اسوئہ حسنہ کودیکھناچاہتے ہوتوخداراتاریخ کی طرف توجہ کروصرف ایک روایت یہاں لکھوں گاتاکہ جولوگ خاندان نبوت اورعترت حضرت رسالت کی محبت کادعویٰ کرتے ہیں وہ غورکریں کہ ادعائے محبت بغیرمنابعت بیکارہے۔حضرت امام علی ابن الحسین زین العابدین کہتے ہیں :جس رات میدان شہادت گرم ہونے والاتھاعین اسی شب کاواقعہ ہے کہ میں بیمارپرتاتھامیری پھوپھی زینب میری تیمارداری میں مصروف تھیں اتنے میں حضرت امام حسین  داخل ہوئے وہ چنداشعارپڑھ رہے تھے۔جنہیں سن کرمیں سمجھ گیاکہ ان کاارادہ کیا ہے میری آنکھوں سے بے اختیارآنسوں جاری ہوگئے اورمجھے یقین ہوگیا کہ ہم پرابتلائے الٰہی نازل ہوگئی ہے اوراب اس سے چارہ نہیں مگرحضرت زینب صبرنہ کرسکیں کیونکہ قدرتی طورپرعورتیں زیادہ رقیق القلب ہوتی ہیں وہ ماتم کناں چلااٹھیں واحسرتاومصیبتاالیوم ماتت فاطمہ وعلی والحسن بن علی لیکن جب حضرت امام حسین نے یہ حالت دیکھی توان کی جانب متوجہ ہوئے اورکہاکہ اے بہن!یہ کیابے صبری اورکیسا جزع وفزع ہے اللہ سے ڈروکہ موت ایک یقینا آنے والی چیز ہے اوراس سے کوئی بچ نہیں سکتالیکن حضرت زینب شدت غم حزن سے مضطرتھیں وہ دیکھپ رہی تھیں کہ آنے والی صبح کن واقعات خونیں کے ساتھ طلوع ہوگی۔فرطِ غم میں انہوں نے اپناچہرہ پیٹ لیا۔گریبان پھاڑڈالااورواویلاواحسر ت پکارتی ہوئی بے ہوش اپنے بھائی پرگرپڑیں ۔حضرت حسین  نے یہ حالت دیکھ کران کوہوش میں لانے کی تدبیرکی اورجب وہ ہوش میں آئیں توفرمایااے بہن یہ کیساغم حزن ہے جوتم کررہی ہو۔تمہیں چاہئے کہ اللہ کے حکم وفرمان کے مطابق جوطریق غراوحزن ہے اس سے اختیارکرو۔کیونکہ میرے لئے اورہرایک مسلم کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اوران کے اعمال وافعال اتباع وپیروی کے لئے بہترین نمونہ ہے۔اللہ

اکبر۔خاندان نبوت کے اس مرتبہ رفیع اوراس درجہء عظیم کودیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااسوئہ حسنہ کس طرح ان کے سامنے تھااورلقدکان لکم فی رسول اللہ اسوئہ حسنہ کے حکم کے آگے کس طرح انہوں نے جذبات اورخواہشوں کوقربان کردیاتھااورایسے سخت گیراورزہرہ گداز موقعہ پربھی اپنی بہن کاجزع وقزع انہیں گوارہ نہ ہوااوربجائے عام الفاظ صبر وتشفی کہنے کے فرمایاخان لی ولکل مسلم اسوة فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

پھرآْ کتنے مدعیان محبت اہل بیت کرام ہیں جواس اسوئہ حسنہ کے اتباع کااپنے اعمال سے ثبوت دے سکتے ہیں ۔(یو این این )

 


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment