اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

حسین ابن علی کی تحریک

بہت سے لوگوں نے امام حسین کی تحریک ‘انقلاب اور قیام کے موضوع پر اپنے اپنے انداز سے گفتگو کی ہے۔ آج بھی بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امام حسین (ع) کی تحریک اس خاص زمانے تک محدود نہ تھی جس میں آپ (ع) زندگی بسر کیا کرتے تھے‘ اگر ایسا ہوتا تو امام حسین (ع)کی تحریک اسی خاص زمان و مکان میں محدود ہو کے رہ جاتی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا خاتمہ ہوتا چلا جاتا ۔ لیکن کیونکہ امام حسین (ع) امام اور مسلمانوں کے ولی و سرپرست ہونے کے عنوان سے ایک شرعی مقام کے حامل تھے‘ اس لۓ امام حسین (ع) کی داستان بھی مکمل طور پر اسلام کی داستان ہے۔ ان کی تحریک بھی‘ انسانی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے رواج و نفاذ اوراسلامی دستور عمل کے قیام کے لۓ ایک عظیم الشان جدوجہدہے۔ لہٰذا امام حسین (ع) کی داستان ایک ایسی داستان ہے جس کاتعلق تمام انسانوں سے ہے‘ کیونکہ اسلام کی آمد کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان ‘ اپنی اس انسانیت کے ساتھ زندگی بسر کرے جسے اﷲ رب العزت نے اسکے وجود میں ودیعت کیا ہے اور اسے فطرت سے تعبیر کیا ہے: فطرت اﷲ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اﷲ ذالک الدین القیم (یہ (دین) وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت ِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی‘ یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے۔سورئہ روم ۳۰ ﹣ آیت ۳۰) ۔فطرت کے معنی انسانی وجود کی گہرائوں میں پایا جانے والا وہ مادہ ہے جو سادگی کے ساتھ اور لاشعوری طور پرحق و حقیقت اور تمام خوبیوں کی جانب اسکے رجحان کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا اگرانسان کے راستے میں حق و حقیقت اور نیکی و بھلائ سے روکنے والی رکاوٹیں حائل نہ ہوں تو وہ ٹھیک ٹھیک اپنی فطرت پر رہتا ہے۔اس بنیاد پر جہاں جہاں اسلام ہو گا‘ وہاں وہاں حسین(ع) ہوں گے اور جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے لۓ کوئی مشکل پیش آۓ گی وہاں وہ حسین (ع) کو موجودپائیں گے۔ کیونکہ حسین ابن علی (ع) پیغمبر اسلام (ص) کا فکری‘ معنوی عملی اور جہادی پیکر ہیں۔ یہ خیال ممکن ہے پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول سے ماخوذ ہو کہ : حسین منی وأنا من حسین (حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے) ۔پیغمبر (ص) اور حسین (ع)کی یہ وابستگی شخصی اور انفرادی پہلو کے لحاظ سے بعید ہے کیونکہ شخصی اورنسبی وابستگی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ‘ بلکہ حسین ابن علی (ع) کی شخصیت پر پیغمبر اسلام کی روحانی‘ معنوی اور انقلابی صفات کا پڑنے والاعکس وہ واحد شے ہے جو پیغمبر (ص) کے اس فرمان کا سبب ہے کہ : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے۔ یہ مفہوم جو ان دو عظیم ہستیوں کے درمیان یگانگت کی علامت ہے اسے سامنے رکھ کرہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

یہی وہ باتیں ہیں جن کے پیش نظر ہم ہر سال عزادارئ امام حسین (ع) مناتے ہیں۔ البتہ ہمیں اس بات پر غور و فکر کرنا چاہۓ کہ عالم اسلام میں اس وسیع پیمانے پر امام حسین (ع) کی شہادت کے ایام منانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ مسئلہ تاریخی پہلو کا حامل ہے ؟ اور اسے ہم صرف اس لۓ یاد رکھتے ہیں کیونکہ ہم تاریخ کے اس دور کی شخصیات اور واقعات کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس صورت میں یہ مسئلہ ایک تاریخی مسئلہ بن جاتا ہے‘ جو ایک خاص زمانے میں وقوع پذیر ہوا تھا اور ہم اسے اپنی یادوں میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہم جوں ہی اس سے دور ہوکر اپنی زندگی کی جانب پلٹتے ہیں تواپنی تمام اشک فشانیوں ‘احترام اور سرگرمیوں کے باوجود ایسے ہو جاتے ہیں جیسے کچھ کیا ہی نہ ہو۔ یہ عزاداری شاید اس بات کا ذریعہ ہو کہ ہم امام حسین(ع) اور اہل بیت (ع) سے اپنے عشق و ولایت کے احساس میں اضافہ کریں ‘ ممکن ہے ہم اندر سے غم و اندوہ میں مبتلا ہو جائیں۔ لیکن یہ سب باتیں ہماری انفرادی شخصیت کی حدود میں رہتی ہیں اورہماری اجتماعی زندگی میں کسی تغیر کا سبب نہیں بنتیں۔ حالانکہ جب ہم امام حسین (ع) کے اقوال و کلمات میں غور کرتے ہیں تو وہاں دیکھتے ہیں کہ آپ(ع) کی جد و جہدمعاشرے میں ایک ایسے انقلاب کے لۓ تھی جس کی بنیاد صراط مستقیم ہو‘ کیونکہ اس دور کا اسلامی معاشرہ صراط مستقیم سے منحرف ہو چکا تھا۔ امام حسین (ع) اپنے درج ذیل گرانقدر کلام کے ذریعے مسلمانوں کے سامنے اسلامی معاشرے کے رہبر و رہنما کے بارے میں اپنا تصور پیش کرنا چاہتے تھے ۔

’’ایھا الناس ‘ ان رسول اﷲ (ص) قال من رأی سلطاناً جائراً مستحلاً محرم اﷲ‘ ناکثاً لعھد اﷲ ‘یعمل فی عباد اﷲ بالا ثم والعدوان‘ ثم لم یتغیر بقول ولا فعل کان حقاً علی اﷲ أن یدخلہ مدخلہ‘‘(بحار الانوار ﹣ ج ٤٤ ﹣ ص ٩٦٦) ’’اے لوگو ! رسول اﷲ (ص) نے فرمایا تھا کہ جو کوئی کسی ظالم حکمران کو دیکھے ‘جس نے حرامِ الٰہی کو حلال کیا ہو ‘خدا سے کۓ گۓ عہد و پیمان کو توڑ دیا ہو‘ بندگان خدا سے گناہ اور عداوت کا بر تائو کرتا ہو‘ اس کے باوجود ( وہ شخص) اپنی گفتار یا عمل سے اسے بدلنے کی کوشش نہ کرے تو خداوند عالم کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کو بھی اسی ستمگر کے ٹھکانے میں جگہ دے۔‘‘ امام حسین (ع) (اس مقام پر ) پیغمبر اسلام (ص) کے موقف پر اکتفا کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ جب حاکم فکری اور عملی طور پر اسلام کی راہ پر کاربند نہ ہو تو لوگوں کو چاہۓ کہ اسے بدل دیں۔ اور اگر امت اسلامی میں سے کوئی اس صورتحال پرکسی ناگواری اور ناپسندیدگی کا اظہار نہ کرے تو اسے بھی اسی ٹھکانے (جہنم) میں داخل کیا جاۓ گا‘ جو اس ظالم حکمران کا ٹھکانہ ہو گا۔ امام علی (ع) نے بھی یہی فرمایا ہے : الراضی بفعل قوم کا لداخل فیہ معھم (کسی قوم کے عمل سے راضی ہو جانے والا بھی اسی کے ساتھ شمار کیا جاۓ گا۔ نہج البلاغہ ﹣ کلمات قصار ٤٥١) اسلامی اصولوں سے عصری صورتحال کا موازنہ امام حسین (ع) کوشاں تھے کہ لوگ اس دور کے معاشرے کی صورتحال کا جائزہ لیں تاکہ وہ اس زمانے کے حالات اور اسلام کی حقیقی اصولوں کے درمیان موازنہ کرسکیں :’’ الا ان ھولاء القوم قد لزموا طاعۃ الشیطان وتولواعن طاعۃ الرحمان واظھروا الفساد و عطلوا الحدود و اسناثروا بالفی ء وا حللوا حرام اﷲ وحرموا حلالہ و عطلوا الحدود وأنا احق بھذا الامر۔‘‘(بحار الانوار ﹣ ج ۴۴ ﹣ ص ۳۸۲) 

’’آگاہ ہو جائو کہ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کا راستہ اپنایا ہے اور خدا کی اطاعت سے گریزاں ہیں ‘ فتنہ وفساد کو پھیلا رکھا ہے اور حدود (الٰہی) کو معطل کر دیا ہے۔ بیت المال کو اپنا ذاتی مال بنالیا ہے‘ خدا کے حرام کۓ ہوۓ کو حلال اور اسکی طرف سے حلال کۓ گۓ کو حرام کر دیا ہے۔ اور حدودِ کو معطل کر دیا ہے۔ اور مجھ پر اس صورتحال کی اصلاح کیلۓ اقدام کا زیادہ حق عائدہوتا ہے۔‘‘ کیونکہ خدا کی بندگی کے اعتبار سے یہ مسائل خداوند عالم کی طرف سے قائم کی گئ حدودسے انحراف سمجھے جاتے ہیں۔ اس مقام پر خدا کی طرف سے حلال کردہ چیزوں کو حلال کر دینا اور اﷲ رب العزت کی طرف سے حلال کی گئ چیزوں کو حرام قرار دے دینا‘ قانون خداوندی سے انحراف ہے۔ طبقاتی امتیاز روا رکھے جانے کی وجہ سے حدود وقوانین الٰہی معطل ہو گۓ ہیں‘ کیونکہ قانون صرف کمزوروں کے لۓ حرکت میں آتا ہے اور مالدار اس کی گرفت سے بچے رہتے ہیں۔ اور بیت المال مسلمین جو عوام الناس کا مال ہے اور نتیجے کے طور پر خدا کا مال قرار پاتا ہے (حکمرانوں کی) ذاتی اور نجی ملکیت میں بدل چکا ہے۔ وانا احق بھذا الامر سے مراد یہ ہے کہ امام حسین (ع) ‘امام کی حیثیت سے معاشرے میں ایک وسیع الاطراف تبدیلی لانے کا شرعی حق رکھتے ہیں اور وہی ہیں جو اسلامی معاشرے کی تمام حرکات‘ تمام نظامات اور مسائل کو شرعی جواز عطاکرتے ہیں۔

جب امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ : الا ترون الی الحق لا یعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ (کیا نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں کیا جا رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا) تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ (ع) ایک راہ کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں ۔آنحضرت(ع) ہم سے کہتے ہیں کہ جس مشکل کا ہم مقابلہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ مسئلہ ہے اور میرا فرض ہے کہ ایک راہِ عمل کا تعین کر دوں اور میرا فریضہ یہ ہے کہ اس مشکل کے حل کے لۓ جد و جہد کروں۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ اعتقادی ‘ شرعی اور عملی پہلوئوں سے حق پر عمل نہیں ہو رہا اور کسی بھی پہلو سے باطل سے روکا نہیں جا رہا۔یہ جد و جہد ایک اصلاحی تحریک ہے وہ مسئلہ جو امام حسین (ع) کی تحریک و قیام کا سبب ہے اس کی جانب خود امام حسین (ع) نے ان الفاظ میں اشارہ فرما یاہے کہ : ’’ انی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً وانما خرجت لطلب الا صلاح فی امة جدی ارید ان امربالمعروف و انھی عن المنکر‘‘۔ (بحارالانوار ﹣ ج ۴۴ ﹣ ص ۳۲۹)

’’میں برتری خواہی‘فخرومباہات ‘فساد پھیلانے اور ظلم کرنے کی غرض سے نہیں نکل رہا ہوں‘میں صرف اس لۓ نکل رہا ہوں کہ اپنے نا نا (محمد(ص)) کی امت کی اصلاح کروں‘میں امربالمعروف اورنہی عن المنکرکرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہاں امام حسین (ع) واضح فرمارہے ہیں کہ تحریکیں دو قسم کی ہو سکتی ہیں ۔کبھی ممکن ہے کوئی تحریک ذاتی مسائل اور انفرادی مقاصد کے لۓ بپا کی جاۓ اور عدالت کی بجاۓ ظلم اوراصلاح کی بجاۓ فساد کے قیام کے لۓ ہو۔ ایسی تحریک امام حسین (ع) کی نظر میں ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہے ‘کیونکہ یہ ایک غیر شرعی تحریک ہے۔ لہٰذا امام حسین (ع) کی خواہش ہے کہ اپنی تحریک کا تعارف اس انداز سے کرائیں کہ یہ تحریک قیادت یا عوام پر ظلم و ستم کے لۓ نہیں ہے‘ معاشرے میں انتشار و افتراق کے ذریعے حق و حقیقت سے اسکا ناطہ توڑ کر اس میں فساد اور برائاں عام کرنے کے لۓ نہیں ہے ‘آپ(ع) کا قیام انفرادی اور ذاتی مقاصد کے لۓ بپا کی جانے والی تحریک نہیں‘یہ جدوجہد خواہشات نفسانی کے حصول کے لۓ نہیں اور آپ (ع) ذمے داری اور فریضے کی ادائگی کے بہانے اپنی ذاتی خواہشات‘ آرزئوں اور تمنائوں کا حصول نہیں چاہتے۔ امام حسین (ع) الاصلاح فی امة جدی کہہ کراس بات پر زور دے رہے ہیںکہ آپ(ع) کی تحریک کا مقصد اسلامی معاشرے میں ابھرنے والی تمام تحریکوں کے لۓ ایک عمومی پالیسی واضح کرنا ہے۔ بالفاظ دیگر امام حسین (ع) فرما رہے ہیں کہ جب فساد و انحراف اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیلے تو ایسے موقع پر ایک اصلاحی تحریک ابھرنی چاہۓ۔ لہٰذا امام حسین (ع) نے اپنی تحریک کا آغازایک شرعی فریضے کی بجا آوری کی بنیادپر کیا (یعنی جب اسلامی معاشرے پر فسق و فجور ‘گمراہی اور بے راہ روی کا راج ہونے لگے تو ان کے خاتمے کے لۓ ایک تحریک شروع ہونی چاہۓ) اس اصول کے پیش نظر ہمیں معاشرے کے مسائل سے لاتعلق اوربیگانہ نہیں ہونا چاہۓ ۔معاشرے کے تمام اراکین ‘بالخصوص دینی قائدین کا فرض ہے کہ وہ معاشرے سے فساد اور انحرافات کے خاتمے اوراسکی اصلاح اور وہاں اچھائوں کے قیام کے لۓ جد وجہد کریں ۔

اصلاحی تحریک کی جزیات کی تشریح امام حسےن (ع) نے اصلاحی تحریک کے لائحہ عمل کی جزیات بھی بیان کیںاور فرمایا کہ جب تک حق پر (ایک معروف کے بطور ) عمل نہ ہو اور باطل سے (ایک منکر کے بطور) روکا نہ جاۓ‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی ایک ترقی یافتہ روش کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’’من رای منکم منکراٌ فلینکرہ بیدہ ان استطاع فمن لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ فحسبہ ان یعلم اﷲ من قلبہ انہ لذلک کارہ‘‘ ’’تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے‘ تو اسے چاہۓ کہ اگر ممکن ہو تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے‘ اگر یہ نہ کر سکے تو اپنی زبان سے اسے روکے‘ اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو اپنے دل میں اس سے نفرت کرے ‘اور یہ خیال کرے کہ خداوند عالم اس بات سے آگاہ ہے کہ اسکا قلب اس منکر سے آگاہ ہے ۔‘‘ 

یوں اسلامی تعلیمات کی رو سے اصلاحی عمل فرد‘ قائد یا لوگوں کی استطاعت اور سکت سے وابستہ ہے۔ اگر امکان ہو تو اسے طاقت کے ذریعے انجام دینا چاہۓ‘ اگر قوت و طاقت میسر نہ ہو تو زبان سے انجام دینا چاہۓ ‘ اور اگر اس بارے میں کوئی معذوری ہو تو قلبی اکرا ہ اورناپسندیدگی کی صورت میں اسکا اظہار ہونا چاہۓ‘تاکہ منکر کی مخالفت اورمعروف کی ترویج کا جذبہ انسان کی فکروشعوراور اسکے قلب وروح میں اتر جاۓ۔ تاکہ دوسرے کہیںقوت و طاقت کے بل پر انسان پرغلبہ نہ پالیںاور یوں نتیجے کے طور پر حق پر غالب آ جائیں اور انسان کو باطل کے سامنے سر جھکا دینے پرمجبور کر دیں۔ امام حسین (ع) نے اپنے ان کلمات کے ذریعے باطل کے سامنے سر نہ جھکا دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد اس صورتحال کی تبدیلی کے لۓ عملاًاقدام کیا۔ ہم اس مسئلے سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں؟ 

اس مسئلے سے ہم جو سبق حاصل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ تمام دینی قائدین جب (کسی بھی مرحلے میں اور کسی بھی اسلامی معاشرے میں) برائاں ہوتے دیکھیں تو انہیں چاہۓ کہ اس صورتحال کی اصلاح کے لۓ اقدام کریں۔لہٰذا جب ہمارا سامنا ایک ایسے معاشرے سے ہو جس کے اندر لوگ خداکی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیۓ ہوۓ ہوں اور اسکی حلال کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہوں‘ لوگ شیطان کی اطاعت کے راستے پر گامزن ہوں اور انہوں نے خدا کی اطاعت ترک کی ہوئی ہو ۔جس سماج میں مسلمانوں کا مال ذاتی اور نجی ملکیت کے طور پر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو اس سماج پر مسلط ہوں‘ اور جہاں قانون کی گرفت صرف ضعیف اور کمزور لوگوں کے لۓ ہو‘ طاقتوروں اور مالداروں کے لۓ وہ حرکت میں نہ آتا ہو‘ تو ایسے معاشرے کے مقابل کربلائ اور عاشورائ اقدام کی ضرورت ہے۔

ممکن ہے یہ اقدام امام حسین (ع) کے انداز سے انجام نہ دیا جاۓ کیونکہ ہر قوم اپنی زندگی کے جس مرحلے سے گزر رہی ہوتی ہے اسکی خارجی شرائط اور صورتحال کے اعتبار سے انداز عمل مختلف ہوا کرتا ہے۔مختلف زمانوں میں‘ ائمہ اطہار (ع) کے انداز بھی مختلف ہوا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) کا انداز عمل‘ ہجرت سے پہلے مکہ میں کچھ اور تھااور ہجرت کے بعد مدینہ میں کچھ اور ۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے آپ کو کسی ایک واحد صورت تک محدود نہیں کر لینا چاہۓ ‘کیونکہ انداز اور طریقۂ کار حالات کی تبدیلی کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ہمارے لۓ لازم ہے کہ ہر زمانے میں وہ عمل انجام دیں جو اس زمانے کے لحاظ سے بہترین عمل ہو : وقل لعبادی بقولوا التی ھی احسن ( اور میرے بندوں سے کہہ دیجۓ کہ صرف بہترین باتیں کیا کریں۔سورہ بنی اسرائل۱۷۔آیت۵۳ ) ادفع بالتی ھٰی ا حسن (اور آپ برائ کو بہترین طریقے سے رفع کیجۓ۔سورہ مومنون۲۳۔آیت۹۶) وجادلھم بالتی ھی احسن(اور ان سے اس طریقے سے بحث کیجۓ جو بہترین طریقہ ہے۔سورہ نحل۱۶۔آیت۱۲۵) 

’’احسن‘‘ خارجی حالات اور اصولوں کے تابع ہے ۔لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کریں تواس میں موجود زمانی حقائق سے سبق لیں۔اور امام حسین (ع) کی تاریخ میں پائ جانے والی تمام چیزیںحقیقی معنی کی حامل ہیں‘ تمام زمانوں میں جاری و ساری ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں چاہۓ کہ امام حسین (ع) کے زمانے کو اچھی طرح سمجھیں اور اس سے درس حاصل کریں اور اپنے لۓ ایک کربلا وجود میں لائیں۔ دوستو ! ان مجالس ‘ ماتمی دستوں اور معنوی احساسات کے آثار و نتائج کو معاشرے میں تغیر و انقلاب کی ایک راہ عمل بننا چاہۓ۔ ایسی فکر انگیز راہ عمل جولوگوں کو اپنی کمزوریوں اور معاشرے میں پاۓ جانے والے انحرافات کی طرف متوجہ کرے۔

حسین ابن علی (ع) نے لوگوں کو متوجہ کیاکہ وہ اس دور کے اجتما عی حالات کا حقیقی اسلام سے موازانہ کریں۔ حسینی تحریک کی یاد مناتے ہوۓ ہمیں بھی اپنے معاشروں کا جائزہ لینا چاہۓ تاکہ عاشورا کی حقیقت تاریخ میں گم ہو کے نہ رہ جاۓ ۔اگر ہم نے یزید اور اسکے معاشرے اور ابن زیاد اور اسکے معاشرے کوپہچان لیاہے‘ ان حالات کا تجزیہ و تحلیل کیاہے‘ اور سواۓ درس عبرت کے ان سے کچھ حاصل نہیں کیا‘ اپنے معاشرے میں تبدیلی کیلۓ کوئی قدم نہیں اٹھایا (بالخصوص اگر پورا معاشرہ ایک سمت بڑھ رہا ہے اور ہم اس سلسلے میں اپنی کوئی ذمے داری محسوس نہیں کر رہے ہوں) : تلک امة قد خلت لھا ماکسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعلمون ( یہ قوم تھی جو گزر گئ‘ انہیں وہ ملے گا جو انہوں نے کمایا اور تمہیں وہ ملے گا جو تم کمائو گے‘ تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ ہو گا۔سورہ بقرہ۲۔آیت ۱۳۴)

اگر ہم امام حسین (ع) کے دور میں پاۓ جانے والے تمام انحرافات پر غمگین ہوں‘ اپنی فکروشعوراورقلب و روح کے ساتھ امام حسین (ع) کے ساتھ یزید کی مخالفت میں کھڑے ہوں‘ اس مصیبت پر دل کی گہرائوں کے ساتھ رنجیدہ ہوں ‘اس پر آنسو بہاتے ہوںاور اس سے سبق حاصل کرتے ہوں لیکن اسکے باوجودیہ عمل ہماری مشکل کو حل نہیں کرتا بلکہ ہمیں چاہۓ کہ اس انداز کار اور اسلوب عمل کا مطالعہ کریں جوامام حسین (ع) اور ان کے پاک و مطہر اہل بیت (ع) نے اپنے زمانے کی مشکلات سے مقابلے کیلۓ اختیار کیااور اسکے بعدخود اپنے زمانے کی مشکلات سے نبرد آزما ہوں۔


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment