اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

کیا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اولیاء (علیہم السلام) کے ایام ولادت پر جشن برپا کرنا عبادت ہے یا بدعت ؟

یہ بات بدیہی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور دیگر اولیاء (علیہم السلام) کے ایام ولادت پر جشن برپاکرنا ان کی عبادت شمار نہیں ہوتا، اس لئے کہ جب انسان کسی چیز کو اپنا خدا اور رب قرار دے اور اس کو اپنی زندگی اور اس دنیا میں موثر سمجھ لے اور اس کی معبود اور خدا کے عنوان سے تعظیم اور سجدہ کرے ، اس کی یہ تعظیم چاہے عمل کے لحاظ سے ہو یا قول کے ذریعہ سے تو یہ عمل عبادت ہو جائیگا لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے میلاد کیلئے ایک جگہ جمع ہونا اور ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کرنا اور انکی مدح سرائی کرنا عبادت نہیں ہے ۔ اگر انسان تھوڑا سا بھی شرعی مسائل اور اسلامی قوانین سے آشنا ہو تو ان تمام چیزوں کو عبادت کا نام نہیں دیتا اور کسی بھی مسلمان کے ذہن میں جشن، محفل اور عزاداری کے وقت یہ خیال نہیں آتا کہ یہ تمام چیزیں انبیاء اور آئمہ علیہم السلام کی عبادت شمار کی جائیں۔ البتہ یہ تمام چیزیں، ائمہ دین (علیہم السلام) کی تجلیل و تکریم ہیں لیکن ہر تعظیم و تکریم عبادت نہیں ہے ۔

اور اگر یہ عبادت ہونے لگے تو پھرہر شخص کا احترام و اکرم اس کی عبادت ہوجائیگی ، تمام مسلمان ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں ایک دوسرے کی مدد و ہمدردی کرتے ہیں اپنے ملک کے مسئولین اور رؤسا کی تعریف و تمجید کرتے ہیں اگر اس طرح سے مدح وثناء مطلقا عبادت شمار ہونے لگے تو پھر یہ سب مشرک ہو جاینگے یہ مسئلہ فقط انیاء و الیاء (علیہم السلام) کی تعریف و تمجید سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تمام تعریفوں کو شامل ہے اور یہ تمام تہمتیں اور دعوے ایسے ہیں کہ کوئی بھی اس وقت ان جشن و محافل و عزاداری وغیرہ کو عبادت کے عنوان سے انجام نہیں دیتا اس بناء پر یہ اعتراض بے بنیادہے اور قابل قبول نہیں ہے ۔

اور ان کاموں کے بدعت ہونے کا دعوی بھی مردود ہے ۔ کیونکہ ”بدعت“ وہ ہے کہ کسی چیز یا کسی فعل کی نسبت شارع مقدس یا دین کی طرف دیں اور یہ دعویٰ کریں کہ یہ شارع کی طرف سے ہے یا مثلا یہ کہیں کہ یہ چیز یاواجب ہے یا مستحب ، جبکہ وہ چیز شریعت میں اس طرح سے نہ ہو اور اس دعوے کے متعلق کوئی مدرک اور مصدر بھی موجود نہ ہولیکن اگر کوئی مصدر عمومی طور پر یا بطور مطلق حاصل ہو جائے تو بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس کے متعلق کوئی مدرک و مصدر فراہم نہ ہو سکے اور پھر بھی یہ کہیں کہ یہ دین میں سے ہے تو پھر یہاں پر یہ لازم آائیگا کہ ایک ایسی چیز کو دین میں شامل کر دیاگیا ہے جس کا دین میں کوئی وجود نہیں پایا جاتا ایسی چیز بدعت ہے لیکن اگر کوئی کسی فعل کو یہ سوچ کر بجالائے کہ یہ مطلوب شارع ہے لیکن وہ اس کا ادعا نہ کرے کہ حتما شارع مقدس کو ہم سے یہ چیز مطلوب ہے اور وہ یہ بھی عقیدہ نہ رکھتا ہو کہ یہ عمل دین کا ایک جز ہے یا یہ چیز دین میں سے ہے تو پھر بدعت نہیں ہوگا اور اسی طرح سے ہر وہ اعمال مباح جس کو انسان یہ سوچ کر انجام نہیں دیتا کہ یہ شارع مقدس کو مطلوب ہے تو وہ بھی بدعت نہیں ہوگا اور تمام اعمال کو اس دعوے کے بغیر انجام دینا کہ یہ عمل خداوند عالم کی طرف سے تشریع ہوئے ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور اس کے متعلق دلیل خاص یا عام دلیل کے ذریعہ منع بھی نہ کیا گیا ہو تو یہ جائز ہوگا، مثال کے طور پر بچے کی پیدائش پر جشن منانے سے متعلق شرع میں کوئی سفارش نہیں ہوئی ہے لیکن شریعت میں اس کام سے منع بھی نہیں کیا گیاہے لہذا یہ کام مباح ہے اورجو اس کو انجام دے اس کو بدعت سے متہم نہیں کیا جاسکتا اور وہ جشن و محافل جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور آئمہ (علیہم السلام ) کی یاد میں منائی جاتی ہیں اگر کوئی اس سے استحباب اور شریعت میں داخل کرنے کا قصد نہ کرے تو یہ قطعا بدعت نہیں ہے (۱) ۔

۱۔ طاہری خرم آبادی ، توحیدو زیارات ،ص۲۵۰و۲۴۸۔


source : http://www.taghrib.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment