اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

بعثت کی حقیقت

بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب ّالعالمین والعاقبه للمتقین والصّلوه والسّلام علی خیر خلقه محمد وآله اجمعین۔امّا بعد: فقدقال الله تبارک وتعالی فی القرآن المجید۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم۔

 ولقد بعثنا فی کلّ امه رسولاً ان اعبدوا الله واجتنبو االطاغوت(سوره نحل ،۳۶) 

اور یقیناً هم نے هر امت میں ایک رسول بھیجا هے که تم لوگ الله کی اطاعت کرو  اور طاغوت سے اجتناب کرو۔

مقدمه:

فلسفه بعثت ایک اساسی اور بنیادی موضوع هے،براہ راست اس کا تعلق انسانی زندگی و حیات  کے ساتھ ہے   لہذا اس موضوع کو کھولنے کی ضرورت هے ،تجزیه وتحلیل کرنے کی ضرورت هے ۔اس کے اصلی چہرہ کی  حقیقت کو جاننے کی ضرورت هے ۔اس کے اهداف اور مقاصد پر روشنی ڈالنے کی ضرورت هے۔اس کے علل و اسباب کو جاننے کی ضرورت هے ۔سب سے پهلے هم حقیقت بعثت کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

حقیقت بعثت

بعثت کا واقعه تاریخ اسلام بلکه تاریخ بشریت میں بے پناه اهمیت کا حامل هے لیکن اس کے باوجود یه واقعه کتب تاریخ کے دامن میں افسانوی رنگ اور قبائلی مفادات میں لپٹا هوا هے لذرا اس کی اصل حقیقت کو جاننے کی اشد ضرورت هے۔

 قرآن مجید نے بعثت کو جہان بینی کے مسائل  میں سے قرار دیا ہے ۔بعثت  کا تعلق  سب سے پہلے انسان کی  ذات  سے  ہے  اس کے بعد دوسری چیزوں سے اس کا تعلق  ہے۔جب تک کسی حقیقت کو اس کا اپنا مقام نہ ملے اور اس کو اس کی حقیقی جہت سے نہ دیکھا جائے تب تک انسان غفلت اور تاریکی میں سرگردان اور حیران رہتا ہے ۔مثال کے طور پر قرآن مجید کو ہی لیجیے۔ مسلمانوں کے پاس  ہوتے ہوئے بھی مسلمان   ہزار ہا مشکلات  میں گرفتار ہیں ۔اس کی علت یہی ہے کہ قرآن کو اپنا مقام نہیں ملا ہے قرآن کو جہاں ہونا چاہیے تھا وہاں قرآن نہیں ہے ۔

 

ایک اور مثال ناظرین محترم کی خاطر پیش کرتا ہوں ۔امامت کو ہی لیجیے ۔علماء نے اس کو کلامی نگاہ سے زیادہ دیکھا جس کی وجہ سے امامت کا اصلی ہدف فوت ہوگیا ۔امامت فقط ایک مسئلہ کلامی نہیں ہے بلکہ امامت ایک سسٹم ہے ،ایک مکمل نظام ہے ۔اس سسٹم کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ نافذ کرنے سے ہی اس کو اپنا مقام  حاصل ہوجاتا ہے ۔

 بعثت کے ساتھ بھی ا یسا ہی معاملہ ہے  اکثر و بیشترعلماء نے اس کو تاریخی و کلامی تناظر سے دیکھا ہےجس کی وجہ سے اس کا اصلی مقصد حاصل نہیں ہوا   لیکن اگر اس کو فلسفی و عرفانی تناظر سے دیکھا  جائے  تو اس   کا حقیقی   چہرہ سامنے آتا ہے  اور اس کی عظمت ورفعت کا صحیح اندازہ  ہوجاتا ہے ۔

 

بعثت عربی لفظ هے جس کے معنی هیں ابھارنا ،اٹھانا ،آماده کرنا۔لیکن خدا ئے متعال کی جانب سے بعثت بهت وسیع معنی کا حامل هے جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے دائرے میں لئے هوئے هے جس کے بهت هی ساده اور بهت هی واضح مصادیق یه هیں :۔

 

بعثت یعنی شرک کے خلاف ابھارنا 

بعثت یعنی جهالت کے خلاف ابھارنا۔

بعثت یعنی ظلم و فساد کے خلاف ابھارنا ۔

بعثت یعنی نسل پرستی کے خلاف ابھارنا ۔

بعثت یعنی غلامی کی زنجیروں کےخلاف لوگوں کو اٹھانا۔

بعثت یعنی خرافات و بدعات کے خلاف قیام کرنا۔

بعثت یعنی زمانے کے طاغوتوں کے خلاف قیام کرنا۔

بعثت یعنی زمانے کے مستکبروں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف قیام کرنا۔

بعثت یعنی جھوٹے اقدار کی نابودی کے خلاف قیام کرنا ۔

بعثت یعنی لسانی ، قبائلی ، قومی اور وطنی امتیازات کے خلاف قیام کرنا۔

بعثت یعنی مثالی معاشره اور قرآنی معاشره  کی تشکیل کے لئے قیام کرنا۔

بعثت یعنی معاشرے میں صحیح وحقیقی اقدار کی ترویج کے لئے لوگوں کو آماده کرنا۔

بعثت یعنی اسلام کے آفاقی اور حقیقی پیغام کو دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں تک پهنچانا۔

بعثت یعنی اسلام ناب محمدی کی صحیح شناخت سے لوگوں ا ٓگاه کرنا۔

بعثت یعنی لوگوںکو اسلامی جهان بینی اور آئیڈیالوجی   کی صحیح شناخت  کے  حصول کےلئے آماده کرنا۔

بعثت یعنی اسلام کے حقیقی راهنماؤں کو لوگوں کے سامنے متعارف کروانا۔

بعثت یعنی انسانی استعدادوںاور صلاحیتوں کو شکوفا کرنا۔

بعثت یعنی انسانی معاشره کو قرآنی تعلیمات سے همکنار کرنا۔

بعثت  یعنی انسان کی تعمیر وترقی کا خاکه ونقشه بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرنا۔

بعثت یعنی سماجی انصاف کے پھیلاؤ کے لئے وسیع پیمانے پر کوشش کرنا۔

خلاصه کلام بعثت توحیدی اور الهیٰ پرچم کو دنیا کے هر کونے میں لهرانا۔

 

زمین پر رونما ہونے والے  حوادث میں سے  سب سے بڑا حادثه مسئله بعثت هے ۔ کیونکه اس حادثه میں عمق اور گهرائی پائی جاتی هے حقیقتاً یه کها جاسکتا هے که اسلام کی تاریخ کا آغاز اس حادثه سے هوا هے۔لیکن مسئله بعثت جس طرح سے محل توجه واقع هونا چاهیے تھا  اس طرح سے مورد توجه قرار نهیں پایا هے ۔بعثت ایک دن کا نام نهیں که جس میں یه ماجرا واقع هوا هے بلکه بعثت ایک کلچر هے ،ایک تفکر هے ،ایک مکتب هے ،ایک سسٹم هے ، ایک مکمل آئیڈیالوجی ہے ،خدا وند عالم کا ایک عظیم لطف ہے ،ایک امر مستمر هے نه امر منقطع یعنی بعثت ایک ایسا واقعه نهیں هے که جو ۲۷ رجب المرجب کو وقوع پذیر هوا هے اور پھر آئنده  تاریخ کے ساتھ اس کا کوئی رابطه نهیں هے  یه بعثت کی غلط تفسیر هے ۔

 

 رهبر انقلاب اسلامی حضرت آیت الله العظمی سید علی خامنه ای دامت برکاته بعثت  کی حقیقت کے بارے میں فرماتے هیں :

 

آج رسول اسلام کی بعثت کو صدیاں گزر چکی هیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافته طاقتور انسانوں کو، پهلے سے بھی زیاده پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کے پرامن پیغامات اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت هے ۔

 بعثت کا هر عصر میں هونا ضروری هے ۔ کیونکه بعثت  انسانی حیات  کی ضامن  هے ، انسان کی بقا ء اسی پر موقوف هے جس طرح سے زمین کو هر وقت بارش کی ضرورت هے زمین بارش سے زنده هوتی هے ۔قرآن مجید نے اس مطلب کی طرف اشاره کیا هے :وانزل من السّماء ماء فأحیابه الارض بعد موتها۔یعنی هم نے آسمان سے بارش نازل کی هے اور اس سے زمین دوباره زنده هوئی هے ۔اس میں ایک نئی حیات آجاتی هے ، زمین کے اندر جتنے خرانے اور امانتیں هوتی هیں وه نمایاں هوجاتی  هیں۔ اگر بارش نه برسے تو زمین کی موت واقع هوجاتی هے ۔اسی طرح سے بعثت ایک نوع حیات هے، پانی کی حیات اس کی روانی میں هے جو پانی رکا هوا هوتا هے اس پانی کو فارسی میں "مرداب"کها جاتا هے یعنی اس پانی کو مرا هوا پانی کها جاتا هے ۔انسان ایک امر مسلسل سے زنده هے اور وه امر مسلسل بعثت هے  ۔بعثت کے ذریعے سے هی انسان کو مادی ومعنوی حیات مل سکتی هے ۔ قرآن میں ارشاد هوتا هے :

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ(انفال ۲۴)

اے ایمان والو الله و رسول کی آواز پر لبیک کهو جب وه تمهیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمهاری زندگی هے۔

 

اس آیه مبارکه میں بعثت کو زندگی اور حیات سے تعبیر کیا گیا هے  جو معاشروں کو ترقی عطا کرکے تقاضوں کی تکمیل کی راه دکھاتی هے۔

 

بعض لوگ خیال کرتے هیں که جهالت ، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص هے اور اس کو دور جهالت کا نام دیا گيا هے اور عالم بشریت اس دورسے گزر چکا هے لیکن حقیقت یه هے که هر وه زمانه جب انسان ، انسانیت کی حدوں سے دور هوجاتا هے اور نفسانی خواهشات کی پیروی کرنے لگتا هے جهالت کے دائرے میں پهنچ جاتاهے اور دنیا اسے اپنا اسیر بنا لیتی هے چاهے وه کوئی بھی دور اور زمانه هو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نه جلوه گر هوئی هو ۔

 

سید قطب معاشرے کو جاهلی اور اسلامی حصوں میں تقسیم کرتے هیں اور کهتے هیں آج هم اسی جهالت میں زندگی بسر کرهے هیں جو اسلام کے ظهور کے دور میں تھی اور همارے اطراف میں جو بھی هے اس سے بھی زیاده جاهلانه هے ۔ همارا وظیفه یه هے که پهلے اپنے اندر تغییر و تبدیلی پیدا کریں تا که اسی بنا پر معاشرے کو تبدیل کر سکیں ۔ اسلام دو معاشرے سے زیاده نهیں جانتا ۔ ایک جاهلی معاشره دوسرا اسلامی معاشره ۔ اسلامی معاشره وه هے که جس کے تمام پهلوٴوں میں عقیده ، عبادت ، شریعت اور احکام سلوک اور اسلامی اخلاق عملی شکل اختیار کریں ۔ اور جاهلی معاشره وه هے که جس میں اسلام پر عمل نهیں هوتا ۔ سید قطب کی یه سیاسی فکر هم کو امام خمینی ۺ کی یاد دلاتی هے که انھوں نے فرمایا تھا حکومت یا طاغوت هے یا اسلام هے ۔ حقیقت میں سید قطب کا عقیده هے که جس اسلام کی دشمن تبلیغ کرتے هیں اس میں اور رسول اکرم صلی الله علیه وآله کے لائے هوئے اسلام میں بهت زیاده فرق هے ۔ سید قطب پهلے مفکر هیں جنھوں نے (امریکی اسلام ) کا لفظ پیش کیا ۔ اور یه عقیده رکھتے هیں کے جس معاشرے کے لوگ مسلمان هیں لیکن اسلام کے احکام پر عمل نهیں کرتے ، چاهے نماز پڑھیں ، روزه رکھیں ، حج کریں ایسا معاشره کسی بھی طرح اسلامی نهیں کهلاتا بلکه جاهلی معاشرے کی صف میں قرار پاتا هے ۔ اور جو معاشره خدا کو مانتا هے لوگوں کو یه اجازت نهیں دیتا که دین کو دوسرے معاشرے میں پھیلائے ، بلکه صرف اجازت دیتا هے که لوگ خدا کی مسجدوں میں عبادت کریں ، یه معاشره بھی جاهلی معاشره هے ۔

بعثت کے پہلو

بعثت کے دو پهلو هیں ۔ایک باطنی پهلو هے اور ایک ظاهری پهلو هے۔

باطنی پهلو کا تعلق حضرت رسول اکرم کی ذات سے هے۔اور ظاهری پهلو کا  معاشرے سے هے ۔

حضرت رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے پهلے  چالیس ساله زندگی میں کوئی ایسا نمونه نظر نهیں آتا هے که جس میں  پیغمبر اسلام نےموجود ه حالات کے خلاف عمومی  وهمه گیر  قیام کیا هویا اس دورانیه کی ناهنجاریوں کے خلاف اقدام کیا هو اگر چه حضرت رسول اکرم ﷺدلی طور سے موجود ه حالات سے راضی نهیں تھے اور هر گز  جاهلیت  کےحالات اور جاهلی احکام  کے مقابلے میں تسلیم نهیں هوئے  ۔لهذا بعثت کے پهلے مرحلے کا تعلق رسول اکرم ﷺکے باطن سے  هے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کها جاسکتا هے که پهلے مرحله میں  پیغمبر اسلام نے اپنے آپ کو آماده کیا  ،اپنے آپ کو مبعوث کیا ،اپنے باطن میں ایک عظیم انقلاب ایجاد کیا ، اسی انقلاب کے نتیجے میں معاشرے میں ایک عظیم انقلاب بعثت کی صورت میں وجود میں آیا ۔ 

یهاں پر هم یه نکته بھی استنباط کر سکتے هیں که مصلح بننے کے لئے ضروری هے که پهلے مرحلے میں مصلح اپنے آپ کی اصلاح کرے ،اپنے نفس کی اصلاح کرے ،اپنے باطن کی اصلاح کر ے ۔حضرت علی ؑ اس مطلب کی یوں وضاحت کرتے هیں ،فرماتے هیں :

"من نصب نفسه  للنّاس اماماًفلیبدأ بتعلیم نفسه قبل تعلیم غیره "

جو لوگوں کا پیشوا بنتا هے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پلےت اپنے کو تعلیم دینا چاهیے ۔ "

ضرورت بعثت انبیاءؑ

کیا هماری عقل وشعور حقائق کو سمجھنے کے لئے کافی نهیں هے ؟کیا انسان کی علمی ترقی پوشیده اسرار کو کشف کر نے اور تمام حقائق کو واضح کر نے کے لئے کافی اور مددگار نهیں هے؟

جواب 

چند نکات کی طرف توجه کر نے سے ان تمام سوالات کے جوابات  انسان  کو حاصل هوجاتے هیں ۔

۱ ۔ همارے علم ودانش کی محدودیت 

۱۔همیں جاننا چاهیے که همارا علم وشعور محدود هے ۔بشر کو نصیب هوئی تمام علمی ترقی کے باوجود آج جو کچه هم جانتے هیں وه همارے نه جاننے کے مقابله میں ایک سمندر کے مقابله میں ایک قطره اور ایک پهاڑ کے مقابله ایک تنکے کے مانند هے ۔یا بعض بڑے دانشوروں کے کھنے کے مطابق جو بھی علوم آج همارے اختیار میں هیں وه کائنات کی کتاب هستی کے الف با کے برابر هیں۔

دوسرے الفاظ میں:همارے فیصله اور عقلی ادراک کا دائره ایک چھوٹے سے علاقه کے مانند هے که علم ودانش کی شعاعوں نے اسے روشن کیا هے اور هم اس کے باهر کی دنیا سے بالکل بے خبر هیں۔

انبیاء آتے هیں اور اس وسیع علاقه کو هماری هر ضرورت کی حد تک روشن کرتے هیں۔حقیقت میں هماری عقل ایک قوی اور تیز روشنی والے لیمپ کے مانند هے،لیکن انبیاء اور آسمانی وحی کی مثال تمام عالم کو روشن کر نے والے سورج کے مانند هے۔کیا ایک قوی اور تیز روشن لیمپ رکھنے والا یه کهه سکتا هے که میں سورج کا محتاج نهیں هوں ؟!

واضح تر عبارت میں:زندگی کے مسائل کو تین گروهوں میں تقسیم کیا جاسکتا هے :”معقول“،”غیر معقول“ اور”مجهول“۔

انبیاء هر گز نا معقول بات،یعنی عقل وخرد کے خلاف نهیں کهتے اور اگر ایسی بات کهیں تو وه انبیاء نهیں هیں ۔وه مجهو لات کو سمجھنے اور درک کر نے میں هماری مدد کرتے هیں اور یه بات همارے لئے بهت اهمیت رکهتی هے۔

لهذا وه افراد جو زمانه ماضی میں کهتے تھے که عقل وخرد کے هوتے هوئے هم انبیاء کے محتاج نهیں هیں ،(جیسے برهمن جو هندوستان اور بعض دیگر علاقوں میں رهتے هیں)یا وه لوگ جوآج یه کهتے هیں که ان تمام علمی ترقیوں اور کا میابیوں کے بعد انسان انبیاء اور ان کی تعلیمات کا محتاج نهیں هے ،تو وه نه انسان کے علم ودانش کی وسعت سے باخبر هیں اور نه انبیاء کی رسالت کا ادراک رکھتے هیں ۔

ان لو گوں کی مثال اس بچے کی هی هے جوپهلی جماعت میں الف با پڑھنے کے بعد کهے که میں سب کچه جا نتا هوں اور مجهے معلم و استاد کی ضرورت نهیں هے، کیا اس کی یه بات بے بنیاد نهیں هے؟

۲۔تعلیم کے اعتبار سے احتیاج

اگر هم نور کی ایک خیالی اور افسانوی سواری پر سوار هو کر تین لاکه کیلو میٹر (پچاس هزار فرسخ)فی سیکنڈ کی رفتار سے اس لا محدود کائنات کی سیر کریں تو کسی شک وشبهه کے بغیر همیں حضرت نوح(ع) کی عمر جیسی هزاروں عمریں در کار هوں گے تاکه هم اس وسیع و عریض کائنات کے صرف ایک گوشے کا نظاره کرسکیں۔

یه کائنات اپنی ان تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساته یقینا عبث اور فضول نهیں بنائی گئی هے اور جیسا که همیں توحید کے اسباق میں معلوم هوا هے که اس کائنات کا کوئی بھی فائده یا نفع خداوند متعال کے لئے نهیں هے کیونکه وه ایک ایسا وجود هے جو هر لحاظ سے کامل،بے نیاز ،لامحدوداورهر نقص وعیب سے پاک هے۔اس نے اس کائنات کو اس لئے نهیں بنایا هے که اپنے کسی نقص کو بر طرف کرے۔

اس لئے هم یه نتیجه لیتے هیں که خداوند متعال کا مقصد یه هے که دوسروں پر جو دو کرم کرے اور تمام موجودات کو تکا مل تک پهنچا دے ،جیسے سورج جو هم زمین والوں پر چمکتا هے حالانکه وه همارا محتاج نهیں هے ۔سورج کی یه روشنی صرف همارے فائدے کے لئے هے ورنه هم سورج کے لئے کون سی خدمت انجام دے سکتے هیں۔

کیا همارے لئے رشد و تکامل کی راه کو طے کرنے اور انسان کامل کے مرحله تک پهنچنے کے لئے صرف هماری معلومات کافی هیں؟

هم اس کائنات کے اسرار ورموز میں سے کتنے اسرار کے بارے میں آگاه هیں؟ بنیادی طور پر هماری زندگی کی حقیقت کیا هے ؟یه کائنات کب سے وجود میں آئی هے؟کوئی بھی شخص ان سوالات کے صحیح اور دقیق جوابات نهیں جانتا ۔یه کائنات کب تک باقی رهے گی ؟اس کا جواب بھی کسی کے پاس نهیں هے۔

اجتماعی اور اقتصادی زندگی کے لحاظ سے بھی هر دانشور اپنا ایک خاص نظریه رکهتا هے۔

مثلاً ایک گروه”سر مایه داری“نظام کا قائل هے جبکه دوسرا گروه ”سوشلزم“اور ”کمیونزم“ کے نظریات کا حامی هے اور تیسرا گروه نه پهلے کو قبول کر تا هے اور نه هی دوسرے کو بلکه دونوں گروهوں کے نظریات کو نقصان ده جان کر مسترد کرتا هے ۔

اسی طرح زندگی کے دیگر مسائل میں بھی دانشوروں کے نظریات میں کافی اختلافات پائے جاتے هیں۔

انسان حیران وپریشان هو جاتا هے که ان نظریات میں سے کس نظریه کو قبول کرے۔؟!

انصاف کا تقاضا یه هے که اس بات کا اعتراف کیا جانا چاهیے که خلقت کے بنیادی اور حقیقی مقصد یعنی ”انسان کی تمام جهات میں پرورش ،بالید گی اور تکامل“کی منزل تک پهنچنے کے لئے ایسی تعلیمات کی ضرورت هے جو صحیح اور حقیقی هوں اور هر قسم کی خطاؤں سے پاک اور زندگی کے حقائق کے مطابق هوں ،ایسی تعلیمات جو اس طویل راه میں اصلی منزل مقصود تک پهنچنے کے لئے انسان کی مددگار ثابت هوسکیں۔

اور یه سب کچھ صرف علم خدا یعنی انبیاء کے ذریعه حاصل هو نے والی الهٰی وحی سے هی حاصل هو سکتا هے ۔اسی وجه سے جس خدانے همیں اس کو طے کرنے کے لئے پیدا کیا هے ،ضروری هے که وه ایسا علم ودانش بھی همارے اختیار میں قرار دے ۔

۳۔اجتماعی اور اخلاقی مسائل میں رهبری کی احتیاج

هم جانتے هیں که همارے وجود میں” عقل وخرد “کے علاوه ایک اور قوت بھی موجود هے که جس کا نام ”غرائز اور خواهشات“ هے :خود پسندی کا غریزه ،خشم وغضب کا غریزه ،شهوت کا غریزه اور اس قسم کے بهت سے دیگر غرائز اور خواهشات۔

بیشک اگر هم اپنے غرائز کو قابو میں نه رکهیں تو وه هم پر مسلط هو جائیں گے حتی هماری عقل وخرد کو بھی اسیر بنالیں گے اور انسان تاریخ کے ظالموں اور جابروں کی طرح ایسے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلے گا جو هر اعتبار سے جنگل کے بھیڑیوں سے بھی زیاده خطرناک هوگا۔

هم اخلاقی تربیت کے لئے ایک تربیت کرنے والے استادکے محتاج هیں ،هم ایک”نمونه“اور ”اسوه“کے محتاج هیں ۔یه ضروری هے که هر لحاظ سے ایک کامل اور تربیت یافته انسان اس خطرناک اور نشیب و فراز سے پر راستے میں همارا هاته پکڑ لے اور همیں غرائز وخواهشات کے طغیان سے بچائے ،اخلاقی فضائل کے اصولوں کو اپنے کردار وعمل سے همارے دل وجان میں نقش کردے اور هماری روح میں شجاعت،شهامت ،انسان دوستی،مروت،عفو وبخشش، وفادری،سچائی ،امانت داری اور پاک دامنی کو پروان چڑهائے۔

معصوم انبیاء کے علاوه کون همارا ایسا مربی اور راهنما بن سکتا هے؟

اسی دلیل کے پیش نظر ممکن نهیں هے که همارا مهر بان اور هر چیز پر قدرت رکھنے والا خدا همیں ایسے راهنماؤں سے محروم رکهے۔

۴۔قانون گزاری کے لئے انبیاء کی ضرورت 

هم جانتے هیں که انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت جواس کی ترقی کا سبب بنی هے اور اس کی زندگی کے مختلف پهلوؤں میں مشهود هے،اس کی وهی پر تلاش اجتماعی زندگی هے۔

یقینا اگر تمام انسان ایک دوسرے سے الگ تهلگ زندگی بسر کرتے تو تهذیب وتمدن اور فکری لحاظ سے آج وه سب ”عصر حجر“کے انسان جیسے هوتے!

جی هاں!یه انسان کی اجتماعی تلاش وکوشش هی هے،جس نے تهذیب و تمدن کا چراغ جلایا هے ،یهی اجتماعی تلاش وکوشش هے جو انسان کی تمام علمی ایجادات اور انکشافات کا سبب بنی هے۔

مثال کے طور پر اگر هم چاند تک پهنچنے کے سفر کے مسئله پر غورکریں،تو معلوم هو گا که یه کام صرف ایک یا چند دانشوروں اور سائنسدانوں کی کوششوں کا نتیجه نهیں هے ،بلکه هزاروں برسوں کے دوران لا کھوں علماء اور دانشوروں کے اجتماعی مطالعات ،انکشافات اور تجربیات کا نتیجه هے که انسان اس عظمت تک پهنچا هے ۔

اگر همارے زمانه میں ایک ماهر سرجن ایک مرده انسان کے قابل استفاده دل کو نکال کر دوسرے قریب المرگ انسان کے سینه میں پیوند لگاتا هے اور اسے قطعی موت سے نجات دلاتا هے،تو یه پوری تاریخ کے هزاروں طبیبوں اور جراحوں کے تجربوں کا نتیجه هے جو استادوں کے ذریعه شاگردوں کو منتقل هوتا رها هے۔

لیکن اس اجتماعی زندگی میں ان تمام فوائد کے باوجود کچه مشکلات بھی هیں ،اور ه مشکلات انسانوں کے ایک دوسرے کے حقوق اور منافع کا آپس میں متصادم هونا هے جو کبھی حق تلفی اور جنگ کی صورت اختیار کر لیتی هیں۔؂

یهاں پر قوانین ،نظام اور قواعد وضوابط کی ضرورت واضح هو جاتی هے ۔قوانین هماری تین بڑی مشکلات کو حل کرسکتے هیں :

۱۔قانون معاشرے کی نسبت هر فرد کے اختیارات اور ذمه داریوں کو اور هر فرد کی نسبت معاشرے کی ذمه داریوں اور فرائض کو واضح کرتا هے،اور قابلیتوں کو بالید گی اور کوششوں کو مربوط کر نے کا سبب بنتا هے۔

۲۔قانون لوگوں کے فریضوں اور ذمه داریوں کی انجام دهی پر ضروری نگرانی کی راه هموار کرتا هے۔

۳۔قانون لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کر نے سے روکتا هے اور معاشرے کو هرج و مرج اور مختلف افراداور گرهوں کے در میان تصادم سے بچاتاهے۔ ضرورت پڑنے پر زیادتی کر نے والوں کے لئے مناسب سزائیں معیّن کرتا هے ۔

بهترین قانون ساز کون هے؟ 

اب همیں دیکهنا چاهیے که انسان کی ضرورت کے مطابق قانون سازی میں مذکوره تین اصولوں کے ساته بهترین قوانین مرتب و منظم کر نے والا کون هو سکتا هے؟ تاکه معاشرے کے افراد اور خود معاشره کے اختیارات ،فرائض اور حقوق واضح اور معین هو جائیںاور لوگوں کے اعمال پر مکمل نگرانی کے علاوه ظلم و زیادتی کر نے والوں کو بھی روکا جاسکے۔

اس سلسله میں هم یهاں پر ایک واضح مثال پیش کرتے هیں :

انسانی معاشره کو ایک بڑی ٹرین اور حکمراں طبقه کو اسے چلا نے اور حرکت میں لانے والے انجن سے تشبیه دی جاسکتی هے۔

قانون اس ریلوے لائن کی پٹری کے مانند هے جواس ریل گاڑی کو منزل مقصود تک پهنچنے کے راسته کو معین کرتی هے۔

پهاڑوں اور درّوں کے مختلف پیچ وخم سے گزر نے والی ایک اچھی ریلوے لائن کے لئے درج ذیل خصوصیات کا هو نا ضروری هے:

۱۔جس زمین سے ٹرین کو گزر نا هے ،اس میں اس کے زیاده سے زیاده دباؤ کو برداشت کر نے کی طاقت هونی چاهیے۔

۲۔ریل کی دوپٹریوں کے درمیان کا فاصله مکمل طور پر ٹرین کے پهیوں کے موافق اور هماهنگ هو ناچاهیے اور اسی طرح ٹنلوں کی دیواریں اور ان کی بلندی ٹرین کی بلندی کے مطابق هو نی چاهیے۔

۳۔نشیب و فراز اتنے گهرے اور اونچے نه هوں که ٹرین کے بریکوں اور اس کے جاذبه کی قوت کو برداشت نه کرسکیں۔

۴۔اسی طرح ٹرین کے گزر نے کے راسته پر پهاڑوں سے پتھروں کے گرنے،سیلاب اور برف کے تودوں کے گرنے کو مکمل طور پر مد نظر رکھنا چاهیے تاکه ٹرین صحیح وسالم ان رستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پهنچ سکے۔اسی طرح اور دوسرے خصوصیات بھی اس زمین میں پائے جانے چاهئیں۔

اس مثال کو بیان کر نے کے بعد هم پھر انسانی معاشره کی بحث کی طرف لوٹتے هیں۔

انسانوں کے لئے بهتریں قانون بنانے والے قانون ساز کو مندرجه ذیل خصوصیات کا حامل هو نا چاهیے:

۱۔نوع انسان کو مکمل طور پر پهچانتا هو اور ان کے تمام غرائز ،خواهشات،جذبات،ضروریات اور مشکلات سے آگاه هو۔

۲۔انسانوں میں پائی جانے والی تمام صلاحیتوں اورتوانائیوں کو مد نظر رکھے اور ان کو اجاگر کر نے کے لئے قوانین 

سے استفاده کرے۔

۳۔معاشرے کو ممکنه طور پر پیش آنے والے هر قسم کے حوادث اور ان کے رد عمل کے بارے میں قبل از وقت پیش گوئی کرسکے۔

۴۔معاشره سے اس کے کسی بھی قسم کے منافع مربوط نه هوں تاکه قوا نین وضع کرتے وقت اس کی فکر خود اپنے شخصی یا اپنے رشته داروں یا اپنی جماعت کے منافع کی طرف متوجه نه رهے۔

۵۔ضروری هے که یه قانون بنانے والا مستقبل میں انسان کو حاصل هو نے والی هر قسم کی ترقی یا تنزل سے مکمل طور پر آگاه هو۔

۶۔یه قانون ساز هر قسم کی خطا،غلطی اور فراموشی سے محفوظ هو ناچاهیے۔

۷۔یه قانون ساز ایسی طاقت کا مالک هو ناچاهیے که معاشرے کے کسی فرد کی طاقت کے مقابله میں مرعوب نه هو جائے اور کسی سے نه ڈرے اور اس کے ساتھ هی نهایت مهر بان اور همدرد هو نا چاهیے۔

یه شرائط کس میں جمع هیں؟ 

کیا انسان بهترین قانون ساز هو سکتا هے ؟

کیا آج تک کسی نے مکمل طورپر انسان کو پهچانا هے؟جبکه عصر حاضر کے ایک بڑے دانشور نے انسان کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی هے اور اس کا نام”انسان، موجود ناشناخته “(انسان ایک نا شناخته مخلوق)رکھا هے ۔

کیا انسان کی ذهنیت ،میلانات ،غرائز اور جذبات کو مکمل طور پر پهچان لیا گیا هے؟

کیا انسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو خداوند متعال کے علاوه کوئی اورشخص جانتا هے؟

کیا عام انسانوں میں کوئی ایسا شخص پایا جاسکتا هے جو معاشرے میں خاص ذاتی منافع نه رکهتا هو؟

کیا آپ عام انسانوں کے در میان کسی ایسے شخص کو جانتے هیں جو سهو وخطا سے محفوظ هو اور معاشرے کے تمام افراد کو در پیش مسائل سے آگاه هو؟

لهذا خداوند متعال کی ذات اور خدا سے وحی حاصل کر نے والی هستی (معصوم) کے علاوه کوئی بھی شخص مکمل اور بهترین قانون سازنهیں هو سکتا هے هم اس نتیجه پر پهنچتے هیں: جس خدا وند متعال نے انسان کو کمال کے مراحل طے کر نے کے لئے پیدا کیا هے ،اسے چاهیے که اس کی هدایت کے لئے ایسے افراد کو مامور فر مائے جو تمام الهٰی قوانین کو انسان کے اختیار میں دے دیں۔

یقیناجب لوگ جان لیں گے که فلاں قانون ،خدا کا قانون هے تو وه اسے زیاده اعتماد اور اطمینان سے قبول کر کے اس پر عمل کریں گے اور دوسرے الفاظ میں یه آگاهی ان قوانین کے بهترین نفاذ کی ضمانت فراهم کرے گی۔

والسلام علیکم ورحمه الله وبرکاته

بعثت کے علل واسباب

بعثت کے علل واسباب کیا هیں ۔ یعنی  کس معاشره میں بعثت کی ضرورت پڑتی هے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کها جاسکتا هے  که بعثت کے پیچھے کون سے عوامل هیں که جن کے نتیجے میں بعثت کا واقع هونا ضروری هوجاتا هے ۔

حضرت علی ابن ابی طالب  نے نہج البلاغہ میں معاشرہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔

بعثت سے پپلے کا معاشرہ جس کو عصر جاہلیت کےنام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عصر بعثت کا معاشرہ جس کو عصر شکوفائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عصر بعثت کے بعد والا معاشرہ جس کو عصر جمود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

 بعض لوگ خیال کرتے هیں که جهالت ، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص هے اور اس کو دور جهالت کا نام دیا گيا هے اور عالم بشریت اس دورسے گزر چکا هے لیکن حقیقت یه هے که هر وه زمانه جب انسان ، انسانیت کی حدوں سے دور هوجاتا هے اور نفسانی خواهشات کی پیروی کرنے لگتا هے جهالت کے دائرے میں پهنچ جاتاهے اور دنیا اسے اپنا اسیر بنا لیتی هے چاهے وه کوئی بھی دور اور زمانه هو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نه جلوه گر هوئی هو ۔

سید قطب معاشرے کو جاهلی اور اسلامی حصوں میں تقسیم کرتے هیں اور کهتے هیں آج هم اسی جهالت میں زندگی بسر کرهے هیں جو اسلام کے ظهور کے دور میں تھی اور همارے اطراف میں جو بھی هے اس سے بھی زیاده جاهلانه هے ۔ همارا وظیفه یه هے که پهلے اپنے اندر تغییر و تبدیلی پیدا کریں تا که اسی بنا پر معاشرے کو تبدیل کر سکیں ۔ اسلام دو معاشرے سے زیاده نهیں جانتا ۔ ایک جاهلی معاشره دوسرا اسلامی معاشره ۔ اسلامی معاشره وه هے که جس کے تمام پهلوٴوں میں عقیده ، عبادت ، شریعت اور احکام سلوک اور اسلامی اخلاق عملی شکل اختیار کریں ۔ اور جاهلی معاشره وه هے که جس میں اسلام پر عمل نهیں هوتا ۔ سید قطب کی یه سیاسی فکر هم کو امام خمینی ۺ کی یاد دلاتی هے که انھوں نے فرمایا تھا حکومت یا طاغوت هے یا اسلام هے ۔ حقیقت میں سید قطب کا عقیده هے که جس اسلام کی دشمن تبلیغ کرتے هیں اس میں اور رسول اکرم صلی الله علیه وآله کے لائے هوئے اسلام میں بهت زیاده فرق هے ۔ سید قطب پهلے مفکر هیں جنھوں نے (امریکی اسلام ) کا لفظ پیش کیا ۔ اور یه عقیده رکھتے هیں کے جس معاشرے کے لوگ مسلمان هیں لیکن اسلام کے احکام پر عمل نهیں کرتے ، چاهے نماز پڑھیں ، روزه رکھیں ، حج کریں ایسا معاشره کسی بھی طرح اسلامی نهیں کهلاتا بلکه جاهلی معاشرے کی صف میں قرار پاتا هے ۔ اور جو معاشره خدا کو مانتا هے لوگوں کو یه اجازت نهیں دیتا که دین کو دوسرے معاشرے میں پھیلائے ، بلکه صرف اجازت دیتا هے که لوگ خدا کی مسجدوں میں عبادت کریں ، یه معاشره بھی جاهلی معاشره هے ۔

نهج البلاغه میں حضرت علی  نے بعثت  کے علل واسباب کو تفصیلی طور پر بیان کیا هے ۔بعض اسباب اعتقادی هیں ۔بعض اخلاقی هیں  اور بعض اجتماعی هیں  یهاں پر هم اختصار کے ساتھ بعض علتوں کی طرف اشاره کریں گے ۔

اعتقادی اسباب 

طلوع اسلام سے قبل عرب مختلف مذاهب اور خود ساخته اقدار کو سینے سے لگائے هوئے تھے ،کهںر بت پرستی هو رهی تھی اور کهںل آتش پرستی سے سکون  قلب کا ساما ن مهاخ کات جارها تھا،کهںے سورج کی پرستش هو رهی تھی اور کهںن انسان جسے اشرف المخلوقات بنایا گاک تھا ،ستاروں کے آگے سر بسجود تھا،خانه کعبه اصنام پرستی کا مرکز تھا۔

حضرت علیؑ  عصربعثت مںز لوگوں کے عقائد کی تصویر کشی  ان الفاظ میں کرتے هیں :

 َواَهلُ الاَرضِ یَؤمَئِذٍ مِلَلٌٌ مُتفرّقة، وأهواءُ مُنتَشِرَة، وطَرَائِقُ مُتَشَتِّتَة،بَینَ مُشبِّهٍ لِلّهِ بِخلقِه ،أومُلحِدٍ فِی اِسمِه،أومُشیرٍاِلی غَیرِه (خطبه ،١)

 ''اس وقت اهل زمنا متفرق مذاهب ،منتشرخواهشات اورمختلف راستوں پرگامزن تھے ۔ بعض  خداکومخلوقات سے تشبیہ دیتے تھے ۔ کچھ  اس کے ناموں کوبگاڑدیتے تھے،کچھ خدا کو چھوڑ کر  دوسروں کے پیچھے جاتے تھے ۔'' 

 جن گرهوں کا ذکرامام نے یهاں فرمایاهے قرآن مںر بھی  مختلف آیات کریمه مںم ان کاذکرهواهے ۔

 پهلاگروه:''مشبّه للّه بخلقه''یه وه لوگ تھے جومخلوقات کی صفات کوخداوندمتعال کے لئے ثابت جانتے تھے قرآن کریم فرماتاهے :

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ  (توبه/٣٠)

 ''اوریهودیوں کاکهناهے که عزیزالله کے بٹےق هںل اورنصاریٰ کهتے هںل که مسحد الله کے بٹےه هںل یه سب ان کی زبانی باتںی هںں ان باتوں مں  یه بالکل ان کے مثل هں  جوان کے پهلے کفارکهاکرتے تھے ،الله ان سب کوقتل کرے یه کهاں بهکے چلے جارهے هںے''

 دوسراگروه :''اوملحدٍفی اسمه''علامه مجلسی اس عبارت کی تشریح مںٍ فرماتے هںا:''وه نام، جوخداوندمتعال کے شایان شان نه هو،کو اس پر اطلاق کرتے تھے اوراس کی طرف منسوب کرتے تھے یاخداکے اسم کودوسروں پراطلاق کرتے تھے۔

 تسر اگروه:''أومشیرٍالی غیره''یه وه لوگ تھے که جوغرفالله کواشاوء مںت تأثرهکے اعتبارسے مؤثراورمستقل جانتے تھے جسےو دهریه که جوطبعتد اورفلکی حرکات کومؤثرجانتے تھے یاثنویه که جوعالم مںھ دوخالق کے قائل تھے یابت پرست جوبتوں کے تأثرمکے قائل تھے۔

 امام علی عربوں کی بت پرستی کویوں ترسمه کرتے هںک:

 ''واَنتُم مَعشَرَالعَرَبِ عَلی شَرِّدِینٍ ،وَفِی شَرِّدارٍ''والاصنامُ فیکم مَنصُوبة'' (خ۔۲۶)

 '' اے گروه عرب اس وقت تم  بدترین دین  پر اوربدترین گھروں میں تھے بت تمهارے درماون نصب تھے دوسری جگه امام فرماتے هںں:''والاصنام معبودة''بت ان کے معبودتھے۔

بعض خدا کے قائل تھے لکنر قا مت اور جزا وسزا کے منکر تھے ان مں  سے بعض تو خدا کی ذات کے منکر تھے وه عالم دنا  کو هی سب کچه جانتے تھے قرآن ایسے افراد کے بارے مںت فرماتا هے:

وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ   (سوره جا ثهل ،آیه ٢٤) 

''اور یه لوگ کهتے هںل که یه صرف زندگانی دناَ هے اسی مں  مرتے هںق اور جتےُ هںل اور زمانه هی هم کو هلاک کردیتا هے''

اجتماعی اسباب

بعثت کے اجتماعی اسباب کے بارے میں حضرت علیؑ فرماتے ہیں :

''اَرسَلَه عَلی حِینِ فَترَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَطُولِ هَجعَةٍ مِنَ الاُمَمِ وَاعتِزَامٍ مِنَ الفِتَنِ وانتِشَارٍمِنَ الاُمُورِوتَلَظٍّ مِنَ الحُرُوبِ،وَالدُّنیَاکَاسِفَةُ النُّورِظَاهِرَةُ الغُرُورِعَلی حِینِ اِصفِرَارٍ مِن وَرَقِهَاوَاِیَاسٍ مِن ثَمَرِهَاوَاِعوِرَاراً مِن مَائِهَا،قَددَرَسَت مَنَارُالهُدَیٰ وَظَهَرَت اَعلَامُ الرَّدَیٰ ثَمَرُهاالفِتنَةُوَطَعَامُهَاالجِیفَةُ (خ،٨٧)

 اللہ نے اپنے پیغمبر کو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا۔ اور ساری امتیں ۔ مدت سے پڑی سو رہی تھیں۔ فتنے سر اٹھار ہے تھے ۔ سب چیزوں کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا۔ جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے ۔ دنیا بے رونق دبے نور تھی اور اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں۔ اس وقت اس کے پتوں میں زردی دوڑی ہوئی تھی اور پھلوں سے نا امیدی تھی ۔ پانی زمین میں تہ نشین ہو چکا تھا۔ ہدایت کے مینار مت گئے تھے ہلاکت و گمراہی کے پرچم کھلے ہوئے تھے ۔ اس کا پھل فتنہ تھا ۔ اور ا  س کی غذا مردار تھی۔ 

ابن اثریکهتاهے :فترت دورسول کے درماون فاصله زمانی کوکهاجاتاهے وه زمانه جس مں  رسالت منقطع هوتی هے جسےگ حضرت عیٰغذ اورحضرت محمدکے درماهن کازمانه ۔

 جناب عیٰیم کے آسمان پرجانے کے بعدجتنے دن وحی آسمان کاسلسله منقطع رهااورهدایت کاکاروبار اوصاجء کے ذریعه چلتارهااسے زمانه فترت کهاجاتاهے۔

 ایک اور جگہ حضرت فرماتے ہیں :

 ''وَاَنتُم مَعشَرَالعَرَبِ عَلی شَرِّدِینٍ وَفِی شَرِّدَارٍ،مُنِیخُونَ بَینَ حِجَارَةٍ خُشنٍ وَحَیَّاتٍ صُمٍّ تَشرَبُونَ الکَدِرَوَتأکُلُونَ الجَشَبَ''(خ ۔۲۶)

 اے گروه عرب  اس وقت تم بدترین دین  پر اوربدترین گھروں میں تھے ناهمواره پتھروں اورزهریلے سانپوں کے درمامن تم بودوباش رکھتے تھے ،تم گنده پانی پتےا تھے اورغلظ  غذااستعمال کرتے تھے ۔

لڑکااںاس سماج مںو منحوس سمجھی جاتی تھیں قرآن مجدت نے ان کی اس غلط فکر کو اس طرح سے باهن کاے هے :

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ، يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ  (سوره نحل، آیات، ٥٨۔٥٩)

'' اور جب خود ان مں  سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی هے تو اس کا چهره سا ه پڑ جاتا تھا اور وه کون کے گهونٹ پنےس لگتا تھا قوم سے منه چهپاتا تھا که بهت بری خبر سنائی گئی هے اب اس کو ذلت سمتُ زنده رکهے یا خاک مںي ملادے یقینایه لوگ بهت برا فصله  کرهے هںُ''

دوسری آیت مںگ قرآن مجدب انهںی اس ناشائسته فعل اور انسانتک سوز حرکت کے بدلے خدا وند عالم کی بارگا ه مںگ جواب ده قرار دیتاهے:

وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ  بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ   (سوره تکویر ،آیات،٨۔٩) 

''اور جب زنده گور لڑکوَں کے بارے مںق سوال کا  جائے گا که انهں  کس گناه مں  مارا گا  هے''

  خداوند عالم نے رسالت خاتم الانبیاء اس وقت قرار دی جب بهت زمانه گزر گیا تھا اور لوگ خواب غفلت میں سوئے هوئے تھے اور دنیا جنگ وجدال کی کیفیت میں تھی اس وقت معنویت ،نورایت اور انسانیت رحم دلی مروّت جیسی کوئی چیز نهیں تھی ۔تقریباًحضرت عیسیٰ علیه السلام اور پیغمبر اسلام ۖکے درمیان سات سو سال کا فاصله هو چکا تھا اس وقت هدایت اور ارشاد کا بندوبست تک نهیں تھا اتنا زمان انبیاء الٰهی سے خالی تھا اس کی وجه سے ظلم اور جاهلیت تمام دنیا میں سرایت کر چکی تھی اس وقت خاتم الانبیاء ﷺمبعوث به رسالت هو گئے اور دنیا سے تمام برائیوں کو دور کیا اور دنیا کو ایک هدایت کا باغ بنا دیا۔

اخلاقی اسباب 

 عربوں کی اخلاقی حالت پستی و زوال کی انتھا کو پهنچ چکی تھی،عفت وعصمت ،تهذیب و شرافت کے تصورات قصه پارینه بن چکے تھے ،معمولی معمولی سی بات پر لڑنا ،ایک دوسرے کا سر اڑادینا ان کے نزدیک کوئی بری بات نهںل تھی هر قبله  دوسرے قبلے  سے اور هر خاندان دوسرے خاندان سے بر سر پکارر تھا ،هر بچه اپنے باپ اور عزیزوں کے قاتل سے انتقام لنےک کے جذبے میں پرورش پاتا تھا جوان هوکر اپنے جذبه انتقام کی آگ کوسرد کرنے مںی هی اپنا اولنا مقصد بنالتار تھا یوں ایک ایک لڑائی کا سلسله برسوں تک قائم اور جاری رهتا تھا جسان که ''جنگ بسوس''جو که دو قبلوهں بنی بکر اور بنی تغلب کے درمالن چڑای چالسک سال تک جاری رهی اور اس جنگ کی وجه یه تھی که قبلها بنی بکر کا اونٹ جو که بسوس نامی خاتون کا تھا بنی تغلب کی چراگاه مںن چرنے کے لئے چلا گای تو اسے ان لوگوں نے مار ڈالا،جنگ وجدل کے اس ماحول مں  لڑنا ،مرجانااور مارنا جاهلتن کا شرف وکمال سمجهاجاتا تھاان لڑائوںں مںم سفاکی،بے رحمی اور قتل وغارت کی بدترین مثالںئ سامنے آتی هںه ،اسرهان جنگ کا ایک ایک عضو کاٹ کر اور انهںل مسلسل اذیت مںآ مبتلا کر کے موت کے گهاٹ اتاراجاتا تھا ،دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لال جاتا تھا۔

 عربوں مں  حواانی اور انسانی جان کا احترام بالکل ختم هوچکا تھا ،حرام اور حلال کی قطعاًانهںا کوئی تمزر نهں  تهی ،وحشت وبربریت ،جهالت وتارییر کا دور دوره تھا ،زنده جانوروں کے حصے کاٹ کر کهائے جاتے تھے ،بعض نجس جانوروں کو گوشت کهانے مںن عار محسوس نهںے کرتے تھے ،درندوں کے نوچے هوئے جانور کو بھی  کهانے سے احتراز نهں  کرتے تھے ،اهل عرب مںن عریانی وبے حاحئی ، قمار بازی،زناکاری جسےا اخلاقی جرائم عام تھے ۔

 امام علی  آپس مںے لوگوں کاایک دوسرے کوقتل کرنے کے بارے مںی فرماتے هںی:

 ''وَتَسفِکُونَ دِمَاءَ کُم وَتَقطَعُونَ أرحَامَکُم ''(خ۔٢٦)

 ''آپس مںی ایک دوسرے کاخون بهاتے تھے اوررشتہ داروں سے  بے تعلقی کا اظہارکرتے تھے ''

  تاریخی  نقطہ نگاہ سے  بعثت کیسے واقع ہوئی ؟

آغاز بعثت کے سلسله میں تاریخی و حدیثی منابع رقمطراز هیں که جب حضرت رسول اکرمﷺ کی عمر پالیس برس کے قریب هوئی تو آپ  نےغار حرا میں جانا زیاده کردیا جهاں آپ غور وفکر اور عبادت خدا میں مشغول رهتے اور یهیں سے ابتدائے وحی کے طور پر آپ کو رویائے صادقه کا سامنا هوا اور آپ جو کچه خواب میں دیکهتے وه روز روشن کی طرح صبح کو عیاں هوجاتا ،اسی دوران ایک دن آپ غار حرا میں تشریف فرماتھے که فرشته وحی حضرت جبرائیل امین ؑ نازل هوئے اور کها:اے محمد پڑهو : رسول اکرم نے فرمایا ؛ما انا بقاری یا لست بقاری۔میں پڑهنا نهیں جانتا هوں یا  میں پڑها هوا نهیں هوں۔حضرت جبرائیل ؑ نے پیغمبر اکرم ؐ کو اپنی آغوش میں لے کر دبایا اور پهر دوباره کها :اے محمدپڑه لیکن حضور اکرم نے دوباره وهی جواب دیا ۔اس کے بعد  جبرئیل نے انهیں آغوش میں لے کردبایا اور پهر دوباره کها : پڑه، پیغمبر  صلی الله علیه و آله و سلم  نے پهر اسی جواب کو دهرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پهر وهی کام کیا اور وهی جواب سنا، اور تیسری بار کها:

 « اقراء باسم ربک الذی خلق۔۔۔»    جبرئیل (ع)یه بات کهه کر پیغمبر صلی الله علیه و آله و سلم کی نظروں سے غائب هوگئے۔ 

”علامه طبرسی“   بھی  مجمع البیان میں یه نقل کرتے هیں که رسو ل خدا   صلی الله علیه و آله و سلم  نے خدیجه سے فرمایا :«جب میں تنها هوتا هوں تو ایک آواز سن کر پریشان هو جاتا هوں» حضرت خدیجه(ع) نے عرض کیا : خدا آپ کے بارے میں خیر اور بهلائی کے سوا کچه نهیں کرے گا کیونکه خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے هیں اور صلهٴ رحم بجا لاتے هیں  اور جو بات کرتے هیں اس میں سچ بولتے هیں۔

”خدیجه“(ع) کهتی هیں  : اس واقعه کے بعدهم ورقه بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجه کاچچا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا ) رسول الله  صلی الله علیه و آله و سلم  نے جو کچه دیکها تھا وه“ ورقه“ سے بیان کیا ” ورقه “ نے کها : آپ کو بشارت هو ‘ پهر بھی  آپ کو بشارت هو ۔ میں گواهی دیتا هوں که آپ وهی هیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی هے‘ آپ موسی علیه السلام کی طرح صاحب شریعت هیں اور پیغمبر مرسل هیں ۔ آج کے بعد بهت جلدهی جهاد کے لیے مامور هوں گے اور اگر میں اس دن تک زنده رها تو آپ کے ساتھ مل کر جهاد کروں گا ۔  

 احادیث بعثت کا تنقیدی جائزه

یه روایت قابل قبول نهیں هے کیونکه مندرجه ذیل دلائل کی بنیاد پرسند اور متن  ومضمون  دونوں  اعتبار  سے  قابل قبول نهیں هے  ۔

•    اس واقعه کی ناقل عائشه هیں اور وه بعثت کے چوتھے یا پانچوٰیں سال پیدا هوئیں ۔لهذا وه واقعه کے وقت موجود هی نهیں تهیں که واقعه کی عینی گواه بن سکیں۔ علم حدیث کی اصطلاح میں اس روایت کو  مرسل  کے نام سےیاد کیا جاتا هے  اور روایت مرسل قابل اعتبار نهیں هے ۔ 

•  ایک اور اشکال جو اس روایت پر وارد هے وه یه هے که کیا حضرت رسول اکرم نهیں جانتے تھے که کیا چیز آئنده رونما هونے والی هے اور جبرائیل امین کو نهیں پهچانتے تھے اور اس کے پیغام کو صحیح طرح سے تشخیص نهیں دے سکتے یهاں تک که ایک ضعیف اور نابینا مسیحی نے ان کی رسالت کے اوپر مهر تصدیق لگائی اور رسول اکرم کو اس کے اظهارات کے ذریعه اپنی رسالت کے بارے میں اطمینان حاصل هو اور ان کے دل کو سکون ملا۔

• کس طرح سے یه بات قابل قبول هوسکتی هے که جناب خدیجه ؑ کی معلومات (جو که ایک عام فرد تهیں )حضرت رسول اکرم ؐ سے زیاده تھیں اور وه آنحضرت ؐ کے خوف و اضطراب کو دیکھ کر ان کی دلجوئی اور دلداری کرتی تھیں۔

•   اس روایت میں یه بھی  ذکرهوا هے که حضرت جبرائیل نے رسول اکرم ؐ کو تین بار اتنا دبایا که هر بار آنحضرت یه محسوس کرتے تھے که روح قفس عنصری سے پرواز کرنے والی هے ۔یهاں پر سوال یه هے که کیا اس طرح بھی  علم کبھی  حاصل هوا هے ؟اور کیا اس طرح سے کسی نبی کو مبعوث کیا گیا هے۔؟!

• حضرت رسول اکرم ﷺ کی آمادگیوں اور تیاریوں کو دیکھتے هوئے اور اس سےپهلے غیبی پیغاموں کے دریافت کو دیکھتے هوئے ،کوئی سوال پیدا نهیں هوتا که حضرت گھبرائے هوں اور خوف واضطراب آپ پر طاری هواهو ۔ یهاں تک که بعض روایات میں آیا هے که وحی الهی کے دریافت کرنے کے بعد آپ  اتنے خوف زده هوگئے تھے که پهاڑ سے نیچے کودنا چاهتے تھے مگر حضرت جبرائیل ؑ آڑے آگئے۔

 کیا پیغمبر اکرم  (ص) امّی تھے؟

”اُمّی“کے معنی میں تین مشهور احتمال پائے جاتے هیں: 

پهلا احتمال یه هے که ”اُمّی“ یعنی جس نے سبق نه پڑها هو،

 دوسرا احتمال یه هے که ”اُمّی“ یعنی جس کی جائے پیدائش مکه هو اور مکه میں ظاهر هوا هو،

 اور تیسرے معنی یه هیں که ”اُمّی“ یعنی جس نے قوم او رامت کے درمیان قیام کیا هو، لیکن سب سے زیاده مشهور و معروف پهلے معنی هیں، جو استعمال کے موارد سے بھی  هم آهنگ هیں، اور ممکن هے تینوں معنی باهم مراد هوں۔

اس سلسله میں کوئی اختلاف نهیں هے،که”پیغمبر اکرم  (ص)کسی مکتب اور مدرسه میں نهیں گئے “اور قرآن کریم نے بھی  بعثت سے پهلے آنحضرت  (ص) کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا هے:

 وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (سوره عنکبوت ،  ۴۸)

”اور اے پیغمبر! آپ اس قرآن سے پهلے نه کوئی کتاب پڑهتے تھے اور نه اپنے هاته سے کچه لکهتے تھے ورنه یه اهل باطل شبه میں پڑجاتے“                             

یه بات حقیقت هے که اس وقت پورے حجاز میں پڑهے لکهے لوگ اتنے کم تھے که ان کی تعداد انگشت شمار تهی اور سبھی  ان کوجا نتے تھے، مکه میں جو حجاز کا مرکز شمار کیا جاتا تها لکهنے پڑهنے والوں کی تعداد ۱۷/ سے زیاده نهیں تهی اور عورتوں میں صرف ایک عورت پڑهی لکهی تهی.

ایسے ماحول میں اگر پیغمبر اکرم  (ص) نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی هوتی تو  یقینی طور پریه بات مشهور هوجاتی، بالفرض اگر (نعوذ بالله) آنحضرت  (ص)کی نبوت کو قبول نه کریں، تو پهر آپ اپنی کتاب میں اس موضوع کی نفی کیسے کرسکتے تھے؟ کیا لوگ اعتراض نه کرتے که تم نے تعلیم حاصل کی هے، لهٰذا یه بهترین شاهدهے که آپ نے کسی کے پاس تعلیم حاصل نهیں کی هے۔

بهر حال پیغمبر اکرم  (ص) میں اس صفت کا هونا نبوت کے اثبات کے لئے زیاده بهتر هے جس سے یه بات واضح هوجاتی هے که جس شخص نے کهیں کسی سے تعلیم حاصل نه کی هو وه اس طرح کی عمده گفتگوکرتا هے جس سے معلوم هوجاتا هے که آنحضرت  (ص) کا خداوندعالم اور عالم ماوراء طبیعت سے واقعاً رابطه هے۔ 

یه آنحضرت  (ص) کی بعثت نبوت سے پهلے، لیکن بعثت کے بعد بھی  کسی تاریخ نے نقل نهیں کیا که آپ نے کسی کے پاس لکھناپڑھنا سیکھا هو، لهٰذا معلوم یه هو ا که آپ اولِ عمر سے آخر ِعمر تک اسی ”اُمّی“  صفت پر باقی رهے۔

لیکن یهاں پر سب سے بڑی غلط فهمی یه هے جس سے اجتناب کرنا ضروری هے وه یه که تعلیم حاصل نه کرنے کے معنی جاهل هونا نهیں هے، اور جو لوگ لفظ ”اُمّی“ کے جاهل معنی کرتے هیں وه اس فرق کی طرف متوجه نهیں هیں۔

 اس بات میں کوئی مانع نهیں هے که پیغمبر اکرم  (ص) تعلیم الٰهی کے ذریعه ”پڑھنا“ یا ”پڑھنا  اور لکناک“ جانتے هوں، بغیر اس کے که کسی انسان کے پاس تعلیم حاصل کی هو، بے شک اس طرح کی معلومات انسانی کمالات میں سے هیں اور مقام نبوت کے لئے ضروری هیں۔

حضرات ائمه معصومین علیهم السلام سے منقول روایات اس بات پر بهترین شاهد هیں، جن میں بیان هوا هے : پیغمبر اکرم  (ص) لکنےن پڑھنے کی قدرت رکےت  تھے۔ (تفسیر برهان ، جلد ۴، صفحه ۳۳۲، سورهٴ جمعه کی پهلی آیت کے ذیل میں)

مجموعی طور پر جو کچھ بیان کیا گیا هے‘ اس سے یه نتیجه حاصل هوتا هے که تاریخ کے قطعی فیصلے کے مطابق اور قرآن کی گواهی اور اسلامی تاریخ کے بے شمار دلائل کی روشنی میں آپ نے کسی بشر یا انسان کے سامنے زانوئےتلمذ تهه نهیں کیا هے۔ آپ وه انسان هیں جنهوں نے کسی بھی  مدرسے سے تعلیم حاصل نه کی‘ بلکه صرف اور صرف مکتب الٰهی سے هی اپنے لوح دل کو علم سے منور فرمایا۔ آپ وه پهول هیں جن کے پروان میں سوائے باغبان ازل کے کسی کے هاتھ نے چھوا نهیں‘

 

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پوری دنیا میں محرم کا آغاز، عزاداری کا سلسلہ شروع
بعثت کی حقیقت
انسان کے مقام ومرتبہ کی عظمت
حضرت معصومہ(س) آئمہ معصومين(ع) کي نظر ميں
امام موسی کاظم علیہ السلام
نوروز کی اسلام میں حیثیت پر سیر حاصل گفتگو
حجة الاسلام دلیر: لقمہ حلال رجبیون کے طرززندگی کی ...
دو بری عادتیں
ہفت سین کا رواج
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي

 
user comment