اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

زمانہ غیبت کبریٰ میں امت کی ذمہ داریاں

علامہ شیخ عباس قمی نے دور غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام زمانہ علیہ السلام اور انتظار امام زمانہ علیہ السلام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ علیہ السلام میں شمار کیا جا سکتا ہے اگر ہم اپنے آپ کو ان خوش قسمتوں کے دائرے میں شامل کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اطاعت امام عصرعلیہ السلام کا جو اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے تو ہمیں ان ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا لازمی امر ہے جو آپ کی اطاعت و احترام کے حوالے سے ہم پہ عائد ہوتی ہے ان کا مقاصد بھی دینی اور دنیاوی سرخوئی اور بارگاہ قائم آل محمد میں قرب اور باریالی حاصل کرنا ہے ساتھ ہی دنیاوی مصائب مشکلات اور آفات سے آپ کے دامن میں پناہ حاصل کرنا ہے یہ دنیاوی آفات کچھ تو قلبی ہے کچھ جسمانی کچھ زبانی ہے اور کچھ مالی پہلو رکھتی ہے ان آٹھ فرائض کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

پہلی ذمہ داری:

مخزون و رنجیدہ رہنا:

ہم کیوں نہ غمگین ہو جب کہ ہماری آنکھیں اس آفتاب عدالت اور نور ولایت کو دیکھنے سے قاصر ہے ہمارا دل سوز و جدائی سے بے قرار ہے جیسے محب اپنے محبوب کی جدائی میں گریاں ہوتے ہیں کیونکہ رسول اکرم کا فرمان ہے جسے شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے اپنی کتاب (امالی) میں لکھا ہے فرمایا کوئی شخص ایمان نہیں لایا جب تک کہ میں اس کی جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جاﺅں اور میرے گھر والے ان کے گھر والوں سے زیادہ عزیز نہ ہوں میری عترت اس کی عترت (اولاد) سے زیادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے یہی بات امام عصرعلیہ السلام پر صدق آتے ہیں امام زمانہ علیہ السلام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے تو یہ کیسے ملتا ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی پیدا نہ کرے دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اس لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت امام زمانہ علیہ السلام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کرے تو گریہ اور ندبہ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اس لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روزعید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جیسے بعض اسلام احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کے فراق پر آنسو بہائے تا کہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیسا کہ امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت الہیہ کی بنیاد یہ کوئی آواز بھی بلند کر کستے آئمہ معصومینعلیہ السلام میں مولائے کائنات امیر المومنینعلیہ السلام کے دور سے امام حسن عسکریعلیہ السلام تک ہر امام زمانہ علیہ السلام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں غیر صرف اس وقت نمایاں ہو گا جب ہمار قائم علیہ السلام قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تا کہ انسان مومن بد ترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا اس مقام پر صیرفی کی اس روایت کو نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں سدیر کہتے ہیں کہ میں اور مفضل بن عمر اور ابوبصیر اور امان بن تغلب امام صادقعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب اشک جاری کر دیا ہے میں نے حیرت زدہ ہو کر عرض کی کہ فرزند رسول! خدا آپ کو ہربلا سے محفوظ رکھے یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدانخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہو گئی ہے تو فرمایا کہ میں نے کتاب جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بد ترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تفائل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبان امام زمانہ علیہ السلام کا کیا حشر ہو گا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا اگر ہمارے حالات اور ہمار ی بد اعمالیاں سینکڑوں سال پہلے امام صادقعلیہ السلام کو بے قرار ہو کر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کر کے کم از کم روز جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کر کے اپنے حالات پر خود آنسو بہائے کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ علیہ السلام کا جذبہ پیدا ہو جائے ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے اگر کسی شخص نے حقیقتاً اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی محبت کا جام شیریں نوش کیا اور دل سے رشتہ محبت کو آپ کے ساتھ استوار کیا ہو تو اس قدر آپ کی فرقت اور جدائی میں غمگین ہو گا کہ آنکھوں سے نیند دل سے قرار اور خورد نوش سے لذت جاتی رہے گی اس غم کا بیان ہو کہ وہ جلالت و عظمت ہستی جو منبع ہے تمام تر رافت و لطف احسان کا مگر حجاب الہیٰ میں اس طرح پوشیدہ ہے کہ نہیں جانتے دست طلب ان تک کیسے پہنچے ان کے جمال سے کیسے سراب ہوں گے یہ آنکھیں ہر کس اور ناکس کو یہ آنکھیں دیکھتی ہے سوائے اس ہستی کے جس کے سوا کسی کو دیکھنا چاہیے ہر لغو اور نا پسندیدہ بات کو کان سنتے ہیں اس کی آواز کے جس کے سوا کچھ سننا نہیں چاہیے۔

دوسری ذمہ داری:

غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے انتظار حکومت و سکون آل محمد اس انتظار کو دور غیبت میں افضل قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کرے اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوش کرتے رہیں اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہیں یہ ایک راز ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینعلیہ السلام کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی مولا ان مصائب کے انتہا کیا ہے تو فرمایا کہ ۰۷ ہجری تک عرض کی کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا فرمایا ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۰۷ ہجری تو گزر چکا ہے لیکن بلاﺅں کا سلسلہ جاری ہے تو فرمایا شہادت امام حسینعلیہ السلام کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہوا تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا پھر اس کے بعد ابوحمزہ نے یہی سوال امام صادقعلیہ السلام سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب الہیٰ نے اس مدت کو دو گنا کر دیا تھا اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق طور پر راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم علیہ السلام آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا امام رضعلیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا میری امت کے لیے بہترین عمل انتظار فرج ہے شیخ صدوق کتاب(کمال الدین) میں صادق آل محمد سے روایت کرتے ہیں کہ آئمہ کا دین تقویٰ، عفت اور پاک دامنی نیک عمل اور فرج قائم علیہ السلام آل محمد کا انتظار کرنا ہے۔

تیسری ذمہ داری:

غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یوسف زہراءزمام زمانہعلیہ السلام کے لیے بارگاہ احدیت میں دست بدعا رہنا امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کی دعا ہر شے سے نجات کی دعا تمام شیاطین جن و انس سے حفاظت کی دعا اور سب سے بڑھ کر جناب کی نصرت و اعدا پر غلبہ کی اور تعجیل فرج کی دعا ہے دعا تو ہمارے اپنے رب کے ساتھ اہم ترین رابطہ ہے خصوصاً اپنے دینی بھائیں کے لیے دعا کی بہت تاکید گئی ہے اس کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے جب برادران ایمانی کے لیے دعا کی اتنی فضیلت ہے تو پھر زمین پر حجت خدا اور سب ہدایت اور وجہ تخلیق کائنات کے لیے دعا کرنا جس فضیلت کا حامل ہو سکتاہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے امام زمانہ علیہ السلام کے لیے دعا آپ کی بندگی اور جلالت کے موجب ہم پر آپ کا ایک حق ہے جس کی ادائیگی ہماری آپ سے محبت و عقیدت کا ثبوت ہے جب ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے پیاروں اور عزیزوں کے لیے دعا کرتے ہیں اسی طرح چاہیے کہ آنحضرت کے لیے دعا کو مقدم کریں اور پہلے آپ کی سلامتی اور فرج کے لیے دعا کریں اور پھر آپ کے وسیلے سے اپنی حجت پیش کریں ایک طرف تو اس سے بندگی اور محبت کا حق ادا ہو گا آپ کے جو احسان عظیم ہم پر ہیں ان کا شکر ادا ہو اور امید ہے کہ دعا کے لیے وہ دروازوں کو ہم پر کھول دے اور آپ کے وجود پر نور کی برکت سے ہماری دعائیں مستجاب ہوجائیں یہ بات نہیں کہ ہمارے آقا ہماری دعاﺅں کے حاجت مند ہیں بلکہ یہ ہماری عقیدت و محبت کا تقاضا ہے اور ہماری دعاﺅں کی قبولیت کا باعث بھی ہے پس ہمیں چاہیے کہ آپ کی ذات اور حاجات کو اپنے نفس پر یعنی اپنی ذات پر مقدم کریں اور پہلے آنجناب اور پھر اپنی ذات اور حاجات کے لیے دعا کریں ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور غیبت میں امام زمانہ علیہ السلام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کہ رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہ اقدس میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں دعائے اللھم کن لولیک الحجة بن الحسنعلیہ السلام جسے عام طور سے اثنائے نماز، قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے امام زمانہ علیہ السلام کے وجود کی حفاظت ان کی ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے جس سے صاحبان ایمان کو کسی وقت بھی غافل نہیں ہونا چاہیے انہیں دعاﺅں میں سے ایک دعائے عہد ہے جس کے بارے میں اما جعفر صادقعلیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اس عہد نامے کو قربة الی اللہ لگا تار چالیس روز تک نماز صبح کے بعد باوضو رو بقبلہ پڑھے گا تو وہ ہمارے قائم علیہ السلام (آل محمد) کے یار و انصار میں ہوگا اور اگر امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور پر نور سے قبل وہ مر جائے گا تو خداوندعالم اس کو سر سے اُٹھائے گا اور امام زمانہ علیہ السلام کے انصار میں شامل کرے گا اور اسے پھر کلمہ اور لفظ عوض میں ہزار نیکیاں اور حسنات عطا فرمائے گا اور اس کے نامہ اعمال سے ہزار برائیاں محو فرمائے گا نیز زرارہ بن اعین امام جعفر صادقعلیہ السلام سے نقل کرتے ہیں عصر غیبت کے لوگوں کو یہ دعا ضرور پڑھنا چاہیے اللھم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک........

چوتھی ذمہ داری:

ہم شیعیان علی علیہ السلام پر دوران غیبت چوتھی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا آپ علیہ السلام کی سلامتی اور حفاظت کی خاطر روزانہ جو کچھ سیر ہو اس میں صدقہ نکالنابھی ہماری محبت اور عقیدت کا تقاضا ہے صدقہ کئی ایک مقاصد سے نکالا جاتا ہے اپنے عزیزوں کی سلامتی اور حفاظت کے لیے اپنی ذات کی سلامتی و محبت کے لیے اس کے علاوہ سفر میں یا مرض میں سلامتی کے لیے غرض جو جتنا بھی عزیز ہو تو وہ ہستی جو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے زیادہ حق دار ہے اس کی سلامتی اور حفاظت کے لیے صدقہ دینا چاہےے کم ہو یا زیادہ اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارے مولا جان ہمارے صدقہ دینے کے حاجت مند نہیں ہیں مگر یہ خیال ہمیں اس نیک عمل سے باز نہ رکھیں ہم خود حاجت مند ہیں کہ آپ کی حفظ و سلامتی کو اپنے اور اپنے عزیزوں کی سلامتی پر مقدم رکھیں تا کہ اللہ تعالیٰ قائم آل محمد کو ہر شر جن و انس اور مصائب ارضی و سماوی سے محفوظ رکھیں حدیث میں آیا ہے کہ حضرت رسول خدا اور آئمہ طاہرینعلیہ السلام اپنے وجود مقدس کو آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے اور دنیا و آخرت کی نفع کے لیے صبح و شام آدھی رات کو اور سفر سے پہلے اور ان کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر صدقہ دیا کرتے تھے اور اس کا خاص اہتمام کرتے تھے چنانچہ کلمہ طیبہ میں ذکر ہوا ہے تمام آئمہ معصومینعلیہ السلام حوادث اور واقعات و بلایا کے لیے ایک دوسرے کے لیے صدقہ دیا کرتے تھے چنانچہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ حضراتعلیہ السلام خود صدقہ دیں یا آپ علیہ السلام کی امت اور پیروکاروں میں سے کوئی بھی بلاﺅں اور آفات کو ان کے وجود اقدس سے دور کرنے کے لیے صدقہ دے بلکہ یہ ہمارے دلوں میں ان کےلئے موجود محبت و عقیدت اور عزت و احترام کا ثبوت ہے اور ان حضرات کے ہم پر احسان و اکرام لطف عنایت کا ایک شکرانہ ہے امام صادقعلیہ السلام سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک امام زمانہ علیہ السلام کے لیے مال خڑچ کرنے سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے جو مومن اپنے مال سے ایک درہم امام زمانہ علیہ السلام کے نام پہ خرچ کرے خداوند بہشت میں احد پہاڑ کے برابر اسے اس کا بدلہ دے گا۔(اُصول کافی ج۱ص۷۳۵)

صدقہ در حقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پہ اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام زمانہ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہی کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آمذہ لینا ہے وہ بھی انہی کے طفیل میںاور انہی کے وسیلے سے حاصل کرنا ہے۔

پانچویں ذمہ داری:

منتظرین امام زمانہ علیہ السلام کی پانچویں ذمہ داری بہت اہم ہے ہمیں چاہیے کہ زمانہ غیبت کہ ان اندھیروں میں خداوندعالم کے حضور اور گریہ و زاری اور اپنے دین ایمان کی حفاظت کے لیے بہت ہی دعائیں کریں کہ وہ ہمیں شیاطین کی گمراہی سے محفوظ رکھیں اور اسلام کے دائرے میں رکھے جو کفار اور زندیق ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور یہ طویل ترین غیبت باز مومنوں کے دل میں شک و شبے کا بیج بو رہی ہے اس صورت میں خدا سے ہر وقت ایمان پر بر قرار رہنے کی اور دین پر ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے اس قصد کے لیے بہت سی دعائیں روایت میں آئمہ معصومینعلیہ السلام سے وارد ہوئی ہیں امام صادقعلیہ السلام نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم علیہ السلام کی غیبت میں اس دور میں شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام زمانہ علیہ السلام میں مصروف رہے اور عبداللہ بن سنان کی امام صادقعلیہ السلام سے روایت کی بناءپر کم از کم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔

چھٹی ذمہ داری:

غیبت امام زمانہ علیہ السلام میں ہماری چھٹی ذمہ داری آپ علیہ السلام کی نیابت میں حج کرنا اور حج کروانا جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم تھا کہ لوگ اپنے امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے نیابت اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرعلیہ السلام ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ قطب راوندی نے کتاب خرائج میں روایت کی ہے کہ ابو محمدو علجی کے دو بیٹے تھے ان میں سے ایک نیک و صالح تھا کہ جیسے ابوالحسن کہتے تھے اور وہ مردوں کو غسل دیا کرتا تھا اور اس کا دوسرا بیٹا محرکات کا ارتکاب کرتا تھا شیعوں میں سے ایک شخص نے ابومحمد مذکور کو کچھ رقم دی کہ وہ آنحضرت کی نیابت میں حج کرے جیسا کہ اس زمانے کے شیعوں کی یہ عادت تھی اور ابو محمد نے اس رقم سے کچھ اپنے اس فاسد لڑکے کو دی اور اسے اپنے ساتھ لے گیا تا کہ وہ آنحضرتعلیہ السلام کی طرف سے حج کرے جب وہ حج سے واپس آیا تو اس نے نقل کیا کہ موقف عرفات میں میں نے ایک جوان گندم گون اچھی ہیئت کو دیکھا جو تضرعوابتیال و دعائیں میں مشغول تھا اور جب میں اس کے قریب پہنچا تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے شیخ تجھے شرم و حیا نہیں آتی میں نے عرض کیا اے میرے سید و سردارکس چیز سے حیا کروں فرمایا تجھے (نیابتی) حج دیتے ہیں اس شخص کے لیے کہ جسے تم جانتے ہو اور جسے تم ایک فاسق کو دے دیتے ہو جو کہ شراب پیتا ہے قریب ہے کہ تیری آنکھ اندھی ہو جائے اس کے واپس آنے کے چالیس دن نہیں گزرے تھے کہ اس آنکھ کہ جس کو طرف اشارہ ہوا تھا ایک زخم پھوٹا اور اس زخم سے وہ آنکھ ضائع ہو گئی۔

ساتویں ذمہ داری:

منتظرین امام زمانہ علیہ السلام کی ساتویں ذمہ داری یہ ہے کہ جب قائم آل محمد کا مخصوص نام مبارک (قائم علیہ السلام) سنے تو تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائیں روایت میں ہے کہ ایک روز امام جعفر صادقعلیہ السلام تشریف فرما تھے کہ آپ کی مجلس میں یہ نام مبارک ذکر کیا گیا پس آپ اس کے احترام و تعظیم میں کھڑے ہوگئے جب ہم احترام کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں تو اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضیٰ ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے جیسا کہ تمام افراد امامیہ بھی اسی امر پر اتفاق نظر رکھتے ہیں اس عمل کے ماخذ و اصل کے وجود پر اگرچہ اب تک نظر سے نہیں گزرا بعض علماءنے نقل کیا ہے کہ عالم جلیل قدر سید عبداللہ سبط محمدی جزائری سے سوال کیا گیا تو وہ محروم حضرت کی تعظیم و احترام میں کھڑے ہو گئے لیکن عالم محدث آقا سید حسن موسوی نے (تکملہ امل الآمل) میں فرمایا ہے ک علماءامامیہ میں سے ایک شخص عبدالرضا بن محمد نے جو متوکل کی اولاد میں سے ہے ایک کتاب حضرت امام رضعلیہ السلام کی وفات پر لکھی ہے جس کا نام (ناجیج میزان الاحزان فی وفات خراسان) ہے ایک کتاب میں ایک روایت ہے کہ دعبل خزاعی نے جب قصیدہ تائید اپنا امام رضعلیہ السلام کے لیے پڑھا تو جب اس پر پہنچا کہ (خروج امام الامعالة قائم علیہ السلام ) یقوم علی اسم اللہ بابرکات اور خروج کرنا امام زمانہ علیہ السلام کا جو لامحالہ متروج کرے گا جو اللہ کے نام پر برکتوں کے ساتھ کھڑا ہو گا تو حضرت امام رضعلیہ السلام کھڑے ہو گئے اور اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو کر اپنا سر زمین کی طرف جھکا لیا بعد اس کے کہ آپ نے اپنے ہاتھ کی دائیں ہتھیلی اپنے سر پر رکھی ہوئی تھی اور فرمایا اللھم عجل فرجہ و مخرجہ وانصرنا بہ نصرا عزیزا۔ خدا اس کی فرج و خروج کی جلدی قرار دے اور اس کے ذریعے ہماری با عزت طور پر مدد و نصرت فرما تو ہمیں چاہےے کہ جب بھی مولا کا مخصوص اسم مبارک سنے تو احترام کے لیے خلوص دل سے کھڑے ہو جائے۔

آٹھویں ذمہ داری:

امام زمانہ علیہ السلام کے شیعہ وپیروکار ہونے کے حوالے سے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان سے استعانت طلب کریں مصائب و آلام و شدائد بیماریوں اور شک و شبہات کے فتنے سے حفاظت کے لیے آپ کی بارگاہ میں استغاثہ کریںضروری ہے کہ ہم اعتقاد رکھیں کہ آپ ہمارے لیے ہر طرح کے خیر و برکت کا وسیلہ ہیں ہماری حاجات بر لانے اور مشکل کشی کے لیے اللہ کی طرف سے معمور ہیں چنانچہ آپ سے حاجت مشکل کشائی طلب کریں روایت بتاتی ہے کہ قدیم زمانے سے لوگ آپ کے وجود اقدس سے طلب حاجت کرتے رہے ہیں اور آپ کے وجود پر نور سے رہنمائی پاتے رہے ہیں اور آپ کے فیوض و بارکات کا چشمہ آج تک جاری ہو ساری ہے اس لےے روایت میں آپ کے وجود مبارک کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو بادلوں میں چھپا ہوا مگر اس کے باوجود خلق خدا اس سورج سے فائدہ اُٹھائی ہے اور اس کے فیوض برکات چشمہ کی طرح جاری رہتے ہیں۔کیونکہ آنجناب بحسب قدرت الہیہ و علوم لدنیہ ربانیہ ہر شخص کے ہر جگہ کے حالات سے دانا ہے اور اس کے مسﺅل کی اجابت پر توانا ہے اور آپ کا فیض عام ہے اور اپنی رعایا کے امور کی دیکھ بال سے نہ غفلت کی ہے اور نہ کریں گے اور خود آنجناب نے اس توضیح میں جو شیخ مفیدکو بھی حق تحریر فرمایا کہ ہمارا علم تمہارے اخبار و حالات پر محیط ہے اور تمہاری خبروں میں سے کسی چیز کا علم اور تمہاری مصیبتوںاور مبتلات کی معرفت ہم سے غائب نہیں رہتی شیخ طوسی نے کتاب غیبت میں سند معتبر کے ساتھ روایت کی ہے جناب ابوالقاسم حسین بن روح تیرے نائب سے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے تفویض وغیرہ میں اختلاف کیا تو میں اس کے استقامت کے زمانہ میں ابوطاہرین بلال کے پاس گیا یعنی اس سے پہلے کہ وہ بعض مذاہب باطلہ کو اختیار کرتا پس میں نے وہ اختلاف اس کو بتایا تو وہ مجھ سے کہنے لگا کہ مجھے کچھ مہلت دو پس میں نے اسے چند دن کی مہلت دی پھر میں دوبارہ اس کے پاس گیا تو اس نے ایک حدیث اپنی اسناد کے ساتھ حضرت صادقعلیہ السلام سے نکالی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس وقت خداوندعالم کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے رسول کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس کے بعد امیر المومنینعلیہ السلام اور ایک ایک امام زمانہ علیہ السلام پر یہاں تک کہ یہ سلسلہ معرفت صاحب الزمانعلیہ السلام تک پہنچتا ہے اور پھر وہ دنیا کی طرف آتا ہے اور جب ملائکہ ارادہ کرتے ہیں کہ کس عمل کو اوپر لے جائیں خداوندعالم کی بارگاہ میں تو وہ امام زمانہ علیہ السلام کے سامنے پیش ہوتا ہے یہاں تک کہ رسول خدا کی خدمت میں پیش ہوتا ہے اس کے بعد بارگاہ الہیٰ میں پیش ہوتا ہے پس جو کچھ خداوندعالم کی طرف سے اترتا ہے وہ ان کے ہاتھ پر آتا ہے اور جو کچھ خدا کی طرف جاتا ہے تو وہ ان کی طرف سے ہے اور یہ حضرات خداوندعالم سے چشم زون کی مقدار بے نیاز نہیں ہیں ابوالوفائے شیرازی کی روایت میں ہے کہ رسول خدا نے اس سے فرمایا جب تو درماندہ، بیچارہ و گرفتار مصیبت ہو جائے تو حجة ابن الحسنعلیہ السلام سے استغاثہ کر کیونکہ وہ تیری مدد کو پہنچیں گے اور وہ جناب فریاد رس ہیں اور پناہ ہے اس شخص کے لےے جو ان سے استغاثہ کریں تو ہمیں چاہیے کہ جب بھی کوئی مشکلات یا پریشانی پیش آئے تو اپنے مولا حقیقی کی دامن کو تھام لیں اور خدا کی درگاہ میں دعا کریں اور استعانت کرے۔ انشاءاللہ خدا خود مدد کرے گا۔ 

استغاثہ برای امام زمانہ علیہ السلام:

یابن زہرا اے کہ رمز بود بنودی

یابن طحہٰ ای کہ دل از کفم رہ بودی

مولا مولا من بنودم اگر بنودی

کنم کجا نگار خود دامن پیدا

الی متیٰ احار فیک یا مولا

گلاب عصریٰ، امید نصری، ولی عصری، ولی عصری تو

من کہ گرتا دریہ خانہ گروزدہ ام

ہمة عمرم رمز غم ہجری عزیز زدہ ام

من کجا دید نہ آن ساقی گل چہرہ کجا

خبھم فران کہ فقد لاف کینزی زدہ ام

کنیز اگر بودم، تعدامی دیدم، چین دورہ گناہ نہ می

چرخیرن، چین دورہ گناہ نمی چرخیرن

سر وصل تو دارم من بے چشم انتظار من

بے پایانہ می رسد عمدم دیگر فرصت نہ دارم من دیگر فرصت نہ دارم من

ترسم عمرم سر آید مہدی، از در نہ آید مہدی

پرچم فاطمیہ را تو بیا برپا کن مہدی

ماجر ای ندکش تو بیا افشاکن مہدی

قبر مخفی شد است تو بیا پیرا کن مہدی

دشمن فاطمہ را تو بیا رسوا کن مہدی

اے دلا از نگار خود گلہ مفی ندارد بے معشوق و عاشق فاصلہ من ندارد

فاصلہ رو سیاہ ما است پردہ غیبت گناہ ماہ است۔ یان زہرائ

آخر میں میری دعا ہے کہ خداوند اس مختصراً مگر پر خلوص زحمت کو آپ کے درگاہ میں قبول فرما اور امام زمانہ علیہ السلام ہم سے خوش فرما ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی طلاب میں قرار دےں۔

اور آئندہ بھی اسی طرح کے کاموں میں شرکت کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

 

 

 

 


source : http://www.hafezy12.mihanblog.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
۹ ربیع الاول امام زمانہ(ع) کی امامت کا یوم آغاز
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
قرآنِ کریم میں "حجاب" سے متعلق آیات
ماہ رمضان ، عظیم ترین مہینہ
کيا ہم بھي عيد غدير کي اہميت کو اجاگر کرنے ميں ...
قرآن مجید اور ازدواج
فضائل ماہ شعبان و شبِ براء ت

 
user comment