اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

زہد نہج البلاغہ کی روشنی میں

نہج البلاغہ کے اہم موضوعات میں سے ایک موضوع ''زہد''ہے جیسا کہ نہج البلاغہ کی عبارتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ''تقویٰ''کے بعد سب سے زیادہ جس موضوع کی تکرار ہوئی ہے وہ ''زہد'' ہے ،البتہ نہج البلاغہ میں زہد اور ترک دنیا دونوں ہی مترادف ہیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ نہج البلاغہ کے دوسرے موضوعات سے کہیں زیادہ اس موضوع پر بحث ہوئی ہے ۔

زہد اور رغبت یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ،زہد یعنی اعراض کرنا ،منھ موڑ لینا اور مائل نہ ہونا ہے ،لیکن اس کے مد مقابل رغبت کے معنی مائل ہونے کے ہیں ۔

کسی چیز سے گریز اختیار کرنے کی دو صورت ہے :

الف)طبیعی

ب)روحی

طبیعی طور پر گریز کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاص اور معین چیز سے متعلق انسان کی طبیعت میلان نہ رکھتی ہو جس طرح سے ایک بیمار کی طبیعت پھل اور دوسرے کھانے پینے کی چیزوں سے رغبت اور میلان نہیں رکھتی ہے ،اس طرح کی بے رغبتی کا زہد سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

روحی:یہ ہے کہ وہ چیزیں کہ جن کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے اور ان سے رغبت رکھتی ہے وہ فکر و اندیشہ اور انسان کی آرزو کے لحاظ سے با ہدف اور مقصود نہ ہو یعنی وہ امور جو خواہشات نفسانی کی قسم سے نہ ہوں بلکہ اخلاقی فضائل میں سے ہوں جیسے عزت ،شرافت ،کرامت ،آزادی یا معنوی اور الٰہی معارف میںسے ہو جیسے خدا کا ذکر ،اس کی محبت اور خداوند عالم کی ذات اقدس سے تقرب حاصل کرنا۔

پس زاہد یعنی وہ شخص کہ جس کی پوری توجہ مطلوب کامل کے عنوان سے دنیا کی مادی چیزوں اور بلند و بالا خواہشات سے عبور کرکے دوسری چیزوں کی طرف ہوگئی ہے ،زاہد کی بے رغبتی ،اندیشہ اور تمناؤں سے ہیں نہ کہ طبیعت سے( سیری در نہج البلاغہ ،ص ٢٢٤ اور ٢٢٥)

''ایّھا النّاس الزّھادة قصرالامل و الشّکر عند النّعم والورع عند المحارم ''''اے لوگو:زہد یعنی آرزؤں کا کم کرنا ،نعمتوں پر شکر ادا کرنا اور حرام چیزوں سے اجتناب کرنا ہے''(نہج البلاغہ ،خطبہ ٨٠)

حضرت امام علی  ـ نے ان تین جملوں کے ذریعہ جو توضیح فرمائی ہے وہ ان غلط تفسیروں کے مقابلہ میں ہے جو زہدکے سلسلے میں کیجاتی ہیں اور نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے زہد کے معنی نہیں سمجھا ہے اور وہ اپنے کو زاہد سمجھتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ زہد صرف سادہ لباس پہننے یا اجتماعی مسائل میں وارد نہ ہونے اور گوشہ نشینی اختیار کرنے اور انسانی معاشرہ سے الگ رہنے اوراقتصادی کدوکاوش سے اجنبی ہونے اور اس سے تعلق نہ رکھنے کا نام ہے جبکہ ان میں سے کوئی ایک بھی زہد پر دلیل نہیں ہے ۔

حقیقت زہد جو رغبت کے مقابلہ میں قرار پائی ہے وہ مادی چیزوں کی نسبت بے اعتنائی اور بے توجہ ہونے کا نام ہے یا دوسرے لفظوں میں دنیا اور اس کی ظاہری چیزوں سے وابستہ نہ ہونا ہے اگر چہ وسیع طور پر امکانات اس کے اختیار میں ہوں۔

جو شخص مادی امور سے بے توجہ ہے وہ لمبی چوڑی آرزؤں کے در پے نہیں ہوتا ہے (لمبی چوڑی آرزؤئیں دنیا پرستوں سے مخصوص ہیں)بلکہ وہ نعمتوں کے مقابلہ میں شکر ادا کرتا ہے اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتاہے اس لئے کہ نعمتیں نہ تو اسے مشغول کرتی ہیں اور نہ ہی یاد خدا سے غافل کرتی ہیں اور نہ گناہیں اسے دین سے دور کرتی ہیں۔

''والشّکر عند النّعم''حضرت امام علی  ـ کا یہ جملہ جو زہد کے تین ارکان کے دوسرے رکن کے عنوان سے سمجھا جاتا ہے وہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ہمیشہ نعمتوں کو خدا کی جانب سے سمجھنا چاہیئے تا کہ یہ خدا سے دلبستگی کا سبب ہو نہ خود سے دلبستگی کا سبب ہو۔

اور ''الورع عند المحارم''امام  ـاس جملہ کے ذریعہ اس بات کی طرف اشارہ فرمارہے ہیںکہ گناہ کی اصلی بنیاد اور جڑ دنیا پرستی ہے جیسا کہ ہم مشہور و معروف حدیث میں پڑھتے ہیں :''حبّ الدّنیا رأس کلّ خطیئة''  (اصول کافی ،جلد ٢ ،ص ١٣١) دنیا سے عشق و محبت کرنا ہر گناہ کی جڑ ہے ۔

اس بناء پر جو شخص لمبی چوڑی آرزو نہیں کرتا اور الٰہی نعمتوں کے مقابلہ میں شکر ادا کرتا ہے اور خود کو گناہوں سے بچاتا ہے وہ حقیقی زاہد ہے خواہ فقیر ہو یا ثروتمند کیونکہ زہد کا معیار فقر نہیں ہے ۔

اس کے بعد امام  ـ اس خطبہ میں فرماتے ہیں:اگر تم ان تمام صفات کو فراہم نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا ضرور کوشش کرو کہ تمھارے ارادے اور صبر پر حرام کو غلبہ حاصل نہ ہو اور الٰہی نعمتوں کے مقابلہ میں شکر خدا کی ادائیگی فراموش نہ ہونے پائے  اگرچہ خدا وند عالم نے واضح اور آشکار دلیلوں اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ اتمام حجت کرکے بہانہ بازی کو توڑ دیا ہے اور امام  ـ کے بیان سے مراد یہ ہے کہ اگر مکمل طور پر شکر خدا نہیں بجالاتے ہوتو کم از کم شکر کی ادائیگی کو فراموش مت کرو اور اگر گناہ سے اعلیٰ درجہ کا اجتناب نہیں کرتے ہو تو کم از کم تمھارے صبر پر حرام غالب نہ آئے اور تقویٰ کے اس حد کی رعایت کرو ۔

اس بناء پر گناہ سے اجتناب کرنا اور نعمت کا شکریہ ادا کرنا دو مرحلوں کا حامل ہے ان میں ایک مرحلہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے اور در حقیقت ایمان کی شرط ہے اور ایک عام مرحلہ ہے جو خطاؤں اور لغزشوں کے اجتناب اور آرزؤں کے کم ہونے سے مرکب ہے اور یہ زاہدوں اور ایمان پر سبقت حاصل کرنے والوں سے مربوط ہے ۔

زہد کیا ہے ؟

زہد دنیا سے بے رغبت اور بے توجہ ہونے کا نام ہے اور یہ کہ تمھارا قلب طالب دنیا نہ ہو مگر بقدر ضرورت ،دنیا میں زہد کا ہونا مال و دولت کے منافی نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی شخص دلی طور پر مال و دولت کو دوست رکھتا ہو اور وہ اسے یاد خدا سے غافل کرتے ہوں۔

حضرت امیر المومنین  ـ فرماتے ہیں:''الزّہد کلّہ بین کلمتین من القرآن'' ،  ''تمام زہد قرآن کے دو کلموں میں خلاصہ ہوتا ہے ''

خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ :''لکیلا تأسوا علیٰ ما فأتکم و لا تفرحوا بما أتاکم''  (سورۂ حدید ،آیت ٢٣)

''یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غرور نہ کرو''

''و من لم یأس علی الماضی ولم یفرح بالاتی فقد اخذ الزّہد بطر فیہ''(نہج البلاغہ ،حکمت ٤٣١)

''پس اس نے اس کے ہر سمت (گزشتہ اور آیندہ کی بے رغبتی)سے زہد کو حاصل کرلیا ہے یعنی اس نے زہد کے دونوں طرف کی رعایت کی ہے ''

اور فرماتے ہیں:دنیا میں زہد آرزؤں کے کم کرنے اور ہر نعمت پر شکر ادا کرنے اور ان تمام چیزوں سے پرہیز کرنے کا نام ہے کہ جس کو خدا وند عالم نے حرام قرار دیا ہے۔ْْْْْْْْْْْْْ

جب حضرت امام جعفر صادق   ـسے پوچھا گیا کہ زاہد کون ہے ؟تو آپ نے فرمایا:زاہد وہ ہے جو حلال دنیا کو حساب و کتاب کی خاطر اور اس کے حرام کو عذاب کے خوف سے ترک کرتا ہے (اخلاق شبر،ص  ٤٠٠)

مصباح الشریعہ میں زہد و زاہد

زہد آخرت کی کنجی اور آتش جہنم سے نجات کا باعث ہے اور زہد ان تمام چیزوں کے ترک کرنے کا نام ہے جواسے یاد خدا سے غافل کردیتی ہیں ،بغیر اس کے کہ ان چیزوں کے ترک ہونے پر افسوس ہویا ان چیزوں کے واپس ہونے کا انتظارہو یااپنے فعل و عمل کی مدح سرائی کے در پے ہو یا اپنے کام کے عوض (اجر)کا طالب ہو یہ وہ صفات ہیں جن کو حاصل کرنے کے بعد انسان زہد کے اس اعلیٰ ترین درجہ پر فائز ہوجاتا ہے کہ پھر وہ کسی چیز کے کھو دینے کو آرام و آسائش اوران کے موجودہونے کو آفت اور بلا سمجھتا ہے ۔

 

زاہد وہ شخص ہے جو آخرت کو دنیا پر ،ذلت کو عزت پر ،سختی کو آرام و آسائش پر ،بھوک کو شکم سیری پر ،عقبیٰ کی سلامتی کو دنیا کی محبت پر اور توجہ و التفات کو غفلت پر ترجیح دے اور اس کا نفس دنیا میں ہو اور اس کا قلب آخرت میں ۔

اہداف زاہدسے مربوط زہد کے اقسام و مراتب

١۔سب سے پست درجہ یہ ہے کہ اس کا ہدف آتش جہنم اور تمام رنج و غم جیسے عذاب قبر ،حساب و کتاب اور پل صراط کے خطرہ سے نجات ہو یہ خائفین (خوف کرنے والوں)کے زہد کا درجہ ہے ۔

٢۔زہد کا متوسط درجہ یہ ہے کہ اس کا ہدف ،اجر و معاوضہ،خدا کی نعمتیں اور بہشت کی وہ لذتیں ہوںجن کا وعدہ کیا گیا ہے یہ راجین(امید رکھنے والوں)کے زہد کا درجہ ہے ۔

٣۔زہد کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ صرف خدا سے ملاقات کے شوق میں ہو یہ زہد کا اعلیٰ ترین درجہ ہے جس میں انسان اپنے تمام رنج و غم کو فراموش کردیتا ہے گویا اس کی نگاہ میں دنیا کی لذتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ اس تک پہنچنے     کے لئے کوشش اور تلاش کرے بلکہ اس کا تمام وجود یاد خدا میں مصروف ہے ۔

یہ وہی شخص ہے کہ جس کے لئے خوشی اورغم ایک ہے اور سوائے خدا کے کسی کو نہیں ڈھونڈتا ہے اس لئے کہ جو شخص غیر خدا کو چاہتا ہے وہ در حقیقت اس کی بندگی کرتا ہے نہ خدا کی، اگر چہ ہر مطلوب معبود اور ہر طالب اپنے مطلوب کا بندہ اور غلام ہوتاہے ،یہ درجہ عارفوں اور محبوں سے مخصوص ہے ۔

زاہد کی علامتیں اور نشانیاں

حقیقی زاہد کی تین علامتیں ہیں :

١۔یہ کہ جو اس کے پاس ہے وہ اس سے خوشحال نہیں ہوتا ہے اور جو اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے وہ اس سے غمگین نہیں ہوتا ہے ،جیسا کہ امیر المومنین  ـ نے اپنے استنباط میں آیۂ شریفہ ''لکیلا تأسوا علیٰ ما فأتکم و لا تفرحوا بما أتاکم''کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔

٢۔یہ کہ اس کی نظر میں مدح اور مذمت ایک ہو یہ زہد،منصب و مقام سے بے رغبتی اور بے توجہی کی علامت ہے ۔

٣۔یہ کہ صرف خداوند عالم سے مانوس ہو اور اس کے قلب پر اطاعت کی مٹھاس غالب ہو ۔

زہد کے آثار و نتائج

١۔دینا پر گہری نظر اور آخرت پر بھر پور توجہ(بحث زہد ،سیری در نہج البلاغہ)

حکمت کی وہ قسمیںجو زاہد کے قلب و زبان پر جاری ہوتی ہیںوہ یہ ہے کہ دنیا اور اس کے عیوب پر اس کی نظر ایک طرح کی ہوتی ہے، چنانچہ جوشخص دنیا کو عبرت کی نگاہ سے مشاہدہ کرتا ہے وہ دنیا کے عیوب کو دیکھتا ہے اور اس کے جال سے دور رہتا ہے ،جیسا کہ حضرت امام علی  ـکا ارشاد گرامی ہے :

''ازہد فی الدّنیا یبصّرک اللّٰہ عوراتھا ولا تغفل فلست بمغفول عنک''(نہج البلاغہ ،خطبہ ٣٨٣)

دنیاوی چیزوں سے دل نہ لگاؤ اور اس سے رغبت پیدا نہ کرو تا کہ خدا تم کو اس کی برائیاں دکھادے(اس لئے کہ جو دنیا کا عاشق ہوتا ہے وہ اس کے عیوب کو نہیں دیکھتا ہے اور اس کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں)اور (اپنے کام سے)غافل نہ ہو کہ وہ اپنے کام سے غافل نہیں ہے (خدا تم کو اور تمھارے عمل کو دیکھتا ہے)۔

٢۔سخاوت و ایثار

زہد کا ایک نتیجہ سخاوت ہے، جیسا کہ( مقام زہدمیں) دنیا سے رغبت اور اس سے دل لگانے کا نتیجہ بخل ہے اگر انسان کے ہاتھ سے مال نکل گیا تو شائستہ قناعت ہے اور اگر مال ہاتھ آگیا توصاحب مال کے لئے سخاوت اور دوسروں پر احسان کرنا مناسب اور ضروری ہے ۔

سخاوت تمام انبیائے الٰہی کی ایک خاص صفت تھی ،انبیاء کا اخلاق اور یہ صفت اس نسب کے پاک و پاکیزہ ہونے کا بیّن ثبوت ہے اور جو شخص بھی اس صفت کا حامل ہوتا ہے اس کا درجہ خداوند عالم کے نزدیک نہایت مفید ہے ۔

نبی اکرم  ۖ فرماتے ہیں :سخاوت بہشت کا ایک درخت ہے کہ جس کی شاخیں زمین پر خم ہیں جو شخص ایک شاخ تھام لے گا اسے وہی شاخ بہشت کی طرف لے جائے گی ۔

اور فرمایا:جبرئیل نے کہا :خداوند عالم فرماتا ہے :یہ (اسلام)وہ دین ہے کہ جس کو میں نے اپنے لئے منتخب کیا اور اس کے لئے مناسب نہیں ہے مگر سخاوت اور اخلاق حسنہ پس تم سے جس قدر ممکن ہو ان دونوں کے ذریعہ دین کا احترام و اکرام کرو ۔

اور فرماتے ہیں :کھانا کھلانا ،سلام کی نشر واشاعت کرنا اور زبان سے اچھے کلمات جاری کرنا مغفرت اور بخشش کا باعث ہیں ۔

اور فرماتے ہیں :سخی لوگوں کی خطا و لغزش کے پیچھے مت پڑو کیونکہ خداوند عالم نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا ہے جب اس کے اندر لغزش پیدا ہوتی ہے تو خدا اسے بچا لیتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :سخی کی غذا(کھانا)بیماری کا علاج ہے اور بخیل کی غذا بیماری ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :سخی افراد خدا سے قریب ہیں، لوگوں سے نزدیک ہیں ،بہشت سے قریب ہیں اور آتش جہنم سے دور ہیں اور بخیل خدا اور لوگوںسے دور ہے،بہشت سے دور ہے اور آتش جہنم سے قریب ہے اور خدا کے نزدیک جاہل سخی، بخیل عابد سے زیادہ محبوب ہے اور بخل سب سے بری بیماری ہے ۔

سخاوت کا سب سے بلند درجہ ایثار ہے اور ایثار اپنی ضرورت کے وقت اموال کو عطا کرنے ،اپنے اوپر دوسروں کو مقدم کرنے اور دوسروں کے آرام و آسائش کے لئے اپنے کو رنج و تکلیف میںڈالنے کا نام ہے ۔

اسی وجہ سے زاہد پوری قناعت کے ساتھ سادہ زندگی گزارتا ہے اور اپنے کو تنگی میں ڈالتا ہے تا کہ دوسروں کو آرام و آسائش پہونچائے ،جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے اسے ضرورت مندوں اور محتاجوں کو عطا کرتا ہے وہ اس بات سے زیادہ لذت حاصل کرتا ہے کہ خود نہ کھائے اور نہ پئے بلکہ ضرورت مند افراد کھائیں پئیں اور آرام و سکون حاصل کریں ،وہ ہر چیز سے محرومیت ،بھوک، پیاس اور رنج و تکلیف کو اس وجہ سے تحمل کرتا ہے کہ دوسرے افراد کسی چیز سے محروم نہ ہوں اور سیر و سیراب ہوکر تکلیف و رنج کے بغیر زندگی بسر کریں ۔

قرآن کریم نے حضرت امام علی  ـ اور ان کی طیب و طاہر خاندان کی داستان ایثار کو سورۂ ھل اتیٰ کی آیتوں میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ بیان کیا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

''و یطعمون الطعام علیٰ حبّہ مسکیناً و یتیماً و اسیراً ''  ١

''یہ لوگ اس کی محبت میں مسکین ،یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ''

جب کہ وہ حضرات سب سے زیادہ نیاز مند تھے ان کے پاس چند روٹیاں تھیں انھوں نے صرف اور صرف رضائے خدا کی خاطر مسکین ،یتیم اور اسیر کو عطا کردی ''الجار ثمّ الدّار''کا شعار علی   ـاور فاطمۂ زہرا علیہا السلام کے خاندان کی رسم تھی۔

''و یؤثرون علیٰ انفسھم ولو کان بھم خصاصة''  ٢

''اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاہے انھیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو ''

حضرت امام علی  ـ  فرماتے ہیں :''من یّعط باالید القصیرة یعط باالید الطّویلة''  ٣

''جو شخص عطا کرتا ہے اگر چہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اسے اجر عظیم عطا ہوتا ہے،چنانچہ جو شخص بھی اپنے اموال کوخیر و نیکی کی راہ میں خرچ کرے اگر چہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو ںتوخداوند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرتا ہے اس لئے کہ خدا کی نعمت مخلوق کی نعمت کے مقابلہ میں دائمی اورکئی گناہے کیونکہ خداوند عالم کی نعمت تمام نعمتوں کی اصل اور بنیاد ہے اس بناء پر تمام نعمتیں خدا کی نعمتوں کی طرف پلٹتی ہیں ''

نیز فرماتے ہیں:''من ایقن بالخلف جاد بالعطیّة ''٤

حضرت امیر المومنین  ـ سے پوچھا گیا کہ :عدالت افضل ہے یا سخاوت؟امام  ـ نے فرمایا:

''العدل یضع الامور مواضعہا والجود یخرجھا من جہتھا و العدل سائس عامّ والجور عارض خاصّ فاالعدل اشرفھما و افضلمھا''  ٥

...................................................................................................

١۔سورۂ دہر ،آیت ٨۔

٢۔سورۂ حشر ،آیت ٩۔

٣۔نہج البلاغہ ،حکمت ٢٣٢۔

٤۔نہج البلاغہ ،حکمت ١٣٨،

٥۔نہج البلاغہ ،حکمت ٤٣٧۔

''عدالت ،تمام چیزوں کو ان کے اپنے مقام پر رکھتی ہے،جب کہ سخاوت اپنے مقام سے خارج کرتی ہے .عدالت لوگوں کی عمومی تدبیر ہے، جب کہ سخاوت ایک خاص گروہ کو شامل ہے پس عدالت اشرف و افضل ہے ''

٣۔ہمدردی

حضرت امام علی  ـ نے اپنی خلافت کے دوران دوسرے تمام اوقات سے زیادہ زاہد انہ زندگی بسر کی ہے، جیسا کہ آپ کا ارشاد گرامی ہے :

''انّ اللّٰہ فرض علیٰ ائمّة العدل ان یقدّر و انفسھم بضعفة الناس کیلا یتبیّغ بالفقر فقرہ''  ١

''خداوند عالم نے ائمہ ٔ عدل پر واجب کیا ہے کہ وہ تنگدست لوگوں کے روبرو نہ ہوں تا کہ مفلس اور تنگدست کوکوئی پریشانی نہ ہو اور ان کا فقرانھیں مشکلوں اور پریشانیوں میں مبتلا نہ کرے ''

جب محروم اور تنگدست افراد مالدار اور ثروتمند افراد کے پاس قرار پاتے ہیں تو ان کی تکلیف اور رنج میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ آپ دوسرے مقام پر اس طرح فرماتے ہیں :

''أاقنع من نفسی بان یقال ھذا امیر المومنین و لا اشارکھم فی مکارہ الدّھر او اکون اسوة لھم فی جشربة العیش' '    ٢

''کیا میں اسی پر قناعت کرتا ہوں کہ مجھے امیر المومنین کہیں اور زمانے کی تلخیوں میں لوگوں کے ساتھ شریک نہ ہوں؟اور زندگی کی سختیوں میں ان کے لئے نمونہ نہ بنوں''

بحار الانوار جلد٩میںکافی کی نقل کے مطابق،حضرت امیر المومنین  ـ سے روایت ہے جس میں آپ کا ارشاد گرامی ہے :

''خداوند عالم نے مجھے لوگوں کا امام اور پیشوا قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے مجھ پر واجب کیا ہے کہ میں اپنی زندگی کو کھانے پینے اور پہننے میں اجتماع کے سب سے زیادہ کمزور طبقوں میں قرار دوں تا کہ ایک طرف فقراء اور محتاجوں کے لئے آرام و آسائش کا باعث بنوں اور دوسری طرف مالداروں اور ثروت مندوں کی سر کشی سے مانع ہونے کا سبب بنوں۔ ''

٤۔روح کی آزادی اور نفس کی بے نیازی

دنیا کے آزاد جوان علی بن ابی طالب  ـ اس لحاظ سے تمام معنی میں آزاد تھے کہ وہ تمام معنی میں زاہد تھے ۔

................................

١۔نہج البلاغہ ،خطبہ ٢٠٠٠۔

٢۔نہج البلاغہ ،نامہ ٤٥۔

حضرت امام علی  ـ نہج البلاغہ میں ترک دنیا کونجات اور آزادی کا باعث قرار دیتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:''الطّمع رقّ مؤبّد''  ١

لالچ ،دائمی اور ابدی غلامی ہے (آزاد کرنے والا ہمیشہ غلام اور مشکلوں میں گرفتار ہے جب تک وہ لالچ اور آرزو سے چشم پوشی نہ کرے گا نجات اور آزادی نہیں پائے گا)اوردوسرے مقام پرآپ نے یوں ارشاد فرمایاہے کہ :

''الدّنیا دار ممرّہ لا دار مقرّ والناس فیھا رجلان:رجل باع فیھا نفسہ فاوبقھا و رجل ابتاع نفسہ فاعتقھا''٢

دنیا گزرگاہ ہے نہ قیام گاہ اور دنیا میں لوگ دو طرح کے ہیں ایک وہ ہیں جو اپنے کو (خواہشات نفس کے بدلہ)

فروخت کردیتے ہیںپس وہ اپنے کو ہلاک کردیتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو (اطاعت و بندگی کے بدلہ )اپنے کو خرید لیتے ہیں پس اپنے کو (قیامت کے عذاب سے)نجات دیتے ہیں ۔

انسان کے ظاہری حصہ کو اشیاء جس قدر قدرتمند بناتی ہیں اسی کی بہ نسبت اس کے باطنی اور اندرونی حصہ کو کمزور اور غلام بناتی ہیں ،وہ اس غلامی کے مقابلہ میں مخالفت کرتا ہے اور اسی کا نام زہد ہے ۔

(اسلامی زہد اور مسیحی رہبانیت)

زہد ایک روحی حالت ہے اور چونکہ زاہد کا تعلق معنوی اخروی دنیا سے ہوتا ہے اس لئے وہ زندگی کی مادی اور ظاہری چیزوں سے رغبت نہیں رکھتا ہے اور یہ بے توجہی صرف فکر و اندیشہ،احساس اور قلبی لگاؤ ہی میں نہیں ہوتی ہے ،بلکہ زاہد اپنی عملی زندگی میں بھی سادگی اور قناعت کو اپنا پیشہ قرار دیتا ہے اور تجملات (بناؤ سنگھار)اور دنیاوی لذتوں سے پرہیز کرتا ہے ،زاہدانہ زندگی یہ نہیں ہے کہ شخص صرف فکر و اندیشہ اور مادی امور سے زیادہ لگاؤ نہ رکھتا ہو بلکہ زاہدانہ زندگی یہ ہے کہ زاہد عملی طور پر تجملات اور مادی لذتوں سے اجتناب کرتا ہو 

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی زہدکارہبانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلامی زہد اور رہبانیت دو الگ الگ مفہوم ہے، رہبانیت:لوگوں سے قطع تعلق کرنے اور عبادت کی طرف رخ موڑ لینے کا نام ہے ،اس فکر و اندیشہ کی بناء پر دنیا و آخرت کے

اعمال و افعال ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور دو کاموں میں سے ایک کو منتخب کرنا چاہیئے یا عبادت و ریاضت کرنی چاہیئے

...........................    

١۔نہج البلاغہ ،حکمت ١٧١۔

٢۔نہج البلاغہ ،حکمت ١٢٨۔

تاکہ اس دنیا میں کام آئے یا زندگی اور معاش کی طرف توجہ رکھنی چاہیئے تا کہ اس دنیا میں کام آئے ۔

چنانچہ رہبانیت ،زندگی اور اجتماعی معاشرہ کی ضد پر استوار ہے اورمخلوق سے کنارہ کشی،گوشہ نشینی ،لوگوں سے قطع تعلق اور ہر طرح کی اپنی مسئولیت اور ذمہ داری کے منتفی ہونے کی مستلزم ہے ۔

لیکن اسلامی زہد ،سادہ زندگی کے انتخاب کرنے کا مستلزم ہے ،تجملات اور لذتوں سے اجتناب کرنے کی بنیاد پر ہے اور اجتماعی روابط کے درمیان قرار پاتا ہے ۔

اسلام نے ہرگز یہ نہیں کہا ہے کہ اِس دنیا کا حساب و کتاب اُس دنیا کے حساب و کتاب سے جدا ہے ،بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے خود یہ دنیا اور وہ دنیا ایک دوسرے سے الگ اور اجنبی نہیں ہیں اور اِس دنیا کا کام اُس دنیا کے کام سے جدا اور اجنبی نہیں ہے، دونوں جہان کا رابطہ اس طرح ہے جیسے ایک شیء کے ظاہر و باطن کے درمیان رابطہ ہوتا ہے اسی وجہ سے اسلام نے رہبانیت کی مخالفت کی ہے اور اسے راہبوں کی ایک بدعت سمجھی ہے ۔

جیسا کہ نبی اکرم  ۖ کا ارشاد گرامی ہے :''لا رھبانیّة فی الاسلام ''یعنی اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ،جب رسول خدا  ۖ کو یہ خبر دی گئی کہ صحابہ کے ایک گروہ نے مادی زندگی سے منھ موڑ لیا ہے اور تمام چیزوں سے روگردانی کرلی ہے اور عبادت کی سمت اختیار کرلی ہے تو آنحضرت  ۖ نے اس کی سخت مذمت کی اور فرمایا:میں تمھارا پیغمبرۖ ہوں لیکن ایسا نہیں ہوں ۔  ١ 

...............................................

١۔سیری در نہج البلاغہ ،ص ٢٣١ ،٢٢٨۔


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment