اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

حضرت علی (ع)کا عوام کے ساتھ طرز عمل

 

حضرت علی  (ع)کا عوام کے ساتھ طرز عمل

جب کہ آپ پوری امت کے امام تھے اور سبھی لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی لیکن آپ لوگوںکے درمیان ایک عام شخص کی طرح زندگی بسر کرتے ‘  امر بالمعروف اور نھی عن المنکر فرماتے‘سلاطےن اور بادشا ھوںکی سطوت و تکبر سے بھت دوررھتے آپ لوگوںکے درمیان زندگی بسر کرتے اور ان کی مشکلات حل کرتے ‘ اور ان کی اس طرح تربیت فرماتے جس طرح اللہ تعالی نے اپنی پاک کتاب میں حکم دیا ھے ۔

ابحر ابن جرموز اپنے باپ سے روایت بیان کرتا ھے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو مسجد کوفہ سے باھر نکلتے ھوئے دےکھا آپ بازار تشریف لے گئے آپ کے ہاتھ میں ایک کوڑا تھا ۔اور آپ لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرنے ،سچ بولنے ، اورعمدہ خرید وفروخت کرنے اورپوری ناپ تول کرنے کی ھدایت فرمارھے تھے۔[1]

ابو مطر روایت بیان کرتے ھیں کہ میں مسجد سے نکلا وہاںایک شخص  لوگوں کو خد اسے ڈرا رھاتھا اور انھیں ناپ اورتول کے سلسلے میں وعظ و نصیحت کر رھاتھا جب میں نے غور سے دیکھا تو وہ علی (ع) تھے ان کے پاس کوڑا تھا اور اسی طرح وعظ کرتے ھوئے وہ ”بازار ابل“ کی طرف بڑھ گئے اور لوگوں سے کھنے لگے کہ خرید وفروخت ضرور کرو لیکن قسمیں نہ کھاؤ کیونکہ قسمیں کھانے سے بخل پیدا ھوتا ھے اور برکت ختم ھوجاتی ھے۔ پھر آپ  ایک کھجوروں کے مالک کے پاس آئے وہاں اس کی ملازمہ رو رھی تھی حضرت نے پوچھا تمھیں کیا ھوا ھے؟

اس نے کھامیں نے ان کھجوروں کو ایک درھم میں خریدا ھے اور میرا مولا اس کو قبول کرنے پر راضی نھیں ھے۔

حضرت نے اس کو ایک درھم دے دیا اور کھاکہ اپنے مالک کو دے دینا اور وہ راضی ھو جائے گا۔

راوی کھتا ھے میں نے مالک سے کھاکہ کیا تم جانتے ھویہ کون ھیں اس نے کھانھیں، میں نے بتایا یہ امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام ھیںاس نے کھجور اٹھائے اور درھم دے دیا اور کھامیں چاھتا ھوں کہ امیرالمومنین علیہ السلام مجھ سے راضی رھیں۔

آپ نے فرمایا جب تم نے معاملہ ٹھےک کر لیا ھے میں تجھ سے راضی ھوں اور پھر آپ دوسرے کھجوریں بیچنے والوں کے پاس گئے اور فرمایا مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور انھیں اپنے جیسا لباس پھناؤ کہ اس سے تمہارے کاروبار میں برکت پیدا ھو گی پھرمچھلی فروشوںکے پاس گئے اور ان سے فرمایا: بازار میںحرام مچھلی نہ بیچا کرو۔[2]

نیز ایک اور روایت میں ابن مطر بیان کرتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام” دار بزاز“ تشریف لائے (یہ کھدر کے کپڑے کا بازار تھا) چنانچہ حضرت نے فرمایا:

مجھے ایک قمیص کی ضرورت ھے اور میرے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور تےن درھم میں مجھے قمیص دے دو ،لیکن جب اس شخص نے آپ کو پہچان لیا تو پیسے لینے سے انکار کر دیا ۔

کچھ دےرکے بعد اس کا نوجوان ملازم آگیا آپ نے اس سے تےن درھم میں قمیص خریدلی اور اسے زیب تن فرمایا جو کہ پنڈلیوں تک لمبی تھی۔جب دکان کے مالک کومعلوم ھوا کہ اس کے ملازم نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو دودھم کی قمیض تےن درھم میں فروخت کی ھے۔

تو اس نے ایک درھم لیا اور خود حضرت علی علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ھو کر عرض کرنے لگا:

مولا یہ ایک درھم آپ کا ھے حضرت نے پوچھا یہ کیسا درھم ھے اس نے عرض کی آپ نے جو قمیص خریدی ھے اس کی قیمت دو درھم تھی لیکن میرے ملازم نے اسے آپ کو تےن درھم میں فروخت کیا ھے، حضرت نے ارشاد فرمایا:اسے میں نے اپنی رضا ورغبت سے خریدا ھے اور اس نے رضا ورغبت سے فروخت کیا ھے۔[3]

زاذان نے روایت بیان کی ھے کہ میں نے حضرت علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کو مختلف بازاروں میںدےکھا ھے کہ آپ (ع) بزرگوں کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دیتے اور بھولے ھوئے کو راستہ دکھا تے اور بار اٹھا نے والوں کی مدد کرتے ھیں اور قرآن مجیدکی اس آیت تلاوت کی فرماتے تھے:

تلک الدارُ الآخرةُ نجعلُھا  للذین لا یُریدون علوّا في الاٴَرض ولا فساد اً و العاقبةُ للمتقین[4]

یہ آخرت کا گھر ھے جسے ان لوگوں کیلئے قرار دیا گیا ھے جو زمین پر تکبر اور فسادبرپا نھیں کرتے اور اچھا انجام تو فقط متقین کے لئے ھے ۔پھر فرمایا یہ آیت صاحب قد رت لوگوں کے حق میں نازل ھوئی ھے ۔

شعبی روایت بیان کرتے ھیں کہ ایک دن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام بازار گئے وہاں ایک نصرانی کوڈھا ل فروخت کرتے ھوئے دےکھا حضرت علی علیہ السلام نے اس ڈھال کو پہچان لیا اور فرمایا:

یہ تو میری زرع ھے خدا کی قسم تیرے اور میرے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا اس وقت مسلمانوں کا قاضی شریح تھا حضرت علی علیہ السلام نے اسے فےصلہ کرنے کے لئے کھا۔

جب شریح نے حضرت امیر المومنین علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کو دےکھا تو مسند قضاء سے اٹھا اور وہاں حضرت کو بٹھایا اور خود نیچے نصرانی کے ساتھ آکر بےٹھ گیا۔

 حضرت علی علیہ السلام نے شریح سے فرمایا اگر میرا مخالف مسلمان ھوتا تو میں بھی اسکے ساتھ بےٹھتا لیکن میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے۔

کہ ان سے مصافحہ نہ کرو انھیں سلام کرنے میں پھل نہ کرو ان کی مرضی کے مطابق نہ چلو، ان کے ساتھ ملکرنہ بیٹھو ،انھیں نیچی جگہ پر بٹھاؤ اور انھیں حقےر جانو جس طرح انھیں اللہ نے حقےر کیا ھے بھر حال اسکے اور میرے درمیان فےصلہ کرو۔

 شریح :        یا امیر المومنین آپ کیا کھنا چاھتے ھیں۔

 حضرت امیر المومنین علیہ السلام : میری یہ ڈھال کچھ وقت پھلے گم ھو گئی تھی ۔

 شریح:         نصرانی تم کیا کھتے ھو۔

 نصرانی:        امیرالمومنین نے جھوٹ نھیں بولا لیکن یہ میری ڈھال ھے۔

 شریح:         تیرے پاس کوئی ایسی دلیل ھے جس سے ثابت ھو کہ یہ تیر ی ڈھال ھے ۔

نصرانی کھتا ھے:

میں گواھی دیتا ھوں کہ یھی انبیاء کے احکام ھیں کہ امیرالمومنین ھونے کے باوجود قاضی کے پاس آئے کہ قاضی ان کے بارے میں فےصلہ کرے۔

خدا کی قسم اے امیرالمومنین یہ آپ کی ڈھال ھے جنگ کے دوران آپ سے کھیں گم ھوگئی تھی اورمیںنے اسے اٹھالیا تھا اور اب میں آپ سے متاثر ھوکر گواھی دیتا ھوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور ےقےنا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ھیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اب جب کہ تم مسلمان ھوچکے ھو میں یہ ڈھال تمھیں دیتا ھوں اورآپ نے نصرانی کو ایک عمدہ گھوڑے پر سوار کیا، راوی کھتاھے:اس کے بعد میں نے اسی نصرانی کو مشرکوں کے ساتھ جنگ کرتے ھوئے دےکھاھے ۔[5]

سودہ بنت عمارہ ھمدانیہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کے پاس گئی تو اس نے جنگ صفین کے قصے بیان کرنا شروع کئے اور معاملہ جھگڑے تک آپھنچاتومعاویہ نے کھا:

کیا تیری کوئی حاجت ھے؟

سودہ نے کھااللہ تم سے ھمارے معاملہ میں پوچھے گا تواس وقت تمہاری گردن پر ھمارے جتنے حقوق ھیں ان کے متعلق جواب ھوگا اور ھمیشہ تو ھم پرمقدم نھیں رھے گاجیسا کہ تم نے خودکواتنا اونچا بنا رکھا ھے۔

تم نے اپنی حکومت کی طاقت سے ھمیں گرفتار کیا اور ھمیں قےد خانوں میں ڈالا اور تم نے ھمیں اپنے پاؤں تلے روندا ھمیں غلام بنا کر فروخت کیا ھماری توھین کی، اور اس بُسربن ارطاة کو ھم پرفضیلت دی ھمارے مردوں کو قتل کیا ھمارے اموال کولوٹ لیا اگرھم اس کی اطاعت کریں تو پھر ھماری عزت ھے اوراگراطاعت نہ کرےں تو کفر کے فتوے لگیں۔

معاویہ کھتا ھے اے سودہ تم اپنی قوم کے ذریعہ ھم کو تھدےد کرتی ھو انھوں نے تمھیں اس مقام پر پھنچایا ھے کہ آج تم میرے پاس آئی ھوتا کہ میں تمہارے متعلق فےصلہ کروںسودہ کچھ دےر خاموش رھی اور پھر یہ اشعار پڑھے !

لی الاٴلہ علی روح تضمنھا                       قبر فاٴصبح فیہ العدلمدفونا   

قدحالف الحق لایبغی بہ بدلا           فصار بالحق والاٴ یمان مقرونا

اس پاک روح پر درود وسلام ھو ں جسے ھم قبر کے سپرد کر چکے ھیں اور اسی کے ساتھ عدل بھی دفن ھو گیا ھے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کھتی ھوں کہ میں اس کا بدل نھیں چاھتی کیونکہ وہ حق کے ساتھ ملحق تھا اور ایمان اس کے ساتھ ملا ھوا تھا۔

معاویہ کھتا ھے سودہ تمہارے اشعار سے کون مرادھے ؟سودہ کھتی ھیں کہ خدا کی قسم حضرت علی (ع)بن ابی طالب علیہ السلام کی ذات مرادھے کیا تم نے نھیں دےکھا کہ اسے نماز کی حالت میں قتل کر دیا گیا حالانکہ اس کا رحم وکرم اور لطف ومھربانی تو ضرب المثل ھے۔ انھوں نے کھابتا تیری کوئی حاجت ھے ؟تو میں نے کھاجی ہاںآپ نے ایک حدیث بیان کی اور رونا شروع ھوگئی اور پھر کھاپروردگارامجھ پر اور ان پر گواہ رھنا میں نے بھی تیری مخلوق پر ظلم کرنے کا حکم نھیں دیا اور پھر اس نے ایک فائل نکالی جس میں لکھا ھوا تھا ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔قد جاءَ تکم بینة مِن ربکم فاٴوفوا الکَیل و المیزانَ ولا تبخَسوا الناسَ اٴشیا ء ھم۔

تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آچکی ھے لہٰذا ناپ تول پورا رکھو اور لوگوں کو کم چیزیں نہ دو جب تم میرایہ خط پڑھو تو تمہار ے سامنے جو ھماراعمل ھے اس کی حفاظت کرو اور تم پر وہ مقدم ھے جو تم سے یہ حاصل کرلے۔والسلام [6]

القعدالفرید میں ھے کہ معاویہ حج پر گیا اور اس نے بنی کنانہ کی ایک خاتون سے سوال کیا کہ جس پر لقوے کا اثر تھا اسی وجہ سے اسے دارمیہ جحونیہ کہاجاتاتھا اس کا رنگ سیاہ تھا اور اس پر بھت گوشت تھا اسے بتایا گیا کہ تم صحیح ھو سکتی ھو اور اسے معاویہ کے پاس لایا گیا اس نے کھااے آوارہ پھرنے والی عورت کی بیٹی میرے پاس کیو ں آئی ھو؟ اس نے کھامیں آوارہ نھیں ھوں بلکہ میں بنی کنانہ کی ایک خاتون ھوں اس نے کھاخوب یہ بتاؤ تم جانتی ھو کہ تمھیں کیوں لایا گیا ھے کھنے لگی :

اللہ کے علاوہ کوئی علم غیب نھیں جانتا ۔

معاویہ نے کھاتمھیں اس لئے لایا گیا ھے تاکہ تم سے سوال کیا جائے کہ تم علی علیہ السلام سے محبت کیوں کرتی ھو اور مجھ سے بغض کیوں رکھتی ھو اور اسے ولی کیوں مانتی ھو اور مجھ سے دشمنی کیوں رکھتی ھو۔

عورت کھتی ھے اگر مجھے معاف رکھوتو بتاؤں؟

کھنے لگا میں تجھے معاف نھیں کرسکتا ۔

اس عورت نے کہا:

جب اس طرح ھے تو سن میں حضرت علی علیہ السلام سے محبت اس لئے رکھتی ھوں کہ وہ رعیت کے ساتھ عدل وانصاف کرتے ھیں ،مال خدا کو برابر تقسیم کرتے ھیں۔

تجھ سے بغض اس لئے رکھتی ھوں کہ تم اس سے جنگ کرتے ھو جو تجھ سے زیادہ اس خلافت کا حقدار ھے، اور تو اس چیز کاطلب گار ھے کہ جس پر تیراکوئی حق نھیں۔

حضرت علی (ع) کو دوست رکھتی ھوںکیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ولی بنایا ھے وہ مسکینوں سے محبت کرتے ھیں، صاحبان دین میں سب سے زیادہ معظم و مکرم ھیں اور تجھ سے اس لئے دشمنی رکھتی ھوں کہ تو بے گناہ خون بہاتا ھے اور تیرے فیصلے ظلم و جور اور خواھشات پر مبنی ھوتے ھیں ۔معاویہ کھنے لگا اسی وجہ سے تیرا پیٹ بھت پھولا ھوا ھے اور تیرے پستان بڑے بڑے ھیں اور تو بوڑھی ھوگئی ھے۔

وہ عورت کھنے لگی یھی صورت ھند کی تھی اسی لئے وہ تیرے باپ کے لئے ضرب المثل بن گئی تھی یہ سن کر معاویہ اس کو بھت برا بھلا کھاجس کو سن کر وہ عورت چپ ھو کر چلی گئی۔[7]

حضرت امیر المومنین علی  علیہ السلام کی وصیت 

آپ(ع) جن افراد کو زکوة اور صدقات وصول کرنے پر مقرر فرماتے تو ان کے لئے ایک ھدایت نامہ تحرےر فرماتے،یہاں پر ھم اس کے چند نمونے اس لئے بیان کر رھے ھیں تاکہ معلوم ھوجائے کہ آپ(ع) ھمیشہ حق کی حمایت کرتے تھے اور ھر چھوٹے بڑے اور پوشےدہ وظاھر امور میں عدل و انصاف کے نمونے قائم فرماتے تھے ۔چنا نچہ آپ ان عمال کو اس طرح وصیت فرماتے ۔

اللہ وحدہ لاشریک کا خوف دل میں لئے ھوئے یہاں سے جاؤ اور دےکھو ،کسی مسلمان کو خوف زدہ نہ کرنا اور اس کے ( املاک پر ) اس طرح سے نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں اللہ کا حق نکلتا ھو اس سے زائد نہ لینا جب کسی قبےلے کی طرف جانا تو لوگوںکے گھروں میں گھسنے کی بجائے پھلے ان کے کنوؤں پر جا کر اترنا ۔

پھر وقار اور سکون کے ساتھ ان کی طرف بڑھنا اور جب انکے درمیان پھنچنا،تو ان پر سلام کرنا ،اور آداب تسلیم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا اس کے بعد ان سے کھنا۔

اے اللہ کے بندو!مجھے اللہ کے ولی اور خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ھے کیا۔ تمہارے اموال میں اللہ کا کوئی حق واجب الادا ھے ؟ اگر ھے تو اسے اللہ کے ولی تک پھنچاؤاگر کوئی انکار کرے تو اس سے دوبارہ نہ پوچھنا۔اگر کوئی اقرار کرے تو اسے ڈرانے دھمکانے یا اس پر سختی یا تشدد کیے بغیر اس کے ساتھ ھو لینا اور جو سونا یا چاندی وہ دے اسے لے لینا اگر اس کے پاس گائے ،بکری یا اونٹ ھوں تو ان کے غول میںاس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ھونا کیونکہ ان میں زیادہ حصہ تو اسی کا ھے اور اگر وہ اجازت دےدے تو ھرگز نہ سوچنا کہ تمھیں اس پر مکمل اختیار ھے ۔

دیکھو!نہ کسی جانور کو بھڑکانا ،نہ ڈرانااور نہ اس کے بارے میں اپنے غلط رویہ سے مالک کو رنجیدہ کرنا ،جتنا مال ھو اس کے دو حصے کردینا۔

اور مالک کو یہ اختیار دینا کہ وہ جو حصہ چاھے پسند کرلے ۔اور جب وہ کوئی سا حصہ منتخب کرے تو اس کے انتخاب سے تعرض نہ کرنا اور اس مال میںسے جو اللہ کا حق ھے وہ پورا کرکے اسے اپنے قبضہ میں کرلینا اور اس پہ بھی اگر وہ پھلے انتخاب کو مسترد کرکے دوبارہ انتخاب کرنا چاھے تو اسے اس کا موقع دینا اور دونوں حصوں کو ملا کر پھر نئے سرے سے وھی کرنا جس طرح پھلے کیا تھا یہاں تک کہ اس کے مال سے اللہ کا حق لے لو[8]

نصر بن مزاحم کھتے ھیں کہ حضرت علی (علیہ السلام)واقعہ جمل کے بعد کوفہ تشریف لائے اھل بصرہ کے اشراف بھی آپ کے ھمراہ تھے اھل کوفہ نے آپ کابڑا استقبال کیا۔ آپ نے مسجد اعظم میں دو رکعت نماز ادا کی اور لوگوں کو خطبہ دیتے ھوئے ارشاد فرمایا:

تمہارے لئے اللہ کا تقوی اختیار کرنا ضروری ھے اور اھلبیت نبی(ص) سے، جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ھے ان کی اطاعت کرنا تم پر لازم ھے ھمارے مخالفےن کی اطاعت کے بجائے اھلبیت(ع) کی اطاعت واجب ھے کیونکہ انھیں ھمارے فضل کی وجہ سے فضیلت ملی ھے۔

لیکن انھوں نے ھمارے امر میں ھمارے ساتھ جھگڑا کیا ھے اور ھماراحق غصب کر لیا ھے اور ھم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ھے انھوں نے وھی چکھا اور پایا ھے جو انھوں نے چاھاوہ عنقریب تاریک گڑھے میں جاپڑیں گے البتہ کچھ لوگ میری مدد کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے لیکن میں نے ان کو ڈانٹ کر بھگا دیا اور جو کچھ وہ ناپسند کرتے تھے وہ سب ان کو سنا دیا یہاں تک کہ انھوں نے اس تفرقہ کی وجہ سے حزب خدا کو پہچاننے کی کوشش شروع کر دی ۔

اس وقت مالک بن حبیب ےربو عی کھڑے ھوئے اور کھنے لگے:

خدا کی قسم میں نے حضرت علی (ع) سے ناپسندیدگی اور غلط بات کونہ دےکھا  اور نہ سنا ھے۔ اس کے بعد آپ کو مخاطب کر کے کھنے لگا خدا کی قسم اگر آپ ھمیں حکم دیں تو ھم انھیں قتل کردیں۔ تب حضرت علی (علیہ السلام)نے فرمایا: سبحان اللہ اے مالک !تو نے نامناسب جزاکا فےصلہ کیا ھے اور حد کے متعلق مخالفت کی ھے اور اپنے آپ کوجھگڑے میں ڈال دیا ھے۔وہ کھنے لگا اے امیرالمومنین !اس معاملے میں تو بعض لوگ دھوکے سے اس حد تک پھنچ چکے ھیں۔لہٰذا آپ کو چاھیے کہ انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔حضرت نے فرمایا: اے مالک اللہ کا حکم اس طرح نھیں ھے۔ اے مالک اللہ تعالی فرماتا ھے:( النفس بالنفس) جان کے بدلے میں جان، اور یہاں دھوکے کے ذکرکابھی کوئی حرج نھیں ھے کیونکہ اللہ فرماتا ھے جو مظلومیت کی حالت میں قتل ھوجائے تو اس کے ولی کو ھم نے سلطنت دی ھے۔

البتہ قتل میں حد سے نہ بڑھو ۔اور قتل میں اسراف سے مراد یہ ھے کہ جس نے تمھیں قتل کیا ھے اس کے علاوہ کسی اور کو قتل کرو ،اس سے اللہ نے منع کیا ھے اور یھی دھوکا بھی ھے ۔اس کے بعد ابوبردہ بن عوف ازدی کھڑا ھوا ھے جس نے آپ کی بیعت بھی توڑی تھی اس نے کہا:اے امیرالمومنین حضرت عائشہ ،طلحہ اور زبیر کے اردگرد جو لوگ قتل ھوئے ھیں وہ کیوں قتل ھوئے یا یوں کھاجائے کہ وہ کس لئے قتل کیے گئے ھیں؟۔

تب حضرت علی (ع)نے ارشاد فرمایا: وہ لو گ اس لئے قتل کئے گئے ھیں کیونکہ انھوں نے میرے شیعوںاورمیرے عمال کو قتل کیا تھا اور وہ مسلمانوں سے تعصب میں ربیعہ عبیدی کے بھائیوں کی وجہ سے قتل کئے گئے ھیں وہ کھتے ھیں ھم بےعت نھیں توڑےں گے جس طرح تم نے بےعت توڑی ھے ھمیں اس دھوکے میں نہ رکھا جائے جس میں تم ھو پس ان پر حملہ کرواور انھیں قتل کر دو تم ان سے معلوم کرو کہ کیوں انھوں نے مجھ پر حملہ کیا ھے؟ اور کیوں میرے بھائیوں کو قتل کیا ھے؟کیا میں نے ان کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا تھا؟ اللہ کی کتاب میرے اوران کے درمیان حَکم ھے، انھوں نے میرا انکار کیا اور مجھ سے جنگ کی حالانکہ ان کی گردنوں پر میری بیعت تھی یعنی میری بیعت کرنے کے باوجود انھوںنے میرے ساتھ جنگ کی اور تقریبا میرے ایک ہزار شیعوں کا خون بہایا اس لئے انھیں بھی قتل کیا گیا ،کیا تمھیں اس میں کوئی شک وشبہ ھے ؟وہ کھنے لگا پھلے میں یقینا شک میں مبتلا تھا لیکن اب مجھ پر حقیقت حال واضح ھوگئی ھے اور مجھے قوم کی غلطی معلوم ھوگئی ھے اور آپ حق بجانب اور کاروان ھدایت کے رھنما ھیں۔[9]

الواحدی دمشقی کھتے ھیں کہ حوشب خیری (یا حمیری)نے جنگ صفین میں حضرت علی (علیہ السلام)کو پکارا اور کھنے لگا اے ابن ابی طالب آپ ھم سے دور ھوجائیں ھم اپنے اور تمہارے خون کے متعلق اللہ سے سوال کریں گے ۔

اور ھم آپ سے اور آپ کے عراق سے دور ھو جانا چاھتے ھیں۔ لہٰذا آپ بھی ھمیں اور ھمارے شام کو الگ کردیں تاکہ مسلمانوں کا خون محفوظ رہ سکے اس وقت حضرت علی (ع)نے فرمایا: اے ظلم کے بانی ایسا کرنا بھت بعید ھے۔ خدا کی قسم اگر میں یہ جانتا فرےب دینے کی اللہ کے دین میں وسعت ھے تو میں ایسا کرتا اور یہ کام مجھ پربھت آسان ھوتا لیکن اللہ تعالی اھل قرآن کے لئے دھوکے اور خاموشی کو پسند نھیں کرتا بلکہ یہ تو خدا کی معصیت ھے ۔[10]

سبط ابن جوزی ابی النوار کی سند سے روایت بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں کہ

 میں نے حضرت علی (علیہ السلام)کو ایک درزی کی دکان پر کھڑے ھوئے دیکھا آپ اس سے کہہ رھے تھے کہ دھاگے کو سخت رکھو اور کپڑے کی سلائی میں بارےک بینی اور دقت سے کام لو کیونکہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ فرماتے ھوئے سنا قیامت کے دن خائن درزی کو لایا جائے گا اوراس کے سامنے اس کی سِلی ھوئی وہ قمیص اور چادر رکھی جائے گی جس میں اس نے خیانت کی ھے اور اس طرح لوگوں کے سامنے اس کی رسوائی ھو گی ۔

پھر فرمایا : اے درزی!  قمےص کی سلائی کے بعد جو اضافی کپڑا بچ جائے اس سے بچو۔ کیونکہ کپڑے کا مالک زیادہ حق دار ھے اگر کوئی کمی بےشی رہ جائے تو  اس دنیامیں ھی اس سے اجازت  طلب کر لو ۔[11]

زمخشری ربیع ابرار میں ابی اعور کی سند بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے دنیامیں سخت زندگی گزارنے کے متعلق پوچھاگیا تو حضرت نے روتے ھوئے فرمایا کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ھمشیہ راتوں کو جاگتے تھے اور کبھی بھی انھوں نے پےٹ بھر کر کھانا تناول نھیں فرمایا۔

ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے پر نقش ونگار والا پردہ دےکھا تو آپ پلٹ آئے اور داخل نہ ھوئے اور آپ نے فرمایا ھمیں اس کی کیا ضرورت ھے اسے میری آنکھوں سے دور لے جاؤ یہ تو دنیا کے لئے ھے۔

آپ بھوک کی حالت میں پیٹ پرپتھر باندھ لیا کرتے تھے ۔اس سے آپ کو بھت تکلیف ھوا کرتی تھی ۔آیا خدا کے نزدیک یہ عزت و اکرام ھے یا توھین ؟

اگر کوئی یہ کھے کہ یہ توھین ھے وہ انتہائی جھوٹا اور مکار ھے اگر کوئی یہ کھے کہ اس سے عزت واکرام ھے اور اسے معلوم ھے کہ اللہ نے اس کے غیر کی توھین کی ھے اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ خدا کے قریب وہ ھے جو دنیا کوحقےر سمجھے ۔

انھیں دنیا والوں پر خدا نے عزت و شرف عطا کیا ھے وہ دنیا سے بھوکے جاتے ھیں اور آخرت میں صحیح و سالم داخل ھوتے ھیں وہاں پتھر پہ پتھر اور اےنٹ پر اےنٹ نھیں اٹھائےں گے اس کے بعد ھمیں اس راستے پر چلایا ھے۔

خدا کی قسم ھمیں اتنی قوت و بلندی عطا کی کہ اب مجھے اس بلندی عطا کرنے والے کے سامنے حیا محسوس ھوتی ھے مجھے کھاگیا کہ میں آخرت کو اس کے غیر سے بدل لوں تو میں کھنے والوں سے کھوں گاوائے ھو تم پر کیونکہ قیامت کا دن تو نےک لوگوں کے لئے بشارت اور خوشخبری کا دن ھے۔[12]

سوید بن غفلہ کھتے ھیں کہ ایک دن ھم حضرت علی علیہ السلام کے پاس گئے ایک چٹائی کے علاوہ ان کے گھر میں کوئی چیز موجود نہ تھی ،آپ اسی چٹائی پر بیٹھے تھے ۔

میں نے عرض کی اے امیرالمومنین آپ مسلمانوں کے خلیفہ اور ان کے حاکم ھیں اور آپ کے ہاتھ میں بیت المال بھی ھے اس میں سے آپ لوگوں کو بھت زیادہ عنایت فرماتے ھیں جبکہ آپ کے گھر میں اس چٹائی کے علاوہ کچھ بھی نھیں ھے ۔!!

آپ نے فرمایا :اے سوید عقل مند ایسی چیزیں اس عارضی گھر میں نھیں لاتا کیونکہ اس کے سامنے آخرت کا گھر بھی ھے ھم تو اپنے مال ومتاع کو اس گھر میں منتقل کرتے ھیں اور ھم جلد ھی اس گھر سے جانے والے ھیں ۔راوی کھتا ھے خدا کی قسم آپ کے اس کلام نے مجھے رلادیا ۔[13]

سعید بن قیس کھتے ھیں کہ جنگ صفین کے موقع پر ایک سردار حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھواوہ کھتا ھے کہ میں ظھر کے وقت باھر نکلا جبکہ لوگ شدید گرمی کی وجہ سے آرام کررھے تھے۔

میں نے اس گرمی کے موسم میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دیکھا اور ان کی خدمت میں عرض کی یاامیرالمومنین !

آپ اور اتنی شدید گرمی میں اس وقت یہاں ھیں جب کہ لوگ آرام و سکون سے سورھے ھیں حضرت نے ارشاد فرمایا :خدا کی قسم میں گھر سے اس لئے نکلا ھوںتا کہ میں مظلوم اور نادار لوگوںکی مدد کروں اب جب معاملہ اس طرح ھے تو میں آرام نھیں کرسکتا۔

 اس وقت حضرت کے پاس ایک عورت آئی جس کا دل خوف ھراس کی وجہ سے دھڑک رھاتھا۔ وہ حضرت سے کھنے لگی میرے ساتھ میرے گھر چلیںکیونکہ میرا شوھر مجھے گالیاں دے رھاھے اور مجھے مارتا پیٹتا ھے۔

حضرت نے اپنا سر بلند کیا اور پھراس کے ساتھ یہ کھتے ھوئے اٹھ کھڑے ھوئے :

جس مقام پربھی مظلوم کا حق ھوگا میں اسے حاصل کرکے رھوں گاپھر حضرت نے اس عورت سے پوچھا ،تیراگھر کہاں ھے؟ اس نے کھافلاں جگہ پر میرا گھر ھے ۔

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل دئیے جب گھر کے پاس پھنچ گئے تو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے دق الباب کیا توایک جوان گھر سے باھر نکلا اس نے مختلف رنگوں والی چادر پھنی ھوئی تھی۔                          

حضرت نے اس سے فرمایا:

اے شخص اللہ کے عذاب سے ڈرو تجھے اپنی بیوی پر ظلم کرتے ھوئے شرم نھیں آتی راوی کھتا ھے کہ (یہ شخص حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو نھیں پہچانتا تھا)۔ بھرحال اس نے جواب دیا آپ کا اور اس کا کیا تعلق ھے ؟خدا کی قسم میں اس کو آپ کی باتوں کی وجہ سے ضرور مزا چکھاؤں گا ۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تیرے لئے ویل و ھلاکت ھے ،میں تو تجھے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کر رہاھوںاور تو ھے کہ میری باتوں کا اس طرح جواب دے رھاھے۔ ابھی توبہ کرو۔ ورنہ میں تمھیں قتل کردوں گا ۔چنا نچہ شور سن کر لوگ جمع ھو گئے۔ اس وقت اس نوجوان کو معلوم ھوا کہ میرے ساتھ گفتگو کرنے والی شخصیت حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ھیں ۔وہ معذرت کرتے ھوئے حضرت کی خدمت میں عرض کرنے لگا ۔یا امیرالمومنین آپ مجھ سے راضی ھو جائیں اور میں اس کو راضی رکھوں گا۔       

حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

< لاَخَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ اٴَجْرًا عَظِیمًا۔>[14]

ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوںمیں کوئی خیر نھیں ھے مگر شخص جو کسی صدقہ ‘نیکی یالوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے اور جویہ سارے کام رضائے الٰھی کی طلب میں انجام دے گا ھم اسے اجر عظیم عطا کریں گے ۔[15]

راوی کھتا ھے کہ یہ روایت میرے مرحوم والد نے مجھے بیان کی تھی اس کو میں پھلے سے نہ جانتا تھا ۔

ابی سعید حذری کھتے ھیں ایک مرتبہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام بازار میں تشریف لائے اور فرمایا :

یا اھل السوق،اتقوااللہ وایاکم والحلف فان الحلف ینفق السلعہ و یمحق البرکة وان التاجر فاجر الامن اخذ الحق واعطی الحق ۔والسلام علیکم۔

اے اھل بازار !اللہ سے ڈرو اور قسمیں کھانے سے بھی ڈرو کیونکہ قسمیں معاملے کو ختم کر دیتی ھیں ان کی وجہ سے برکت ختم ھوجاتی ھے اور یقینا حق لینے اور حق ادا کرنے  والے تاجرکے علاوہ باقی سب تاجر فاسق فاجر ھیں ۔  والسلام علیکم[16]

[1] ابن عبدالبرکی  استیعاب ج ۲ ص ۴۶۵ ۔

[2] کنزالعمال ج ۶ ص۴۱۰۔

[3] کنزالعمال ج۶ ص ۴۱۰۔

[4] ریاض النضرہ ج ۲ص ۲۳۴۔

[5] سنن بیہقی ج۱۰ ص۱۳۶

[6] الامام علی منتھی الکمال البشری عباس علی مو سوی ص۱۷۲ ۔۱۷۳۔

[7] المجالس السنیة ۔سید محسن الا مین ج۱ ص۶۶۔۶۷۔

[8] شرح نھج البلاغہ ج۱۵ص۱۵۱۔  

[9] شرح نھج البلاغہ ج۳ص۱۰۲۔۱۰۴۔

[10] حیلةالاولیاء ج۱ ص۸۵۔

[11] تذکرةالخواص ۔۱۱۱۔

[12] تذکرة الخواص،ص۱۱۱۔

[13] ائمتنا،علی محمد علی دخیل ج۱ ص۵۲۔۵۳۔

[14] سورہ نساء /۱۱۴)

[15] قارئین کرام !یہ روایت والد محترم کی لکھی ھوئی ھے اگر چہ جلدی کی وجہ سے اس کا مدرک نھیں ڈھونڈ پائے۔

[16] مختصر تاریخ دمشق ،ابن عساکر ج۱۸،ص۲۶

 


source : http://www.al-shia.org/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment