اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

انتظارِ امام مہدی (ع) اور تشیع کا سفرِ علم

الحمد للہ قرآن کے سائنسی مزاج کے عنوان سے فکری نشست کے مقالوں کی ابتدا ہوئی ، نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ پر مقالات ہدیہ سماعت بنے۔ نہج البلاغہ میں علم و دانش، اخلاقیات اور امور جہانبانی سے بھر پور ہدایات کے ذریعہ مولائے کائنات نے انسانوں کو ایک مکمل لائحہ عمل دیا تو امام سجاد (ع) نے دعاؤں کی روشنی سے اس وقت کے ماحول کی تاریکی کو دور کردیا، ان مقالات کی پذیرائی پر ہمت ہوئی کہ علم و دانش کے پیکر ائمہ معصومین(ع) کی معنوی زندگی اور علمی فیوض کو اجاگر کیا جائے۔ اس ضمن میں امام صادق(ع)، امام علی ابن موسیٰ الرضا (ع) اور ائمہ عسکرئین(ع) کی ذواتِ مقدسہ مرکز فکر بنی۔ مرحوم ابو طالب ترابی کی خواہش تھی کہ ان مقالوں کو ایک کتابی شکل دیجائے۔ اس غرض سے معرفت ائمہ کے ان نثری قصیدوں کے مقطع کے لئے ایک ایسے عنوان کی تلاش تھی جو ہماری آخری حجت کے حوالہ سے تشیع کے علمی سرمایہ کا احاطہ کرسکے۔ لہٰذا ''انتظار امام مہدی (ع) اور تشیع کا سفر علم و دانش'' کے عنوان پر یہ مقالہ ہدیہ قارئین ہے۔

اس مقالہ کے متن میں دو کلیدی اجزاء کا ر فرما ہیں یعنی انتظار امام اور علم و دانش ، انتظار امام میں اسباب غیبت، فلسفہ انتظار، نظام ہدایت کاارتقا اور نوّاب اربعہ جیسے امور زیر بحث آئیں گے، جبکہ ہمارا سرمایہ حدیث، تفسیر قرآن، اجتہاد، تقلید، مراجع عظام اور تشیع کے علم و دانش کے نشانِ امتیاز کے عوامل دعوت فکر دے رہے ہیں۔

''انتظارِ امام مہدی (ع) اور تشیع کا سفرِ علم و دانش''

١۔ابتدائیہ:

الحمد للہ قرآن کے سائنسی مزاج کے عنوان سے فکری نشست کے مقالوں کی ابتدا ہوئی ، نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ پر مقالات ہدیہ سماعت بنے۔ نہج البلاغہ میں علم و دانش، اخلاقیات اور امور جہانبانی سے بھر پور ہدایات کے ذریعہ مولائے کائنات نے انسانوں کو ایک مکمل لائحہ عمل دیا تو امام سجاد (ع) نے دعاؤں کی روشنی سے اس وقت کے ماحول کی تاریکی کو دور کردیا، ان مقالات کی پذیرائی پر ہمت ہوئی کہ علم و دانش کے پیکر ائمہ معصومین(ع) کی معنوی زندگی اور علمی فیوض کو اجاگر کیا جائے۔ اس ضمن میں امام صادق(ع)، امام علی ابن موسیٰ الرضا (ع) اور ائمہ عسکرئین(ع) کی ذواتِ مقدسہ مرکز فکر بنی۔ مرحوم ابو طالب ترابی کی خواہش تھی کہ ان مقالوں کو ایک کتابی شکل دیجائے۔ اس غرض سے معرفت ائمہ کے ان نثری قصیدوں کے مقطع کے لئے ایک ایسے عنوان کی تلاش تھی جو ہماری آخری حجت کے حوالہ سے تشیع کے علمی سرمایہ کا احاطہ کرسکے۔ لہٰذا ''انتظار امام مہدی (ع) اور تشیع کا سفر علم و دانش'' کے عنوان پر یہ مقالہ ہدیہ سماعت ہے۔

اس مقالہ کے متن میں دو کلیدی اجزاء کا ر فرما ہیں یعنی انتظار امام اور علم و دانش ، انتظار امام میں اسباب غیبت، فلسفہ انتظار، نظام ہدایت کاارتقا اور نوّاب اربعہ جیسے امور زیر بحث آئیں گے، جبکہ ہمارا سرمایہ حدیث، تفسیر قرآن، اجتہاد، تقلید، مراجع عظام اور تشیع کے علم و دانش کے نشانِ امتیاز کے عوامل دعوت فکر دے رہے ہیں۔

٢۔دور ائمہ اطہار:

یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین(ع) سے امام حسن عسکریؑ تک ہمارے تمام ائمہ سنا ن وسم کاشکار ہوئے۔ واقعہ کربلا نے دو بدو مقابلہ کی رسم ختم کردی۔ کربلا کے بعد عظمتوں کے مقابلہ میں آنے کی کسی کو ہمت نہ تھی۔ لیکن ائمہ کی مدت حیات کو مختصر کرنے کے لئے نت نئے طریقے استعمال کئے گئے۔ یہ تمام واقعات آج کی دنیا کے حقوق بشر کی اقدار پر ایک طمانچہ ہے۔اک سیل خوں رواں ہے حمزہ سے عسکری تک اگر کسی ذہن میں شرافت کے جراثیم ہوں تو ظلم کی داستان سن کر مذہب حق قبول کرلیتا ۔ ( فیروز حیدرعابدی)

وفات پیغمبر سے شہادت امام حسن عسکری تک (١١ھ تا ٢٦٠ھ) تقریبا ٢٥٠ سال پر محیط حزنیہ دو طویل زمانوں کا سنگم ہے ایک طرف خلقت آدم سے ایک لاکھ ٢٤ ہزار ہادی، انبیاء اور مرسلین کی محنتوں سے آراستہ کیا ہوا بھر پور زمانہ ہے تو دوسری طرف ایک لا متناہی غیبت کبریٰ ہے جس کے طول کو صرف اﷲ ہی جانتا ہے، یا وہ جس کو اﷲ نے علم دیا ہے۔

٣۔ ضرورت غیبت:

١١ھ میں آنحضرت(ص) نے کہا کہ میں جا رہا ہوں اور قران و اہلبیتؑ کو چھوڑے جا رہا ہوں۔ میرے بعد میرے بارہ جانشین ہو نگے اور قریش سے ہونگے، آنحضرت کی وفات کے بعد ان ١٢ میں سے ١١ جانشینوں کے ساتھ ملوکیت نے جو سلوک کیا تاریخ اس کی گواہ ہے، اگر موقع ملتا تو ١٢ ویں کو بھی قتل کر دیتے یا کسی طر ح منظر سے ہٹا دیتے ۔ لیکن قدرت نے یہ کائنات ایک خاص مقصد کے لئے خلق کی تھی۔ قدرت زمین پر اپنا نائب بھیجنا چاہتی تھی۔ فرشتوں نے انسان کے فسادی ہونے کی بات کی۔ قدرت نے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ قدر ت کی تخلیق کردہ کائنات کا اختتام معبود کے منصوبہ کے مطابق ہوگا۔ اس وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں شہداء کی قربانیوں سے قدرت کا یہ منصوبہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے لیکن شریعت کو قیامت تک باقی رہنا ہے تو پھر شریعت کے محافظ کی بھی ضرورت ہے۔ اپنے اس آخری رہنما کی حفاظت کے لئے قدرت نے ''غبیت ہادی'' کی حکمت عملی اختیار کی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں قرآن میں انبیاء کی غیبت کے مثالیں موجود ہیں۔ شیخ صدوق(رح) نے ''کمال الدین داتمام النعمۃ ''میں غیبت انبیاء کے حوالے سے خضر، الیاس، ادریس، موسیٰ، نوح، صالح، شعیب عیسیٰ اور یونس کا ذکر کیا ہے۔عبداﷲ ابن فضل ہاشمی نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ امام مہدی (ع) کی غیبت میں اﷲ کی وہی حکمت ہے جو باقی انبیاء کی غیبت میں تھی۔ ان انبیاء کی غیبت کی حکمت ان کے ظہور کے بعد منکشف ہوئی ( صفدر حسین نجفی)۔

اسباب غیبت حضرت حجت کے ضمن میں ڈاکٹر شاہد چودھری نے اس مفروضہ سے اتفاق کیا ہے کہ ''مختلف عوامل کی روشنی میں غیبت امام ایک الہیٰ منصوبہ سے تعبیر ہے جس میں ظہور امام مہدی (ع) اس منصوبہ کاآخری حصہ ہے ، غیبت پر مبنی اس منصوبہ کا حوالہ قران میں کئی جگہ اور احادیث میں تو اتر سے آیا ہے ۔ ان حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک وقت مقررہ پراس زمین پر عدل و انصاف کی حکمرانی کے سامان پیدا کریگا۔ ظلم و جور کے تیزی سے امنڈ تے ہوئے سیلاب اس کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ جلد غیبت کا راز کھلیگا۔ '' ( ڈاکٹر شاہدچودھری)

اسباب غیبت میں منجملہ ایک سبب ہماری بد اعمالیاں اور دین سے دوری کا ماحول بھی ہے زمانہ غیبت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اور معصومین(ع) کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو امام زمانہ(ع) کے لشکر میں شامل ہونے کی تمنا کا اہل ثابت کریں۔

٤۔ غیبت اور قران :

قران کی ابتداء ہی عقیدہ غیبت پر ایمان سے ہے۔ سورہ بقرہ کی ابتدائی آیت میں'' یومنون بالغیب''کی تفسیر میں مولانا ظفر حسن نے لفظ غیب سے مراد '' امام غائب،ولی عصر، مہدی آخر الزماں پر ایمان لانا ضروری سمجھا ہے اور انکار کرنے والا متقیوں سے خارج ہو جائیگا۔( تفسیر القران جلد اول) اس کے علاوہ وہ تمام آیات جن میں انتظار کی ہدایت ہے امام مہدی (ع) سے متعلق بیان کی گئی ہیں بموجب نصوص معصومین(ع)، خادمی شیرازی نے اپنی کتاب ''غیبت امام عصر یا پنھانی خورشید عدالت '' میں تفاسیر نور الثقلین، نمونہ، البرہان، تبیان، اور صافی میں سورہ ہائے یونس ، حجر، اعراف، آلِ عمران، مومنون ، بقرہ اور سورہ نور کی آیات کے حوالہ سے یہ ذکر کیا ہے کہ صبرو انتظار نیکوں کی خصلت ہے۔اور امام مہدی (ع) کی غبیت پر اعتقاد ایمان بالغیب کی تعریف میں آتا ہے۔

٥۔ امام مہدی (ع) اور معصومین(ع):

خادمی شیرازی کی جس کتاب کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے اس میں چہاردہ معصومین کی روایات کا حوالہ بھی دیا ہے جو غیبت امام مہدی (ع) پردلیل ہیں ۔ ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔

١۔ آنحضرت(ص): مہدی (ع) امت کے درمیان قیام کریگا، اگر دنیا کی عمر ایک روز بھی باقی رہ جائے تو خدا وند تعالیٰ اس

روز کو اتنا طول دیگا کہ میری اہلبیت سے ایک مرد قیام کریگا، زمین کو جو اس وقت ظلم و جور سے بھری ہوگی

عدل وانصاف سے بھر دیگا۔

٢۔ امیر المومنین(ع): حجت خدا دین خدا کی طرف دعوت دیگا۔

٣۔ جناب فاطمہ (س): ایک لوح پر ١٢ اوصیا کے نام ہیں آخر میں قائم ہے۔

٤۔ امام حسن (ع): میرے بھائی حسین (ع) کی نسل سے ایک فرزند طویل عمر غیبت کے بعد ظاہر ہوگا لیکن بظاہر عمرمیں ٤٠

سال سے کمتر نظر آئیگا۔

٥۔ امام حسین (ع): ہمارے خاندان رسالت میں ١٢ مہدی ہیں جس میں سب سے پہلے امیر المومنین(ع) اور آخری میرا

فرزند امام قائم بحق ہے۔ اس کے زیر سایہ دین مقدس اسلام تمام ادیان پر غالب آجائیگا، ان کی غیبت بہت

طویل ہوگی۔

٦۔ امام سجاد (ع): روز قیامت تک امامت اولاد حسین (ع) میں واقع ہوگی۔ ہمارے قائم کی دو غیبت ہوں گی ایک مختصر

اور دوسرے طویل۔

٧۔ امام باقر (ع) ، یوسف پیغمبر اور قائم میں مشابہت دوامور میں ہے: حیرت اور غیبت

٨۔ امام صادق(ع): زمین کبھی بھی حجت خد اسے خالی نہیں رہ سکتی ، قائم ہمارے فرزندوں میں سے ہوگا۔

٩۔ امام موسیٰ (ع) بن جعفر (ع): قائم زمین کو دشمنان خدا کے وجود سے پاک کردیگا۔ جبکہ وہ ظلم و جور سے بھر جائیگی، وہ

میری پانچویں پشت ہوگی۔

١٠۔ امام رضا (ع): ہمارے قائم کے قیام کے وقت خون بہانے اور زمین پر محنت کا وقت ہوگا۔ ان کا لباس سادہ اور

غذا روکھی سوکھی ہوگی۔شیخ صدوق نے بھی مہدی (ع) کے حوالے سے ائمہ کی روایات نقل کی ہیں ۔

١١۔ امام محمد تقی (ع): قائم زمین کو کافروں اور منکروں سے پاک کردیگا اور عدل و انصاف بھر دیگا، اس کےاصحاب کی

تعداد اہل بدر یعنی ٣١٣ کے برابر ہوگی۔

١٢۔ اما م علی النقی (ع): میرے بعد حسن (ع) عسکری (ع) امام ہے اور ان کے بعد ان کا فرزند جس کی امامت لوگوں کےلئے عجیب

ہوگی کیونکہ وہ نظروں سے غائب رہیگا اور وقت مقررہ پر ظاہر ہو کر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیگا۔

١٣۔ امام حسن عسکری (ع): آدم کی خلقت سے قیامت تک اﷲ زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑیگا، انہی کے

ذریعہ اﷲ کے فیوض بندوں تک پہنچتے ہیں۔

١٤۔ آخر میں خود امام عصر کی زبانی روایت ہے کہ : '' میں آخری وصی رسول خدا ہوں اور خدا وند تبارک و تعالیٰ

میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کی بلاؤں کو دفع فرماتا ہے۔

( ہاشم بحرانی، مدینۃ المعاجز)

٦۔انتظار مہدی (ع):

دنیا کے تمام آفاقی مذاہب میں ایک عظیم مصلح کا انتظار شامل ہے ہر قوم اس کو ایک مخصوص نام سے یاد کرتی ہے۔

زرتشتیوں کی مشہور کتاب'' زند'' میں یزداں اور اَہر من کے کردار ہیں جس میں یزداں نیکی کا نمائندہ ہے۔

برہمنوں اور ہندؤں کی کتاب'' وشنویگ'' میں ایک بادشاہ کا ذکر ہے جو آخر زمانہ میں پیشوائے خلائق ہوگا، مزید کہا گیا ہے کہ دنیا کا دور آخر زمانہ میں ایک عادل بادشاہ کے زیر اہتمام قائم ہو جائیگا۔

عہد قدیم توریت (Old testament ) میں مزا میر داؤد نامی کتاب میں مرقوم ہے کہ خداوند عالم کے معتبر لوگ زمین کے وارث ہونگے۔

جدید انجیل ( لوقا) New Testament) ) میں درج ہے کہ تم ایسے لوگوں کو طرح رہو جو اپنے آقا کا انتظار کر رہے ہوں ( ناصر مکارم شیرازی، بہار انقلاب )

حسن قائمیاں، کتاب علائم الظہور میں رقم طراز ہے کہ ہر دور میں اور ہر زمانے میں خدا پرستوں کے دلوں میں ایک عالمگیر اور عظیم مصلح کی تمنا رہی۔

قرآن مجید کے سورہ انبیاء (١٠٥) کی آیت '' ولقد کتبنا فی الزبورِ من بعد الذکر ان الارض یرتھا عبادی الصالحون''کی روسے اس زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہونگے۔ ( اے حسینی یقینی کے وارث ، عبد صالح زمین کے وارث ۔رشید ترابی )

ان صورتوں کی روشنی میں مہدی فقط اسلامی عقیدہ کی تجسیم( Embodimeint ) پر نہیں بلکہ اس آرزو کا نشان بھی ہیں جو تمام انسانیت دینی عقائد کے اختلاف کے باوجود اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہے۔ یہ عقیدہ محض ایک تسکین نہیں بلکہ نیکی اور قوت کا منبع یا سر چشمہ ہے کیونکہ مہدی کے ورود پر ظلم اور جور کے خاتمہ پر یقین ہے۔ مہدی کا تصور آفاقی ہے اور اسلام سے قدیم تر ہے لیکن اسلام نے اور بالخصوص عالم تشیع نے مہدی کے جو خدوخال متعین کئے ہیں وہ واضح تر ہیں ۔ شیعہ عقیدہ کے لحاظ سے مہدی پہلے ہی سے جسمانی طور پر زندہ ہیں اور یہی مرکزی خیال غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ کی بنیاد ہے۔ وہ محض ایک اجبی نجات دہندہ نہیں ہیں اور نہ ایک تخیلی ہستی ہے بلکہ ایک معین فرد ہے جو ہمارے درمیان ایک حقیقی انسان کی مانند رہ رہے ہیں اور ہماری امیدوں مایوسیوں اور خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں۔ دنیا کے مظالم کو دیکھتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح خود بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اس معینہ وقت کے انتظار میں ہیں جب ان کو ظاہر ہو نے کا حکم دیاجائیگا ۔( باقر الصدر انتظار امام )

انتظار مہدی کے ضمن میں علامہ ذیشان حیدر جوادی، نقوش عصمت میں لکھتے ہیں کہ امام کی ایک واضح صفت یہ ہے کہ تمام صاحبان ایمان کو مسلسل آپ کا انتظار ہے اور اسے افضل اعمال قرار دیا گیا ہے۔ انتظار بے عملی اور کاہلی نہیں۔ انتظار میں کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ انتظار اعتبار کی دلیل ہے اور انتظار ایک بہتر مستقبل کی عکاسی کرتا ہے۔ انتظار علم و دانش سے محبت، نیکیوں اور عدل سے لگاؤ اور خوبصورتی سے عشق، انسان کا فطری عمل ہے ایک عالمی مصلح کے ظہور کا انتظار اس جذبہ کی معراج ہے۔

مہدی موعود کی اس آفاقی حیثیت سے فائدہ اٹھائے ہوئے تاریخ میں بعض شخصیتوں نے اپنے آپ کو بطور مہدی پیش کیا اور بعض سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی ایسی کوششوں کو طاقت بھی پہنچائی لیکن کوئی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا اس کا اصل سبب یہ ہے کہ مہدی کے ذمہ دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ اور عدل و انصاف کی حکمرانی ہے جو کوئی بھی پورا نہ کرسکا بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگاکہ خود ان نام نہاد مہدیوں میں ظالم اور نامنصف موجود تھے۔

٧۔فلسفہ طول عمر:

مہدی کی شخصیت سے متعلق ذکر کردہ تصورات بعض لوگوں کے تخیل اور ادراک میں سما نہیں سکتے جن کی وجہ سے منفی ردِ عمل سامنے آتا ہے اس منفی ردِ عمل کے ضمن میں سب سے بڑا سوال ان کی طول عمر سے متعلق ہے اس کے علاوہ تعلیم و تربیت کے وسائل، ظہور تاخیر زندگی کا تسلسل اور فوق البشر کردار پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، مثلاً طولانی عمر کا راز کیا ہے؟ کیا فائدہ جب کہ پیرؤں سے ربط نہیں ؟ زندگی ذاتی اور سماجی قیادت سے لا تعلقی کیوں ہے؟ اس مقالہ میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان امور کا تفصیلی احاطہ کیا جائے علما اور مفکرین نے ان امور کے حقیقی، سائنسی اور منطقی امکانات پر سیر حاصل بحث کی ہے مثلاً طبعی قوانین کیی معطلی (ابراہیم کے لئے آگ کا ٹھنڈا ہو جانا' موسیٰ کے لئے دریا نیل میں شگاف پڑ جانا، حضرت عیسیٰ (ع) کی گرفتاری دوسرے ہمشکل کے ذریعہ، آنحضرت کی شب ہجرت گھر سے روانگی اور کفار کی نظروں سے اوجھل رہنا وغیرہ)۔ ان تمام مظاہروں میں طبعی قانون کی معطلی کا ر فرما ہے جو مشیت ایزدی میں ممکن ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ جدید سائنس نے بھی طول عمر کے امکانات کی پیشگوئی کی ہے صوتی دیوار کے ٹوٹنے کی طرح انسان کی عمر کی سرحدیں بھی ٹوٹ سکتی ہیں۔

بجا ئے اس کے کہ ہم امام مہدی (ع) کی طول عمر کے امکان کو معرض بحث میں لائیں ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ آخر اﷲ تعالیٰ ان کی عمر کو کیوں طویل کرنا چاہتا ہے؟

طول عمر کے جو از میں باقر الصدر ایمان بالغیب سے ہٹ کر عقلی دلیل میں کہتے ہیں کہ امام مہدی کو ظلم و زیادتی سے بھر پور دنیا میں انقلاب برپاکرنا ہے اور اس کے تہذیبی اقتدار اور نظام زندگی میں تبدیلیاں لاکر عدل وانصاف قائم کرنا ہے۔ اس کے لئے ایک طویل تاریخی پس منظر لازمی ہے جو عظیم تہذیبوں کے عروج و زوال کے اسباب و علل سے واقفیت پیدا کرسکے اور ذہن افق کو وسیع کرے۔

قائم آل محمد کے سلسلہ میں حضرت امام سجاد (ع) نے فرمایا کہ قائم کے لئے نوح کی سنت ہے اور وہ سنت طویل عمر ہے۔ حضرت نوح ٢٥٠٠ سال زندہ رہے ، آدم ٩٣٠ ، سلمان ٧١٢ سال۔

امام مہدی کے طول عمر پر بحث کے ساتھ ساتھ ان کی کم سنی میں امامت پر فائز ہونا بھی معرض بحث بنتا ہے۔ یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ ٥ سال کی عمر میں کوئی فرد بہ حیثیت امام خلق کی پیشوائی پر کس طرح مامور ہوسکتا ہے؟ ڈاکٹر حبیب روحانی( در انتظار امام) کا جواب ہے کہ امامت ایک منصب ہے جو ذات الہٰی ہر شخص کو عطا کرتا ہے جو اس کا اہل ہو۔ اس ضمن میں حضرت یحییٰ، اور حضرت عیسیٰ کی مثالیں اور خود سلسلہ امامت میں امام محمد تقی (ع) اور امام علی النقی (ع) کی کمسنی مین امامت پر فائز ہونے کے واقعات موجود ہیں۔

نصوص، روایات، تاریخی اور عقلی دلائل کی بنیاد پر مہدی (ع) کی موجودگی کے ضمن میں دکتر حبیب کے خیالات کا خلاصہ:

١۔ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہتی۔

٢۔ امام منتظر کے نام اور صفات مشخص کر دیئے گئے ہیں ۔

٣۔ قیامت برپانہ ہوگی جب تک امام مہدی قیام نہیں کریں گے۔

٤۔ امام وقت کی معرفت کے بغیر مرنا کفر کی موت ہے۔

٥۔ پیغمبر کے بعد قریش سے ١٢ افراد امام ہونگے۔

٦۔ امام وقت کے دیدار کے بغیر کوئی دنیا میں نہیں مرتا۔

٨۔مہدی اور علمائے اہلسنت:

اہل سنت کے علماء کی ایک کثیر تعداد نے امام مہدی پر تحقیقی مواد جمع کیا ہے ۔ کتب احادیث میں بڑی تفصیل درج ہے البتہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مجملاً وارد ہوئی ہیں۔ بعض مصنفین نے کم علمی یا علم الحدیث سے نابلدی کی وجہ سے ان احادیث پر جرح کی ہیں اور بعض نے ان کو خلاف اسلام قرار دیا ہے۔

قابل توجہ ایک تحقیقی مقالہ جو شیخ عبدالمحسن العباد، استاد مدینہ یونیورسٹی نے مجلہ الہادی میں پیش کیا ہے۔ اس مقالہ میں انہوں نے ائمہ احادیث کی آٹھ درجوں میں تقسیم کی ہیں جنہوں نے اپنی تصانیف و تالیفات میں مہدی سے متعلق معلومات دی ہیں ۔ وہ یہ ہیں۔

١۔ ان صحابہ کرام کی فہرت جنہوں نے آنحصرت سے احادیث مہدی روایت کی ہیں (٢٦)

٢۔ ان ائمہ احادیث کے نام جنہوں نے اپنی کتابوں میں امام مہدی کے بارے میں احادیث درج کی

ہیں۔ (٣٨)

٣۔ ان علما کے نام جنہوں نے صرف امام مہدی پر کتب تالیف کی ہیں (١٠)

٤۔ ان حضرات کا ذکر جنہوں نے احادیث مہدی کو متواتر ات میں شامل کیا ہے ( ٦)

٥۔ صحیحین میں شان مہدی میں وارد احادیث کا ذکر (٣)

٦۔ صحیحین کے علاوہ دوسری کتب احادیث جن میں امام مہدی کی شان میں وارد احادیث کا ذکر (٢)

٧۔ ان علما کا ذکر جنہوں نے احادیث مہدی کو صحیح اور قابل اعتماد ثابت کیا ہے۔

٨۔ احادیث مہدی کا انکار اور تردید کرنے والوں کا ذکر۔

اس ضمن میں مزید عرض ہے کہ مولانا صفدر حسین نجفی نے ''امام مہدی الزمان علیہ السلام '' میں ایسی ٣٠ کتابوں اور رسالوں کا حوالہ دیا ہے جس میں اکابرین علمائے مسلمین نے حضرت مہدی (ع) کی غیبت ، خروج اور ان کی حکومت سے متعلق ذکر ہے۔

ہمارے دور کے دانشور ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی تالیف ''القول المعتبر فی الامام المنتظر'' میں ٣٥ ماخذ و مراجع کے حوالہ سے امام مہدی سے متعلق کوائف جمع کئے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔

١۔ حضرت مہدی امام برحق اور بنو فاطمہ سے ہیں۔

٢۔ امام مہدی کا دور خلافت آئے بغیر قیامت بر پا نہیں ہوگی۔

٣۔ امام مہدی زمین پر معاشی عدل و انصاف کا نظام قائم کریں گے۔

٤۔ تمام اولیا اور ابدال امام مہدی کے دست اقدس پر بیعت کریں گے۔

٥۔ امام مہدی خلیفۃ اﷲ علی الاطلاق ہونگے۔

٦۔ امام مہدی کے ذریعہ دین کو پھر غلبہ اور استحکام ہوگا۔

٧۔ امام مہدی کی اطاعت واجب اور تکذیب کفر ہے۔

٨۔ امام مہدی کے لئے آسمانی اور زمینی علامات کا ظہو رہوگا۔

٩۔ امام مہدی آخر الزمان روئے زمین پر بارہویں امام اور آخری خلیفۃ اﷲ ہونگے۔

٩۔غیبت صغریٰ اور نوّاب اربعہ:

مقالہ کی ابتداء میں ضرورت غیبت، فلسفہ انتظار اور طول عمر کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا کہ غیبت امام قدرت کی ایک حکمت عملی ہے جو اپنے آخری نمائندہ کی حفاظت منجملہ اور مقاصد کے اختیار کی گئی یوں تو امام کی ولادت کو راز میں رکھا گیا لیکن مخصوص مومنین اور اصحاب کو زیارت کا شرف حاصل رہا تاکہ وہ حقیقی صورت حال سے بھی باخبر رہیں۔ اس بناء پر بعض مورخین امام کی ولادت ٢٥٥ھ سے امام حسن عسکریؑ کے شہادت (٢٦٠ھ) کے عرصہ کو بھی غیبت صغریٰ میں شامل کر کے اس کی مدت ٣٢٩ھ تک ٧٤ سال قرار دیتے ہیں ورنہ یہ مدت ٦٩ سال ہوتی ہے۔

امام حسن عسکری (ع) کے دور امامت میں حکومت وقت کی پابندیوں اور جاسوسی کارروائیوں کے پیش نظر مومنین امام کی خدمت میں آزادانہ حاضر نہیں ہوسکتے تھے اس لئے اشاعت و تبلیغ کے لئے تمام بڑے شہروں میں امام کی جانب سے نمائندوں اور وکلا متعین تھے اور قصبوں میں ماتحتیں تھے جو ایک مخصوص شخصیت کی جوابدہ تھے۔ نیابت کا یہ سلسلہ نائب خاص تک پہنچتا تھا۔ غیبت صغریٰ کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے ٤ نائبین نے خدمات انجام دی ہیں اس نسبت سے ان کو نوّاب اربعہ کہتے ہیں۔ اس کے نام اور مدت نیابت حسب ذیل ہے۔

١۔ عثمان بن سعید ٢٦٠ھ تا ٢٩٥ھ

٢۔ محمد بن عثمان بن سعید ٢٩٥ھ تا ٣٠٥

٣۔ حسین بن روح ٣٠٥ ھ تا ٣٢٠ھ

٤۔ ابوالحسن علی محمد سمری ٣٢٠ تا ٣٢٩ھ

امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کے بعد جب حکومت کو امام مہدی (ع) کی تلاش اور جستجو بڑھ گئی تو بحکم خدا وندی امام عارضی طور پر عوام کی نظروں سے غائب ہو گئے۔ اس مدت میں امام نے مندرجہ بالا نائبوں کے ذریعہ مومنین سے اپنا ربط قائم رکھا۔ اس نظام نیابت کے ذریعہ مومنین کے سوالات کے جوابات اور دیگر امور کے وضاحتیں امام کی دستخط اور مہر کے ساتھ ملتی تھی جن کو'' توقیعات مقدسہ'' کہا جاتا تھا۔

١٠۔غیبت کبریٰ:

نائبین کے ذریعہ غیبت صغریٰ کا دور ٣٢٩ھ تک جاری رہا جب شعبان ٣٢٩ھ میں امام نے آخری نائب ابوالحسن علی بن محمد سمری کو اطلاع دی ''تم آئندہ ٦ دن میں اس دنیا سے رحلت کر جاؤ گے۔ اپنے کام کو سمیٹو، اپنا جانشین مقرر نہیں کرنا اس لئے کہ غیبت واقع ہو چکی ہے اور اس کے بعد میں ظاہر نہیں ہونگا مگر حق تعالیٰ کے اذن سے ایک طویل غیبت کی مدت کے بعد جب دنیا ظلم سے بھر جائے گی۔ ( سید افسر عباس، غیبت صغریٰ اور نواب اربعہ)اس طرح ١٥ شعبان ٣٢٩ھ سے غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا۔

امام عصر کے ان چار نائبین کے فضائل ،مناقب اور ان کے خدمات کا اندازہ بے حد مشکل ہے۔ ایک نہایت خطرناک دور میں انہوں نے امام اور ماموم کے درمیان ایک معتبر رابطہ قائم رکھا ۔ ستر سال کے عرصہ تک شیعہ عوام الناس کا نواب اربعہ سے رابطہ نے انہیں اس نظام پر اعتماد کا عادی بنادیا۔ سب سے اہم مقصد یہ حاصل ہوا کہ نواب اربعہ نے اپنے کردار، قول اور فعل سے آنے والے اور یعنی غیبت کبریٰ میں امام کی نمائندگی کرنے والے علماء عظام کے لئے ایک ذاتی مثال قائم کردی جنہیں تقلید، اجتہاد اور مرجعیت کے ادارہ کی داغ بیل کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی، اس طرح غیبت صغریٰ ایک طویل سفر کی تیاری تھی یا موجودہ دور کی اصطلاع میں ایک نگراں تربیت (Supervised training) تھی کہ ٧٠ سال کے عرصہ میں لوگوں کا عقیدہ غیبت کبریٰ کی ماہیت سے راسخ ہو جائے کہ غیبت کے ذریعہ فیوض اور برکات کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا بلکہ نیابت خاص سے نیابت عام میں منتقل ہو گیا۔ اب یہ ذمہ داری وہ مجتہدین اورعلما انجام دیں گے جو ائمہ کی تعلیمات کی روشنی میں اسباب و علل کا استبناط اور استخراج کریں گے۔ امام کی ذات اور ہستی بہت اونچی ہے۔ یہ علما نواب اربعہ کے کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے نفس کو ہوا دُہوس سے بچانے والے، اپنے دین کو خطرات سے محفوظ رکھنے، امام کی اطاعت کرنے والے اور اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کرنے والے ہونگے۔ انہی افراد کو انتظار مہدی کے طویل عرصہ میں تشیع کے علم و دانش کے کارواں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے۔

١١۔تشیع کا علمی ارتقاء :

غیبت کبریٰ اس کائنات کا اختتامی مرحلہ نہیں بلکہ زمانہ کے ایک طویل تسلسل سے تعبیر ہے جس کے دور ان نظام کائنات اپنے تکمیلی سفر پر رواں دواں ہے اس کی منزل سے خداہی واقف ہے یا وہ جنہیں خدا نے اس کا علم دیا ہے۔ اس سارے عمل میں انسان کی مادی اور روحانی تکمیل کے لئے نازل کی ہوئی شریعت بھی اپنے تکمیلی دور سے گزر رہی ہے۔ اس طرح تشیع بھی اپنی ارتقائی منازل طے کر رہا ہے۔ اس مختصر مقالہ میں ہم گزشتہ ١٤ سوسال سے زائد عرصہ میں تشیع کے ارتقا اور آئندہ کے امکانات کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔

عسکرئین کے موضوع پر اپنے ایک تقریری سلسلہ (١٩٧٠ئ) میں علامہ ترابی اعلی اﷲ مقامہ نے تدوین شریعت سے ابتدا کی اور اس عمل کو چارا دوار میں تقسیم کیا ۔ تنزیل، تدوین ، اجتہاد اور اجرا۔

١۔ دور تنزیل : زمانہ پیغمبر ۔ ١١ھ تک ( قران اور حدیث کا نزول)

٢۔ دور تدوین : زمانہ ائمہ اطہار ٢٦٠ھ اور غیبت صغریٰ ٣٢٩ھ تک

٣۔ دور اجتہاد : غیبت کبریٰ تا انقلاب مہدی ،نص معلوم کی مسلسل تلاش

٤۔ دور اجرائ: امام کے اقتدار کا دور قبل محشر ،حکم امام کو تسلیم کرنے والا دور ۔

متذکرہ بالا ادوار تشیع کے علم و دانش کے ارتقاء کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔

١٢۔دورتنزیل:

یہ تاریخی مسلمات سے ہے کہ امیر المومنین(ع) علی ابن ابی طالب نہ صرف پہلے مفسر قران ہیں بلکہ اولین جامع اور مرتب احادیث بھی ہیں۔ امام حسن آپ کے شریک کار تھے۔ اس طرح ''خلاصہ صحیفہ علوی'' کی تدوین ہوئی جو پیغمبرؐ نے لکھوائی۔ یہ ائمہ کے پاس موجود تھی اور اب امام ؑ عصر کے پاس محفوظ ہے۔ وفات پیغمبرؐ کے بعد ١١ھ میں تنزیل کا دور ختم ہو گیا اور حالات کو دیکھتے ہوئے علی ؑ خانہ نشین ہو گئے اور آخر تک جمع و تفسیر قران میں مصروف رہے۔ دور علوی کی ایک اہم تالیف ''کتاب سلیم بن قیس'' ہے ( ٩٠ ھ )۔ جس میں اصول رجال اور علم روایت ہے اس کو ''ابجد الشیعہ'' بھی کہتے ہیں۔

١٣۔ دورتدوین:

تدوینی دور میں ہمارے ائمہ نا مساعد حالات کے باوجود علم و دانش کے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔

١۔ امیر المومنین(ع) پہلے مفکر اسلام ہیں جنہوں نے خدا وند عالم کی توحید اور اس کے صفات پرمنطقی بحث کی

ہے۔ مالک اشتر کے نام ان کا خط اچھی حکومت Governance) (Good کے اصول سکھاتا ہے۔

٢۔ امام سجاد (ع) کا رسالہ حقوق، عالمی حقوق انسانی کا دیباچہ ہیں۔

٣۔ امام صادق کے نظریات پر یوروپین دانشوروں کی تحقیق تشیع کے علم و دانش کی آفاقیت پر سند ہیں، جابر

بن حیان ، کیمیا، حیاتیات اور نباتات کے ماہر کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ مغرب کے علمی سفر کا آغاز

١٦ ویں صدی میں ہوا جبکہ امام صادق(ع)کے علمی فیوض ٨ ویں صدی میں عام ہوچکے ۔

٤۔ امام رضاکا زمانہ علمی غزوات سے تعبیر ہے جن میں مسلمانوں کے ساتھ مسیحی ،یہودی ، ہندو، پارسی بہ یک

وقت جمع ہوتے اور حصہ لیتے تھے۔ علم طب میں امام کے فرمودات پر جدید نظریات قائم ہوئے ۔

٥۔ امام حسن عسکری (ع) کا عالی قدر علمی فیض قر ان کی تفسیر ہے۔

تدوین فقہ کے حوالہ سے ائمہ صادقین کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ اس دور کا عظیم کارنامہ اصول کا جمع کرنا ہے۔ اصل کی تعریف حدیث کی وہ کتاب ہے جسے مولف نے خود معصوم سے سنکر جمع کیا ہو یا اس شخص سے سنکر قلمبند کیا ہو جس نے خود معصوم سے سنا تھا۔ کسی کتاب سے نقل ہو۔ علمائے بڑی چھان بین کے بعد ٤٠٠٠ کتابوں سے حدیث کی ٤٠٠ کتابیں منتخب کی ان کو اصول اربعہ میاۃ ( یعنی ٤٠٠ اصول) کہتے ہیں اس طرح یہ ٤٠٠ کتابیں شیعیت کے سرمایہ علمی کی بنیاد ہیں جو قران کے بعد اجتہاد ، تقلید اور مرجعیت کے ارتقا میں اساسی رہنما ثابت ہوئیں اور بعد میں آنے والے محدثین نے انہی کتابوں کے ذریعہ احادیث کے ضخیم مجموعہ تیار کئے اس طرح ہماری کتب اربعہ یعنی کافی ، استبصار، من لا یحضر الفقیہ اور تہذیب الاحکام جیسی تالیفات کی بنیادیں استوار کی گئیں۔ ٣٢٩ھ میں محمد ابن یعقوب کلینی کی وفات پر تدوین کا دور ختم ہوتا ہے۔ ( اتفاقاً ٣٢٩ھ ایک سال حزن ہے یعقوب کلینی کے علاوہ والد شیخ صدوق، اور چوتھے نائب علی بن محمد سمری کی وفات اور یہی سال غیبت کبریٰ کا آغاز)

اس تدوینی دور میں ائمہ کی موجودگی میں بے شمار صحابہ کرام اور شاگردوں کو اپنی علمی صلاحیت دکھانے کا موقع ملا۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں ، میثم تمار، اصبغ ابن نباتہ، ابو حمزہ ثمالی، مالک بن انس، آبان ابن تغلب، زرارۃ ابن اعین، ذکر یا بن آدم، جابر ابن حیان، ہشام ابن الحکم، حسن بن محبوب، حسن بن سعید، ابو سہل، فضل بن شازان اور احمد بن محمد بزنطینی وغیرہ۔

١٤۔ دور مجامیع:

اس دور ( تدوینی) سے ملحق دورمجامیع ہے جس مین فقہ سے متعلق ہماری کتب اربعہ کی تالیف ہوئی جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی : ( ٣٥٠ھ ۔٣٢٩ھ) اہم کتاب اصول کافی، علم حدیث کی یہ کتاب کئی کتابوں کا نچوڑ ہے۔ ٢٠ برس کی محنت کے بعد تیار ہوئی، اس میں ١٦١٩٩ احادیث ہیں۔ ( صحیح بخاری ٢٦٢٣ ،معہ مکررات ٩٦٨٣)

شیخ ابو جعفر محمد بن بابویہ قمی یعنی شیخ صدوق (٣٠٥ھ۔ ٣٨١ھ ) من لا یحضر الفقیہ ۔ ٩٠٤٤ احادیث ِ پیغمبر کو حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ مرتب کیا۔ شیخ صدوق ہمارے مشاہیر حدیث و شیوخ اکابرین میں روشن سورج کی طرح میں ۔امالی صدوق اور ٢١٤ کتابوں کے مصنف۔(من لا یحضر الفقیہ کی کتاب توحید ١٣٠٧ھ میں مطبع جعفری لکھنو نے ٤ جلدوں میں شایع کیا ہے)۔

ابوعبداﷲ محمد بن نعمان بغدادی ، شیخ مفید (٣٣٦ ھ۔ ٤١٣ھ) حدیث و فقہ میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ تصانیف ٣٠٠ سے زیادہ ہیں۔( شیخ مفید، سید رضی اور سید مرتضیٰ کے استاد) ۔

شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی ( ٣٨٥ھ۔ ٤٦٠ھ) مصنف تہذیب الاحکام اور استبصار (٥٥١١)، فقہ مین ''النہایہ '' اور'' مبسوط'' کتاب کے مصنف ہیں۔تفسیر میں'' تبیان'' اور رجال میں'' فہرست'' آپ کے شاہکار ہیں ۔ استبصار میں متضاد حدیثوں پربحث کی گئی ہے۔

اتنا عظیم سرمایہ جو ہمارے پاس ہے اس میں ایک بھی روایت ایسی نہیں جو غیر معصوم سے چلی ہو۔ معصوم نے کبھی غیر معصوم سے روایت نہیں کی اور نہ ہی ہمارے فقہا نے قیاس پر عمل کیا اتنے نصوص کی موجودگی میں قیاس رائے یا استحسان کا جواز ہی نہیں رہتا۔ ( معصوم اور غیر معصوم سے روایت کا فرق :اصول کافی: اسلام کے ستون صلوٰۃ ، صوم ، زکوٰۃ، حج اور ولایت ، صحیح بخاری صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ، حج اور لا الہ الا اﷲ: بے معنی اور بے عمل الفاظ)۔

١٥۔ دور اجتہاد:

نیابت خاص کا سلسلہ جو غیبت صغریٰ میں کار فرماتھا ٣٢٩ھ میں غیبت کبریٰ واقع ہونے پر نیابت عام میں تبدیل ہو گیا۔ اجتہاد، تقلید اور مراجع پر بحث اس مقالہ کا بنیادی مقصد نہیں ہے لیکن تشیع کے علم و دانش کی راہ میں اجتہاد، ایک نمایاں سنگ میل ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اجتہاد کی اصطلاح عموماً استدلال اور استنباط کی کوششوں کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے جس میں مسلمہ قوانین / قواعد کے ذریعہ احکام کی روح تک پہنچتے ہیں یا مرضی معصوم تلاش کرتے ہیں۔ جو لوگ بوجوہ اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے ان پر فرض ہے کہ در پیش مسائل سے متعلق دینی احکام کو ان لوگوں سے معلوم کریں جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں اس عمل کا نام تقلید ہے۔ یہ سارا نظام اجتہاد و تقلید مجتہد کے ذریعہ عمل پیرا ہے جو مراجع یا اجتہاد کے مراکز ہیں۔ غیبت صغریٰ کے دوران نوابین کو فتویٰ کی ترغیب یا اختیار دیا جانا اس اصول کے جواز کی دلیل ہے۔ قرانی آیات جن میں جاہل کو عالم کی اتباع کی ہدایت ہے تقلید کے اصول کی تائید کرتی ہے۔ مجامع حدیث میں اس ضمن میں ١٠٠ سے زائد احادیث ہیں (ابن حسن نجفی ''تقلید اوراجتہاد'' اور'' تقلید پر اعتراضات کا تجزیہ'' جمیع دانشمندان)۔ آخر میں مراجع سے متعلق امام حسن عسکری (ع) کا ارشاد ہے'' جو فقیہ خود کو سنبھالے ہوئے ہوں اپنے دین کی رکھوالی کرتے ہوں ۔ خواہشات نفسانی کا ساتھ نہ دیتے ہوں اور خدا وند عالم کے فرمان بردار ہوں تو عوام کو چاہئے کہ ان کی تقلید کریں۔ (وسائل الشیعہ)

١٦۔ حوزہ ھای علمیہ:

ان ارشادات کی روشنی میں حوزہئ علمیہ قائم ہوئے جو تشیع کے علم و دانش کے مرکز کے طور پر علوم محمد و آل محمد کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور گذشتہ ١١ سو سال سے تسلسل کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ماسوا بعض عارضی بندشوں کے استادشا گرد کا رابطہ منقطع نہیں ہوا۔ ابتدائی دنوں میں بغداد شیعہ فقہ کا مرکز تھا بعد شیخ طوسی کے ہاتھوں نجف مرکز قرار پایا۔ کچھ عرصہ بعد جبل عامل (لبنان) مرکز بنا۔ پھر عراق میں حلہ اور پھر شام میں حلب فقہا کے مرکز بنے۔ صفویوں کے زمانہ میں فقہ کی مرکزیت اصفہان کو ملی اور اس زمانہ میں مقدس اردبیلی اور دوسرے بزرگوں کے ذریعہ نجف کے حوزہ علمیہ نے نئی زندگی پائی جو آج تک باقی ہے۔ ایرانی شہروں میں قم ابتدائی صدیوں میں ہی مرکز فقہ بن گیا تھا۔ ١٣٤٠ھ میں شیخ عبدالکریم یزدی نے اس میں نئی روح پھونکی اور آج قم دنیائے تشیع میں تحقیق کا انتہائی فعال مرکز ہے۔

١٧۔ مراجع تقلید و اجتہاد

تشیع کے علم و دانش کے کارواں کے رہنماؤں میں قد آور شخصیتیں نظر آتی ہیں جن کا تعلق علوم قرانی، حدیث ، سیرت، رجال، فقہ، تفسیر تاریخ، علم کلام ، صرف و نحو، فلکیات اور جدید علوم سے ہے۔ علامہ ابن حسن نجفی نے ''تقلید و اجتہاد'' میں ٣٤٠ھ سے ٤١٥اھ کے عرصہ پر محیط ١٤٢ مجتہدین کی فہرست دی ہے۔ سید آل محمد مہر جائسی نے ''گوہر یگانہ'' میں نواب اربعہ سے لیکر ١٣٠٠ھ تک ٢٥ منتخب علماء وفقہا کی فہرست دی ہے اس میں بر صغیر ہندکے علما بھی شامل ہیں۔ استاد شہید مرتضیٰ مطہری نے رسالہ توحید میں( علم فقہ مترجم ابو جواد) ٣٦ اہم فقہاء ومحدثین کا تذکرہ کیا ہے۔ متذکرہ بالا ما خذوں سے ٢٨ علماء کی فہرست ترتیب دی گئی ہے جو بطور ضمیمہ شامل ہے۔

متذکرہ فہرست سے عیاں ہوتا ہے کہ ہمارے حوزہ ہائے علمیہ دنیوی علائق، و انقلابات کے باوجود بلا وقفہ اپناکام کرتے رہے اور علم و دانش کی امانت کو گزشتہ ١٤ سو سال میں نسلاً بعد نسلاٍمنتقل کر رہے ہیں یہ وصل قول اور تسلسل فکر کا سرمایہ ہے جو ہر راہ سے معصوم تک پہنچتا ہے اور یہی تشیع کا امتیاز ہے۔ تشیع کے علمی سفر پر نظر ڈالیں تو کئی قد آور شخصیتیں نظر آتی ہیں جنہوں نے اس کاروانِ علم کی قیادت کی ہے ۔دور اجتہاد جاری ہے اور ظہور امام تک رہیگا۔

١٨۔دور اجرائ:

شریعت کی تکمیل کا اخری مرحلہ '' دور اجرائ'' ہے اجراء کا مطلب نفاذ شریعت ، جس کے لئے حاکم دین کے پاس ضروری علم ، بصیرت، اختیار اور نفاذ کی طاقت موجود ہو۔ دورخلافت ِ راشدہ یعنی ٤٠ھ تک خلیفہ وقت کے پاس یہ اختیار موجود تھا۔ اس کے بعد ٣٦٠ ھ تک ہمارے ائمہ ہدایت کے سر چشمہ رہے لیکن اجرا شریعت پر ملوکیت قابض ہوگئی اور اس قدر بدنام ہوئی کی امام اضا ؑ نے دور ماموں رشید میں اپنی ولی عہدی کو امور سلطنت سے بے تعلق رکھا۔ گذشتہ١١ سو سال میں ہمارے مراجع تقلید کے پاس اجراء شریعت کیلئے کوئی موثر طاقت نہیں ہے صرف جائز نا جائز اور حلال و حرام کی نشاندہی کیجاتی ہے ۔ بعض مقامی تنازعوں میں مثلاً نمک بنانے اور تمباکو کی کاشت اور مشروطیت کے سلسلہ میں ایرانی علماء نے اپنی بالا دستی قائم رکھی۔ حالیہ صدیوں میں ولایت فقیہ کی محرکات کے تحت برادر مملکت ایران میں اجراء شریعت ، دستوری طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس پر علما کی گرفت ہے۔ (اسلامی جمہوریہ ایران کا آئیں ترجمہ محسن علی نجفی: ڈاکٹر عسکری حسین، انقلاب ایران کے اثرات )

ظہور امام کے ساتھ ہی دور اجرا شروع ہوگا جس کا مقصد ظلم و ستم کا خاتمہ اور عدل وانصاف کی بالا دستی ہوگی اس دور اجراء کے تقاضوں میں ہمیں اس اعتقاد پر قائم رہنا ہوگا کہ امام ایک با صلاحیت گروہ کی تیاری میں مصروف ہیں جس کے اراکین آنے والے وقت کے مطابق علم و دانش اور عملی صلاحیت کے حامل ہونگے۔ امام کو اپنے مقصد کے حصول اور مطلق العنان حکومتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے ان حکومتوں کے پاس موجود اسلحہ سے برتر اسلحہ کی ضرورت ہوگی۔ سائنسی اور ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ نئے نئے مہلک ہتھیار بنائے جار ہے ہیں۔

اسی طرح ایک عالمی حکومت کے قیام کے لئے موثر مواصلاتی ذرائع کی ضرورت ہوگی۔ گذشتہ تین صدیوں کے صنعتی انقلابات اور ٹکنالوجی کے ارتقا کو دیکھتے ہوئے فوری آنے والی ٹکنالوجی کی تبدیلیوں کی پیشگوئی تو کی جاسکتی ہے لیکن لمبی مدت میں ٹکنالوجی کے فروغ اور پھیلاؤ اور اس کی نوعیت کے متعلق حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ دہشت گردی اور استعمار کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ چاہے تو دنیا کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ کے لئے حضرت امام مہدی (ع) کے دور میں علم کی برق رفتار ترقی، صنعت کی فوق العادت ترقی، عظیم معاشیاتی ترقی، قضاوت کی ترقی حتیٰ کہ تمام فکری اور ثقافتی شعبوں میں از سر نو تعمیر لازمی امر ہے اور یہ تمام عناصر ، یملا الارض قِسطًا و عَدلًا کما ملنت ظلمًا وجوراً کے ہدف کے حصول کے لئے ضروری ہیں۔ انقلاب مہدی کے حوالے کتابوں اور حدیثوں میں جا بجا، قلم اور تلوار کا ذکر آیا ہے یہ الفاظ تمثیلی یا سمباًلک ہیں یعنی ''قلم'' علم و دانش کی نمائندگی کرتا ہے تو ''تلوار'' طاقت ہنر مندی اور ٹکنکی صلاحیت ہے۔ موجودہ دور کی کمپیوٹر کی اصطلاح میں ایک سوفٹ ویئر ہے تو دوسرا ہارڈ ویئر ، ملاقات امام کے واقعات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن کے دل عشق خدائے تعالیٰ سے لبریز ہیں اور ہر طرح کی فداکاری کے لئے آمادہ ہیں دنیا کی اصلاح کے مشن کو پورا کرنے ایک ضربتی گروہ(Striking force) کا نام دیں گے۔ اچھی صلاحیتوں کے حامل ٣١٣ افراد میں امام کے ضربتی گروہ کا ہر اول دستہ ہوگا جس میں شمولیت کی مومن ہر روز دعا کرتا ہے۔ خدا ہماری دعا قبول کرے۔ آمین

١٩۔ حاصل کلام:

انسانوں کی رہنمائی کے لئے ایک حجت خدا کا وجود ضروی ہے جو اس نظام کائنات کو قدرت کی مرضی کے مطابق تکمیل کے مراحل تک پہنچائیگا۔ ابتدائی دور میں نواب اربعہ کے ذریعہ حجت خدا تک رسائی ممکن تھی۔ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں نیابت عالہ کا سلسلہ بذریعہ مجتہدین ، علما اور مراجع علمی قائم ہوا جواب تک جاری ہے وجود مہدی اور فلسفہ غیبت کے نظریات نہ صرف قران اور حدیث کے معیار پر بلکہ عقلی اور سائنسی طرز فکر سے بھی ہم آہنگ ہیں۔

انتظار امام کے طویل عرصہ میں تشیع کا کارواں علم و دانش فعال عنصر کے طور پر ایک قابل فخر ماضی کا حامل ہے اور ہم ایک قیمتی سرمایہ علمی پر اعتماد کرتے ہیں۔ مستقبل کے تقاضوں میں سائنس اور ٹکنالوجی پر دسترس حاصل کرنا اور کردار کی بلندی اہم لازمات ہیں۔ دنیاے ظلم و جور کے خاتمہ اور عدل و انصاف کی بالادستی قائم کرنے میں مہدی کے مقصد سے وفاداری اور اس کے حصول کے لئے آمادگی ضروری ہے۔ والسلام

حوالے /کتابیات:

١۔ فیروز حیدر عابدی:وڈیو ٹیپ، مجالس آکٹن ہال ، لندن ١٩٨٠ئ

٢۔ شیخ صدوق:'' کمال الدین و اتمام نعمۃ '' مترجم گروہ منتظم، نظر ثانی عطا محمد عابدی، الکسا پبلشرز، کراچی ١٩٩٩ئ

٣۔ ڈاکٹر شاہد چودھری:'' اسباب غیبت حضرت محبت '' ثقلین، ج ٤ ۔ش١ ١٩٩٧ء اسلام آباد

٤۔ خادمی شیرازی: ''غیبت امام عصر یا پنہانی خورشید عدالت'' موسسہ انتشاراتِ رسالت ۔قم ١٣٧٧ھ ایرانی

٥۔ مولانا ظفر حسن: تفسیر القران، جلد اول، شمیم بک ڈپو، ناظم آباد کراچی۔ ١٩٧٧ئ

٦۔ ناصر مکارم شیرازی: بہار انقلاب، مترجم سید محمد عسکری۔ بنیاد بعثت ، تہران ١٤٠٢ھ

٧۔ باقر الصدر: ''انتظار امام'' مترجم محمد فضل حق۔ جامعہ تعلیمات اسلامی، کراچی ١٩٨٥ئ

٨۔ عبدالہادی فضلی۔ ''در انتظار امام''۔ مترجم ڈاکٹر حبیب روحانی، بنیاد پژوھشہائی اسلامی، مشہد ١٣٧٣ھ

٩۔ شیخ عبدالمحسن العباد: ''مہدی اور علمائے اہل سنت''۔ مجلہ الہادی، مدینہ یونیورسٹی

١٠۔ علی محمد علی دخیل:'' امام مہدی الزمان علیہ السلام '' مترجم مولانا صفدر حسین نجفی، مصباح الہدیٰ پبلیکشنز۔

لاہور ١٤٠٩ھ

١١۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری: ''القول المعتبر فی الامام المنتظر'' ۔ منہاج القرآن پبلیکشنز لاہور ۔ ٢٠٠٢ئ

١٢۔ عباس راسخی نجفی: ''غیبت صغریٰ میں نائبین امام۔ حالات زندگی'' مترجم سید اختر عباس۔

امامیہ پبلیکشنز لاہور ١٩٩٥ئ

١٣۔ علامہ رشید ترابی۔ مجالس عسکرئین۔ آڈیو ٹیپ۔ ١٩٦٩ئ

١٤۔ ابن حسن نجفی :'' تقلید اور اجتہاد'' ادارہ تمدن اسلام۔ کراچی ٢٠٠٣ئ

١٥۔ جمیع دانشمندان: ''اجتہاد و تقلید پر اعتراضات کا تجزیہ''۔ ورلڈ اسلامک فاؤنڈیشن ، کراچی ١٩٩٦ئ

١٦۔ استاد شہید مرتضیٰ مطہری : علم فقہ، مترجم ریو جواد، توحید،

١٧۔ سید آل محمد مہر جائسی : ''گوہر یگانہ'' مترجم سید حسن امداد۔ محفوظ بک ایجنسی ۔ کراچی ١٩٩٠ئ

١٨۔ ڈاکٹر مرزا عسکری حسین: انقلاب ایران کے اثرات، زر افشاں عسکری(ناشر) کراچی ۔ ٢٠٠٣ئ

١٩۔ اسلامیہ جمہوری ایران کا آئین، ترجمہ محسن علی نجفی، مرکزی تحقیقات فارسی، ایران ۔ پاکستان ١٩٨٠ئ

٢٠۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی: ''نقوش عصمت'' چاردہ معصومین کی مکمل سوانح حیات۔ محفوظ بک ایجنسی ۔

کراچی ٢٠٠٠ئ

٢١۔ سید مرتضیٰ حسین: ''مطلع انوار، تذکرہ شیعہ افاضل ، علما کبار بر ضغیر پاک وہند'' خراسان اسلامک ریسرچ سینٹر۔

کراچی ١٩٨١ئ


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment