اردو
Friday 29th of March 2024
1
نفر 0

اسلام ایمانی وحد ت کا پیام بر

اتحادقوموں  کی کامیابی کا بنیادی عنصر ہے جس کی اساس  پر ناقابل تسخیر اور محفوظ شاہراہ زندگی تعمیر کی جا سکتی ہے   ــــــ ایک ایسی شاہراہ جس کے پیچ و خم خواہ کتنے ہی صبرا?زما کیوں  نہ ہوں ، جس کی مسافت کتنی ہی طویل کیوں  نہ ہو، جس کا راستہ خاردار ہی کیوں  نہ ہو،اس  کی لازوال نعمت سے بہرہ ور قوموں  کے لئے راہوں  کی سختیاں ، دشواریاں  اور تنگیاں  بے معنی ہو کے رہ جاتی ہیں ۔ اس کے بالمقابل''انتشار'' انسانی دل و دماغ کو مقفل کر دیتا ہے، تمام راہیں  مسدودکر دیتا ہے، مقابل کے سامنے پسپا کر دیتا ہے اور ا?سان راہوں  کو دشوار گزار بنا دیتا ہے۔ زندگی کو جلّا بخشنے والا یہ گوہر صرف انسانوں  کی دنیا میں  ہی قدر کی نگاہ سے نہیں  دیکھا جاتا، بلکہ حیوانات و بہائم بھی اس کے ثمرات سے انجان نہیں ۔ جنگلی جانوروں  اور حیوانات کے باہم اتفاق کو دیکھ کر تو کبھی کبھی انسانوں  کو بھی رشک ہونے لگتا ہے۔ غرض اتحادقوموں  کی زندگی کے لئے حیات اور انتشار موت ہے۔ یہ عجیب سلسلہ? قدرت ہے کہ اتحاد ہمیشہ اختلاف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور اتفاق کی یہ قدر و قیمت اور عظمت بھی اختلاف کے سبب ہے۔ معلوم ہوا کہ اختلاف کوئی ضرر رساں  یا متروک شئے نہیں  ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک فائدہ مند جزو لا ینفک ہے۔ جس طرح رات کی تاریکی دن کے اجالے کی قدرو قیمت کا احساس دلاتی ہے، بیماری صحت و تندرستی کی نعمت بیش بہا کا احساس دلاتی ہے، ٹھیک اسی طرح اختلاف اتحاد کی راہیں  ہموار کرنے کا سبب بنتا ہے۔ انسان کا ذکر کرتے ہوئے قرا?ن میں  اللہ پاک فرماتا ہے: ''ہم نے انسانوں  کو گناہ کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کے دونوں  وصف دئے'' اب جب کہ انسان گناہ کرنے کا اہل ہے اور نفس راغب بھی کرتا ہے مگر اس کے باوجود وہ تقوی کو اختیار کر لے تو یہ کمال شرف اور باعث اعزاز ہے۔ اسی لئے جنت کے حصول کی سعادت اور جنت کا آرام و انعام فرشتوں  کے بجائے انسانوں  کے مقدر ٹھہرا، تجلیات ِخدا وندی اور دیدارِ الٰہی انسانوں  کے حصہ میں  آیا۔دربارے الٰہی میں  انسانی فرماں  بردارانہ روش  کی قدر کی گئی۔ فرشتوں  کا تقویٰ اور ان کی عصمت ان کو وہ مقام نہ بخش سکی جو حضرت  انسان لے اْڑا۔اس لئے کہ اس نے حکمت و دانشمندی کی راہ اختیار کی، خواہشاتِ نفسانی سے منہ موڑا اور اپنے رب کے فرمان کی تعمیل کی تو فوز و فلاح نے اس کے قدم چومے۔  ارشاد خداوندی ہے۔

''اور مضبوط پکڑے رہو اللہ تعالیٰ کی رسی کو،اس طور پر کہ تم سب باہم متفق بھی رہو اور باہم نااتفاقی مت کرو اور تم پر جو اللہ کا انعام ہے اس کو یاد کرو جب کہ تم ا?پس میں  دشمن تھے، پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے قلوب میں  الفت ڈال دی سو تم اللہ کے انعام سے ا?پس میں  بھائی بھائی ہو گئے اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری جان بچائی۔''(ا?ل عمران?٣ـ١)

اس ارشاد ِالٰہی کی روشنی میں  ہمیں  جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جس امت کو یہ حکم دیا گیا تھا وہ اس کو کس قدر بجا لائی اور جب بھی ملت نے اس قرآنی نصیحت پر عمل کیا تو اسے کیا حاصل ہوا اور اس نصیحت سے اعراض کر کے امت نے کیا کھویا؟اس ا?یت کریمہ میں  اولاًاللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر ''تفرقہ بازی'' سے بچنے اور دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی احکام شریعت کی مکمل پیروی بھی لازمی اور باہم اتفاق و اتحاد کو قائم رکھنے کا حکمِ رْبانی بھی اس قدرے طویل ا?یت کریمہ میں  ان دو گرانقدر نصیحتوں  کے بعد اللہ پاک اپنے احسانات کی یاددہانی کراتے ہوئے اپنے انعامات و احسانات کا ذکر بھی کرتے ہیں  کہ تم جب ہلاکت کے قریب تھے ہم نے تمہیں  اس انجام بد سے بھی بچایا اور پھر تمہارے قلوب کی کیفیت کو بھی بدل ڈالا اور تمہارے دلوں  میں  ایک دوسرے کی محبت و الفت ڈال دی۔

حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با صفات پر ان احکامات کا نزول در اصل امت کی براہ راست راہنمائی اور راہبری تھی اور امت کو بے اعتدالی اور گمراہی سے بچنے کے لئے سود مند نصیحتیں  بھی تھیں ۔ اسلام کی انہیں  عالی تعلیمات کے اثرات تھے کہ جنگ و جدل اور ہمیشہ باہم دست و گریباں  رہنے والے اہل عرب جن کی سفاکیت، سنگدلی اور خوں ریزی کے چرچے ہر سو تھے، فرسودہ طبقاتی اور قبائلی اَنّا اور پھر بات بات پر نسل در نسل جنگوں  کا سلسلہ جاری رکھنا، جن کے ہاں  قتل کرنا اور قتل ہونا معمول کا قصہ تھا، خاندانی انّا کی بقائ  کے لئے انسانی خون اس قدر ارزاں  تھا کہ دشمن کا خون اس کی کھوپڑی میں  پی کر اپنی پیاس بجھانا جن کے ہاں  محبوب مشغلہ تھا، ایسی بے ہنگم قوم کی رشد و ہدایت اور کلی اصلاح کے لئے جب نبی صلعم اْمی کا ظہور ہوا اور قرا?ن نازل ہوا تو نبی صلعم  کے وجود کی برکت دیکھئے اور قرا?ن کی تعلیمات کا اثر دیکھئے کہ وہی قوم قریشی و ہاشمی ایسی سنورگئی کہ رہتی دنیا تک کے انسانوں  کے لئے نمونہ? عمل بن گئی۔ اس کی خوبیوں  کے تذکرے خود ربِ کائنات نے کئے اور یوں  فرمایا کہ ''اہلِ ایمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر دوسروں  کو ترجیح دیتے ہیں ۔'' (الحشر:٩) کہاں  وہ قوم جو گھوڑ دوڑ میں  مدمقابل کے ایک قدم پہلے اْٹھنے پر لڑ پڑتی ،جہاں  تربیت کا یہ اثر کہ اب دوسروں  کی فکر میں  اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں ،اور پھر اسلام کی عالی تعلیمات کا کمال دیکھئے اور محمد عربی صلعم  کی صحبت کا اثر دیکھئے کہ قرا?ن نے حلقہ? نبی صلعم میں  رہنے والوں  کے تذکرے کس کس پیرایہ میں  کئے۔

''اور جو لوگ ا?پ? کے صحبت یافتہ ہیں  وہ کفار کے مقابلہ میں  تیز اور ا?پس میں  انتہائی رحم دل۔ ا?پ کبھی ان کو رکوع میں  دیکھیں گے، کبھی سجدہ کی حالت میں  وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کی جستجو میں  لگے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تاثیر ان کے چہروں  پر ہے۔'' (الحجرات:٩٢)

بیان کردہ قرا?نی تذکروں  اورتاریخی حوالوں  کی روشنی میں  غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے پستی اور بدحالی کا نمونہ اہلِ عرب کے تذکرے خود خالق کائنات نے کئے اور پھر ان کے حالاتِ زندگی کو کامیابی کی شاہ کلید قرار دیا۔ مذکورہ قرآنی آیات سے خیر القرون کے مسلمانوں  کے بے مثال ''اتفاق و اتحاد'' کا علم ہوتا ہے اور یہی وہ بنیادی وصف تھا جس کے سامنے فارس اور روم کی سلطنتوں  کو زیر ہونا پڑا۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدس اور صحابہ کرام? کی جماعت خود نمونہ? عمل تھی اور وہ جانتے تھے فتوحات کا راز کیا ہے، صحابہ? کا سب سے مو?ثر دفاعی ہتھیار بے مثال باہم اتحادتھا  جس کی بنیاد نہ تو ذات برادری تھی ، نہ علاقہ و قبیلہ تھا اور نہ حصولِ اقتدار تھا بلکہ معرفت الٰہی اور خلوص و ایثار تھا۔ اسلامی تاریخ کے اس درخشندہ باب کے پس منظر میں  ا?ج ہمیں  ماضی کے دریچوں  میں  جھانکنے کی ضرورت ہے اور اپنے حالات اور کردار کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ایسا نہیں  کہ ہمارے اندر اتحاد نہیں  بلکہ سچ جانئے ہمارا اتحاد لا مثال اتحاد ہے مگر ا?ہ ! یہ اتحاد کہیں  لسانی ہے، کہیں قومی ہے، کہیں  گروہی ہے، کہیں  علاقائیت پر مبنی ہے اور ان خانوں  میں  بٹنے اتحاد کو پروان چڑھانے میں  ہماری تمام صلاحیت لگ رہی ہے۔ ہر قوم ہر گروہ ہر علاقہ اپنی زبان، اپنی فکر اور اپنی پہچان کو باقی رکھنے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ اسی لئے علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا    ?

 

فرقہ بندی ہے کہیں  اور کہیں  ذاتیں  ہیں

کیا زمانے میں  پنپنے کی یہی باتیں  ہیں

مسلمانوں  کی برہنہ خانگی تقسیم اور علاقائیت اور عصبیت کا جنون ایسے شباب پر ہے کہ ملّی مسائل کے حوالہ سے کسی کو سوچنے کی فرصت ہی نہیں ۔ عوام سے خواص تک، جہلائ  سے علمائ  تک، اور سیاستدانوں  سے دانشوروں  تک اکثر لوگ کسی نہ کسی مخصوص حصار میں  اپنے نجی اور مخصوص گروہی مفادات کے حصول کے لئے دن رات سرگرداں  ہیں ۔ ان میں  ہر کوئی دوسرے کی تاک میں  ہے، ہر کوئی دوسرے کی ترقی اور خوشحالی سے جل بھن جاتا ہے، ہر کوئی دوسرے کو زیر کرنے کے نسخے تلاش کر رہا ہے۔ ہر کوئی صرف اپنے طرز عمل اور طریقہ کار سے ملت کی خوشحالی کا دعویدار ہے۔ کوئی دوسرے کوتسلیم  کرنے کو تیار نہیں ۔ ہر صاحبِ فکر، ہر ادارہ، ہر گروہ، ہر جریدہ خود کو ملت کا نجات دہندہ سمجھ بیٹھا ہے۔ بالخصوص فکری اورلسانی عصبیت'' نے ہماری فہم و فراست اور فکری پرواز کو اس قدر محدود کر دیا ہے کہ ملی مسائل اب ہمارے ہاں  ثانوی درجہ حاصل کر چکے ہیں  اور اتحاد بین المسلمین جیسا مقدس فریضہ جس کے لئے ہمیں  حکم خداوندی ہے، ہمارے اندر شئے متروک کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔

ا?ج پوری دنیا مسلمانوں  کی حالتِ زار پر تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ کہیں  ہم مذاق کے نشانہ ہیں  ، کہیں  سامانِ عبرت ، ایک لٹے ہوئے مسافر کی طرح ہماری بد حالی ہمیں  پکار پکار کر کہہ رہی کیا تم وہی قوم ہو جس کے سالار کارواں  محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلمنے تمہیں  ذلت و پستی اور گداگری سے نکال کر سارے عالم کے تخت و تاج کا مالک بنایا تھا اور جس نے حسب و نسب کے غرور کو پاش پاش کیا تھا، جس نے ''نہ عربی کو عجمی پر برتری ہے اور نہ عجمی کو عربی پر مگر تقویٰ کے ساتھ'' کا اصول عملاً سکھلایاتھا۔ جس نے عصبیت کے بت توڑ کر صرف ''تقویٰ'' کو وجہ? شرافت و عزت قرار دیا اور یہ عظیم فرمان کہ ''مجھے اس بات کا ڈر نہیں  کہ میری اْمت فقر و فاقہ کا شکار ہوگی بلکہ مجھے اس بات کی فکر ہے کہ جب میری امت کے پاس مال ا?ئیگا تو میری امت کا کیا حال ہوگا''۔ اس فرمان نبوی ?سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس امت کی سرخ روئی کا راز مال و دولت، سرمایہ داری نہیں  بلکہ احکام خداوندی کی پیروی اور تعلیمات نبوی کے اپنانے میں  ہے۔ یہی حق اس دین برحق کو دنیا کے تمام ادیان پر سچا اور پکا ثابت کرتا ہے۔ دنیا کا ہر طبقہ، ہر گروہ ، ہر مذہب اور ہر نظر اپنے غلبہ کے لئے مال و دولت اور سرمائے کو لازمی تصور کرتا ہے مگر اسلام اس سے ہٹ کر بالکل مختلف فکر و سوچ کا حامل ہے۔ اس لئے مسلمانوں  کو یہ جان لینا چاہئے کہ جب تک ہم ایک متحد قوم کی حیثیت سے اپنے وجود کو دنیا کے سامنے تسلیم نہیں  کرواتے اور اسلام کو دستور حیات اور معیارتقویٰ کو اختیار نہیں  کرتے اس وقت تک نہ ہماری کوئی حیثیت ہے ، نہ وقعت ہے اور نہ ''من حیث القوم'' ہمارا کوئی تشخص ہے۔

اسلام نے عرب کے صحرائوں  کی سرحدوں  سے باہر نکل کر سارے عالم میں  انسانوں  کی رْشد و ہدایت کا جو عظیم کارنامہ انجام دیا اس کی وجہ اسلام کی حقانیت، اصحاب نبی صلعم کا بے پناہ خلوص اور کلمہ توحید کی بنیاد پر باہم ودگربے مثال اتحاد تھا۔ ہجرت کے موقع پر انصار صحابہ? کے ایثار قربانی کی مثال تاریخ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جب مہاجرین بے سہارا اور بے گھر تھے، انصاری صحابہ ?کی جماعت اپنے تمام مال اور جائداد میں  اپنے مہاجرین صحابہ کو شریک کیا۔ یہ سب دین متین کی ا?بیاری کی خاطر کیا جا رہا تھا۔ اعلائ  کلم? اللہ کے لئے کیا جا رہا تھا۔ اپنی ذات اور مفادات کے نقصان کو بخوشی قبول کرنا صرف اور صرف اسلام کی سربلندی کے لئے تھا، وہاں  نہ ذات ، نہ قبیلہ اور نہ گروہ بندی تھی بلکہ جان و مال، عزت و آبرو سب کچھ اسلام کی سربلندی اور سرخروئی کی راہ میں  وقف تھا۔ محمد عربی صلعم  نے حسب و نسب کے تفاخر کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، گورے اور کالے کے فرق کو مٹا ڈالا، امیر و فقیر کی خلیج کو ختم کر ڈالا۔ دربار نبوی ?میں  حبشی غلام حضرت بلال? اور خاندان بنی ہاشم کے چشم و چراغ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو یکجا بٹھا کر شاہِ عرب? نے انسانیت پر ناقابل فراموش احسان کیا۔ ایسے تھے ہمارے اسلاف اور یہ تھے کارنامہ اسلام کی عظمت کو چار چاند لگانے والوں  کے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تنگ و تاریک راہوں  سے بجلی کی طرح گزر گئے۔ دور حاضر کے مسلمانوں  نے فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسداری نہ کی، دینی اور ملی مفادات کی خاطر کبھی بھی نہ سوچا۔ مسلمانوں  کی موجودہ بدحالی اور پسپائی کی واحد بنیادی وجہ ان کا باہم دست و گریباں  رہنا ہے،جس کی وجہ سے مسلمانوں  کو اندرونی اور بیرونی دونوں  سطح پر ناکامی کا سامنا ہے۔ اس لئے مسلمانوں  کو کلام الٰہی کے اس پیغام کو جس میں  خداوند کریم نے مسلمانوں  کو ''تفرقہ بازی'' سے بچنے کا حکم دیا ہے سختی سے عمل پیرا ہونا ہوگا اور ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی جو لسانی اور فکری عصبیت کا سہارا لے کر مسلمانوں  کے باہم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں   ؟

نفرت کی بات ہے نہ عداوت کی بات ہے

میری زباں  پے صرف محبت کی بات ہے

اس دورِ انتشار میں  آپس کی دشمنی

سچ پوچھئے اگر تو قیامت کی بات ہے۔


source : http://www.shianet.in
1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment

Xantara
Oh yeah, fbulaous stuff there you!
پاسخ
0     0
1 تير 1390 ساعت 11:28 بعد از ظهر