اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

کیا سنت نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رُو سے مُردوں پر رونا جائز ہے؟

 

جواب : انسان کیلئے اپنے کسی عزیز و اقارب کے مرنے پر غم و اندوھ کا طاری ہونا ایک فطری امر ہے ، جب بھی انسان اپنے کسی جگر پارہ یاعزیز و اقارب کی مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو اس پر غم و اندوھ کا احساس زیادہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے غم اور گریہ پر کنٹرول نہیں کرپاتا ، اس حقیقت سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے ،اسلام ، دین فطرت ہے اور فطرت کی مخالفت نہیں کرتا ، خداوند عالم فرماتا ہے :

”فَاٴَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنیفاً فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہا لا تَبْدیلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَ لکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لا یَعْلَمُونَ “(۱) ۔

آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہیٓ ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے ۔

ممکن نہیں ہے کہ دنیا کا کوئی بھی دین کسی عزیز و اقارب کے فقدان پر گریہ کرنے کو حرام قرار دے جب کہ اس غم و اندوھ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے خدا ناراض ہو، جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، اصحاب اور تابعین نے اس فطرت کو اپنایا ہے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنے بیٹے ابراہیم پر گریہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آنکھوں سے اشک جاری ہوجاتے ہیں ، دل غمگین ہوتا ہے لیکن رضائے پروردگار کے خلاف کوئی کام انجام نہیں دیتے ، اے ابراہیم ! ہم ،تمہاری وجہ سے غمگین ہیں (۲) ۔

مورخین نے بیان کیا ہے : جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تشریف لائے ، آپ نے اپنے بیٹے کو اس کی ماں کی آغوش میں دیکھا تواس کو اپنی آغوش میں لیا اور فرمایا : اے ابراہیم ! ہم رضائے الہی کی خاطر تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکتے ، اس کے بعد آپ کی آنکھیں اشک آلود ہوگئیں، اور فرمایا : اے ابراہیم ! ہم تمہارے لئے غمگین ہیں ، آنکھیں گریہ کررہی ہیں ، لیکن ہم ایسی کوئی بات نہیں کہتے جس سے خدا ناراض ہو، یہ امر حق ہے اور ایسی جگہ ہے جہاں سب کوجانا ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم تمہارے اوپر اس سے بھی زیادہ غمگین ہوتے ۔

عبدالرحمن بن عوف نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے کہا : کیا آپ نے ہمیں گریہ کرنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں ، میں نے دو غلط آوازوں اور دو چیزوں سے منع کیا ہے : ایک مصیبت کے وقت غلط آوازیں دینا، اپنے چہرہ کو زخمی کرنا، گریبان کو چاک کرنا اور شیطان کی طرح آوازیں نکالنا ۔ دوسرے گانے اور لہو و لعب کی آوازیں ۔ لیکن یہ گریہ ترحم ہے اور اگر کوئی رحم نہ کرے تو خدا اس پر بھی رحم نہیں کرے گا (۳) ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا یہ پہلا اور آخری گریہ اپنے عزیز و اقارب کی مصیبت پر نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے بیٹے طاہر کے سوگ میں بھی گریہ کیا اور فرمایاا : آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ، اشک غالب آجاتا ہے اور دل غمگین ہوجاتا ہے لیکن ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس سے خداوند عالم کی نافرمانی ہو(۴) ۔

اسی طرح جب حضرت حمزہ سیدالشہداء کی شہادت ہوئی اور ان کی بہن صفیہ بنت عبدالمطلب ان کے جنازہ پر آنے لگیں تو انصار نے ان کو جنازہ پر آنے سے منع کردیا ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو چھوڑ دو، صفیہ نے جنازہ کے نزدیک بیٹھ کر گریہ کرنا شروع کیا ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی گریہ کرنے لگے ، حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) بھی گریہ کرنے لگیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : میں کبھی بھی تم جیسا داغ نہیں دیکھوں گا (۵) ۔

جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) احد سے واپس آئے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں اپنے شہداء پر گریہ کررہی ہیں اس کی خبر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : لیکن حمزہ پر کوئی گریہ کرنے والا نہیں ہے ۔ انصار نے اپنی عورتوں سے کہا پہلے حمزہ پر گریہ کرو پھر کسی دوسرے شہید پر گریہ کرنا اور یہ رسم آج بھی ان کے درمیان مشہور ہے کہ جب بھی وہ اپنے عزیز و اقارب کی موت پر گریہ کرتی ہیں تو پہلے حضرت حمزہ کی شہادت پر گریہ کرتی ہیں(۶) ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جس وقت جعفر، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر سنی تو آپ کی آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں(۷) ۔ انحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرتے تھے تو اس پر گریہ کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی گریہ کرنے پر مجبور کرتے تھے (۸) ۔ جس وقت آپ نے عثمان بن مظعون کے مرنے پر اس کو بوسہ دیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے (۹) ۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بیٹی کے ایک بچے پر رو رہےتھے تو عبداللہ بن صامت نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، یہ کیساگریہ ہے؟ آپ نے فرمایا : یہ ایسا عاطفہ جس کو خداوند عالم نے حضرت آدم کی اولاد کو عطاء کیا ہے ۔ خداوند عالم اس شخص پر رحم کرتا ہے جس میں عاطفہ پایا جاتا ہے (۱۰) ۔

حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر رورہی تھیں اورکہہ رہی تھیں: والد گرامی! پروردگار نے آپ کو اپنے پاس بلالیا، والد گرامی! آپ نے خدا کی دعوت کو لبیک کہا ،ائے والد گرامی ، میں جبرئیل کو تعزیت پیش کرتی ہیں، بہشت بریں آپ کی بہترین جگہ ہے (۱۱) ۔

اور جب آپ اپنے والد گرامی کی خبر جاتی تھیں تو قبر کی خاک اٹھا کر اپنی آنکھوں پر ڈالتی تھیں اور یہ اشعار پڑھتی تھیں:

جو بھی احمد کی قبر کی متی کو سونگھے اس میں کوئی شک نہیں کہ قیامت تک اس سے مشک و عنبر کی مہک آئے گی ۔

”صبت علی مصائب لو انھا ۔ صبت علی الایام صرن لیالیا“۔

میرے اوپر ایسے ایسے مصائب پڑے کہ اگر وہ مصائب دنوںپر پڑتے تو رات میں تبدیل ہوجاتے۔

حضرت ابوبکر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت پر گریہ کیا اور ایک مرثیہ پڑھا جس کا مضمون یہ تھا کہ آنکھوں گریہ کرواور گریہ کرنے سے ہار مت مانو ، سرور وسالار پر گریہ کرنا جائز ہے ، حسان بن ثابت بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر گریہ کرتے ہوئے مرثیہ پڑھ رہے تھے (۱۲) ۔

1. روم: 30.

2 . سنن ابى داود: ج1، ص58، سنن ابن ماجه: ج1، ص482.

3 . سيره حلبيه: ج3، ص348.

4 . مجمع الزوايد، هيثمى: ج3، ص8.

5 . الامتاع، مقريزى: ص154.

6 . مجمع الزوايد: ج6، ص120.

7 . صحيح بخارى، (كتاب المناقب...) سنن بيهقى: ج4، ص70.

8 . سنن بيهقى: ج4، ص70، تاريخ خطيب بغدادى: ج7، ص289.

9 . سنن ابى داود: ج2، ص63، سنن ابن ماجه: ج1، ص445.

10 . همان، ص58، همان، ص481.

11 . صحيح بخارى (باب بيمارى و وفات پيامبر)، مسند ابى داود: ج2، ص197، سنن نسائى: ج4، ص13، مستدرك حاكم: ج3، ص163، تاريخ خطيب بغدادى: ج6، ص262.

12-سيماى عقايد شيعه، ص 131.

 

 

 

 

 

 


source : http://www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment