اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

اتحاد بین المسلمین

آج تاریخ اسلام بلکہ تاريخ بشریت کا عظیم دن ہے نبی مکرم ورسول اللہ الاعظم حضرت محمد ابن عبداللہ اور امام ناطق بالحق حضرت جعفربن محمد بن علی ابن الحسین بن علی ابن ا بیطالب علیھم سلام اللہ و رحمتہ کی ولادت کا دن ہے۔یہ دن رسول اللہ اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی وجہ سےمسلمانوں کے لۓ  نہایت بابرکت ہے ۔

ان دنوں کو اہتمام سے منانے کا حکم ہماری یاددھانی کے لۓ دیا گیا ہے اس دن ولادت پانے والی ہستی کے بارے میں یاد دھانی کرانے کے لۓہے کہ حقیقت یہ ہےکہ انسانی فہم و ادراک اس قابل کہاں کہ اس عظیم و برتروبالا شخصیت کی حقیقت کو جو نورانیت کے اعلی ترین مراتب پرفائزہے درک کرسکے ہم جیسوں کی زبان پرجو کلمات جاری ہوسکتے ہیں اور جو اس وجود قدسی کے ظاہری پہلووں سے متعلق ہیں بس یہ ہوسکتے ہیں۔

فاق النبیین فی خلق و خلق

ولم یدانوہ فی علم ولا کرم

وکلھم من رسول اللہ ملتمس

غرفا من البحراو رشفامن الدیم

یہ وجود رسول اسلام (ص)کے وہ ظاہری امورہیں جن کا ادراک انسانی عقل کرسکتی ہے اور ان بزرگوار ہستیوں کے احکام و قوانین و کلمات کی برکتوں کے سمندر میں غوطے لگا سکتی ہے ۔

آج ہم مسلمان اور انسان ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ کے محتاج ہیں یہاں تک کے نوع بشر یعنی ساری بشریت رسول اللہ کے وجود  کی برکت و رحمت کی مرھون منت ہے کیونکہ آپ صرف مسلمانوں کے لۓ رحمت نہیں تھے بلکہ رحمۃ للعالمین تھے ۔آپ نے جو چیزرسالت الھی کے عنوان سے انسانیت کو عطاکی ہے اور جو اس رسالت الھی کے تمام امورپرمشتمل ہے "قرآن کریم" ہے آج یہ قرآن ہمارے پاس ہے اورہم اس سے بہرہ مندہوسکتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کو راہ نجات سے آشنا کیا اسے راہ ھدایت دکھائي انسان کو ایسی راہ پرلگایا جس سے اس کی مشکلات ختم ہوسکتی ہیں اس کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔انسان دیرینہ مسائل میں گرفتار ہے جو کسی ایک زمانے یا دورسے متعلق نہیں ہیں،انسانیت عدل و انصاف کی محتاج ہے ھدایت کی محتاج ہے اعلی اخلاق کی محتاج ہے مدداور رہنمائي کی محتاج ہے،انسانی عقل انبیاء الھی کی مدد کی محتاج ہے رسول اللہ نے یہ راہ الھی ھدایت کی تمام تر وسعتوں اورصلاحیتوں کے ساتھ انسان پر کھولی اورانسان جو اس راہ ھدایت الھی کی برکتوں اور الھی عنایات سے بے بہرہ رہ گیاتو یہ خود اس کی اپنی خطاہے وہ خود اس کا ذمہ دارہے کیونکہ اس کا سبب ہماراجہل ہے ہماری کوتاہی کاہلی اور سستی ہے ہماری نفس پرستی اور ہوائے نفسانی کا شکارہونا ہے۔انسان اگر آنکھیں کھلی رکھے اپنی عقل سے کام لے ھمت کرے حرکت کرے اس کے لۓ راہ کھلی ہوئي اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے تمام دیرینہ مسائل اور مشکلات حل ہوجائيں اس کے پرانے زخم بھر جائيں۔

اس دعوت کے مقابل دعوت شیطان ہے شیطان نے ہمیشہ اپنے لاؤلشکر اور اپنے تربیت یافتگان کو انبیاء الھی کے مقابل لاکھڑا کیا ہے جس کے نتیجے میں انسان دوراہے پرکھڑاہوگیا ہے اسی کو صحیح راہ کا انتخاب کرنا ہے۔

آج اسلامی امت نے- تمام اسلامی سرزمینوں میں-شریعت و دین اسلام پر نئے ڈھنگ سے دیکھنا شروع کیا ہے،لمبے عرصے تک غفلت میں مبتلارہنے اور کئي صدیوں تک اسلامی تعلیمات کی حقیقت سے دوررہنے کے بعد آج انسانیت نے آنکھیں کھول دی ہیں عالم اسلام و امت اسلام نے آنکھیں کھول دی ہیں اور احکام اسلام و معارف اسلام کی طرف پلٹ کرآرہی ہے کیونکہ انسان کے بناے ہوۓ مکاتب فکر کی کمزوری وناتوانی ثابت ہوچکی ہے ۔آج عالم اسلام شریعت اسلامی و اسلامی تعلیمات کے سہارے انسانیت کو ترقی وکمال کی طرف ھدایت کرسکتاہے آج دنیا امت اسلامی کی تحریک کی منتظر ہے۔انسان کی سائنسی ترقی نے دین و معنویت اور اخلاق کو کنارے لگادیا ہے جبکہ انسان کا علم و دانش اور عالم کون کے طبیعی حقائق کا نۓ طریقے سے جائزہ لیا جانا ایک ایسا امر ہے جو امت اسلامی کی تحریک کا باعث بن سکتاہے۔عالم اسلام اسلامی معارف کا حامل ہے،پیغمبر کی سیرت آپ کا کلام اور سب سے بڑھ کرقرآن کریم عالم اسلام کے پاس ہے اور اسلامی دنیا آگے بڑھ سکتی ہے ۔

دورحاضر میں جو کچھ ہورہا ہے اور اس میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ہے  عالمی واقعات اور عالمی حالات کا جائزہ لیتے ہوۓ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دویاتین بنیادی امورہیں؟

اول،عالم اسلام کی بیداری ہے وہ باتیں جوعالم اسلام کے مصلحین ، ایک صدی قبل اسلامی دنیا کے مختلف ملکوں،دنیاے اسلام کے مغربی علاقوں اور مشرقی علاقوں میں کہتے ہوۓ تنہائي محسوس کرتے تھے آج مسلمان قوموں کا نعرہ بن گئي ہیں،اسلام کی طرف واپسی،قرآنی تعلیمات کااحیاء،امت واحدہ وجود میں لانے کا عزم امت اسلامی اورعالم اسلام کی عزت و وقارکے جذبات وہ امورہیں جنہیں مصلحین خاص حلقوں میں پیش کیا کرتے تھے اور ان کا حصول دشوارلگتاتھا لیکن یہی چیزیں آج مسلمان قوموں کے اھداف ومقاصد میں شامل ہیں اور ان کا نعرہ بن چکی ہیں۔

آپ کسی بھی اسلامی ملک کو دیکھ لیں خاص طورسے جوانوں اور پڑھے لکھے طبقے کو دیکھیں ان نعروں پر زوردیا جارہا ہے البتہ ایران میں اسلام کی کامیابی نے اس سلسلے میں بنیادی کردار اداکیاہے ،ایرانی قوم نے اپنی قربانیوں،استقامت اور اسلامی عزت ووقارکا پرچم لہراکر اسلامی قوموں کو نئي زندگي عطاکی ہے

انہیں امید سے سرشار کیا ہے اس امید کے نتائج آپ اسلامی دنیا کے چپے چپے میں دیکھ سکتے ہیں یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔

ایک اور ناقابل انکار حقیقت اسلام سے عالمی سامراج کی دشمنی ہے جس میں سامراج سیاسی پروپیگنڈوں سیاسی سرگرمیوں اور اقتصادی لحاظ سے نہایت منظم پرعزم اور تمام  تروسائل و ذرایع استمعال کرتاہوا دکھائي دے رہا ہے۔عالم اسلام کی بیداری بھی سامراج کے لۓ خطرہ شمار ہوتی ہے۔سامراجی طاقتیں یعنی وہ تسلط پسند ممالک جنہوں نے اپنی طاقت او مال و دولت کے سہارے دنیا کے ایک بڑے حصے پرتسلط جمارکھا ہے ،عالمی صیہونی نیٹ ورک، طاقت کے استعمال پریقین رکھنے والی امریکی حکومت،اور وہ مالی ادارے جو اس تسلط پسند نظام کی حامی وپشت پناہ ہیں وہ اسلامی بیداری سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اس کااعتراف بھی کرتے ہیں ۔

مختلف محاذوں سے اسلام کے خلاف آج کل جوکچھ ہورہاہے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہورہاہے یہ کوئي اتفاق نہیں ہےکہ اسلام کے خلاف جوباتیں امریکہ کا صدرکہتا ہے -جوکہ ایک شیطانی سامراجی طاقت کا سرغنہ ہے - وہی باتیں دوسرےاندازمیں عیسائیت کے اعلی رتبہ مذھبی رہنما کی زبان پر بھی جاری ہوتی ہیں۔ہم کسی کا مواخذہ کرنا نہیں چاہتے بلکہ مسئلہ کا تجزیہ کررہے ہیں کہ یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔جرائد میںرسول اسلام کی توہین،دین اسلام پر تشدد پسند ہونے کے الزامات کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے اعتراضات،مسلمان قوموں پرطرح طرح کی تہمیتیں،اس کے علاوہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے صلیبی جنگ اور مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ مخاصمانہ بیانات،یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔دشمن ملت اسلامی کے خلاف صف آراء ہوچکا ہے اور ہرطرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانےکے درپۓ دکھائي دیتاہے اورایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے اس دشمنی میں شدت آئي ہے ۔

تیسری حقیقت بھی نہایت اہم اور قابل توجہ ہے وہ یہ ہےکہ اس پیکار میں ظاہری اور مادی لحاظ سے کی جانے والی منصوبہ بندیوں کے برخلاف بظاہر زیادہ طاقتورمدمقابل یعنی جو سرمایے ، اسلحے اور اقتصادی ہتھیاروں سے لیس ہے امت مسلمہ اور اس عظیم اسلامی تحریک کے ہاتھوں شکست کھاجاتاہے ناکام ہوجاتاہے یہ مسئلہ نہایت توجہ کا طالب ہےکہ مشرق وسطی خاص طورسے مسئلہ فلسطین یا علاقے کے مختلف مسا ئل جیسے مسئلہ عراق مسئلہ لبنان میں امریکی سامراج تمام تروسائل کے ساتھ مداخلت کرتاہے لیکن اسے شکست ہوتی ہے، یہ ایک حقیقت ہے ۔

فلسطین میں بھی سامراجی طاقتوں کو شکست کا سامنا کرناپڑا،کون یقین کرسکتاتھا کہ جدوجھد کرنے والا ایک گروہ جس کا شعارصیہونی حکومت سے مقابلہ کرنا ہے فلسطین میں اقتدار حاصل کرلے گا؟کیا اس بات پریقین کیا جاسکتاتھاکہ لبنان کا ایک مجاھد و مومن اور سرفروش گروہ اپنے ملک پر فوجی جارحیت کو پسپا کرکے دشمن کو ذلت آمیزشکست کا مزہ چکھادے گا یہ امر لبنان کی تینتیس روزہ جنگ میں ثابت ہواہے۔کون یقین کرسکتاتھاکہ عراق میں امریکہ بے پناہ کوششوں اورکثیر تعداد میں فوجیں بھیجنے کے باوجود ملت عراق پر اپنے نظریات مسلط کرنے میں ناکام رہا ہے یہی نہیں عراق کےراستے مشرق وسطی کے عرب علاقوں پرقبضہ جمانے اور ان علاقوں کی حکومتوں اور قوموں کو بازیچہ بنانے میں بھی بری طرح ناکام رہا ہے یہ حقائق سامنے آے ہیں اور ان تمام موقعوں پر سامراجی فریق ہی کو شکست ہوئي ہے جو بظاہر فوجی،اقتصادی ،سیاسی طاقت کاحامل ہے اور جس کے پاس سرماۓ کی بھی کمی نہیں ہے ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تشخص اور سامراجی تشخص کی اس جنگ میں غلبہ اسلامی فریق کو حاصل رہا ان حقائق کومد نظر رکھنا چاہۓ بعض اوقات کہا جاتاہےکہ حقائق کوپیش نظر رکھ کرکام کریں حقیقت پسندی سے کام لیں حقائق یہی ہیں ان ہی حقائق کو تجزیوں اور فیصلوں میں مد نظر رکھنا چاہیے یہ ناقابل انکار حقائق ہیں یہ وہ ناقابل انکار حقائق ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہيں اور ہم انہیں دیکھ رہے ہیں ۔

اگر عالم اسلام امت اسلامی کی عظیم تحریک کو صحیح طریقے سے کامیابی کی سمت لےجانا چاہتاہے تو اسے بعض ضروری اقدامات کرنے ہونگے جن میں سب سے پہلا ضروری امر"اتحاد"ہے اسلامی اتحاد اور اسلامی یکجہتی ۔

مسلم برادر قوموں کو آپس میں لڑاناسامراج کی پرانی سازش ہے جو بہت پہلےسے چلی آرہی ہے "لڑاؤاور حکومت کرو"ایک پرانی پالیسی ہے اس سلسلے میں ہم سب نے بہت کچھ کہا سنا ہے اور ہم سب کو یہ معلوم ہے لیکن افسوس کہ بعض موقعوں پر ہمارادشمن یہی پالیسی اپناتاہے اور ہم غافل ہیں اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے۔غلط تجزیہ و تحلیل کی وجہ سے اپنی تنگ نظری کی وجہ سے اپنے ذاتی یا کچھ دنوں کے مفادات کو طویل مدت مفادات پرترجیح دینے کی وجہ سے ۔

آج کے حالات پرنگاہ ڈالیں سامراج کی پالیسی فلسطینی گروہوں کے درمیان جنگ چھیڑنا ہے عراقی گروہوں کو آپس میں لڑانا ہے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانا ہے عرب و غیر عرب ملکوں میں اختلافات پھیلاناہے یہ ساری پالیسیاں جانی پہچانی ہیں ،ہم سب کواس کا سب سے پہلے علاج کرنا چاہیے۔ہم یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ امت اسلامی کااتحاد ایک ضرورت ہے اوراس سال کو قومی اتحاد اوراسلامی یکجہتی کا سال قراردیاہے۔اسلامی یکجہتی میں ایک طرح سے سارا عالم اسلام شامل ہے ہمیں یکجھتی کا مظاہرہ کرناہوگا ایک دوسرے کی مددکرنی ہوگي اسلامی حکومتوں کوبھی اور اسلامی قوموں کو بھی

اسلامی حکومتیں اتحاد قائم کرنے کے لۓ اسلامی قوموں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرکے اپنا کردار اداکرسکتی ہیں۔

بہت سی چیزیں اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ان میں اہم ترین بعض غلط فہمیاں اور جھالت ہے ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ایک دوسرے کے سلسلے میں توھمات کا شکار ہیں ایک دوسرے کے عقائدوافکار کے بارے میں غلطیوں کا شکارہیں،شیعہ سنی کے بارے میں سنی شیعہ کے تعلق سے ایک قوم دوسری قوم کے تعلق سے اپنے ہمساے کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور دشمن بھی غلط فہمیوں کو بھرپورطرح سے ہوا دے رہا ہے اور افسوس کہ کچھ لوگ ان ہی غلط فہمیوں کے زیر اثر غلط تجزیے کرتے ہیں دشمن کی جامع سازش کو نظر اندازکردیتے ہیں اس کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتے ہیں اور دشمن ان سے غلط فائدہ اٹھاتاہے ۔کبھی کبھی ایک چھوٹا سا محرک انسان کو بیانات دینے اور موقف اختیارکرنے پر مجبورکردیتاہے ایسا کام کرنے پر مجبورکرتاہے کہ دشمن اس سے اپنی سازش کے حق میں استفادہ کرتاہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتاہے ۔

عصر حاضرمیں عالم اسلام کے مسائل کا بنیادی حل "اتحاد"ہے مسلمانوں کو آپس میں متحد ہونا ہوگا،علماء اوردانشورحضرات مل بیٹھ کراتحاد اسلامی کامنشورتیارکریں ایسا منشورتیار کریں کہ کج فہم و متعصب اور وابستہ  افراد مسلمانوں کی بڑی جماعت کو آسانی سے اسلام سے خارج قرارنہ دےسکے اور ان پر کفر کا فتوی نہ لگاسکے۔آج تاریخ اسلامی علماء و دانشوروں سے تقاضہ کررہی ہےکہ اس طرح کا منشورتیارکیاجاےاگرآپ نے یہ کام انجام نہ دیا  تو آئندہ آنے والی نسلیں آپ کا مواخذ ہ کریں گي۔آپ دشمن کے اقدامات کو دیکھ رہے ہیں، اسلامی تشخص کو نابود کرنے اور اسلامی امت میں اختلافات ڈالنے کے لۓ اس کی کوششوں کا مشاھدہ کررہے ہیں آپس میں بیٹھیں علاج تلاش کریں اصول دین  کو فروع دین  پر ترجیح دیں فروع دین میں ممکن ہے ایک مذھب کے پیرووں کے درمیان اختلاف موجود ہواس میں کوئي حرج نہیں ہے ۔مسلمانوں کے درمیان بہت سے مشترکات پاے جاتے ہیں ان مشترکات کے محورپر سب اکٹھا ہوں دشمن کی سازشوں  اور چالوں سے ہوشیا ررہیں۔خواص (اھل علم )آپس میں مذھبی امور پر بحث و گفتگو کريں لیکن عوام میں یہ بحثیں نہ لے جائيں ایک دوسرے کی نسبت دلوں میں کدورت پیدا نہ کریں اسلامی فرقوں اسلامی قوموں اور ایک قوم کے مختلف گروہوں کے درمیان  دشمنیوں میں اضافہ نہ کریں ۔

سامراج اسلام کونابود کرنا چاھتاہے اسلام کو نشانہ بنانا چاھتاہے ہم سب کو یہ بات سمجھنی ہوگي سامراج کی نظرمیں شیعہ سنی میں کوئي فرق نہیں ہے سامراج ہراس قوم گروہ اور شخصیت سے خطرہ محسوس کرتاہے جو اسلام پر زیادہ عمل کرتاہے کیونکہ اسلام درحقیقت سامراج کے تسلط پسندانہ اھداف و مقاصد کے  لۓ خطرہ ہے غیرمسلم قوموں کے لے نہیں سامراج اس کے برخلاف پروپگینڈا کرتاہے ،سامراج فنون لطیفہ،تشہیراتی ہتھکنڈوں سیاست اور ذرایع ابلاغ سے استفادہ کرتے ہوۓ اسلام کے خلاف یہ پروپگینڈا کررہا ہے کہ اسلام دوسری قوموں اور ادیان کے لۓ خطرہ ہے ایسا نہیں ہے اسلام دیگر ادیان کا مخالف نہیں ہے ۔اسلام وہی دین ہے کہ جب اسلامی سپاہ نے غیر مسلم سرزمینیں فتح کیں تو دیگر ادیان کے پیرووں نے اسلامی رحمت و مھربانی پر  شکروامتنان کا اظہارکیا اور مسلمانوں سے کہا کہ آپ ہم پر ہمارے سابق حکمرانوں سے زیادہ مہربان ہیں،اسی شام کے علاقے میں جب مسلمان فاتحیں داخل ہوۓ تو یہان بسنے والے یہودیوں اور عیسائيوں نے مسلمانوں سے کہا کہ آپ لوگ بڑی مہربانی سے ہمارے ساتھ پیش آرہے ہیں مسلمانوں نے عوام کے ساتھ نرم رویہ اختیارکررکھاتھا۔اسلام دین رافت و رحمت ہے رحمۃ للعالمین ہے اسلام عیسائیت کو یہ پیغام دیتاہے کہ "تعالواالی کلمۃ سواءبیننا و بینکم ان کے ساتھ مشترکات کا جائزہ لیتاہے اسلام دیگر قوموں کامخالف نہیں ہے دیگر ادیان کا مخالف نہیں ہے بلکہ ظلم کا مخالف ہے سامراج کا مخالف ہے تسلط پسندی کامخالف ہے تسلط پسندوں ظالموں اور مستکبریں نے اس حقیقت کو توڑمروڑکر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ تمام تروسائل سے استفادہ کرتے ہیں ھالیووڈ سے لیکر تشہیراتی وسائل وذرائع نیزہتھیاروں اور فوجی طاقت سے استفادہ کرتے ہیں تاکہ اس حقیقت کودنیا کے سامنے  توڑمروڑکرپیش کرسکیں۔

اسلام و اسلامی بیداری سامراج کے لۓ خطرہ ہے اور سامراج جہاں بھی اس خطرہ سے روبروہوتاہے وہاں حملے شروع کردیتاہے خواہ سنی ہوں یا شیعہ ہوں سامراج فلسطین میں تحریک حماس کو جس نگاہ سے دیکھتاہے اسی نگاہ  سے حزب اللہ لبنان کوبھی دیکھتا ہے سامراج کی نظرمیں اسلام کے پابند مسلمانوں میں کوئي فرق نہیں ہے خواہ سنی ہوں یا شیعہ ہوں ،کیا یہ عقلمندی ہے کہ ہم اپنے درمیان قوم پرستانہ رویہ اختیارکریں؟ مذھب وفرقہ کی نظرسے ایک دوسرےکودیکھیں؟ ایک دوسرے سے دست بہ گریبان ہوجائيں؟اوریہ بھول جائيں کہ مشترکہ دشمن ہمیں نابود کرنے کے درپۓ ہے کیا اپنی صلاحیتوں کو اس طرح ضائع کرنا عقلمندی ہے ؟

عالم اسلام کو اپنی عزت و وقار کے لۓ کوشش کرنی چاہیے اپنی خودمختاری کے لے جدوجھدکرنی چاہیے،علمی ترقی اور روحانی کمال حاصل کرنے یعنی دین پرقائم رہنے خداپرتوکل کرنے اور خداکی امداد پر یقین کرنے کی کوشش کرنا چاہیے و"عداتک لعبادک منجزہ "یہ خدا کا وعدہ ہے جو ضرورپوراہوکررہے گا کیونکہ "ولینصرن اللہ من ینصرہ "اس پر تاکیدہے اس وعدہ الھی پر اعتمادکرتے ہوۓ ہمیں میدان عمل میں اترجاناچاہیے عمل سے مراد صرف بندوق اٹھانا نہیں ہے عمل سے مراد فکری سرگرمی بھی ہےعقلی علمی اور اجتماع اور سیاسی عمل بھی ہے۔ سب کو راہ خدا میں اور اتحاد کے لۓ کام کرنا چاہیے اس سے قوموں کو بھی فائدہ ہوگا اوراسلامی حکومتوں کوبھی۔اسلامی حکومتیں اگر اسلامی امت کے بحر بےکران سے متصل ہوجائيں تو طاقتورہوجائيں گي لیکن امریکی سفیر یا کسی امریکی سیاسی رہنما سے وابستگي انہیں طاقت عطانہیں کریگي ۔اگر اسلامی حکومتیں عالم اسلام اورامت اسلامی کے عظیم ٹھاٹھیں مارتے ہوۓ سمندرسے متصل ہوجائيں ،ایک دوسرےسے نزدیک ہوجائيں توکیا سامراج  کسی اسلامی حکومت کو نشانہ بناکر اسے عالم اسلام سےجدا کرنے اور اس پر تسلط جمانے کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو نشانہ بنانے کی جرات کرسکتا ہے؟ہم سب کو اس مسئلے پر غوروفکر کرنا چاہیے اسلامی حکومتوں کو متحد و منسجم ہوناچاہیے انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کام کرسکتی ہیں ۔

ہم نے اسلامی امت کو اس تجربے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے ملت ایران نے استقامت ،خدا پر توکل اور خود اعتمادی کے اپنے تجربے عالم اسلام کے سامنے رکھے ہیں ، عالم اسلام دیکھ سکتاہے انقلاب اسلامی کی کامیابی کو اٹھائیس سال کا عرصہ گذررہا ہے ان اٹھائیس برسوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گیا کہ سامراج نے ہماری قوم کے خلاف کوشش نہ کی ہو اور ہم بھی ایسا نہیں گیا کہ سامراج نے ہماری قوم کے خلاف کوشش نہ کی ہو اور ہم بھی  ایسا نہیں ہوا کہ کسی دن آگے نہ بڑھے ہوں اور ترقی نہ کی ہو اور مزید طاقتور نہ ہوئے ہوں ۔خدایا امت اسلامی کو اپنی رحمت و عنایت و امداد میں شامل کر۔حاضرین اور امت اسلامی کو اس عید کی مبارک باد پیش کرتاہوں اور امام خمینی (رح) کی روح مطہر کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں یہ راہ دکھائي خدا ہمارے شہدا کو اعلی درجات عطا کرے جو اس راہ پر گامزن رہے اوراس راہ میں جد و جہد کی امید کہ حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی دعائیں تمام مسلمان قوموں کے شامل حال ہونگی ۔


source : http://urdu.irib.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلامی قوانین کا امتیاز
رجب کے مہینے میں یہ دعا ہرروزپڑھاکرو
اسلام قبول کرنے والی ناورے کی ایک خاتون کی یادیں
اسلامی دنیا اور غیر مسلم طاقتیں
رہبر انقلاب اسلام حضرت آیت اللہ العظمی سید علی ...
تشیع کے اندر مختلف فرقے
نعت رسول پاک
اسراف : مسلم معاشرے کا ناسور
تمباکو نوشی کے احکام
تا روں بھري رات

 
user comment