اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

والدین کے حقوق مکتب آل محمد(ع)میں

آئمہ (ع)نے قرآن کریم کی ان توجہات اور پیغمبر (ص)کے ان فکری اور تربیتی اقوال وافعال کو ایک نئی روح بخشی ہے اور انہیں ایک نیا ولولہ عطا کیا ہے کیونکہ سب میدانوں میں امت کی تعمیر و ترقی کا بوجھ انہیں کے کندھے پے رہا ہے بالخصوص ظالم و جابر حکام کے تمام مراکز پر تسلط پانے کے بعد کہ جس کی وجہ سے امت انتشار و افتراق کا شکار ہوگئی تھی۔

آئمہ (ع)نے قرآن کریم کی ان توجہات اور پیغمبر (ص)کے ان فکری اور تربیتی اقوال وافعال کو ایک نئی روح بخشی ہے اور انہیں ایک نیا ولولہ عطا کیا ہے کیونکہ سب میدانوں میں امت کی تعمیر و ترقی کا بوجھ انہیں کے کندھے پے رہا ہے بالخصوص ظالم و جابر حکام کے تمام مراکز پر تسلط پانے کے بعد کہ جس کی وجہ سے امت انتشار و افتراق کا شکار ہوگئی تھی۔

اورآئمہ نے پوری قوت کے ساتھ کجی کو درست کرنے اورامت کو تعمیر و ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے لئے کوشش کی چنانچہ اس سلسلے میں آپ نے والدین کے حقوق کے باب میں کئی محوروں پرکام کیاکہ جسے مندرجہ ذیل صورت میں بیان کیا جاسکتاہے۔

۱۔آیات قرانیہ کی تفسیر

واضح رہے کہ یہ اہل بیت ہی ہیں جن کے گھر قرآن نازل ہوا اور انہیں کو پیغمبر نے قران کاساتھی بتایاہے اوریہی قرآن ناطق ہیں کہ جوصرف حق کہتے ہیں اور حقوق کی ادائیگی پر زور دیتے ہیں۔

امام صادق نے اس آیت شریفہ :

وقضی ربک الاتعبدواالاایاہ وبالوالدین احسانا [1]۔

”میں لفظ احسان کی تشریح کرتے ہوئے فرمایاہے احسان یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرواوراپنی ضرورت کی چیزحاصل کرنے کے لئے انہیں سوال کرنے کی زحمت نہ دواگرچہ وہ غنی ہی کیوں نہ ہو“ [2] ۔

امایبلغن عندک الکبراحدھمااوکلاھماتقل لھمااف ولاتنھرھما [3]۔

کے متعلق فرمایاہے : ”اگروہ تجھ پرسختی کریں توانہیں اف تک نہ کہواورانہیں سختی سے نہ جھڑکو“ [4]۔

اوراس آیت کریمہ:

وقل لھماقولاکریما[5] ۔

”اگروہ تجھے ماریں توان سے فقط یہ کہواللہ آپ کومعاف کرے“ [6]۔

نیزفرماتے ہیں : ”نافرمانی کاسب سے پہلادرجہ اف کہناہے اور اگر اس سے بھی نیچے کوئی درجہ ہوتاتواللہ تعالی اس سے بھی منع فرماتا“ [7]۔

اوراللہ تعالی کے اس فرمان :

واخفض لھماجناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمھماکماربیانی صغیرا [8]۔

”ان کی طرف آنکھ بھرکے یعنی گھورکے نہ دیکھو مگر رحمت ورقت کے ساتھ، ان کی آواز پر اپنی آواز اور ان کے ہاتھ پراپنے ہاتھ کوبلند نہ کرو اور اپنا قدم ان کے قدم سے آگے نہ بڑھنے دو“ [9]۔

اوراس آیت شریفہ :

ان اشکرلی والوایک الی المصیر ۔کے متعلق امام رضا فرماتے ہیں :[10]

”اللہ تعالی نے انسان کواپنے اوروالدین کاشکراداکرنے کاحکم دیاہے اورجس نے والدین کاشکرادانہیں کیاگویااس نے اللہ کاشکربھی ادانہیں کیا“[11] 

۲: اخلاقی فضاقائم کرنا

آئمہ کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ امت میں اخلاقی نظم وضبط زندہ وتابندہ رہے تاکہ اسلامی معاشرہ سالم رہ سکے اورلوگ پریشانی اوربے چینی کے تاریک گڑہوں میں گرنے سے محفوظ رہیں اسی لئے آپ زوردیتے تھے کہ اولاوالدین کے ساتھ اپنے معاملات میں اخلاقی پہلوکے اعتبارسے اس طرح متمسک رہے کہ یہ اس کی فطرت ثانیہ بن جائے چنانچہ امام علی فرماتے ہیں :

برالوالدین من اکرم الطباع۔

”والدین سے حسن سلوک شریف ترین طبیعتوں کاشیوہ ہے“ [12]۔

اوران کے پوتے امام ہادی فرماتے ہیں :

العقوق ثکل من لم یثکل۔

”والدین کی نافرمانی ایک ایسابوجھ ہے کہ جسے انسان اٹھانے سے قاصر ہے“[13]

۳:حکم شرعی کابیان کرنا

اہل بیت نے حقوق والدین کے سلسلے میں فقط قرآنی ارشادات اوراخلاقی اقدار کو اجاگرکرنے پراکتفانہیں کی بلکہ اس دائمی مسئلے کاحکم شرعی بھی بیان کیاہے چنانچہ امام علی فرماتے ہیں :

برالوالدین اکبرفریضة [14]۔

اورامام باقرفرماتے ہیں :

ثلاث لم یجعل اللہ عزوجل لاحدفیھن رخصة اداء الامانة الی البر و الفاجر، والوفاء بالعھد للبروالفاجر،وبرالوالدین برین کانااوفاجرین۔

”تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے سلسلے میں اللہ تعالی نے کسی کو رخصت نہیں دی ہرنیک وبدکوامانت کاواپس کرنا،ہرصالح و فاجر کے عہد کو پورا کرنا اور والدین سے حسن سلوک کرناہے وہ نیک ہوں یابرے“[15] ۔

یہ بات قابل ذکرہے کہ اسلام نے حقوق والدین کودین واسلام کے ساتھ مربوط نہیں کیابلہ ہرحال میں حقوق والدین کی رعایت لازم قراردی ہے امام رضا فرماتے ہیں :

برالوالدین واجب وان کانامشرکین، ولاطاعة لھمافی معصیة الخالق ۔

”والدین کے ساتھ نیکی کرناواجب ہے اگرچہ وہ مشرک ہوں البتہ خالق کی مصیت میں ان کی اطاعت واجب نہیں ہے ۔[16]

اورآپ نے صرف حکم شرعی کوبیان نہیں کیابلکہ اس کے فلسفے کوبھی بیان کیاہے فرماتے ہیں :

حرم اللہ عقوق الوالدین لمافیہ من الخروج من التوفیق لطاعة اللہ عزوجل والتوقیر للوالدین وتجنب النعمة وابطال الشکر،ومایدعومن ذلک الی قلة النسل وانقطاعہ، لمافی العقوق من قلة توقیرالوالدین، والعرفان بحقھما، وقطع الارحام والزھد من الوالدین فی الوالد، وترک التربیة بعلة ترک الوالدبرھما۔

”خداتعالی نے والدین کی نافرمانی کواس لئے حرام کیاہے کہ اس کے ذریعہ سے اطاعت خداوندی اوراحترام والدین کی توفیق انسان سے سلب ہوجاتی ہے انسان شکرکوباطل کردیتاہے اورکفران نعمت کاارتکاب کربیٹھتاہے اورنسل کے کوتاہ یااس کے سلسلہ کے منقطع ہوجانے کے خطرے سے دوچارہوجاتاہے کیونکہ نافرمانی کے نتیجے میں والدین کااحترام اوران کے حق کی معرفت کم ہوجاتی ہے اورصلہ رحمی کاسلسلہ بھی منقطع ہوجاتاہے والدین کواولاد سے نفرت ہوجاتی ہے اوراولادکے عدم حسن سلوک کی وجہ سے والدین بھی تربیت کرناچھوڑدیتے ہیں [17]۔

اس حدیث میں غورکرنے سے حقوق والدین کے سلسلے میں اس سے زیادہ عمیق اورباریک ترفلسفہ نظرآتاہے وہ یہ کہ یہ مسئلہ صرف معنوی پہلو کا حامل نہیں ہے بلکہ اجتماعی اعتبارسے اس کے بڑے گہرے اثرات ہیں بالخصوص نسل انسانی کوختم ہونے سے بچانے کا ذریعہ اس سے وابستہ ہے۔

اوراس مسئلہ کے دیگرمنفی اثرات بھی ہیں جب والدین یہ سمجھ رہے ہوں کہ اولاد ان کی عزت خاک میں ملاتی جارہی ہے، اولاد ان کے حقوق کی پروانہیں کررہی تومعاشرے کی یہ اجتماعی سوچ بن جائیگی کہ باپ بننایاکم ازاکم ان کی تربیت کے لئے کوشش کرنایک گھاٹے کاسوداہے۔ اوراس کے ناپسندیدہ نتائج ابھرکرسامنے آئیں گے اوریہ چیزقلت یاانقطاع نسل کاسبب بنے گی جیساکہ امام نے اس کی طرف اشارہ کیاہے جس کامعمولی اثریہ ہوگاکہ لوگ اولاد کی تربیت کواہمیت نہیں دیں گے اوردونوں صورتوں میں معاشرے کانقصان ایک امرلازم ہے۔اوراس کے برعکس اگروالدین یہ سمجھیں کہ اولاد کی طرف سے ان کی عزت وتوقیرکی جارہی ہے تووہ بھی اولاد کی تربیت پرزیادہ سے زیادہ توجہ دیں گے۔

آج کے دورمیں اس کی بدترین مثال مغربی معاشروں میں رونماہونے والی صورت حال ہے کہ جہاں پرخاندانی جدائیوں کی وجہ سے پیداہونے والی بے راہ روی کے بھیانک نتائج ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ بیٹا والدین کی سرپرستی قبول نہیں کرتااوران کے حقوق اداکرنے سے گریزکرتاہے اورہمہ وقت لذات کے پرموج سمندرمیں غرق رہتاہے اوراسی کانتیجہ ہے جائزنسل کاکم ہونا بچوں کی تربیت کافقدان اوربچوں کوتربیت کے لئے آموزش وپرورش کے مراکزکے حوالے کرنااوریہ معاشرتی مرض اس قدر بڑھتاجارہاہے کہ اولادکی بہ نسبت جانوروں بالخصوص کتوں کی تربیت پرزیادہ زوردیا جارہاہے اگراولادکی سرکشی اوروالدین سے بے توجہی کایہ سلسلہ جاری رہاتواس کانتیجہ انقطاع نسل یاکم ازکم قلت نسل تک جاپہنچے گاجومغربی معاشروں کوجہنم کے کنارے پر لاکھڑا کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[12] سورہ اسراء ۱۷:۲۳۔

[13] اصول کافی ۲:۱۶۵/باب البربالوالدین۔

[14] -سورةاسرا/۱۷:۲۳ 

[15] -اصول کافی باب البربالوالدین ۲:۱۶۵/۱۔

[16] سورة اسراء ۱۷:۲۳۔کے بارے میں فرماتے ہیں 

[17] - اصول کافی باب البربالوالدین ۲:۱۶۵/۱۔

[18] -اصول کافی باب العقوق۲:۳۴۹/۱۔

[19] -سو رہ اسراء ۱۷۔۲۵۔

[20] - اصول کافی باب البربالوالدین ۲:۱۶۵/۱۔

[21] - سورة لقمان ۳۱:۱۴۔

[22] - البحار۷۴:۶۸۔

[23] - البحار۷۷:۲۱۲۔

[24] - البحار۷۴:۸۴۔

[25] - غررالحکم ۲۳۹:۴۵۱۲۔

[26] - البحار۷۴:۵۶۔

[27] - البحار۷۴:۷۲۔

[28] - البحار۷۴:۷۵۔


source : http://www.alkausar.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں
نعت رسول پاک
اطاعت رسولۖ ہی محبت رسول ۖہے

 
user comment