اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض نمایاں پہلو

 

حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور حضرت خدیجة الکبری (سلام اللہ علیہا) کی بیٹی ہیں اور زہراء ، صدیقہ، طاہرہ، مبارکہ، زکیہ، راضیہ، محدثہ اور بتول آپ کے القاب ہیں۔

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی پرورش ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آغوش اور خانہ نبوت میں ہوئی ، یہ وہ گھرانہ ہے جس میں وحی اور آیات قرآنی نازل ہوتی تھیں۔

جس وقت مکہ میں مسلمانوں کا سب سے پہلا گروہ خدائے وحدہ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان لایا اور اپنے ایمان پر باقی رہا ، اس سال پور ے عرب اور پوری دنیا میں یہ تنہا ایسا گھر تھا جس سے ” اللہ اکبر“ کی آواز بلند ہوئی ۔ اور حضرت زہرا (س) مکہ کی سب سے کمسن بچی تھیں جو اپنے اطراف میں ایسے جوش و خروش دیکھ رہی تھیں، آپ اپنے گھر میں اکیلی تھیں، اور بچپنے کی زندگی کو تنہائی میں گذار رہی تھیں ۔

شاید اس تنہائی کا راز یہ تھا کہ آپ بچپنے ہی سے اپنی ساری توجہ کو جسمانی ریاضت اور روحانی تربیت کی طرف مجذوب کردیں۔ حضرت زہرا (علیہا السلام)، حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے شادی کے بعد پوری دنیا میں نمونہ خاتون کی حیثیت سے افق عالم پر چمکیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دختر گرامی جس طرح ازدوا ج کے مراحل میں سب کے لئے نمونہ اور اسوہ عمل تھیں اسی طرح اپنے پروردگار کی اطاعت میں بھی نمونہ تھیں۔

جب آپ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تھیں تو عبادت میں مشغول ہوجاتی تھیں، نماز پڑھتیں،دعا کرتیں،خداکی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتیں اور دوسروں کے لئے دعائیں کرتی تھیں، امام صادق(علیہ السلام) اپنے جد امجد حضرت امام حسن بن علی (علیہ السلام) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میری والدہ گرامی شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رہتی تھیں اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتیں تو باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا فرماتیں، لیکن اپنے لئے کچھ نہیں کہتی تھیں، ایک روز میں نے سوال کیا: اماں جان ! آپ دوسروں کی طرح اپنے لئے کیوں دعائے خیرنہیں کرتیں؟ آپ نے کہا: میرے بیٹے ! پڑوسیوں کا حق پہلے ہے ۔ وہ تسبیح جو حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے نام سے مشہور ہے ، شیعہ اور اہل سنت کی مشہور ، معتبر کتابوں اور دوسری اسناد میں موجود ہے اورسب کے نزدیک مشہور ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کا کسب علم

حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) نے شروع ہی سے وحی الہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا ، جن اسرار و رموز کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے بیان فرماتے تھے حضرت علی علیہ السلام ان کو تحریر فرماتے اور حضرت فاطمہ (س) ان کو جمع فرماتیں جو مصحف فاطمہ کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع ہوگئی ۔

دوسروں کو تعلیم دینا

حضرت فاطمہ (علیہا لسلام) احکام اوراسلامی تعلیمات کے ذریعہ عورتوں کو ان کی ذمہ داری سے آشنا کراتی ۔ آپ کی کنیز اور شاگردہ فضہ بیس سال تک قرآن کی زبان میں کلام کرتی رہی اور جب بھی وہ کوئی بات کہنا چاہتی تو قرآن کی آیت کے ذریعہ اپنی بات کو بیان کرتیں۔

حضرت فاطمہ (علیہ السلام) نہ یہ کہ صرف علم حاصل کرنے سے تھکتی تھیں، بلکہ دوسروں کو کو دینی مسائل سکھانے میں حوصلہ ، ہمت اور پیہم کوشش کرتی رہتی تھیں، ایک روز ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری والدہ بہت بوڑھی ہیں اور ان سے نماز میں غلطی ہوگئی ہے انہوں نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے مسئلہ معلوم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس کے سوال کا جواب دیدیا ، وہ خاتون دوسری اورتیسری مرتبہ پھر سوال کرنے آئی اور اپنا جواب سن کر چلی گئی اس نے تقریبا دس مرتبہ یہ کام انجام دیا اور ہر مرتبہ آپ نے اس کے سوال کا جواب دیا،وہ خاتون بار بار کی رفت و آمد سے شرمندہ ہوگئی اور کہنے لگی: اب میں آپ کو زحمت نہیں دوں گی ،حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے فرمایا: دوبارہ بھی آنا اور اپنے سوالوں کے جواب معلوم کرنا تم جس قدر بھی سوال کروگی میں ناراض نہیں ہوؤں گی ،کیونکہ میں نے اپنے والدماجد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا ہے آپ نے فرمایا: قیامت کے روز علماء ہمارے بعد محشور ہوں گے اور ان کو ان کے علم کے مطابق قیمتی لباس عطاکیے جائیں گے اور ان کا یہ ثواب اس قدر ہوگا جس قدر انہوں نے بندگان الہی کی ہدایت و ارشاد میں کوشش کی ہوگی ۔

عبادت حضرت فاطمہ (علیہا السلام)

حضرت زہرا (علیہا السلام)رات کے ایک حصہ میں عبادت میں مشغول رہتی تھیں، آپ کی نماز شب اس قدرلمبی ہوجاتی تھی کہ آپ کے پاہائے اقدس متورم ہوجاتے تھے ۔ حسن بصری (متوفی ۱۱۰) کہتا ہے: اس امت کے درمیان کوئی بھی زہد و عبادت اور تقوی میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے زیادہ نہیں تھا ۔

آپ کا بابرکت گلوبند

ایک روز پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور اصحاب آپ کے چاروں طرف حلقہ بنائے ہوئے تھے ، ایک بوڑھا شخص پھٹے پرانے لباس اور بری حالت میں مسجد میں داخل ہوا اس میں چلنے کی بھی ہمت نہیں تھی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) اس کے پاس گئے اور اس کی احوال پرسی کی ، اس شخص نے جواب دیا: یا رسو ل اللہ! میں ایک پریشان حال فقیر ہوں، بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیے، برہنہ ہوں مجھے لباس دیجئے، لاچار ہوں میری مشکل کو مشکل کردیجئے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے فرمایا: اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے” لیکن خیرکی طرف راہنمائی کرنا خیرکرنے کی طرح ہے “ پھر آپ نے اس کی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر کی طرف راہنمائی فرمائی ۔

اس بوڑھے آدمی نے مسجد اور حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے گھر کا فاصلہ طے کیا اور اپنی حاجت کو آپ سے بیان کیا ۔ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: ہمارے گھر میں بھی اس وقت کچھ نہیں ہے پھر آپ نے اپنا وہ گلوبند جوجناب حمزہ بن عبدالمطلب کی بیٹی نے آپ کو ہدیہ کیا تھا اپنے گلے سے کھولا اور اس بوڑھے فقیر کو دیدیا اور فرمایا: اس کو بیچ دینا انشاء اللہ تمہاری حاجت پوری ہوجائے گی ، وہ بوڑھا فقیر مسجد میں آیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اسی طرح اصحاب کے درمیان مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے یہ گلوبند مجھے عطا کیا ہے تاکہ میں اس کو بیچ کر اپنی حاجت کو پورا کروں ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے گریہ فرمایا، عمار یاسر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس گلوبند کو خرید لوں؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے فرمایا: جو بھی اس کو خریدے گا خداوندعالم اس کو عذاب سے محفوظ رکھے گا ۔

عمار یاسرنے فقیر سے پوچھا : اس گلو کو کتنے میں فروخت کرو گے؟ اس فقیر نے کہا: اس روٹی اور گوشت کے بدلے میں جس سے میرا پیٹ بھر جائے، اس لباس کے بدلے جس سے میرا جسم ڈھک جائے اور ایک دینار کے بدلے میں جس سے میںگھرتک پہنچ جاؤں ، عمار نے کہا: میں اس ہار کو سونے کے بیس دینار، کھانا، لباس اور ایک سواری کے بدلے تجھ سے خریدتا ہوں، عمار اس فقیر کو اپنے گھر لے گئے اس کو سیراب کیا، لباس پہنایا، سواری دی اور سونے کے بیس دینار دئیے، پھر اس ہار پر خوشبو لگا کر اس کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اپنے غلام سے کہا: اس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) کی خدمت میں لے جاؤ، میں نے تمہیں بھی انہی کو بخش دیا ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بھی اس غلام اور گلوبند کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو بخش دیا، غلام حضرت فاطمہ کے نزدیک آیا ، آپ نے اس سے گلوبند کو لے لیا اور غلام سے فرمایا: میں نے تجھے خدا کی راہ میںآزاد کردیا، غلام ہنسا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے اس سے ہنسنے کا سبب دریافت کیا ، اس نے جواب دیا: یا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ! اس گلوبند کی برکت پر مجھے ہنسی آگئی کہ اس ہار نے ایک بھوکے کو کھانا کھلایا، ایک برہنہ کو کپڑے پہنائے،فقیر کو غنی کیا ، پیدل چلنے والے کو سواری عطا کی ، غلام کو آزاد کیا اور آخر کار پھر اپنے مالک کے پاس واپس آگیا ۔

اسلام کی پہلی جنگوں میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کا کردار

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) کی دس سالہ حکومت میں ۲۷ یا ۲۸ غزوہ اور ۳۵ سے۹۰ تک سریہ تاریخ میں ذکر ہوئے ہیں۔غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور مستقیم لشکر کی کمان سنبھالی اور جنگ میں ہر وقت سپاہیوں کے شانہ بشانہ حاضر و ناضر تھے ۔سریہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی اور کو اپنی جگہ سپہ سالار بنا کر بھیجا بعض مرتبہ یہ جنگیں دو یا تین ماہ تک جاری رہتی تھیں، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ مشترکہ زندگی کو اکثر و بیشتر میدان جنگ یا تبلیغ میں گذاری اور آپ کی غیر موجودگی میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام)گھر کی ذمہ داری اور بچوں کی تربیت میں مشغول رہتیں، اور آپ اس کام کو اس طرح انجام دیتی تھیں کہ آپ کے مرد مجاہد شوہرنامدار اچھی طرح سے جہاد کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے اور پھر آپ اس عرصہ میں شہیدوں کی عورتوں اور بچوں کی مدد فرماتیں، اور ان سے ہمدردی کا اظہار کرتیںاور کبھی کبھی مدد کرنے والی عورتوں کی تشویق کیلئے اور ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے کیلئے اپنے محرم افراد کے زخموں کا مداوا کرتیں، جنگ احد میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) عورتوں کے ساتھ احد کے میدان (احد ، مدینہ سے چھ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) میں گئیں اس جنگ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے جسم اقدس پر بھی بہت زیادہ زخم لگے تھے ۔ حضرت فاطمہ (علیہا السلام) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چہرہ سے خون صاف کرتی تھیں اور حضرت علی (علیہ السلام) اپنی سپر سے پانی ڈالتے تھے ۔

جب حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) نے دیکھا کہ خون بند نہیں ہو رہا ہے تو آپ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ کو زخم پر لگایا جس سے خون بند ہوگیا ، جنگ احد میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چچا حضرت حمزہ سید الشہداء کی شہادت ہوئی ۔ جنگ کے بعد حضرت حمزہ کی بہن ”صفیہ“، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے ساتھ آپ کے مُثلہ شدہ لاشہ پر پہنچی اور رونا شروع کیا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)بھی گریہ فرما رہی تھیں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی آپ کے ساتھ گریہ فرمارہے تھے اور حضرت حمزہ سے خطاب کرکے فرماتے تھے: تمہاری مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھ پر نہیں پڑی ، پھر صفیہ اور حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کو خطاب کرکے فرمایا: مبارک ہو ابھی جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ ساتوں آسمانوں پر حمزہ شیر خدا اور شر رسول خدا موجود ہے ، جنگ احد کے بعد جب تک حضرت فاطمہ (علیہا السلام)زندہ رہیں، ہرتیسرے دن ایک مرتبہ احد کے شہداء کی زیارت کے لئے جاتی تھیں، جنگ خندق میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) ایک روٹی لے کر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں آئیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سوال کیا: یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے روٹی پکائی تھی میرا دل چاہا کہ یہ روٹی آپ کے لئے لیکر آؤں۔

پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا یہ پہلی روٹی ہے جو میں تین دن کے بعد کھا رہا ہوں، جنگ موتہ میں جعفر بن ابی طالب کی شہادت ہوئی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے گھر گئے اور ان کے بیوی بچوں کو دلاسہ دیااور وہاں سے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر تشریف لائے حضرت فاطمہ (علیہا السلام)گریہ فرمارہی تھیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جعفر جیسے اشخاص پر رونے والوں کو رونا چاہئے، اس کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جعفر کے بچوں کے لئے کھانا تیار کروکیونکہ آج وہ اپنے آپ کو بھول گئے ہیں، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)فتح مکہ میں بھی موجود تھیں۔

حضرت زہرا (علیہا السلام) اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زندگی کے آخر لمحات

آخری ایام میں پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیماری نے شدت اختیار کرلی تھی ، حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بستر کے کنارے کھڑی ہوئی آپ کے نورانی چہرہ کی طرف دیکھ رہی تھیں، آپ کے چہرہ پر بخار کی تپش سے پسینہ آرہا تھا ، حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام اپنے والدبزرگوار کو دیکھتی جاتی تھیں اور گریہ فرمارہی تھیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی بیٹی کی پریشانی کو برداشت نہ کرسکے، آپ نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے کان میں کچھ کہا جس سے آپ کو سکون مل گیا اور آپ مسکرائیں، اس وقت حضرت فاطمہ علیہا السلام کی مسکراہٹ بڑی تعجب آور تھی، آپ سے سوال کیا گیا: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ سے کیا فرمایا؟ آپ نے جواب دیا: جب تک میرے والدبزرگوار زندہ ہیں میں اس راز کو بیان نہیں کروں گی، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد وہ راز آشکار ہوگیا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے کہا: میرے والد بزرگوار نے مجھ سے کہا: میرے اہلبیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی ، اس وجہ سے میں خوش ہوگئی ۔

 


source : http://www.taghrib.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیغمبر اکرم کے کلام کی فصاحت و بلاغت
فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں
امام سجاد (ع) کی عبادت
دسویں مجلس ـ مصائب سیدالشہداء امام حسین علیہ ...
جشن مولود کعبہ اور ہماری ذمہ داری
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
امام حسین کا وصیت نامہ
اکیس رمضان المبارک یوم شہادت امیرالمؤمنین علیہ ...
حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ بطور نمونہ عمل
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment