اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) اور اسلام میں حکومت کی ضرورت

 

اسلام میں حکومت کی ضرورت ایک اہم اور بنیادی موضوعات میں سے ایک موضوع ہے مقالہ حاضر میں ہم اس موضوع کی تحقیق کریں گے ۔ آخری آسمانی دین ہونے کی وجہ سے اسلام کچھ ایسے قوانین کا حامل ہے جوا نسان کی ہدایت کے لےے خداوند عالم کی جانب سے حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیه و آله) پر نازل ہوئے ہیں ۔

چونکہ خداوند عالم انسان کا خالق ، سب چیزوں کا عالم اور انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے واقف ہے لہذا اسکی مصلحتوں کو اچھی طرح تشخیص دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسکی طرف سے نازل شدہ قوانین ،کا مل ترین اور جامع ترین قوانین ہیں جو دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کے ضامن ہیں ۔ لیکن محض قوانین نہ تو انسان کی زندگی کو سنوارتے ہیں اور نہ ہی اسکی سعادت کی ضمانت لے سکتے ہیں ، بلکہ قوانین کے ساتھ کچھ اشخاص کا ہونا بھی ضروری ہے جو ان قوانین کو عملی جامہ پہنائیں، تب ہی یہ قوانین موئثر ثابت ہو سکتے ہیں ۔ وہ تنظیم ، جماعت جو قوانین کو نافذکرتی ہے ۔ اور معاشرے کے امور کی ذمہ دارہوتی ہے حکومت کہلاتی ہے اور انسان کی ضروریات میں شمار ہوتی ہے حکومت کے بغیر انسانی معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو کر زوال اور نابودی کی راہ اختیار کر لیتا ہے

دین اسلام وہی قانون ہے جو انسانی زندگی کو رخ دیتا اور مقصد عطا کرتا ہے لیکن اسکے ساتھ ایک اسلامی حکومت کا ہونابھی ضروری ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلام میں حکومت کے قیام کی ضرورت کے سلسلہ میں تحقیق کریں تاکہ اسکے تمام زاویوں سے آشنائی ہوسکے ۔

اس مقالے میں درج ذیل موضوعات کے بارے میں تحقیق کی جائیگی ۔ دولت و حکومت کی ضرورت ، اسلام میں حکومت کا تاریخی جائزہ ، اور اسلامی حکومت (دولت ) کی ضرورت ۔

حکومت ( دولت ) کی تعریف۔

(دولت ) حکومت کا لفظ ایک بہت ہی اہم لفظ ہے جو سیاسی علوم میں بہت زیادہ استعمال ہوتاہے ، اسکے معنی سے آشنائی کے لےے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اسکے لغوی معنی کو سمجھیں ، اور اسکے بعد اصطلاحی معنی بیان کئے جائیں لغت میں دولت و حکومت کی ا س طرح تعریف ہوئی ہے:

لغت میں دولت کا لفظ، اقبال (نیک بختی ) ، حکمراں جماعت ،ملک ، مملکت ومال کی گردش اور کامیابی کے معنی میں آیا ہے (۱) ۔

اصطلاح میں حکومت کے تین معانی ہیں اورہرمعنی کا ایک الگ استعمال ہے ، ہم پہلے حکومت کے اصطلاحی معنی بیان کریں گے اور پھر ان کے فرق کو روشن کریں گے ۔ اصطلاح میں حکومت کی تعریف اس طرح بیان ہوئی ہے ۔

اصطلاح میں حکومت کے تین استعمال ہیں ۔

۱۔ دولت( حکومت ) انگلش کے State لفظ کے مساوی ہے ، جسکے معنی انسانی اس گروہ کے ہیں جو ایک معین سرزمین پر ساکن ہوں ۔ اور ایک ایسی منظم حکومت رکھتے ہوں جوحاکمیت کے فرائض انجام دیتی ہے ۔ اس تعریف کے پیش نظر، حکومت، چار عناصر پر مشتمل ہے ۱۔ جمعیت ۲۔ سرزمین ۳۔ حکومت ۴۔ حاکمیت ۔

۲۔ دولت (حکومت ) کے معنی حکومت اور حکمران جماعت ہے جو لفظ عوام اور رعایاکے مد مقابل ہے ، جن پر حکومت کی جاتی ہے ۔

۳۔ دولت (حکومت) یعنی ملک کی حکمران جماعت جس کا وظیفہ قانون کو نافذ کرنا ہے (۲) ۔

دولت و حکومت کی تمام تعریفات کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اگر یہ لفظ بین الاقوامی سطح پر استعمال ہو رہا ہو تو پہلے معنی مراد ہیں ۔ یعنی ایسی سرزمین جسکی آبادی اور حدود اربعہ معین اور ایک منظم حکومت بھی رکھتی ہو۔

لیکن جب یہ لفظ ملکی سطح پر استعمال کیا جائے تو اس سے مراد اس ملک کی حکمران جماعت ہوتی ہے جسمیں قانون سازکمیٹی ( اسمبلی)، قانون کو نافذ کرنے والی جماعت اور عدلیہ شامل ہیں ۔ اس صورت میں حکومت کے دوسرے معنی مقصود ہیں ۔ لیکن جب دولت اور حکومت کا لفظ دوسری طاقتوں کے مقابلہ میں استعمال کیا جائے توقانون نافذ کرنے والی جماعت مراد ہے کہ وہی حکمران جماعت ہے ملکی قوانین کا نفاذ اور ادارہٴ مملکت اس کے وظایف میں شامل ہیں، بہرحال عام طور پر جب ہم بین الاقوامی پیمانہ پر اس لفظ کا استعمال کر تے ہیں تو اسکے پہلے معنی مراد ہوتے ہیں ۔

الف) حکومت کی ضرورت

انسان ایک اجتماعی موجود ہے ، دوسری طرف وہ قدرت طلبی ، خود غرضی جیسے فطری صفات کا حامل ہے اور ہر چیز اپنے لئے چاہتاہے یعنی سب چیزوں کو اپنی ذاتی ملکیت میں منحصر کرنا چاہتا ہے لہذا انہی خود غرضیوں کی وجہ سے انسانوں کے درمیان، نزاع، کشمکش اور مقابلہ کی ضرورت پیش آتی ہے ، معاشرے اور سماج کو آپسی نزاع ،کشمکش اورجنگ وجدال سے بچانے اور ہرج و مرج کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کچھ قوانین موجود ہوں جو انسان کی زندگی کو نظم و ضبط نیز انکے روابط کو بہتر بنا سکیں ۔ البتہ فقط قانون کا ہونا کافی نہیں ہے چونکہ قانون اسی صورت میں مفید ہو سکتاہے جب اسکو نافذ بھی کیا جائے ورنہ اسکی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے کسی انجمن، تنظیم یا جماعت کا ہونا ضروری ہے جو معاشرے میں قوانین کو نافذکرے ،لوگوں کی اجتماعی اور سماجی زندگی کونظم و ضبط دے سکے ، امن و امان قائم کرے ، اور معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے ۔ اسی انجمن، تنظیم یا حکمران جماعت کو حکومت کہتے ہیں ۔ لہذا معاشرے میں حکومت و دولت کا موجود ہونا ضروری چیزوں میں شمار ہوتا ہے ۔ کیونکہ اسکے نہ ہونے کی صورت میں ہرج و مرج اور بے قانونی حاکم ہوگی ۔ اور انسانی معاشرہ پستی اور نابودی کی راہ پر چلا جائےگا ۔

حکومت کے ضروری ہونے کے متعلق قدیم یونانی فلسفی ارسطو یہ کہتاہے : حکومت انسان کے فطری تقاضوں میں سے ہے کیونکہ انسان فطری طور پر اجتماعی ہے اسی وجہ سے اجتماعی اور سماجی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ اور جو حضرات حکومت کے قائل نہیں ہیں وہ یا تو وحشی ہیں یا مافوق بشر موجودات ہیں جن کو حکومت کی ضرورت نہیں ہوتی (۳) ۔

فلاسفہ اور علم سیاست کے مفکروں کے عقیدے میں حکومت ایک اجتماعی ضرورت ہے اور فطری طور پر ہر انسان اس ضرورت کو محسوس کرتاہے البتہ وہ لوگ جو حکومت کوضروری نہیں سمجھتے یا حکومت کے بغیر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں وہ یا تو وحشی ہیں جو انسانیت سے دور ہیں اوران میں انسانی صفات نہیں پائے جاتے ، اور حکومت کو اپنے وحشیانہ اعمال میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔یا پھر وہ اشخاص ہیں جو انسان سے بہت بالا ہیں اوران میں بشری تقاضے نہیں ہوتے ، وہ فرشتوں کے مانند ہیں ۔ کہ فرشتوں کوحکومت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ لیکن معمولی انسان ، انسانی فطرت و جبلت کی وجہ سے اپنی اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کو ضروری سمجھتے ہیں ۔کیونکہ نہ وحشی زندگی کے خواہاں ہیں اور نہ وہ فرشتے ہی ہیں کہ انہیں حکومت کی ضرورت نہ ہو۔

یونان کے دوسرے عظیم فلسفی افلاطون ” ارنبات“ میں انسانی زندگی میں حکومت کے ضروری ہونے کے بارے میںکہتے ہیں ۔

انسان کے لئے با فضیلت حیات اور فضائل و کمالات کا حاصل کرنا حکومت کے بغیرممکن نہیں ہے ۔کیونکہ انسان کی طبیعت ، سیاسی اور اجتماعی زندگی کی طرف مائل ہے اسی وجہ سے حکومت ایک فطری امر ہے ۔جس سے انسان بے نیاز نہیں ہے (۴) ۔

علم جامع شناسی (سماجیات) کے بانی ابن خلدون، حکومت کے وجود کو ایک ضروری امر سمجھتے ہیں اور اس کو ثابت کرنے کے لئے انسان کے اجتماعی ہونے یا دوسرے الفاظ میں اس کے فطرتا سماجی ہونے سے استدلال کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حکومت کا وجود ایک لازم اور ضروری امر ہے (۵) ۔

جو کچھ ذکر ہوا وہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت کے متعلق فلاسفہ اور مفکرین کے نظریات تھے ۔

چونکہ انسان فطرتا و بالطبع دولت اور حکومت کو اپنی اجتماعی زندگی کی سب سے پہلی ضرورت سمجھتا ہے ، لہذا تاریخ کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں ملے گا جس میں حکومت نہ رہی ہو اگر چہ ابتدائی صورت ہی میں کیوں نہ ہو بہرحال تاریخ کے ہر دور میں دولت وحکومت کسی بھی نوعیت کی ہو موجود رہی ہے ۔ لیکن مختلف صورتوں میں قبیلہ کی حکومت سے لیکر شہر کی حکومت اور بادشاہت تک، یہاں تک کہ آج کی جدید طرز کی حکومتیں،لہذا اس بنیاد پر دولت یا حکومت انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے ایک ضروری چیز ہے اور کوئی بھی عاقل شخص اس کی ضرورت کا منکر نہیں ہو سکتا ۔

ب) اسلامی حکومت کا تاریخی جائزہ

اسلام میں حکومت کے وجود کا تصور ، ظہور اسلام کے ابتدائی زمانے سے ہی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ تاریخ کے ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقیاں اور کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ سب حکومت اور دولت کے وجود کی برکت سے تھیں ۔ اسلام میں حکومت کا سابقہ صدر اسلام سے ملتاہے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اسلامی معاشرہ کے پےشوا اور رہبر ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومت کی بنیادرکھنے والے تھے ۔ اپ ہی نے پہلی ممکن فرصت میں اسلامی حکومت قائم کی ۔

۱۔ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) اسلامی حکومت کے موٴسس :

بے شمار شواہد و قرائن سے ثابت ہوتاہے کہ اسلام میں سب سے پہلے حکومت قائم کرنے والی شخصیت پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی ذات گرامی تھی ۔

اس سلسلے میں آیا ہے:

تاریخی ماخذوں میں جستجو اورپیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله) کے مدینہ تشریف لانے کے بعد پےش آنے والے واقعات کا تجزیہ و تحلیل کرنے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ پےغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) نے مدینہ پہنچتے ہی حکومت قائم کی اور ایک حاکم اور سیاسی شخصیت کی طرح حکومت کا ڈھانچہ تیار کیا، اسلامی ملک کی حفاظت کی خاطر ایک منظم لشکر بنایا ۔ اپ نے صلح اورجنگ کے احکام صادر کئے ، بعض گروہوں اور قبیلوں سے معاہدے کئے ، اقتصادی ، اجتماعی اور سماجی پروگراموں کو منظم کیا، گورنرمقرر کئے دوسرے ممالک کے سر براہان اور قبائلی سرداروں کے پاس سفیر روانہ کئے ،دوسرے ملکوں کے بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دی ۔ آپ نے ایک مسجد تعمیر کرائی جسمیں لوگوں کی نزاعوں اورلڑائی جھگڑوں کے فیصلے اور حدیں جاری کی جاتی تھیں، وہیں سے ملک کو ادارہ کیا جاتا تھا ۔ اپ خود بھی قضاوت کرتے اور قاضیوں کو بھی اس کام کے لئے مقرر کرتے تھے (۶) ۔

اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) اسلامی حکومت کے سب سے پہلے بانی اور حکومت کی داغ و بیل ڈالنے والے تھے ۔ آپ نے بذات خود حکومت کا سیاسی اور فکری نظام قائم کیا ۔ آپ کی رحلت کے بعد حکومت وسیع سے وسیع ترہوتی چلی گئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئی ۔ اگرچہ بعض لوگ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کے زمانہ میں اسلامی حکومت سے انکار کرتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت (صلی الله علیه و آله)فقط مسلمانوں کے دینی رہبر تھے ، اور آپ نے کوئی حکومت نہیں بنائی تھی ، لیکن پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اچھی طرح واضح ہوجاتاہے کہ آنحضرت نہ صرف مسلمانوں کے دینی رہبر تھے بلکہ اسلامی معاشرے کی سیاسی باگ ڈور بھی آپ کے اختیار میں تھی ۔ مذکورہ شواہد پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی حیات طیبہ میں حکومت کے وجودکا پتا دیتے ہیں ۔

مکہ میں ظہور اسلام اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کی دعوت اسلام کے پھیلنے اور مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کے ذریعہ اسلامی حکومت وجود میں آئی تھی ۔ آپ نے تعلیم و تربیت کے علاوہ بہ نفس نفیس اسلامی معاشرے کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالی ۔ اور مختلف شعبوں میں مسلمانوں کے اجتماعی نظام جیسے قضائی (عدلیہ ) ثقافتی ، سماجی ، سیاسی ، عسکری اور اقتصادی نظام کو صحیح کیا ۔

یہ مسئلہ قرآنی آیات اور تاریخی شواہد سے اس قدرواضح اور آشکار ہے کہ اس کو غیر مسلم مستشرقین نے بھی جو کسی حد تک اسلامی تاریخ سے آشنا ہیں،

صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

اٹلی کا ایک دانشمند ”فل لینو“ کہتا ہے: حضرت محمد نے ایک ساتھ دین اور حکومت دونوں کی بنیاد ڈالی ہے آپ کی زندگی میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم پلّہ تھے ، توماس ارنولڈ اس طرح کہتا ہے: پیغمبر اسلام دین اور حکومت کے پیشوا تھے ۔

جس طرح اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اسلام (صلی الله علیه و آله) کے زمانہ میں حکومت موجود تھی اور آپ دینی اور سیاسی رہبر تھے غیر مسلم مستشرقین کہ جو اسلام کی تاریخ سے آشنا ہیں پیغمبر (صلی الله علیه و آله) کے زمانے میں حکومت کے وجود کو باور کرتے ہیں چنانچہ ایک دوسرا مستشرق بنام سٹروٹ مین کہتا ہے: اسلام دینی اور سیاسی مذہب ہے کیونکہ اس مذہب کے موسس نبوت کے علاوہ حکومت کے فنون سے بخوبی واقف تھے ۔

۱۔ اسلام ایک سیاسی دین ہے

کسی بھی صورت میں اسلام کو حکومت سے جدا تصور نہیں کیا جاسکتا بغیر حکومت کے اس کے اکثر احکام لغو ہوجائیں گے جو اسلامی افکار کے مخالف ہے ، چونکہ اسلام ایک کامل دین ہے اور اس میں انسان کی زندگی کے تمام پہلووں کے لئے قوانین موجود ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے اکثر احکام کو جاری کئے بغیر چھوڑدیا جائے لہٰذا اسلام میں حکومت کا وجود ضروریات اسلام میں شمار ہوتا ہے اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) نے اس ضرورت کو آشکار کیا اور خود قوانین اور احکام کو جاری کرنے اور اسلامی سماج کے امور کی رسیدگی کرنے کے لئے حکومت بنانے کا اقدام کیا اور یہ بات تاریخی شواہد سے ثابت ہے ۔

بعبارت دیگراسلام میں دین اور حکومت ایک دوسرے جدا نہیں ہیں کیونکہ اسلام میں سیاست ، دنیوی اور اخروی امور میں جامعہ کی رہبری اور امامت سے عبارت ہے (۹) اسی وجہ سے اسلام میں دین اور حکومت نہ یہ کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ شہید مدرس کے اعتقاد کے مطابق کہ ہماری سیاست عین دیانت ہے ، اگر اسلام میں دیانت اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا فرض کرلیں تو اسلام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی اور جیسے کہ امام خمینی (ره) فرماتے ہیں: خدا کی قسم! اسلام پورا کا پورا سیاست ہے مسلمانوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی ، اسلام ایک تدوین شدہ سیاست ہے جس میں اجتماعی مسائل کا حصہ عبادی مسائل کہیں زیادہ ہے ، اگر دیکھا جائے تو عبادی مسائل اجتماعی مسائل کی بہ نسبت ایک فیصد یا اس سے کچھ زیادہ ہوں گے ، حدیث کی کتاب کا ایک دورہ کہ جو ۵۰/ کتابوں پر مشتمل ہے اس میں فقط تین یا چار کتابیں عبادت سے متعلق ہیں باقی تمام اجتماع اور سیاست سے مربوط ہیں ۔

امام خمینی (ره) دوسری جگہ فرماتے ہیں: دین اسلام ایک سیاسی دین ہے (۱۰) اور یہ دونوں اسلام کے جزء لاینفک ہیں ۔

رسول اسلام (صلی الله علیه و آله) کا مدینہ میں حکومت کرنا دین اور حکومت کے رابطہ کی بہترین دلیل ہے ، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) منصب نبوت کے علاوہ امت کی امامت اور ولایت کا بھی منصب رکھتے تھے اور یہ حکومت کا قائم کرنا من جانب الله تھا کیونکہ آپ دین کو کامل طریقے سے جاری کرنے پر مامور تھے اور دین کا بطور کامل جار ی کرنا بغیر حکومت کے ممکن نہیں تھا، جو لوگ دین کو اخلاق اور آخرت میں محدود کرتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ آخرت اجتماعی روابط کی رہ گذر سے گذرتی ہے (۱۱)

اسلام کے قوانین انسان کی زندگی کی سمت کو معین کرتے اور انسان کی زندگی کا پروگرام شمار ہوتے ہیں اور اس میں فردی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلووں کو مدّنظر رکھا گیا ہے ، اجتماعی زندگی میں ان قوانین کا جاری کرنا حکومت کا محتاج ہے لہٰذا پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) نے حکومت قائم کی تاکہ اسلام کے قوانین کو جاری کرنے کے ذریعہ مسلمانوں کی دنیا اور آخرت کی سعادت کی ضمانت لے سکیں ۔

یہاں تک معلوم ہوگیا کہ اسلام انسان کی زندگی کے فردی اوراجتماعی پہلووں کے لئے مخصوص قوانین رکھتا ہے کہ جس کا وجود حکومت کے وجود کوضروری بنا دتیا ہے اسی لئے پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) نے بہ نفس نفیس حکومت کی تشکیل پر اقدام کیا اور یہ ہی اسلام میں پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کے زمانے میں ہی حکومت کے وجود کا پتہ دیتا ہے کہ جو اسلامی قوانین کی ماہیت اور اسلامی سماج کی ضرورت کو مدّنظر رکھتے ہوئے متصور ہے ۔

۳۔ اسلامی امّت

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) نے مدینہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد دو مہم کام انجام دیئے

۱۔۳۔ امت اسلامی کی تشکیل

جیساکہ پہلے بتایا جاچکا ہے لوگ اور آبادی حکومت کے تشکیل دینے کےمہم ترین عناصر ہیں کیونکہ اگر آبادی اور لوگ نہ ہوں تو حکومت کے کوئی معنی نہیں ہوں گے اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) نے اخوت اسلامی کی فکر کو ایجاد کرکے مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قرار دیا اور امت اسلامی کے نام سے قومی اتحاد کی بنیاد ڈالی ۔

۲۔۳۔ اسلامی حکومت کی بنیاد

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) نے اس کے بعد ایک متحد قوم بنام امت اسلامی کی بنیاد ڈالی ، پھر اسلامی اندیشوں کی بنیاد پر ایک حکومت کی تاسیس کی کیونکہ اسلامی امت حکومت اسلامی کی محتاج تھی تاکہ مسلمانوں کے امور کو ادارہ کیا جاسکے اسی وجہ سے اسلام میں حکومت کی تاسیس خود پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کے سیاسی تفکر کی بنیاد پر وجود میں آئی جس کی ضرورت کا پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) نے روز اول سے ہی جامعہ بشری کے رہبر کے عنوان سے احساس کرلیا تھا لہٰذا امت اسلامی کی تشکیل کے بعد پہلی فرصت میں ہی اسلامی حکومت کی تشکیل کا اقدام کیا، آپ نے لوگوں کے اختیارات کو ہاتھ میں لیتے ہی دو مہم کام انجام دیئے:

۱۔ امت کی تشکیل ۲۔ حکومت کی تاسیس

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) اخوت اسلامی قائم کرنے کے بعد دین کی بنیاد پر ایک محکم اور مضبوط قومی اتحاد کی بنیاد ڈالی یہ ایک ایسا عظیم سیاسی کام تھا کہ جو مسلسل محنتوں کے بعد انجام پاپا اور یہ قومی اتحاد، امت اسلامی کے نام سے اب تک قائم اور دائم ہے اور اس کا شمار اسلامی اتحاد کے ستونوں میں ہونا ہے کہ جو اسلامی سیاست کی سمت کو معین کرتا ہے ۔ حکومت کی بنیاد ، سیاسی روابط کی برقراری ، داخلی انتظامات ، اداری اور اجتماعی نظم وضبط تو عہد رسالت میں ہی انجام پاگئے تھے لیکن آپ کی رحلت کے بعد اس کو ادامہ دیا گیا اور اس میں وسعت بخشی گئی اور یہ تمام چیزیں پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کے سیاسی اندیشوں کی بنیاد پر انجام پایا ۔

اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) نے یہ دو بڑے کام اسلامی معاشرہ کو ایجاد کرنے کے لئے انجام دئےے کیونکہ اسلامی معاشرہ، امت اسلامی اور حکومت اسلامی کے بغیر قابل تصور نہیں ہے ۔

ج۔ اسلام میں حکومت کی ضرورت

جس طرح حکومت کی ضرورت کی بحث میں گذرچکا کہ حکومت ماہیت اسلامی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ انسان ایک اجتماعی موجود ہے اور انسان کا یہ اجتماعی ہونا کچھ ضرورتوں کا متقاضی ہے کہ جن کا مہیا ہونا ضروری ہے اور اس پر توجہ مبذول کرنا بھی لازم ہے ۔

اسلام ایسا دین ہے کہ جو بشر کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور اپنے اندر انسان کی حیات میں پیدا ہونے والے تمام حوادث کے لئے قوانین لئے ہوئے ہے اور اجتماعی اور فردی زندگی تمام ضرورتوں پر توجہ رکھتا اور ان کے پورا کرنے پر بھی قادر ہے اس لئے کہ انسانی معاشرہ ہرج ومرج سے دوچار نہ ہو، لاقانونیت لازم نہ آئے نظم وامنیت باقی رہے ، ضروری ہے کہ ایک حکومت ہو تاکہ وہ حکومت، معاشرے کے امور کو ادارہ کرسکے اور اسلام نے حکومت کی ضرورت پر بہت زیادہ تاکید کی ہے ، بہت سے دلائل موجود ہیں کہ جو اسلام میں حکومت کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:

۱۔ ایک اجرائی جماعتکی ضرورت (دلیل عقلی )

۲۔ اسلامی قوانین کی ماہیت․

۳۔ دینی پیشواؤں کی عملی سیرت․

جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ حکومت اسلامی کے ضروری ہونے کی دلیلیں تھیں اب ہم ان میں سے ہر ایک کا تفصیلی جائزہ لیں گے تاکہ اسلام میں حکومت کے وجود کا ضروری ہونا روشن ہوجائے ۔

۱۔ اجرائی جماعت کی ضرورت (دلیل عقلی)

انسان ایک اجتماعی موجود ہے اور اسلام ایک ایسا آئین ہے جو اجتماع کی مشروع ضرورتوں کا جواب دے سکتا ہے اور اسلام نے ان ضرورتوں کو فراموش نہیں کیا ہے ۔ طبیعی ہے کہ اگر معاشرے میں حکومت کا وجود مفقود ہوجائے تو معاشرہ ہرج ومرج سے دچار ہوجائے گا ۔

انسان برتری پسند اور اپنے منافع کو حاصل کرنے کے لئے دوسروں سے خدمت لینے کا خواستگار ہے ، انسان کو ایسے ہی چھوڑدینا اور جامعہ پرکسی قانون کا نہ ہونا اختلاف اور ہرج ومرج کا سبب ہوجائے گا، کیونکہ انسانوں کی محنت کا پھل ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط ہے اور سب اس سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہیں ۔

مزاحم منافع، سبب بنتے ہیں کہ اختلاف اور کینوں میں اضافہ ہوجائے ۔

اس ہرج ومرج کو دور کرنے کے لئے اور معاشرے میں نظم وضبط کو برقرار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے پر قانون کی حکومت ہو تا کہ لوگوں کی ہوا وہوس کا سدّ باب کیا جاسکے اور معاشرہ قانون مند ہوجائے البتہ صرف قانون ہی معاشرے میں ہرج ومرج کو دور نہیں کرسکتا لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی جماعت ہو تاکہ ان قوانین کو جاری کرسکے اور قوانین کو اجرا کرنے والی جماعت کو حکومت کہتے ہیں ۔

البتہ قوانین چاہے جس قدر بھی کامل اور معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے پر منظم ہوئے ہوں کافی نہیں ہیں بلکہ ضروری ہے کہ کوئی ان کو جاری کرنے والا ہو۔ حکومت کے اساسی اہداف ومقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ سماج میں نظم وضبط اور امنیت ایجاد ہو اور ہرج ومرج کا سدّباب کیا جائے ۔ امنیت اور نظم وضبط وہ مقصد ہے جس کی ضرورت سے ہر انسان بخوبی واقف ہے ۔ خداوندعالم نے پیغمبروں کو سماج میں الٰہی قوانین کو جاری کرنے کے لئے ارسال فرمایا ہے ان میں سے بہت سے پیغمبر الٰہی حکومت کو تشکیل دینے پر موفق ہوئے لیکن ان میں سے بعض پیغمبر رکاوٹوں کے سبب حکومت الٰہی برپا کرنے میں موفق نہ ہوپائے ۔ (۱۰)

اسی وجہ سے عقل حکم کرتی ہے کہ سماج میں نظم وضبط اور امنیت کو برقرار کرنے کے لئے اور قوانین الٰہی کو جاری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک حکومت ہو، پیغمبروں کا ارسال اسی مقصد کے تحت عمل میں آیا تاکہ جامعہ بشری کو الٰہی قوانین کی بنیاد پر ادارہ کرسکے ، پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) ان پیغمبروں میں سے تھے جوالٰہی حکومت کی تشکیل دینے پر موفق ہوئے ہیں اور آپ نے عملی طور سے مسلمانوں اور بشریت کے لئے حکومت کی ضرورت کو آشکار فرمایا ۔

۲۔ قوانین الٰہی کی ماہیت

اسلام کے احکام فقط فردی اور عبادی حلقوں میں ہی منحصر نہیں ہیں بلکہ اسلام ایک کامل دین ہے اور اس نے زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی تمام ضرورتوں پر توجہ رکھی ہے اور اس کے لئے مخصوص احکام وضع فرمائے ہیں جو اجتماعی ، ثقافتی ، اقتصادی ، سیاسی اور نظامی وغیرہ قوانین پر مشتمل ہیں، لہٰذا ان قوانین کو جاری کرنے کے لئے ایک حکومت کا ہونابہت ضروری ہے ۔

اسلام کے احکام ، عبادت میں منحصر نہیں ہیں، بلکہ اسلام کی جامعیت اس لحاظ سے کہ اس نے کسی بھی فردی اور جزئی مسئلہ کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا تو وہ کس طرح حکومت کہ جو بشریت کی ہدایت کی ضامن اور بشر کی زندگی کے مہم مسائل جو حکومت کے ہی وجود پر متوقف ہیں بغیر بیان کئے چھوڑ دے ۔

اسلام کے احکام اور قوانین پر ایک سرسری نظر اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ان احکام کی بناوٹ اس طرح کے کہ ان کا جاری کرنا بغیر حکومت کے ممکن ہے ۔ (۱۱)

جیسے جہاد، قضاوت، لوگوں کے حقوق کا تحفظ حدود وغیرہ کے قوانین ان احکام میں سے ہیں جن کا جاری کرنا حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، لہٰذا ان قوانین کی بناوٹ حکومت کے وجود کی متقاضی ہے ۔

جہاد فی سبیل الله ، اسلامی جامعہ کا دفاع، داخلی امنیت کا ایجاد کرنا، قضاوت اور حلّ اختلاف ، لوگوں کے حقوق کا احقاق، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، بیت المال اور مسلمانوں کے مالی مسائل، خمس، زکات، انفال ان مسائل میں سے ہیں کہ جن کا جاری کرنا حکومت کے لازمی ہونے پر بیّن دلیل ہے ۔ کیا ممکن ہے کہ اسلام ان موضوعات کے لئے جو اسلامی سماج کی اجتماعی اور سیاسی حیات سے جڑے ہوئے ہیں تو قانون رکھتا ہو لیکن ان کے جاری کرنے والے اور اجراء کی کیفیت کی طرف سے خاموش ہو ؟ (۱۲)

جو کچھ یہاں بیان ہوا اس پر توجہ کرتے ہوئے ممکن نہیں ہے کہ اسلام ، اجتماعی مسائل کے لئے تو قانون رکھتا ہو لیکن ان کے جاری کرنے والوں کو نہ پہچنوائے ، حالانکہ اسلام نے ایک کامل دین ہونے کے اعتبار سے انسانی زندگی کے تمام موقعوں کو مدّنظر رکھا ہے لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ قانون تو بنائے لیکن ان کے جاری کرنے والوں کو معین نہ کرے ، بلکہ اسلام نے جیسے طرح طرح کے مسائل کے لئے قوانین وضع کئے ہیں تاکہ انسان کی زندگی کو سنوار سکے ایسے ہی ان قوانین کو جاری کرنے کے لئے حکومت کے وجود کو بھی لازم جانا ہے ، چنانچہ بہت سی آیات وروایات اس موضوع کو بیان کرتی ہیں ۔

۳۔ دینی پیشواؤں کی عملی سیرت

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)، حضرت علی - اور امام حسن - کی عملی سیرت اسلامی میں حکومت کی ضرورت پر تاکید کرتی ہے کیونکہ انھوں نے حکومت بنائی اور حکومت بنانے کی وصیت فرمائی ، جیسا کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) نے مدینہ میں حکومت بنائی ، حضرت علی - اور امام حسن - میں حاکم اسلامی رہے ، اب رہا سوال دوسرے اماموں کا اگر ان کے لئے حالات سازگار ہوتے تویقینا وہ بھی حکومت بناتے ، ایسے ہی خلفاء ثلاثہ نے بھی پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی رحلت کے بعد اسلامی سماج کی باگ ڈور کو ہاتھوں میں تھاما تھا اور مسلمانوں پر حکومت کی تھی ، یہ تمام چیزیں اسلام میں حکومت کی ضرورت کا پتہ دیتی ہیں ۔

کیونکہ اگر حکومت کی کوئی ضرورت نہیں تھی تو قطعاً ان حضرات کی طرف سے کوئی اقدام نہ کیا جاتا لہٰذا جب حکومت کے بنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حکومت کی ضرورت کا احساس کر رہے تھے ۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) نے کہ جو لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہیں، اپنی حیات طیبہ میں ہی حکومت کے اسباب فراہم ہوتے ہی حکومت تشکیل دی ۔

قرآن کے دقیق مطالعہ اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کی فرمائشات میں غور وفکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کی حیات طیبہ میں دو طرح کی قیادتےں نہیں تھی کہ ایک قیادت دینی ہو اور ایک قیادت دنیوی ، بلکہ قیادت ایک ہی تھی وہ دنیوی تھی اور وہی دینی کہ جس کا اختیار خود پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کے ہاتھوں میں تھا اور آپ ہی مسلمانوں کے مادی اور معنوی امور میں ملجاٴ وماویٰ تھے ۔

پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کی حیات طیبہ میں آپ سے طرح طرح کے مسائل پوچھے جاتے تھے لیکن حکومت کی ضرورت کے متعلق کبھی کوئی سوال نہیں پوچھا گیا کیونکہ یہ مسئلہ اتنا روشن اور واضح تھا کہ کسی کو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ، یعنی حکومت کا وجوب اس قدر بدیہی تھا کہ اس کے متعلق کسی کے ذہن میں کوئی خدشہ بھی ایجاد نہ ہوا تاکہ اس کو سوال کے ذریعہ دور کرے ۔

آنحضرت نے ہجرت کے بعد بلافاصلہ حکومت تشکیل دی ، حالانکہ آپ کے اصحاب اور پیروکار آپ سے بہت سے مسائل اور مشکلات کے بارے میں سوالات کرتے تھے لیکن کسی نے کبھی بھی اصل حکومت کے بارے میں سوال نہ کیا ، یہ چیز اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ یہ مسئلہ اس قدر بدیہی اور واضح تھا کہ اس میں سوال کی ضرورت نہیں تھی ، آپ کی رحلت کے بعد کوئی حکومت کے ضروری ہونے کے متعلق شک وتردید میں نہیں تھا تنہا مورد اختلاف یہ مسئلہ تھا کہ حاکم کون ہو، سقیفہ کے پورے ماجرے میں اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کے جانشین مقرّر ہونے میں کسی نے اس چیز کی طرف اشارہ تک نہ کیا کہ خلیفہ کا ہونا ضروری نہیں ہے اور اس کے لازمی ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے ، بلکہ اختلاف اس بات پر تھا کون پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کا جانشین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ (۱۴)

سیاسی اور حکومتی مسائل کو واضح کرنے میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) کا عمل اور صرف عبادی مسائل پر اکتفا نہ کرنا اور یہ بھی کہ بادشاہوں اور سلاطین کے پاس خطوط کا بھیجنا، قضاوت کے امور انجام دینا یہ تمام اسلامی معاشرہ میں حکومت اور سیاسی قیادت کے مسئلہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں ۔

نتیجہ:

اسلام آخری آسمانی دین ہونے کی وجہ سے انسان کی فطری اور طبیعی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، اس کو دنیا وآخرت میں سعادت اور کمال تک پہونچاتا ہے اور اس نے اس بابت کچھ قوانین مقرر فرمائے ہیں، دوسری طرف سے یہ کہ ہر قانون، اجراء کرنے والے اور اجرائی جماعت کا محتاج ہے ، یہ وہ چیز ہے جس کا عقل تقاضا کرتی ہے کیونکہ صرف قانون ہی انسان کے لئے مفید اور مثمر ثمر نہیں ہوسکتا، اسلام آیا تاکہ انسان کی فطری اور طبیعی ضرورتوں کا جواب دے ، ان ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ سماج میں نظم وضبط اور امنیت برقرار ہو چونکہ نظم وامنیت کے بغیر انسان کی زندگی مختل ہوکر رہ جائے گی ، وہ جماعت جو سماج میں امن و امان اور نظم و ضبط برقرار کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے وه حکومت کہلاتی ہے ۔

لہٰذا عقلی ضرورت ، اسلام کے قوانین کی ماہیت ، پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) اور دینی پیشواؤں کی سیرت ، اسلام میں حکومت کی ضرورت کی حکایت کرتی ہیں اور اسلام میں حکومت کا وجود ان بنیادی موضوعات اور مسائل میں سے تھا اور ہے کہ جو ہمیشہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله) اور جامعہ اسلامی کے رہبروں کی توجہ کا مرکز بنا رہا ۔

حوالے :

۱۔ فلسفہ سیاست، تدوین: موسسہٴ آموزشی پژوہشی امام خمینی (ره)، قم ، ہمان موسسہ، ۱۳۷۷، ص۸۲․

۲۔ گذشتہ حوالہ ․

۳۔ سیاست، ترجمہ احمد لطفی ، ۶۶․

۴۔ جمہوری افلاطون، ترجمہ روحانی․

۵۔ مقدمہ ابن خلدون، ص۴۲۔ ۴۱ (مبانی حکومت اسلامی سے نقل، سبحانی)

۶۔ جعفر سبحانی ، مبانی حکومت اسلامی ، ترجمہ ونگارش: داوٴد الہامی ، انتشارات توحید، قم ، ۱۳۷۰، ص۱۳․

۷۔ گذشتہ حوالہ․

۸۔ محمد سروش، دین ودولت در اندیشہ اسلامی ، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی ، قم ، ۱۳۷۸، ص۱۹۲۲․

۹۔ فلسفہ سیاست، ص۲۰․

۱۰۔ صحیفہٴ نور،ج۲۱، ص۱۷۸․

۱۱۔ گذشتہ حوالہ، ج۹، ص۱۳۸․

۱۲۔ حسین جوان آراستہ، مبانی حکومت اسلامی ، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی ، قم ، ۱۳۷۸، ص۲۲․

۱۳۔ محمد ہادی معرفت، مجلہ حکومت اسلامی ، سال دوم/ شمارہ،۴/ زمستان ۷۶، ص۱۴․

۱۴۔ محمد یوسف موسیٰ، نظام الحکم فی الاسلام ، ص۱۴ (گذشتہ سے نقل، ص۱۹۳)

 


source : http://www.taghrib.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام
حضرت فاطمہ زہراء
فدک حضرت زہرا کی ملکیت
حضرت زھرا علمائے اھل سنت کی نطر میں

 
user comment