اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

اللہ کی ذات سب صفات کی مالک

لامحدود کو تحریر میں محدود نہیں کیا جا سکتا  مگر اسکے ذکر کے بغیر رہا بھی نہیں جا سکتا۔ ہر قلب میں ا س کا احساس اور ہر روح میں اس کی تڑپ ہونا ہی اس کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔

ہر دل میں اس کی یاد بسی سبحان اللّہ! سبحان اللّہ!

ہر روح میں اس کا جلوہ تھا سبحان اللّہ! سبحان اللّہ!

اگر تمام درختوں کے قلم بنا دیئے جائیں اور ساتوں سمندر روشنائی میں تبدیل کر دیئے جائیں تو بھی اس لامحدود کی لامحدود باتیں ختم نہ ہوں۔ یہ یگانہ و یکتا ہستی خود لامحدود ہے مگر موجودات کو گھیرے ہوئے ہے۔ خود لامکان ہے مگر کوئی جگہ اس سے خالی نہیں۔ خود نظر نہیں آتے مگر ہر نظر کو پا لیتے ہیں۔ خود کہیں نہیں سماتے مگر ہر شے کو سمائے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہو کر اس سے جدا ہیں۔

سوہناں شاہرگ توں وی قریب وسے

ڈونگا پینڈا ہجر دا نہیں مک دا

وہ ہر ایک کا درد بھی ہیں اور درماں بھی۔ ہر ایک کی منزل بھی ہیں اور ساتھی بھی‘ ہر ایک کے محبوب بھی ہیں اور محب بھی۔ یہ یگانہ و یکتا ہستی الحق اور قائم بالذات ہے۔ وہ ازخود قائم ہے اور باقی سب اسکی وجہ سے قائم ہیں۔ (القیوم) وہ ازخود زندہ ہیں‘ اور باقی سب انکی نسبت سے زندہ ہیں۔ (الحیی) اور چونکہ انکی زندگی اصل زندگی ہے اس لئے انہیں نہ اونگھ آتی ہے‘ نہ نیند اور نہ وہاں تکان کا گزر ہے۔ وہ ہر دن ایک نئی شان سے جلوہ گر ہیں۔

اللّہ تعالٰی کی ہستی ہر لحاظ سے بے مثل و بے مثال ہے۔ وہ کسی کے محتاج نہیں‘ البتہ موجودات کی ہر شے انکی محتاج ہے۔ جنے جانا اور جننا (عمل افزائش نسل) مخلوق کیلئے ہے۔ مخلوق اولاد کے ذریعہ اپنی تکمیل و بقاء کی جویا ہے۔ اولاد کا تصور ہی باپ کے فانی اور نامکمل ہونے سے عبارت ہے۔ مگر وہ ذات جو ازلی ابدی اور ہر لحاظ سے مکمل ترین ہے۔ اسے کیوں اولاد کی حاجت ہو لامحدود کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ نہ اس میں کچھ جمع کیا جا سکتا ہے اور نہ اس سے کچھ منہا کیا جا سکتا ہے۔

سورۃ اخلاص میں فرمایا : ’’کہہ دیں: وہ اللّہ ایک ہے‘ اللہ بے احتیاج ہے (اور باقی سب اسکے محتاج ہیں) نہ وہ جنتا ہے نہ وہ جنا گیا اور نہ اس جیسا کوئی اور ہے۔‘‘

احدیت‘ یکتائی اور بے احتیاجی لامحدودیت کے خواص ہیں اور بے پایاں رحمت اس کا مزاج۔ اس بے پایاں رحمت کا ظہور ان سے ہر لمحہ وقوع میں آ رہا ہے اور موجودات کے گوشے گوشے میں اپنا اثر پہنچا رہا ہے۔ محبت کا ایک بحر بیکراں ہے جو اس وجود مطلق کے سینہ میں موجزن ہے اور بے پایاں رحمت کا یہ سیل رواں اسی اتھاہ محبت کا مسلسل اظہار ہے۔ یہ رحمت ہی تھی جو موجودات کی تخلیق کا باعث بنی۔ اسی نے ہر نوع اور ہر وجود کی جدا جدا تقدیر معین کی۔ ہر ایک پر ترقی کی راہیں کھولیں‘ مگر ہر ایک پر صرف اتنا ہی بوجھ ڈالا جتنا وہ اٹھانے کے قابل تھا۔


source : http://www.tebyan.net/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment