اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

کیا قرآن نے مقابلے کے لئے چیلنج کیا ہے ؟

قرآن نے چند ایک سورتوں میں اپنی مثال لانے کے لئے چیلنج کیا ہے ۔اس کی کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں :

(۱)سورہ اسراء آیہ ۸۸(یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی ) ہے: قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتو ا بمثل ھذا القرآن لا یا تون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا 

کہیے کہ اگر تمام انسان اور جن جمع ہوجائیں تاکہ قرآن جیسی کتاب لے آئیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اگرچہ خوب ہم فکر و ہم کا ر بھی ہوجائیں۔

(!!) سورہ ہود (یہ بھی مکہ میں نازل ہوئی ) کی آیات ۱۳ اور ۱۴ میں یوں ہے:ام یقولون افتراتہ قل فاتوبعشر سور مثلہ مفتریت ودعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین فالم یستجیبو لکم فاعلموا انما انزل بعلم اللہ 

کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات خدا پر افتراء ہیں کہ دے کہ اگر تم سچے ہو تو ایسی دس سورتیں گڑھ کے لے آؤ اور بدون خدا جسے مدد کی دعوت دے سکتے ہو دے لو --اور اگر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو جان لو کہ یہ آیات خدا کی طرف سے ہیں ۔

(!!!) سورہ یونس ( جو مکہ میں نازل ہوئی ) کی آیت ۳۸ میں اس طرح ہے :ام یقولون افترانہ قل فاتو بسورة مثلہ و ادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین 

کیا وہ کہتے ہیں کہ خدا پر افتراء باندھا گیا ہے آپ کہئے کہ اس جیسی ایک سورت لادکھاؤ اور خدا کے علاوہ ہر کسی کی مدد کے لئے طلب کرلو اگر تم سچے ہو۔

(۴) چوتھی مثال یہی زیر بحث آیت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی۔

جیسا کہ واضح ہے کہ قرآن صراحت اور بے نظیر قاطعیت اور یقین کے ساتھ مقابلے کی دعوت دے رہا ہے ایسی صراحت و قاطعیت جو حقانیت کی زندہ نشانی ہے۔

قرآن نے بہت قاطع اور صریح بیان کے ساتھ تمام جہانوں اور تمام انسانوں کو مقابلہ بمثل کی دعوت دی ہے جو قرآن کے مبداء جہان آفرینش کے ساتھ ربط میں شک رکھتے ہیں ۔صرف دعوت ہی نہیں دی بلکہ مقابلہ کا شوق بھی دلایا ہے اور اس کے لئے تحریک پیدا کی ہے اور ان آیات میں ایسے الفاظ صرف کئے ہیں جو ان کی غیرت کو ابھارتے ہیں ۔مثلا،

ان کنتم صادقین“

اگر تم سچے ہو ۔

فاتو بعشر سور مثلہ مفتریت “

ایسی دس سورتیں گڑھ لاؤ۔

قل فاتوبسورة مثلہ ان کنتم صادقین“

اگر تم سچے ہو تو ایسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔

ودعوامن استطعتم من دون اللہ“

بدون خداجسے چاہودعوت دو

۔قل لئن اجتمعت الانس والجن“

اگر تم جن و انس بھی ایکا کرلو ۔

”لا یاتون بمثلہ“

اس کی مثل نہیں لا سکتے۔

”فاتقوالنار التی وقودھا الناس والحجارة “

اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن (گنہگار)لوگوں کے بدن اور پتھر ہیں ۔

فان لم تفعلوا ولن تفعلو“

اگر اس کی مثل نہ لائے اور نہ ہی تم لاسکتے ہو ۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف ادبی یا مذہبی مقابلہ نہ تھا بلکہ ایک سیاسی اقتصادی اور اجتماعی مقابلہ تھا تمام چیزیں یہاں تک کہ خود ان کے وجود کی بقا کا انحصار بھی اس مقابلے میں کامیابی پر نہ تھا بہ الفاظ دیگر ایک مکمل مقابلہ تھا جو ان کی زندگی اور موت کی راہ اور سرنوشت کو روشن کر دیتا۔ اگر کامیاب ہوجاتے تو سب کچھ ان کے پاس ہوتا اور اگر مغلوب ہوجاتے تو اپنی بھی ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے اس سب کے باوجود تحریک و تشویق کا یہ عالم ہے۔ 

اس کے باوصف اگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک د یئے اور اس کا مثل نہ لاسکے تو قرآن کا معجزہ ہونا زیادہ واضح اور روشن تر ہوجاتا ہے۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہ آیات کسی خاص زمانے یا جگہ سے مخصوص نہیں بلکہ تمام جہانوں اور تمام علمی مراکز کو مقابلے کی دعوت دے رہی ہیں اور کسی قسم کا استثناء نہیں ہے اور یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے۔


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
کیا یا علی مدد کہنا جائز ہے
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...

 
user comment