اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

عاشورائے فاطمیہ اور کربلا ئے سقیفہ/ فضائل حضرت زھراء (س)

مازیں پڑھ كر خود مقرب بارگاہ بن جانا امت كا كام ہے - اور نماز سے كائنات كو منور كرنا بنت رسول (ص) كی منزل ہے۔

شخصیت حضرت زھراء سلام اللہ علیہا

فاطمہ (س) کی جبین پر پیغمبر اسلام (ص) بوسہ دیتے تھے۔ ان کے احترام میں حضور (ص) کھڑے ہوجاتے  اور جگہ بٹھا لیتے تھے ۔

حضرت فاطمہ (س) بیٹی ہو نے کے رشتے سے رسول خدا (ص) کی وارث ہیں، امیرالمؤمنین (ع) کی رفیق زندگی ہونے كے اعتبار سے شریك امامت ہیں،

ام الائمہ ہیں اس لئے ہر امام كے كمال و جمال كی آئینہ دارہیں، جو كچھ گیارہ اماموں كے كردار سے ظاہر ہو نے والا ہے

اس كا پرتو معصومہ عالم كی زندگی میں جلوہ گر ہے۔ اٹھارہ سال كی مختصر عمر میں مصائب و آلام كی یہ كثرت كہ خود اپنے حال كا مرثیہ پڑھا

صُبَّت عَلَیَّ مصائبُ لَو اَنَّہا            صُبَّت عَلَی الاَیّامِ صِرنَ لَیالِیاً

مجھ پر اتنے مصائب ڈالے گئے كہ اگر دن پر پڑتے تو راتوں كی طرح تاریك ہوجاتے۔لیكن بنت رسول (ص) كے صبر اور استقلال کا عالم  یہ رہا کہ  

نہ ذاتی اوصاف و كمالات میں كوئی فرق آیا نہ خدمت مذہب وملت سے انحراف فرمایا، قوم ستاتی رہی اور سیدہ ہدایت کی دعائیں دیتی رہیں دنیا گھر جلاتی رہی اور فاطمہ (س) فرض تبلیغ ادا كرتی رہیں تاریخ گواہ ہے كہ نہ اس شان كا باپ دیكھا ہے نہ اس شان كی بیٹی، نہ اس كردار كا شوہر دیكھا ہے نہ اس عظمت كی زوجہ ، نہ اس جلالت كے بچے دیكھے ہیں نہ اس رفعت اور منزلت كی ماں ،فضیلتیں سیدہ كے گھر كا طواف كر تی ہیں اور عظمتیں فاطمہ كی ڈیوڑھی پر خیمہ ڈالے ہوئے ہیں مصلائے عبادت پر آگئیں تو دنیا نور عبادت سے منور ہوجاتی صبح کو ایك نور ساطع ہوتا ظہر كے وقت دوسرانور اور مغرب كے ہنگام تیسرا نور، مدینہ نور زہراسے منور ہوجاتانمازیں پڑھ كر خود مقرب بارگاہ بن جانا امت كا كام ہے اور نماز سے كائنات كو منور كر نا بنت رسول (ص) كی منزل ہے ممکن ہےکہ ہم دنیا میں ان سےغافل ہوجائیں لیكن وہ قیامت كے دن اپنے كرم سے غافل نہ ہوں گےجب تک دامن زہراء وا ہلبیت (ع) ہاتھ میں ہے توجنت بھی اپنی ہے  كوثر بھی اپنا ہے خدا بھی اپنا ہے رسول بھی اپنا ہے  ایمان بھی اپنا ہے  كعبہ  بھی قرآن بھی اپنا ہے جب  ہم ان كے ہوگئے تو كل كائنات اپنی ہے شرط کہ ہے کہ اللہ کی اطاعت بھی جاری ہو کیونکہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: جس نے اللہ کی اطاعت کی وہ ہمارا دوست اور ولی ہے اور جو اللہ کی نافرمانی کرے وہ ہمارا دشمن ہے۔ 

وضاحت یہ کہ عقیدت کافی نہیں ہے عقیدہ بنانے کی ضرورت ہے اور عقیدے کی تشکیل میں عمل کا عنصر بنیادی کردار ادا کرتا ہے ورنہ عقیدت تو اہل بیت (ع) کی نسبت کئی غیر مسلم بھی رکھتے ہیں۔محبت اہل بیت (ص) ہر مسلمان پر فرض عین ہےاللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: "قل لا أسالكم عليه أجراً إلا المودة في القربى" (سورة الشورى : 21 ـ 23 ).

کہہ دیں اے میرے حبیب (ص): میں تم سے اپنی زحمتوں کی اجرت نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قرابتداروں سے مودت و محبت کرو۔

یہ آیت اہل بیت (ص) سے مودت کے وجوب کو ظاہر کرتی ہے جس پر تقریباً تمام کتب سیرت و تاریخ و حدیث و تفسیر میں تأکید ہوئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ "قربی" سے مراد علی و زہرا و حسن و حسین اور ان کی ذریت علیہم السلام ہی ہیں۔ 

سیوطی اور دیگر سنی علماء نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی (قل لا أسالكم عليه أجراً إلا المودة في القربى) تو اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! آپ کے یہ قرابتدار کون ہیں جن کی محبت اللہ تعالی نے ہم پر واجب ہے؟۔

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "علي وفاطمة وولداهما" = یعنی علی اور فاطمہ اور ان کے دو بیٹے میرے وہ قرابتدار ہیں جن کی مودت مسلمانوں پر فرض کردی گئی ہے۔

(الدر المنثور ـ السيوطي 6 : 7 ، یہ حديث ان منابع میں بھی منقول ہے : فضائل الصحابة ـ أحمد بن حنبل 2 : 669 ـ 1141 . والمستدرك على الصحيحين 3 : 172 . وشواهد التنزيل ـ الحسكاني 2 : 130 من عدّة طرق . والصواعق المحرقة ـ ابن حجر : 170 . وتفسير الرازي 27 : 166 . ومجمع الزوائد ـ الهيثمي 9 : 168 . والكشاف ـ الزمخشري 4)

یہ آیت مودت اہل بیت (ع) کو فرض قرار دیتی ہے اور رسول اللہ (ص) کی حدیث اہل بیت (ع) اور قرابتداروں کے مصادیق کو واضح کرتی ہے۔ فخر رازی نے تین طرح سے اس حقیقت پر استدلال کیا ہے۔ انھوں نے زمخشری سے حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: پس ثابت ہوا کہ یہ چار ذوات مقدسہ (علي وفاطمة و حسن و حسین علیہما السلام) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت دار ہیں اور جب ثابت ہوچکا کہ یہ چار ہستیاں قرابت داران رسول اللہ (ص) ہیں تو یہ بھی ثابت ہوچکا کہ یہ ہستیاں زیادہ سے زیادہ تعظیم و تکریم اور محبت و مودت کے مستحق ہیں۔ 

فخر رازی کی دلیلیں:

الاَول: اللہ کا یہ ارشاد گرامی کہ: ﴿لا أسالكم عليه أجراً إلاّ المودَّةَ في القُربَى﴾.

الثاني: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اللہ (ص) فاطمہ سلام اللہ علیہا سے محبت فرمایا کرتے تھے اور آپ (ص) نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہیں وہ شخص مجھے اذیت دیتا ہے جس نے فاطمہ (ص) کو اذیت دی۔ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) علی و حسن و حسین علیہم السلام سے محبت فرمایا کرتے تھے اور جب یہ بات ثابت ہوئی تو یہ بھی ثابت ہوچکا کہ پوری امت پر بھی اسی طرح کی محبت و مودت فرض ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ: "واتَّبعُوهُ لَعلَّكُم تَهتَدُونَ" = رسول اللہ (ص) کے قول و فعل کی پیروی کرو امید ہے کہ تم ہدایت پاؤ۔ (سورة النور : 24 ـ 63) اور یہ کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: لَّا تجَْعَلُواْ دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ یَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِینَ یَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یخَُالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِیبهَُمْ فِتْنَةٌ أَوْ یُصِیبهَُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ؛ رسول اللہ (ص) کی دعوت کو آپس کی معمولی دعوت نہ سمجھو، اللہ تعالی تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ میں کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ جو رسول اللہ (ص) کے احکام کے خلاف امر کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہئے ان فتنوں سے یا اس دردناک عذاب سے جو اس طرح کے اعمال کی بنا پر ان پر نازل ہوسکتا ہے۔ (سورة النور آیت 63)

الثالث: آل بیت نبی (ص) کے لئے دعاء ایک عظیم منصب و مرتبہ ہے اسی وجہ سے اللہ تعالی نے نماز میں تشہد کا اختتام قرار دیا ہے اور ہم پر فرض ہے کہ نماز میں تشہد کے بعد "اللهم ّصلِّ على محمد وآل محمد" ضرور پڑھا کریں اور یہ تعظیم آل کے بغیر کسی اور کے لئے نہیں پائی جاتی، پس یہ سب حقائق حبِّ محمد و آل محمد (ص) کے واجب ہونے کی دلیل ہیں۔

(تفسير الرازي : 27 | 166)

لیکن کیا امت نے اپنے اس فریضے پر عمل کرکے بھی دکھایا؟

امت مسلمہ اور اجر رسالت کی ادائیگی

پیغمبر اسلام (ص) كی رحلت كے بعد بعض صحابہ حضرت فاطمہ (س) كے گھر كی حرمت پامال كرنے پر كمر بستہ ہوگئے

خانہ وحی پر مسلسل حملے ہوئے اور انہیں مسلسل دھمکیاں ملیں اور گھر کے دروازے کو آگ لگائی گئی اور سیدہ شدید زخمی ہوئیں اور بیٹے محسن سقط ہوئے۔

خلافت كو آنحضور كے گھر سے نكال كر اپنے گھر لے گئے

فدک جو رسول اللہ (ص) نے سورہ حشر کی چھٹی آیت میں اللہ کے حکم کے تحت اپنی بیٹی کو بخش دیا تھا کو غصب کرلیا اور اللہ کے حکم میں ترمیم کرکے "ہبہ" کو "ارث" قرار دیا اور پھر بھی اللہ کے حکم میں ترمیم کرنے کے لئے حدیث وضع کرکے اعلان کیا کہ رسول خدا ترکہ نہیں چھوڑا کرتے!۔

خلافت كو ملوكیت كا لباس پہنا كر اسلام كا شیرازہ بكھیر دیا

وہ بی بی جس كی جبیں پر پیغمبر اسلام بوسہ دیتے تھے

جس كے احترام میں حضور كھڑے ہوجاتے تھے

جن كے بارے میں حضور (ص) نے اصحاب سے بار بار كہا کہ

فاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِنّی مَنْ  أٰذاھَاا فَقَدْ آذانِی

فاطمہ میراٹکڑا ہے جس نے اس كو اذیت دی اس نے مجھ كو اذیت دی

فاطمہ كی عظمت كو حضور (ص) نے بارہا اصحاب كے سامنے بیان فرمایا   

لیكن پیغمبر اسلام (ص)كی رحلت كے بعد بعض اصحاب نے حضور كی تمام وصیتوں كو پس پشت ڈال دیا۔

سقیفہ كے ٹھیکیداروں  نے امت كو تہتر فرقوں میں تقسیم كردیا ؟

جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا تھا كہ "میری امت میں تہتر فرقے ہونگے جن میں سے ایك جنت میں جائے گا باقی جہنمی ہونگے"۔

امت نے آپ (ص) بیٹی كو اتنا ستایا كہ فاطمہ زہرا (س) نے وصیت كی كہ میرے جنازے میں ان  كو شركت نہ كرنے دی جائے جنہوں نے میرا حق غصب كیا اور مجھ پر ظلم و ستم كے پہاڑ توڑے ہیں۔

زہراء (س) نے  اپنے ستانے والوں سے مرتے دم تك كلام نہیں كیا۔

حق جو ادا کیا تھا ان امتیوں نے اجر رسالت کا!!!

بعض دشمنوں نے اپنی زندگی كے آخری ایام میں اعتراف كیا كہ كاش میں نے نبی اكرم (ص)كی بیٹی كو پریشان نہ كیا ہوتا،

آہ ! میں نے اپنی بیٹی كا تو احترام كیا اور سركار دوعالم كی بیٹی كو خون كے آنسو رلائے،

جب نبی مكرم (ص) اپنی فاطمہ (س) كے بارے میں مجھ سے سوال كریں گے تو میں كیا جواب دوں گا؟

یہی كہوں گا كہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے امت كو متحد كرنے كے لئے خلافت كو آپ (ص) كے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) كے گھر سے نكال لیا، فدك كو فاطمہ سے چھین كر بیت المال میں شامل كرلیا، فاطمہ (س) فدك كا مطالبہ كرتی رہیں آپ (س) علی (ع) و ام ایمن اور حسن و حسین (ع) كو گواہی كے طور پر پیش كیا لیكن میں نے صاحبان منصب تطہیر کی بھی اور جنت کی بشارت پانے والی ام ایمن کی گواہی مسترد كردی، فاطمہ (س) روتی رہیں اور میں دیكھتا رہا، علی (ع) گریہ كرتے رہے اور میں دیكھتا رہا، حسن اور حسین (ع) سسكیاں لیتے رہے اور میں دیكھتا رہا۔

الباقر (ع): لَمَّا وُلِدَتْ فَاطِمَةُ 

جب زھراء (س) پیدا ہوئیں

أَوْحَى اللَّهُ إِلَى مَلَكٍ 

تو خدا نے ایک فرشتہ کو وحی کی

فَأَنْطَقَ بِهِ لِسَانَ مُحَمَّدٍ 

فرشتے نے زبان رسول(ص) پہ فاطمہ (س) جاری کیا

فَسَمَّاهَا فَاطِمَةَ 

تو رسول (ص) نے انکا نام فاطمہ رکھا

ثُمَّ قَالَ 

پھر خدانے فرمایا (اے فاطمہ)

إِنِّى فَطَمْتُكِ بِالْعِلْمِ 

میں نے تجھے علم پلاکر {جہل سے جدا کیا}

یعنی: زھراء کا دودھ چھڑانا علم کے ساتھ تھا۔

وَ فَطَمْتُكِ مِنَ الطَّمْثِ 

میں نے تجھے (ماہانہ آلودگی سے) چھڑا دیا

ثُمَّ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ وَ اللَّهِ 

پھر امام باقر (ع) نے فرمایا: قسم بخدا

لَقَدْ فَطَمَهَا اللَّهُ بِالْعِلْمِ وَ عَنِ الطَّمْثِ فِى الْمِيثَاقِ

خدانے انہیں علم کے توسط سے جہالت اور زنانہ آلودگیوں سے جدا کردیا {اصول كافى جلد 2 صفحه 358 روايت 6}

امام باقر (ع) کا قسم کھانا اس لیے ہے کہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ امام (ع) نے اپنی جدّہ گرامی کے بارے میں مبالغہ کیاہے،بلکہ انھوں نے عین حقیقت کو بیان کیاہے۔

الصادق (ع) : هِی الصدّیقَةُ الکُبری 

وہ صدیقہ کبری ہیں

یعنی بزرگترین مظہر صدق و راستی ،

وَ عَلی مَعرِفَتِها دَارَت القُرونُ الاُولی

قرون ماضیہ معرفت زھراء مرضیہ کے مدار پہ گردش میں تھے ۔

یعنی: نظام عالم ہستی اور بقائے عالم طبیعت میں زھراء موثر تھی

گویا: دوران گذشتہ وقرون ماضیہ میں بھی ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو مقام ومرتبہ ارجمند زھراءِ مرضیہ (س) سے آشناتھے ۔

اور ان ہی اشخاص کی معرفت کی برکت سے اور ان کی شناخت کے گرد قرون ماضیہ کی گردش جاری تھی ۔

پس معرفت زھراءِ مرضیہ کے لیے شائستہ ترین افراد انبیاءِ عظام اور سفیران آسمانی ہیں۔

گذشتہ صدیاں ، قرون ماضیہ کی گردش معرفت زھراء کے محورپر تھیپس دوران آئندہ بھی اسی محورپہ گردش کریگا اور مقام رفیع بانوی دوعالم کی معرفت حاصل کرتے رہینگے ۔

ہاں زھراء (س): خلقت و بقای عالم میں موثر ہیں (ان کی ولایت تکوینی)

الصّادق (ع): لَوْ لَا أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خَلَقَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِفَاطِمَةَ مَا كَانَ لَهَا كُفْوٌ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ مِنْ آدَمَ وَ مَنْ دُونَهُ

اگر خداوند علی علیہ السلام کو زھراء سلام اللہ علیہا کے لیے پیدا نہ کرتا تو زھراء مرضیہ کے لے روی زمین پہ کوئی ہمسر نہ ہوتا از آدم تا آخر{اصول كافى جلد 2 صفحه 360 روايت 10}(بحار۳۴۷۰۱)

الباقر (ص: وَ لَقَدْ كانَتْ عَلَيْها السلام مَفْرُوضَةَ الطاعَةِ

بتحقیق زھراء علیہا السلام کی اطاعت واجب تھی ۔

عَلى جَميعِ مَنْ خَلَقَ اللهِ مِنَ الْجِنَّ وَالأنْسِ وَالطَّيْرِ وَالْوَحْشِ

تمام مخلوقات خدا پرہر جن وبشر اور ہرپرند وچرند پر

وَالأنبِياءِ وَالملائِكَةِ.

اورتمام انبیاء اور فرشتوں پر ۔

الرسول(ص): اِنَّ الله عَزَّ وَ جَلَّ أَشْرَفَ عَلى الدُّنْيا

خداوند متعال نے پوری کائنات پہ کی طرف توجہ کی

فَاخْتارَنى مِنْها عَلى رِجالِ الْعالَمينَ،

پھر مجھے پورے تمام مخلوقات میں سے مردان عالم پر انتخاب کیا

ثُمَّ اطَّلَعَ الثّانِيَةَ فَاخْتارَكَ عَلى رِجالِ الْعالَمينَ،

پھر (اے علی (ع) خدا نے عالمین کے مردوں پہ تجھ کو منتخب کیا

ثُمَّ اطَّلَعَ الثّالِثَةَ فَاخْتارَ الأئمَّةَ مِنْ وُلْدِكَ عَلى رِجَالِ العَالَمِيْنَ

پھرخدانے کائنات پہ نظر کی اور آپ کی اولاد میں سے معصوم اماموں کو مردان عالم پہ انتخاب کیا ۔

ثُمَّ اطَّلَعَ الرّابِعَةَ فَاخْتَارَ فاطِمَةَ على نساء العالَمينَ (1).

پھرخدانے نظر کی اور فاطمہ (س) کو تمام نساء عالم پہ منتخب کیا ۔

(فاطمة الزهرا - علامه امينى: صفحه43 چاپ تهران)

 


source : http://www.abna.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیام عرفانی قیام امام حسین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...
امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

 
user comment