اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

ندائے حق کی مظلومیت

تاریخ بشریت گواہ ہے کہ حق ہمیشہ مظلوم رہا ہے اور باطل نے اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لئے اس پر ناقابل تصور ظلم ڈھائے یعنی اُس نے اپنی کوشش کے ہر آخری حربہ کو استعمال کیا ، چاہے اس عمل سے بشریت تارتار ہو ،یا حق ظلم کا شکار بن رہا ہو، اسے تو بس اپنے نفس کی تسکین اور باطل ارادوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنا ہے۔تاریخ آدم  سے خاتم تک اور خاتم کے بعد عصر ائمہ علیہم السلام میں اور عصر ائمہ کی ظاہری زندگی کے اختتام کے بعد تو حق اور حق پرستوں پر ظلم کی انتہا ہو گئی ۔ ظلم کی ہر چال چلی گئی ،ہر سازش کو عملی کیا گیا ۔بس صرف ایک ہدف کو پانے کے لئے کہ ندائے حق کو کمزور کر دیا جائے ۔ لیکن نفس پرستوں ، ضمیر فروشوں نے کبھی یہ نہ سوچا :

”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا “

جس کا پشت پناہ خدا ہو ،جس کا رشتہ خدا سے ہو ، جن کے دلوں میں صرف خدا اور اس کے بتائے گئے پاک سلسلے ہوں وہ حق کے راستہ پر چلتے ہوئے جان کا نذرانہ تو پیش کر سکتے ہیں لیکن کبھی ضمیر کا سودا نہیں کرتے ۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو ہر زمانہ کے بلال وسلمان و مقداد و بوذر وعمار اور میثم میں واضح طور پر دیکھی گئیں اور زمانہ شاہد بھی ہے ۔ اس کا بیّن ثبوت ایران کے اسلامی انقلاب نے دیا اور ماضی قریب میں لبنان کے ان جوانوں نے دیا جنہیں دنیا”حزب اللہ “ کے نام سے جانتی ہے ۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں جو چیز بدل گئی ہے وہ ہے عناوین ومفاہیم کا غلط استعمال ، خباثت و بے حیائی کو حیاء ، بے عدالتی کو عدالت، بے عزتی کو عزت ، بد اخلاقی کو اخلاق ، نقص کو کمال ، ظلم کو حق ، عدالت خواہی کو دہشت گردی وغیرہ سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔

لیکن سچ یہ ہے کہ حقیقت کو نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ زیادہ دنوں تک چھپایا جا سکتا ہے ۔ عدالت خواہی کے دعویداروں کو تو بہت دیکھا ، انسانیت اور حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے تو بہت ملے، آزادی کا علم بلند کرنے والے بہت نظر آئے مگر ان سب کا ہدف اس مقدس و مبارک عنوان کے بہانے اپنی حاکمیت ، ظلم وبربریت و جارحیت کو عملی کرنا ہے اور بس ۔ ورنہ کیا ممکن ہے کہ اپنے ہی ممالک میں اپنے ہی حق کا مطالبہ کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور دنیا بالخصوص حامیان حقوق بشر خاموش رہیں ؟! آخر اس خاموشی کی کیسے توجیہ کی جا سکتی ہے جب کہ انہوں نے ہی لیبیا کے سلسلہ میں نہ صرف یہ کہ بیانیہ جاری کیا بلکہ متحدہ ممالک کا سہارا لے کر ہوائی کاروائی بھی کردی جب کہ اس کا ڈپلو ماسک طریقہ بھی ممکن تھا خود لیبیا کی عوام اس جارحیت کی مخالف ہے پھر بھی حملہ کا یہ سلسلہ جاری ہے آخر کیوں؟

بات صرف اتنی ہے کہ لیبیا سے ملنے والا تیل اور دوسرے استعماری مقاصد بغیر حملہ کے پورے نہیں ہورہے تھے لہٰذا من و امان چاہے مٹ جائے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے حملہ بول دیا اور بہانہ یہ بتایا کہ قذافی ڈیکٹاٹور لیڈر ہے بے دفاع لوگوں پر ظلم ڈھا رہا ہے لوگ اپنے آزادی خواہ ارادہ کے ساتھ زندگی نہیں بسر کررہے ہیں بالکل یہی سارے مسائل بحرین کے بے دفاع مظلوموں کے سامنے ہیں لیکن ان کے لئے کوئی بیانیہ جاری کرنا ،حکومت کو ظلم سے روکنا ، قتل عام کی مذمت کرنا تو دور کی بات ،حکومت بحرین کی اس کاروائی کی حمایت کی جارہی ہے ، مظلوم و بے گناہوں اور نہتھے عورتوں ،بچوں کو پلاننگ کے ساتھ موت کی آغوش میں سلا دیا جا رہا ہے ، اور اس سفاکیت و حیوانیت کو مزید عملی کرنے کے لئے سعودی عرب اور امارات نے اپنی فوجیں بھی بھیج دیں جنہوں نے میدان لولو میں پہنچنے سے پہلے ہی اپنے آقاؤوں کی ایماء پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیا اور میدان لولو پہنچتے پہنچتے وہ خون کی ہولی کھیلی جس سے انسانیت شرمسار ہے، ہر صبح و شام ماؤوں کی آغوش خالی ہو رہی ہے، عورتوں کی مانگیں اجڑ رہی ہیں ، رشتوں کے جنازے نکل رہے ہیں ، آوازیں زبان پر آنے سے قبل ہی سینوں میں دفن کردی جارہی ہیں ۔ اپنے حق کے مطالبہ پر ندائے ”اللہ اکبر“ کہنے والی زبانوں ، ہاتھوں ، حق کے مدافع سینوں کا جواب صرف گولیوں سے دیا جارہا ہے ۔ روتے روتے ماؤوں کے آنسو خشک ہو گئے ہیں ،تڑپتے تڑپتے بچے گم سم ہو گئے ہیں ،فریاد کرتے کرتے عورتوں کے گلے بیٹھ گئے ہیں مگر کوئی نہیں جو ان کے زخموں پر مرحم لگائے، ان کی حمایت میں چند باتیں کہہ کر غموں کو ہلکا کرے ، ہاں کچھ زبانیں کھلیں کچھ لب بولے تو یہ کہہ کر ان کے غموں کو اور دوبالا کر دیا کہ ”ہم حکومت بحرین کی کاروائی کے حامی ہیں اور ہر طرح کی ضرورت وحمایت کے لئے تیار ہیں “۔

بد قسمتی تو یہ ہے کہ لیبیا میں ہوئے ظلم کو دنیا دکھا رہی ہے قذافی کوبُرا بھلا بھی کہا جارہا ہے جو واقعاً اپنی عوام پر ظلم ڈھارہا ہے  لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی نہیں جو بحرین کی حکومت اور اس کے ہم نواؤں کے ظلم و ستم کو دکھائے اور اس کے اس بے رحمانہ رویہ کی مذمت کرے بات صرف اتنی ہے کہ یہ بحرینی عوام ، حق پرست اور حق پرست الٰہی رہنماؤوں کی مطیع و فرمانبردار ہے اس پر ”شیعہ “ کا لیبل لگا ہو ہے اگر یہ کامیاب ہو گئی تو حق کی آواز بلند کرنے والا ایک ملک مزید بڑھ جائے گا ۔مغربی ممالک اور عربی غلام ممالک کی سفاکیت و جارحیت کے خلاف اٹھنے والی آوازیں بڑھ جائیں گی لہٰذا ایسا وقت آہی نہ سکے اس لئے یہ تمام بے رحمانہ اسلوب اپنائے جارہے ہیں ۔

ہاں اگر ان مظلوموں کی حمایت میں کسی ملک نے آواز اٹھائی تو وہ صرف ایران وعراق نے ۔ایران کی پوری عوام نے ملک کے ہر گوشہ و کنار میں ۱۳ربیع الثانی ۱۴۳۲ جمعہ کی نماز کے بعد زبردست مظاہرہ کیا اس کے بعد متعدد سیاسی و غیر سیاسی جلسے ہوئے ، سفراء کو وزارت خارجہ میں بلا کے عوامی غم وغصہ کے ساتھ میمورنڈم سونپا گیا۔عراق و پاکستان اور ہندوستان کے کچھ شہروں میں مظلوموں نے مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کی اور ظالم کے ظلم کی زبر دست مذمت کی لیکن یہ آواز یں اور احتجاج سرحددی علاقوں تک محدود ہیں ۔

ضرورت ہے اسے عالمی بنایا جائے ،مظلوموں کی فریاد ، ان کے بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار ماؤوں کے بلک بلک کر رونے اور ان کی سسکیوں کو ہر انصاف پسند ،زندہ ضمیر انسان کے کانوں تک پہچائی جائے ۔دشمنوں کو بتایا جائے کہ مظلوم تنہا نہیں ہیں، حق کی نداء کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا ۔ اہل بیت(ع) کی سیرت پر جینے اور مرنے والے نہ تو ضمیر کا سودا کرتے ہیں نہ تو ظلم کی حمایت۔

بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ظالموں کے چہروں کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ۔ ظالموں کو بتا دیا جائے کہ ظلم کی انتہا بہر حال ہے اور جیت ہمیشہ حق کی ہی ہوتی ہے ۔ امید کا سورج صرف حق پسندوں کے لئے طلوع کرتا ہے ۔

حقوق بشر کے دعوےداروں ، آزادی کا نعرہ لگانے والوں سے میرا یہ سوال ہے کہ بحرین کی عوام آخر یہ کس جرم کی سزا پارہی ہے؟ کیوں جوانوں کے سینوں کو جنگی گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے ؟ کیا قانون میں اصلاحات کا مطالبہ جرم ہے ؟ کیا بیگانوں کی غلامی کرنے والے نظام کی مخالفت ،خطا ہے؟

کیا مذہبی آزادی اور حقوق کا مطالبہ غلط ہے ؟ اگر نہیں تو پھر کیوں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور تم جیسے دعوےدار اِس ظلم و بربریت کی مخالفت کے بجائے خود ظلم کا ساتھ کیوں دے رہے ہو؟کیا آبادی کے اعتدال کو مذہبی معیار پر قرار دیتے ہوئے ۲۵ فی صد سعودی عرب اور عرب ممالک باشندوں کو بحرین میں لاکر بسانا اور پھر انہیں قانونی حق دلانا، ملکی باشندوں کے حقوق کی پامالی نہیں ؟ اس سیاست اور عزرائیلی سیاست میں کیا فرق ہے ؟ تو ضرورت ہے ، ندائے حق کی مظلومیت کو عام کیا جائے اور وارث حق امام زمانہ (ع) کے ظہور کی دعا کی جائے تاکہ ”کلمة اللہ ھی العلیا“ کا پرچم ہر ظلم کے سینے پر لہرانے لگے ۔  آمین۔


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت (2)
اسلام اور مغرب کی نظر میں دہشت گردی
اسلام کی انسان دوستی . عبادت کاحْسن خدمتِ خلق
ربیع الاول کا مہینہ، محبتِ رسول اور اِصلاحِ ...
خطبئہ زینب سلام اللہ علیہا
اھل سنت کے نزدیک توسل(پہلا حصہ)
پیغمبر کی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
بہ کعبہ ولادت با مسجد شہادت
جمع قرآن کے بارے میں نظریات
پيغمبر اسلام (ص)کے اہلبيت (ع) قرآن کريم کے ہم پلہ ...

 
user comment