اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

اسلامی معیشت میں دولت کا حصول

اسلام میں دولت کا حصول

قانونی اور جائز طریقے سے دولت مند بننے میں اسلام کی نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ حکومتی عہدہ داروں کو چاہئے کہ عوام کو اقتصادی سرگرمیوں اور فعالیت میں شراکت کی راہوں سے آشنا و آگاہ کریں۔

اس طرح کی پالیسیاں معاشرے کے لئے عمومی دولت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسلام نے دولت کمانے سے ہرگز نہیں روکا ہے۔ البتہ دولت پیدا کرنے اور دوسروں کا سرمایہ لوٹنے میں بڑا فرق ہے۔

کبھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی عمومی سرمائے پر دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی شخص غیر قانونی طریقوں سے، قانون کی پابندی کو ترک کرکے مادی وسائل حاصل کرتا ہے، یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ لیکن اگر قانونی طریقے سے دولت حاصل کی جائے تو شریعت مقدسہ اور اسلام کی نظر سے یہ فعل پسندیدہ و مستحسن ہے۔ دولت حاصل کی جانی چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ دولت حاصل کیجئے لیکن اسراف نہ کیجئے۔

فضول خرچی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے جو دولت حاصل کی ہے اس کو بنیاد اور ذریعہ بناکر مزید دولت حاصل کیجئے۔ پیسے کو جمود اور بانجھپن کا شکار نہ بنائیے۔ اسلام میں اس کو "کنز" تیار کرنے کا نام دیا گيا ہے۔ اسی طرح فضول خرچی اور پیسے کے خرچ میں بے احتیاطی سے پرہیز کیجئے، پیسہ غیر ضروری چیزوں پر خرچ نہ کیجئے۔ ان چیزوں کا بھی خیال کیجئے اور ساتھ ہی دولت بڑھانے کی بھی فکر میں رہئے۔ عوام کی دولت در حقیقت ملک کا عمومی سرمایہ ہے، اس سے سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔

قومی ثروت کے اضافے کی شرائط

قومی ثروت کے لحاظ سے ملک کو بے نیاز اور خود کفیل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری، اقتصادی سرگرمیاں اور دولت کی پیداوار ملک کے تمام فعال افراد کے اختیار میں قرار پائيں۔ یعنی ہر ایک کو اس میدان میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کی حمایت کرے اور قانون بھی اس میں ممد و معاون ثابت ہو۔

اسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاد

اسلامی اقتصادیات میں دو اہم بنیادیں نظر آتی ہیں۔ ہر اقتصادی روش اور ہر اقتصادی نسخہ جس میں ان دونوں بنیادوں کا خیال رکھا گیا ہو، معتبر ہے جبکہ ہر وہ روش اور پروجیکٹ جو بظاہر دینی اساس پر استوار ہو لیکن ان دونوں بنیادوں سے عاری وہ اسلامی نہیں ہے۔ ان دونوں میں سے ایک بنیاد ہے: قومی ثروت میں اضافہ۔ اسلامی ملک کو دولت مند اور ثرورت مند ملک ہونا چاہئے۔ فقیر ملک نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں یہ صلاحیت ہو کہ اپنی ثروت سے اور اپنی اقتصادی توانائی سے عالمی سطح پر اپنے اعلی اہداف کو عملی جامہ پہنا سکے۔ دوسری بنیاد، ثروت کی منصفانہ تقسیم اور معاشرے سے محرومیت کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں بنیادیں لازمی ہیں۔ پہلی بنیاد دوسری بنیاد کی شرط ہے۔ اگر ثروت کی پیداوار نہ ہو، اگر دولت حاصل نہ کی جائے تو غربت کو معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بنابریں یہ دونوں چیزیں لازمی ہیں۔

دولت و ثروت کے حصول کی اہمیت

دو چیزوں کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ ایک چیز ثروت پیدا کرنا ہے، کوئی درست طریقے سے محنت کرکے ثروت پیدا کر رہا ہے۔ دوسری چیز ہے دولت کمانے کی روش اور خرچ کرنے کا انداز۔ پہلی چیز تو پسندیدہ ہے۔ کیونکہ معاشرے میں جو ثروت بھی آ رہی ہے وہ معاشرے کے مجموعی طور پر دولت مند بننے میں مددگار ہوگی۔ دوسری چیز جو بہت زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ کس طرح دولت پیدا کی جائے۔ یہ غیر قانونی طریقوں سے اور فریب اور بد عنوانی کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا استعمال بھی شرعی لحاظ سے ناجائز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ثروت معاشرے کی رگوں میں خون بن کے دوڑے اور غلط کاموں کے لئے استعمال نہ ہو۔

پیداوار

وسیع پیمانے پر پیداوار، قوم کا اہم نعرہ ہونا چاہئے۔ روزگار کی پیداوار، علم کی پیداوار، ٹکنالوجی کی پیداوار، دولت کی پیداوار، معرفت کی پیداوار، مواقع کی پیداوار، عزت و منزلت کی پیداوار، مصنوعات کی پیداوار اور ماہر افرادی قوت کی پیداوار۔ یہ سب پیداوار ہے۔ اسلامی نظام سرمایہ کاری کے نظرئے، اس کی اہمیت اور داخلی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کی ثروت و دولت کی پیداوار کو مثبت نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی تائید و حمایت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل ملک کی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع ایجاد کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

حکومت کو ایسی پالسیاں وضع کرنا چاہئے کہ پیداواری شعبوں اور یونٹوں میں ثروت و دولت کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف بھی قائم ہو۔ اگر معاشرے میں اقتصادی ترقی نہ ہو، اگر روزگار کے مواقع ایجاد نہ کئے جائیں تو یہی کمزور اور مستضعف طبقہ بالخصوص مزدوروں کا طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوگا۔ دشمن یہی چاہتا ہے۔

اس وقت حکام کی بہت اہم ذمہ داریاں ہیں، ایک طرف وہ لوگوں کو صحیح طریقے اور قانونی راستے سے اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم کریں کیونکہ اسلام میں ثروت و دولت پیدا کرنا ناپسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ غلط طریقے اپنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ دھوکے، فریب اور عمومی دولت کے غلط استعمال کا سد باب کیا جائے کیونکہ یہ چیزیں ممنوع ہیں۔

انصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاں

دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں نہ غربت کا خاتمہ ہو سکا ہے، نہ انصاف قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اخلاقیات کی ترویج ہو پائی ہے۔ دولت کی پیداوار تو بے پناہ ہے لیکن اخلاقیات تنزل اور انحطاط کا شکار ہیں۔ دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں کام اور اقتصادی سرگرمیوں کا نصب العین دولت کمانا ہے۔ اس نظام میں بنیاد، اقتصادی نشو نما، اقتصادی ترقی اور دولت و ثروت کا اضافہ ہے۔ جو دولت کمانے میں آگے ہے وہی سب سے اہم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ وہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ طبقاتی فاصلہ بڑھے۔ آمدنی کے فاصلے اور بڑی تعداد میں عوام کا نادار ہونا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے تشویش کی بات نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ روش اور طریقے منفی اور ناقابل قبول ہیں جو ثروت کی تقسیم کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا ہے "یہ تو بالکل بے معنی چیز ہے کہ آپ دولت جمع کیجئے تاکہ اسے آپ سے لیکر منصفانہ طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ بے معنی چیز ہے۔ اس طرح تو ترقی کا راستہ رک جائے گا۔"

ثروت کی تقسیم

جو لوگ کہتے ہیں کہ انصاف، غربت و افلاس بانٹنے کا نام ہے، ان کی بات کا لب لباب یہ ہے کہ انصاف کے چکر میں نہ پڑئے، پیداوار کی فکر کیجئے تاکہ تقسیم کے لئے ثروت تو حاصل ہو۔ انصاف کو نظر انداز کرکے ثروت کے حصول کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آج سرمایہ دارانہ ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے دولت مند ترین ملک یعنی امریکا میں بھی ایسے افراد ہیں جو بھوک اور گرمی و سردی سے فوت ہو جاتے ہیں، یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں، وہ حقائق ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

اسلامی نظام کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ ملک کے اندر سارے لوگ نعمتوں سے بہرہ مند ہوں، ملک میں محرومی نہ ہو، غربت نہ ہو، تفریق نہ ہو، وسائل و مواقع کا غیر مساویانہ استعمال نہ ہو، قانون کا امتیازی استعمال نہ کیا جائے۔

دولت کی تقسیم کا معیار

جب انصاف کو نظر انداز کرکے دولت حاصل کی جاتی ہے تو نوبت یہ ہو جاتی ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ شاطر اور اور تیز قسم کے ہیں، راتوں رات دولت کا انبار لگا لیتے ہیں جبکہ اکثریت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ حسرت و محرومی میں زندگی بسر کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ تو بڑی ہی قابل رحم حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ بنابریں یہ کہنا کہ انصاف کی بات نہ کیجئے دولت و ثروت حاصل کرنے کی فکر کیجئے اور اس کے لئے یہ جواز بھی پیش کر دینا کہ جب دولت آ جائے گی تب انصاف کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے گا، درست نہیں ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جو وسائل ہیں وہ منصفانہ انداز میں اور معقول حد تک تقسیم ہوں۔ یہ بھی نہ ہو کہ بے حساب کتاب سب کچھ تقسیم کر دیا جائے۔ کوشش یہ ہونا چاہئے کہ وسائل میں مزید اضافہ ہو تاکہ سارے لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔

اسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیم

اسلامی نظام کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ ثروت مند ہونا چاہئے، پسماندہ او مفلس نہیں۔ اسلامی نظام اقتصادی ترقی پر یقین رکھتا ہے لیکن رفاہ عامہ اور سماجی انصاف کے لئے اقتصادی ترقی سب سے اہم مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں افلاس و غربت نہ رہے۔ کوئی فقیر نہ ہو اور عمومی وسائل کے استعمال میں امتیاز و تفریق نہ ہو۔ جو بھی اپنے لئے کچھ وسائل تیار کر لے وہ اس کی ملکیت ہو لیکن جو چیزیں عمومی ہیں مثلا مواقع اور وہ وسائل جن کا تعلق پورے ملک سے ہے اس میں کوئی تفریق اور امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اسلامی نظام کا مقصد دولت کا انبار لگانا ہے۔ یعنی کچھ ہی لوگوں کو دولت پیدا کرنے کے مختلف وسائل و مواقع دستیاب ہوں۔ ملک کی اوسط شرح ترقی دو برابر ہو جائے یا مجموعی پیداوار دو گنا ہو جائے۔ البتہ یہ اعداد و شمار بعض حالات میں انصاف کی سمت پیش قدمی کی بھی علامت ہو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔

انٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایف

جو لوگ علمی و تحقیقاتی یا پلاننگ کے مراکز میں ہیں اور معیشت، سیاست، عالمی سیاست اور دیگر ملکوں کے حیاتی امور پر نظر رکھتے ہیں وہ اس فکر میں نہ پڑیں کہ مغربی فارمولوں کو، مغرب کے اقتصادی اصولوں کو، عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے فارمولوں کو دیگر ملکوں کے امور میں نافذ کریں۔ یہ نظریہ ایران جیسے ملک کے لئے مفید نہیں ہے۔ البتہ ان کے علم و دانش سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی سائنسی ترقی ہو اور سائنسی تجربہ ہو اس سے یقینا استفادہ کیا جائے گا لیکن خاکہ اور منصوبہ قومی نظرئے اور ضروریات کے مطابق ہی طے پانا چاہئے۔ ملیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد جو واقعی بڑے محنتی، نکتہ سنج، سنجیدہ اور ذمہ دار شخصیت کے مالک ہیں، تہران آئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مشرقی ایشیا میں گوناگوں تبدیلیاں ہوئی تھی۔ ملیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں اقتصادی زلزلہ آ گیا تھا۔ یہی صیہونی سرمایہ دار اور دوسرے سرمایہ داروں نے بینکنگ کے شعبدوں اور مالیاتی حربوں کے ذریعے کئی ملکوں کو دیوالیہ کر دیا تھا۔ اس وقت جناب مہاتیر محمد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہماری حالت فقیروں والی ہو گئی ہے۔ جب بھی کوئی ملک اقتصادی طور پر منحصر ہو جاتا ہے دوسروں پر اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اقتصادی فاومولوں پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے تو اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ خود یہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی اسی شعبدے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے کہ دنیا کی تبدیلیوں کی باگڈور ایسے عالمی مافیاؤں کے پاس ہو جو اس وقت دنیا پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔


source : http://urdu.khamenei.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
حدیث غدیر پر علمائے اہلسنت کے اعتراضات اور ان کے ...
دو سوالوں کے جواب اکیسویں فصل
حج کی مادی اور دنیاوی برکتیں
عزاداری امام حسین علیہ السلام
فلسفہ شہادت اور واقعہ کربلا
عید قربان اور جمعہ کی دعا
ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے لمحہ فکر و عمل
پوری دنیا میں محرم کا آغاز، عزاداری کا سلسلہ شروع
بعثت کی حقیقت

 
user comment