اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

دنیوی اور اخروی زندگی کا آپس میں رابطہ

ایک بنیادی اور اہم مسئلہ جس کی طرف آسمانی کتب نے ہمیں متوجہ کیا ہے‘ دونوں زندگیوں میں پیوستگی اور ربط ہے‘ یہ دونوں زندگیاں ایک دوسرے سے جدا نہیں۔

اخروی زندگی کا بیج انسان دنیا میں خود کاشت کرتا ہے‘ حیات اخروی کی تقدیر خود انسان کے وسیلہ سے دنیوی زندگی میں متعین ہو جاتی ہے۔

واقع کے مطابق درست اور پاک ایمان و اعتقاد اور حقیقت پسندانہ تصور کائنات حسد‘ کینہ‘ مکر و فریب اور دھوکہ دہی سے پاک انسان اخلاق اور طاہر عادتیں اور اسی طرح اعمال صالحہ‘ جو فرد اور اجتماع کے کمال کے لئے انجام پاتے ہیں‘ خدمت خلق‘ اخلاص اور اس طرح کی دوسری چیزیں جو انسان کے لئے ایک جاوداں اور سعادت مند زندگی کی تشکیل کا سبب ہیں اور اس کے برعکس بے ایمانی‘ بے اعتقادی‘ غلط فکر‘ پلید اور بری عادتیں‘ خود خواہی‘ خود پرستی‘ خودبینی و تکبر‘ ظلم و ستم‘ ریاکاری‘ سود خوری‘ جھوٹ‘ تہمت‘ خیانت‘ غیبت‘ چغل خوری‘ فتنہ و فساد‘ خالق کی عبادت اور پرستش سے کنارہ کشی وغیرہ حیات اخروی میں انسان کی بے انتہا شقاوت اور بدبختی کا سبب ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت خوبصورت فرمایا ہے:الدنیا مزرعة الاخرة

"دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔"

بدی یا نیکی کا جو بیج بھی دنیا میں کاشت کرو گے‘ آخرت میں اسی کا پھل کاٹو گے۔

جس طرح سے یہ محال ہے کہ انسان جو کاشت کرے اور گندم کاٹے‘ کانٹے بوئے اور پھول چنے‘ حنظل کاشت کرے اور کھجور کا درخت اُگے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ دنیا میں انسان برے خیال‘ برے اخلاق اور برے کردار کا حامل ہو اور آخرت میں نفع حاصل کرے۔

انسان کے اعمال کا تجسم اور جاودانگی

قرآن کریم اور رہبران دین کے فرامین اور احادیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ نہ فقط انسان ہمیشہ رہنے والا اور جاوید ہے‘ بلکہ اس کے اعمال و آثار بھی محفوظ ہوتے ہیں اور ختم نہیں ہوتے‘ انسان عالم قیامت میں اپنے تمام اعمال و آثار کو مصور اور مجسم شکل میں دیکھے گا اور مشاہدہ کرے گا۔

اچھے اعمال و آثار نہایت حسین‘ خوبصورت اور لذت بخش شکل میں مجسم ہوں گے اور سرور و لذت کا باعث بنیں گے‘ مگر انسان کے برے اعمال نہایت بدصورت‘ وحشت ناک‘ مہیب و اذیت ناک شکل میں مجسم ہوں گے اور درد و رنج اور عذاب کا باعث بنیں گے۔

(اس سلسلے میں مزید تفصیل کیلئے عدل الٰہی‘ بحث معاد کی طرف رجوع کیجئے گا)

اس سلسلے میں ہم قرآن کریم کی تین آیات اور رسول اکرم ۱کی احادیث کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں:

(۱) یوم تجد کل نفس ماعملت من خیر محضرا و ما عملت من سوء تو دلو ان بینھا و بینہ امدا بعیداً

(آل عمران‘ آیت ۳۰) 

 

"وہ دن جب انسان اپنے ہر نیک کام کو اپنے سامنے حاضر دیکھے گا‘ اسی طرح برے کام کو بھی‘ وہ چاہے گا کہ کاش اس کے اور برے کام کے درمیان زیادہ فاصلہ ہوتا۔"

اس آیت میں تصریح ہے کہ انسان عیناً اپنے نیک کام ہی کو مطلوب اور محبوب صورت میں دیکھے گا اور اپنے برے کام کو بعینہ ایسی صورتوں میں دیکھے گا‘ جن سے اس کو نفرت و وحشت ہو گی‘ چاہے گا کہ اس سے فرار کر جائے یا اس صورت کو اس سے دور کیا جائے‘ لیکن وہ جگہ فرار کر سکنے کی جگہ نہ ہو گی اور نہ ہی انسان کے عمل کو انسان سے جدا کیا جا سکے گا۔

اس عالم میں مجسم شکل میں حاضر ہو جانے والا انسانی عمل اس کے وجود کے ایک حصے اور جزو کی طرح ہو گا‘ جو اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

(۲) ووجدو اما عملوا حاضرا

(سورئہ کہف‘ آیت ۴۹) 

"دنیا میں انجام دیئے ہوئے ہر عمل کو اپنے سامنے حاضر پائیں گے۔"

اس آیت کا مفہوم اور معنی بالکل پہلی آیت والا ہے۔

(۳) یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیرو اعمالھم فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ‘ ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ(سورئہ زلزال‘ آیات ۶ یا ۸)

"اس دن انسان باہر آئیں گے تاکہ (اعمال کی نمائش گاہ عمل میں) ان کے اعمال انہیں دکھائے جائیں۔ جس نے ذرہ برابر بھی نیک کام انجام دیا ہے‘ اسے قیامت میں دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برا کام انجام دیا ہو گا‘ اس کو بھی اس جگہ دیکھے گا۔ انسان باقی و دائمی ہے‘ انسان کے اعمال و آثار بھی محفوظ‘ باقی اور جاوداں ہیں‘ عالم آخرت میں انسان دنیوی زندگی میں کمائی ہوئی چیزوں‘ اخلاق اور اعمال کے ساتھ زندگی گذارے گا۔ یہ کمائی‘ اعمال اور اخلاق‘ حیات اخروی میں ہمیشہ کے لئے اس کا اچھا یا برا سرمایہ اور نیک یا برے ساتھی ہوں گے۔

احادیث مبارکہ

مسلمانوں کا ایک گروہ کافی دور سے رسول اللہ ۱کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور دیگر باتوں کے ضمن میں آپ سے نصیحت کی خواہش کی۔ رسول اکرم نے چند جملات ارشاد فرمائے‘ جن میں سے ایک جملہ یہ ہے کہ

"ابھی سے آخرت کے لئے اچھے رفقاء اور ساتھیوں کا انتخاب کریں‘ اس لئے کہ عالم آخرت میں انسان کا کردار و اعمال ہی بصورت جسم اس کے زندہ ساتھی ہوں گے۔"(۱)

حیات جاوید کا قائل مومن انسان اپنے خیالات‘ اخلاق و عادات اور اعمال‘ چال چلن میں ہمیشہ پوری توجہ دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ زود گذر دنیوی امور میں سے نہیں بلکہ یہ تمام چیزیں انسان کی اپنی اگلی دنیا میں بھیجی ہوئی چیزیں ہیں اور اسے اسی سرمایہ کے ساتھ عالم آخرت میں زندگی گذارنا ہو گی۔

 

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحید افعالی
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صلح اور اس کے ...
کتاب علی علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے؟
سفر امام رضا (ع)، مدینہ تا مرو
ماہ رمضان المبارک خطبۂ شعبانیہ کے آئینہ میں
دین است حسین(ع) / دیں پناہ است حسین(ع)
شیعوں کاعلمی تفکر
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
حدیث غدیر پر علمائے اہلسنت کے اعتراضات اور ان کے ...
دو سوالوں کے جواب اکیسویں فصل

 
user comment