اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سنت میں خمس کن چیزوں پر واجب ہے ؟

متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حکم دیا کہ ہر وہ چیز جو انسان حاصل کرے اس کے نفع یا اس کے جزء سے خمس دیا جائے ۔ بعض روایات میں اس طرح سے بیان ہوا ہے : 

۱۔ عبد القیس کے قبیلہ سے ایک گروہ رسول خدا ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ کے اور ہمارے درمیان مشرکین موجود ہیں اور ہم ماہ حرام کے علاوہ آپ کی خدمت حاضر نہیں ہو سکتے لہذا ہم کو کوئی ایسی وصیت کیجئے تاکہ ہم اس پر عمل کرکے بہشت میں داخل ہوجائیں اور دوسرے لوگوں کو بھی آپ کی اس وصیت سے آگاہ کریں ۔آپ نے فرمایا کہ میں تم کو چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں ۔میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ خدا پر ایما ن رکھو ، کیا تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے ؟ اللہ تعالی کی وحدانیت کی گواہی دینا ، نماز پڑھنا، زکات دینا اور مال غنیمت سے خمس نکالنا (۱) ۔ 

واضح ہے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے بنی عبد القیس سے غنائم جنگی سے خمس ادا کرنے کے لئے نہیں کہا ، کیونکہ وہ حرام مہینوںکے علاوہ گھروں سے نہیں نکل سکتے تھے، چونکہ وہ مشرکین سے ڈرتے تھے ،اسی وجہ سے یہاں پر غنیمت لغوی معنی مرادہیں یعنی وہ مال جو ان کے پاس ہے اس کے نفع سے خمس نکالیں ۔

بہت سے نوشتہ جات اوراسناد ایسی ہیںجن کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے لکھا ہے اور ان کے مالکوں پر خمس کو واجب قرار دیا ہے ،ان کو نقل کرنے کے بعد کہیں گے کہ وہ تمام خطوط اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ خمس مال اور اس کی درآمدکے نفع سے نکالا جائے چاہے وہ غنیمت جنگی کیوں نہ ہوں ۔ 

۲۔ جس وقت رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عمرو بن حزام کو یمن کی طرف روانہ کیا تو ان کو حکم دےتے ہوے لکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم ”رحمھمااللہ“ خدا کے رسول کی طرف سے عمروبن حزام کے لیے یہ عہد اور حکم ہے ۔ جس وقت ان کو یمن کی طرف روانہ کیا تو ان کوتمام کاموں میں تقوی الہی کا حکم دیااور یہ بھی حکم دیا کہ وہ لوگوں کے مال غنیمت سے خمس خدا حاصل کریں ، اور وہ مال جو مومنین کی زمینوں پر مقرر ہے یعنی دسواں حصہ اگر بارش کے پانی سے سینچا ہے اور بیسواں حصہ اگر زحمت کے ساتھ سینچا ہے (۲) ۔

۳۔ پیغبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے شر جیل بن عبد کلال ، حارث بن عبد کلال اور نعیم بن عبد کلال ، جو کہ قبیلہ ذی رعین ، قبیلہ معافر ،وقبیلہ ہمدان کے سردار تھے ،کو لکھا : ” تمہارا بھیجا ہوا قاصد لوٹ گیا ہے اور مال غنیمت کاپانچواں حصہ جو خمس خدا تھا وہ بھی ادا کردیا“۔

۴۔ اسی طرح آپ نے ”سعد ہذیم “جو قبیلہ قضاعہ سے تھا اور ”جزام “کے نام ایک خط لکھاجس میں واجبات صدقہ کو بیان فرمایااور ان کو حکم دیا کہ صدقہ اور خمس کو ان کے بھیجے ہوئے دو شخص ” ابی“ اور” عنبسہ“ کے ذریعہ بھیج دیں یا پھر جس کے ذریعہ یہ دونوں بھیجنا چاہیں انھیں دیں (۴) ۔

۵۔ فجیع اور ان کے چاہنے والوں کے لیے لکھا : یہ خط پیغمبر خدا کی طرف سے فجیع اور ان کے ماننے والے مسلمانوں کے لیے ہے جو نماز پڑہتے ہیں زکات،دیتے ہیں، خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنے ما ل کی در آمد سے خمس نکالتے ہیں (۵) ۔

۶۔ جنادہ ازدی کی قوم اور ان کے پیروکار وں کے لیے لکھا : جب تک تم نماز پڑہتے رہوگے ،زکات دیتے رہوگے، خدا و رسول کی پیروی کرتے رہوگے ، اپنے مال غنائم سے خدا کے لیے خمس نکالتے رہوگے اورسہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) دیتے رہوگے ، اس وقت تک تم خدا و محمد بن عبداللہ کی پناہ میں ہو (۶) ۔ 

۷۔ جھینہ بن زید کو لکھا : جنگل و بیابان ، وادی اور ٹیلوں کے اوپر کا حصہ تمہارا ہے تم اس کی ہریالی کو چراگاہ بناو اس کے پانی سے استفادہ کرو اس شرط کے ساتھ کہ خمس ادا کروگے (۷) ۔

۸۔ حمیر کے بادشاہ کو لکھا : زکات دو، مال غنائم میں سے خدا کے لیے خمس اور رسول کا خاص حصہ ادا کرو ونیز و ہ چیز جو خدا نے مومنین پر صدقہ کی صورت میں واجب قرار دی ہے اس کو ادا کرو (۸) ۔ 

۹۔ بنی ثعلبہ بن عامر کو لکھا : جو کو ئی بھی ان میں سے مسلمان ہوجائے وہ نماز پڑھے ،زکات دے اور مال غنیمت سے خمس نکالے اور سھم پیغمبر کو بھی ادا کرے (۹) ۔

۱۰۔ بعض بزرگان جھینہ کو لکھا : جوبھی ان میں سے مسلمان ہو جاے وہ نماز پڑھے ،زکات دے اور خداورسول کی اطاعت کرے ومال غنیمت سے خمس بھی ادا کرے (۱۰) ۔

ان تمام خطوط سے استدلال کرنے کی کیفیت 

ان تمام خطوط سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان لوگوں سے یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ خمس کو اس مال سے نکالیں جو انھوں نے جنگوں میں شرکت کرکے حاصل کیا ہے بلکہ خمس اور صدقہ کو خود ان کے مال سے طلب کیا ہے تاکہ وہ اس مال سے خمس نکالیں اور نہ ہی آپ نے ان پر کوئی شرط لگائی کہ وہ جنگ میں شرکت کریں اور اس سے جو مال غنیمت حاصل ہو اس سے خمس نکالیں ۔

اس کے علاوہ حاکم اسلامی یا اس کا جانشین جو اس منصب پر قائم ہے، جنگ کی کامیابی کے بعد مال غنائم جنگی کو جمع کرے اس میں سے خمس نکالے اور پھر اس مال غنیمت کو ان پر تقسیم کردے ،لڑنے والوں میں سے کوئی بھی اس مال کا مالک نہیں ہوسکتا مگر بعض چیزوں کا ، جیسے دشمن کا لباس یا اس کا اسلحہ وغیرہ جو اس کو اس جنگ سے حاصل ہو ، اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر ہر آدمی چوری کرتا ، جنگ کے وقت مال غنا ئم کو جدا کرنے کا اعلان کرنا رسول خدا کی عادات میں سے تھا ۔تو پھرسول کا لوگوں سے خمس کی درخواست کرنا اور اپنے خطوط میں اس کی تاکید وقرار داد کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول نے جس مال سے خمس طلب کیا تھا وہ غنائم جنگی سے مربوط نہیں تھا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان خطوط میں غنیمت سے مراد کیا وہ چیز یںتھی جو زمانہ جاہلیت میںلوگ غارت گری کے ذریعہ سے حاصل کیا کرتے تھے ، کیو نکہ رسول اسلام نے غارت گری اور لوٹ ما ر کرنے سے شدت سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ جو کوئی بھی غارت گری کرے وہ ہم سے نہیں ہے (۱۱) ۔

اور آپ نے فرمایا : غارت گری سے حاصل شدہ مال حلال نہیں ہے (۱۲) صحیح بخاری اور مسند احمد میں عبادہ بن صامت سے نقل ہواہے : ہم نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے عہد کیا تھا کہ غارت گری نہیں کریں گے (۱۳) ۔نیز روایت میں بیان ہوا ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے کہا : ایک مرتبہ رسول کے ہمراہ باہر گئے ہوئے تھے ،لوگوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک بھیڑ کو لوٹ مار کرکے اٹھالیا اور اس کے بعد اس کو دیغ میں پکادیا اتنے میں رسول اسلام تشریف لے آے اور جس چھڑی کو آپ زمین پر رکھ کر چلتے تھے اس کے ذریعہ سے ہماری اس دیغ کو گرا دیا اور اس گوشت کو خاک میں ملادیا ونیز فرمایا : غارت گری ہر گز مردہ سے حلال تر نہیں ہے (۱۴) ۔

عبداللہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے غارت گری اور مثلہ سے منع کیا ہے (۱۵) ۔ اس کے علاوہ بہت سی روایات کتاب الجہاد میں آئی ہیں ۔

عرب کے نزدیک غارت ، اس غنیمت کے معنی میں تھی جو آج استعمال ہوتی ہے یعنی دشمن کے مال کو چھین لینا ، لہذاجب دین میں غارت جائز نہیں ہے، اور پیغمبر اکرم کی اجازت کے بغیرجنگ کرنابھی جائز نہیں ہے تو وہ مال غنیمت جو رسول نے اپنے خطوط اور عہد نامہ میں ذکر فرمایا ہے وہ وہی مال ہے جو لوگوں کو جنگ کے بغیر دیگر مال کے فائدہ سے حاصل ہوتاتھا ۔ اس لیے کہنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام نے جوان سے خمس طلب کیا تھا وہ ان کے مال کی درآمداور اس کے فائدہ سے تھا نہ کہ اس مال سے جو جنگ اورغارت سے حاصل ہو کیونکہ وہ مال جو لوٹ مار کے ذریعہ حاصل ہو وہ حرام ہے اور ایسے ہی وہ مال جو جنگ وجہاد سے حاصل ہو اس کا اختیار رسول کے ہاتھ میں ہے کیونکہ انھوں نے غنائم جنگی کو گھوڑ سوار اور پیدل جنگ کرنے کے درمیا ن تقسیم کیا ہوا تھا وہ بھی اس میں سے خمس نکالنے کے بعد۔ لہذا اس کے کوئی معنی نہیںہیں کہ رسول اخراج شدہ مال سے خمس طلب کریں ۔ 

لہذا تیسری ہی قسم صحیح ہے یعنی رسول اسلام کی مراد مال غنیمت سے وہ مال تھا جو خود لوگوں کے پاس ان کا مال تھا ۔

__________________

۱۔ صحیح بخاری : ج ۸ ، ص ۲۱۷و ج۱ ، ص۱۳ و ۱۹ و ج ۳ ، ص۵۳ ، صحیح مسلم : ج ۱ ص ۳۵ ، ۳۶ ، سنن نسائی ج ۱ ،ص ۳۲۳ و دیگر مصادر ۔ 

۲۔ فتوح البلدان : ج ۱ ،ص ۸۱ سیرت ابن ھشام : ج ۴ ، ص ۲۶۵ ۔ 

۳۔ الوسائق السیاسہ : ص ۲۲۷ ، شمارہ ۱۱۰ ( چاپ چہارم ، بیروت ) ۔

۴۔ الطبقات الکبری :ج ۱ ، ص ۲۷۰ ۔

۵۔ الطبقات الکبری : ص ۳۰۴ ، ۲۷۰ ۔

۶ ۔ الطبقات الکبری : ص ۳۰۵ ۔

۷۔ الوسائق السیاسہ : ص ۲۶۵ شمارہ ۱۵۷ ۔

۸ ۔ فتوح البلدان : ج۱ ص ۸۲ ، سد الغابہ : ص ۳۴ ۔

۔ ۹ ۔ لا صا ابہ : ج ۲ ص ۱۸۹ ، اسد الغابہ : ج۳ ص ۳۴ ۔

۱۰ ۔ الطبقات الکبری : ج ۱ ص ۲۷۱ ۔

۱۱ ۔ سنن ابن ماجہ : ج ۲ ، ص ۹۸ ۱۲ کتاب الفتن ۔

۱۲ ۔ سنن ابن ماجہ : ج۲ ، ص ۱۲۹۸ ۔

۱۳ ۔صحیح بخاری : ج۲ ، ص ۴۸ ۔

۱۴ ۔ سنن ابن داود : ج ۳ ص ۶۶ ۔

۱۵۔ بخاری بحث صید رجوع کریں : التاج : ج ۴ ص ۳۳۴ ۔

۱۶ ۔ سیمای عقائد شیعہ ،ص۲۹۳ ۔


source : /www.makaremshirazi.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
دعا كی حقیقت كیا ہے اور یہ اسلام میں مرتبہ كیا ...
اگر خون کا ماتم نادرست ہے تو کیا پاکستان میں اتنے ...
کیا اوصیاء خود انبیاء کی نسل سے تھے؟
کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں ...
حضرت امام مہدی (عج)کے اخلاق اور اوصاف کیا ہے ، اور ...
حقوق العباد کيا ہيں ؟
مجلس کیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟

 
user comment