اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

تيسرا حصہ: سقيفہ كے رونما ھونے كي صورت حال تمھيد

عام طور سے تاريخ ميں رونما ھونے والے ھر حادثہ كا پيش خيمہ كوئي نہ كوئي گذرا ھوا واقعہ ھوتا ھے بلكہ ممكن ھے كہ گذرے ھوئے واقعہ كو آئندہ واقع ھونے والے واقعہ كي علت كھا جائے، واقعۂ سقيفہ اگر چہ ايك اتفاق اور ناگھاني حادثہ تھا ليكن گذشتہ عوامل اس كے وقوع پذير ھونے ميں مؤثر تھے۔

روايت ابي مخنف خود اس اھم واقعہ كو تو بيان كرتي ھے مگر اس كے عوامل و اسباب كي طرف كوئي اشارہ نھيں كرتي يا بھتر ھے كہ يہ كھا جائے كہ تاريخ طبرى نے ابو مخنف كي كتاب سقيفہ ميں سے صرف اسي حصہ كو نقل كيا ھے اور اگر ھمارے پاس خود اصلي كتاب موجود ھوتي تو شايد اس كے پھلوؤں سے مزيد واقفيت ھوتي بھر حال ھر محقق اصل واقعہ كو بيان كرنے سے پھلے اس كے علل و اسباب كي تلاش ميں رھتا ھے اور اجمالي طور پر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے زمانے كے حالات و واقعات سے آگاھي ذھن ميں اعتراضات كا سبب بنتي ھے خاص طور پر جب واقعہ غدير پر نظر كي جائے، اس لئے كہ حديث غدير كا شمار متواتر احاديث ميں ھوتا ھے 61 كہ شيعہ اور سني اس پر اتفاق نظر ركھتے ھيں كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے 10 ھجري ميں حجة الوداع كے بعد اٹھارہ ذي الحجہ كو غدير خم كے مقام پر تمام افراد كو ٹھرنے كا حكم ديا اور پھر ايك طويل خطبہ پڑھا اور فرمايا "من كنت مولاہ فعلي مولاہ" جس كا ميں مولا ھوں بس علي عليہ السلام بھي اس كے مولا ھيں، تاريخ كے اس اھم واقعہ كے رونما ھونے ميں كسي بھي قسم كے شك و شبہ كي گنجائش نھيں ھے۔

رسول اكرم (ص) كے قول كي صراحت اور بے شمار قرائن حاليہ اور مقاليہ اس بات كا واضح ثبوت ھيں كہ مولا سے مراد ولايت اور جانشيني ھي ھے اور يہ ممكن نھيں ھے كہ كوئي منصف مزاج اور مخلص محقق اس قدر شواھد اور ادّلہ كے باوجود اس بات ميں ذراسي بھي ترديد ركھتا ھو۔

پھر آخر كيا ھوا كہ پيغمبر (ص) كي رحلت كے بعد ابھي واقعۂ غدير خم كو دو ماہ اور چند روز ھي گزرے تھے كہ لوگوں نے ھر چيز كو بھلا ديا تھا، اور سب سے عجيب بات يہ ھے وہ انصار جو اسلام ميں درخشاں ماضي ركھتے تھے جنھوں نے اس سلسلے ميں اپني جان و مال تك كي پروانہ كي وہ سب سے پہلے سقيفہ ميں جمع ھوكر خليفہ اور جانشين پيغمبر (ص) كا انتخاب كرنے لگے۔

اور اس سے بھي زيادہ عجيب بات يہ ھے كہ شيعہ اور سني روايات 62 ك ے مطابق پيغمبر (ص) كے چچا عباس بن عبد المطلب، پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زندگي كے آخري لمحات تك آنحضرت (ص) سے يھي پوچھتے رھے كہ كيا آپ كے بعد ولايت و ولي عھدي ھمارے خاندان ميں ھے؟ اگر ھے تو ھم اسے جان ليں اور اگر نھيں ھے تو لوگوں كو ھمارے بارے ميں وصيت كردي جائے۔

اگر پيغبر (ص) نے حكم وحي سے حضرت علي عليہ السلام كو اپنا جانشين بناديا تھا تو اس سوال كاكيا مطلب ؟اور وہ بھي نزديك ترين فرد كے ذريعے؟يہ ايك ايساسوال ہے جو مستند اور صحيح جواب چاھتا ھے اور فقط چند ادبي عبارتوں اور شاعرانہ گفتگو سے اس كاجواب نہيں ديا جا سكتا۔

اس سوال كے مستند اور صحيح جواب كے لئے ضروري ھے كہ سب سے پہلے ان واقعات پر ايك سر سري نگاہ ڈالي جائے جو پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي بعثت سے لے كر واقعہ سقيفہ تك رونما ھوئے، اور ان كے عوامل و اسباب كا بغور جائزہ ليا جائے، پھر سقيفہ كے واقعے كي ابو مخنف كي روايت كي روشني ميں تحقيق كي جائے۔

ھجرت سے ليكر غدير خم تك كے واقعات

1۔ پيغمبر اسلام (ص) كي ھجرت كے اسباب

پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اپني نبوت كے ابتدائي حصہ ھي ميں قريش سے تعلق ركھنے والے بدترين دشمنوں كا سامنا كرنا پڑا اور بے انتھا زحمت و مشقت كے بعد بھي صرف چند لوگ ھي مسلمان ھوئے ان ميں سے اكثر كا تعلق معاشرے كے غريب و فقير عوام سے تھا جب كہ امير اور دولت مند افراد آپ كي مخالفت پر اڑے ھوئے تھے اور اسلام كو ختم كرنے كے لئے ھر ممكن كوشش كرتے رھے لھٰذا انھوں نے آپ (ص) كو اس قدر تنگ كيا كہ آپ (ص) كے پاس ھجرت كے علاوہ كوئي اور چارہ نہ تھا۔

پيغمبر اسلام (ص) نے دين اسلام كي تبليغ كے سلسلے ميں كسي قسم كي كوئي كوتاھي نہ برتي بلكہ ذرا سي فرصت سے بھي زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھاتے رھے، يھي وجہ تھي كہ جب آپ كي ملاقات بزرگان مدينہ اور وھاں كے معزز افراد سے ھوئي تو آپ نے انھيں اسلام كي دعوت دي تو انھوں نے اسلام كو قبول كرليا اور پيغمبر اسلام (ص) سے عھد و پيمان كيا جسے "بيعة النساء" كھا جاتا ھے، شايد اس كے بيعة النساء كھنے كي وجہ يہ ھے كہ اس عھد و پيمان ميں كوئي جنگي معاھدہ نھيں ھوا تھا 63۔

مشركان قريش نے اسلام كو جڑ سے ختم كرنے كے لئے پيغمبر اسلام (ص) كے قتل كا منصوبہ بنايا ليكن پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم وحي كے ذريعہ ان كے ارادہ سے باخبر ھوگئے لھذا آپ نے يہ فيصلہ كيا كہ رات كو پوشيدہ طور پر مكہ سے مدينہ كي طرف ھجرت كر جائيں تاكہ مشركين آپ (ص) كے مكہ سے باھر جانے سے باخبر نہ ھونے پائيں آپ (ص) نے حضرت علي (ع) سے كھا كہ تم ميرے بستر پر ليٹ جاؤ اور اس طرح حضرت علي عليہ السلام نے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي جان پر اپني جان كو فدا كرديا اور اطمينان كے ساتھ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بستر پر ليٹ گئے اور اپنے يقينِ كامل اور مستحكم ايمان كي وجہ سے ايك لمحہ كے لئے بھي شك و ترديد اور خوف و ھراس كا شكار نہ ھوئے اور اپنے آپ كو ايسے خطرہ ميں ڈال ديا كہ جس كے بارے ميں جانتے تھے كہ كچھ ھي دير بعد دشمنوں كے نيزے اور تلواريں مجھ پر ٹوٹ پڑيں گي 64 پيغمبر (ص) نے اس فرصت سے فائدہ اٹھايا اور مكہ سے مدينہ كي طرف ھجرت كر گئے۔

2۔ ھجرت كے بعد كے حالات اور پيغمبر (ص) كي حمايت ميں انصار كا كردار

آخركار پيغمبر اسلام (ص) نے مدينہ كي طرف ھجرت كي اور اھل مدينہ نے پيغمبر (ص) اور دوسرے تمام مھاجرين كا شاندار استقبال كيا اور پيغمبر اسلام (ص) اور دين خدا كي خاطر ان كے سخت ترين كينہ پرور دشمنون يعني مشركين مكہ كے سامنے سينہ سپر ھوگئے اور سچ بات تو يہ ھے كہ اس سلسلے ميں كسي بھي قسم كي كوشش اور قرباني سے دريغ نہ كيا، قرآن نے سورۂ حشر 65 ميں ان كے ايثار و فداكاري كي طرف اشارہ كرتے ھوئے ان كي مدح سرائي كي ھے۔

مختصر يہ كہ انصار پيغمبر اسلام (ص) كي حمايت اور دين اسلام كي بقاء و ترقي كي خاطر مشركين قريش سے نبرد آزما ھونے اور اپنے آپ كو سخت ترين جنگوں ميں مشغول ركھنے پر آمادہ ھوگئے، انھوں نے جو پھلي جنگ مشركين قريش سے لڑي وہ جنگ بدر تھي جس ميں مسلمانوں كي تعداد بہت زيادہ نہ تھى، اس كے باوجود مشركين قريش كے ستر افراد كو قتل كرديا جن ميں اكثر سردار قريش تھے 66 اورمسلمانوں كے كل چودہ افراد شھادت كے درجہ پر فائز ھوئے جن ميں آٹھ افراد كا تعلق انصار سے تھا 67۔

ابھي جنگ بدر كو ختم ھوئے كچھ وقت نہ گزرا تھا كہ جنگ احد واقع ھوگئي اور اس ميں بھي مسلمان، مشركين كے تيئيس افراد ھلاك كرنے ميں كامياب ھوگئے ليكن بعض مسلمانوں كي تساھلي كي وجہ سے جنھيں عينين نامي پھاڑي پرجمے رھنے كو كھا گيا تھا مسلمانوں كے تقريباً ستر افراد شھيد ھوگئے 68۔ معمولاً دو بڑي جنگوں كے درميان كچھ سريہ اور غزوات بھي يكے بعد ديگرے وقوع پذير ھوتے رھتے تھے۔

ھجرت كے پانچويں 69 سال تمام دشمنان اسلام متحد ھوگئے اور اسلام كو جڑ سے ختم كرنے كے لئے دس ھزار كے لشكر كے ساتھ مدينہ كا اس طرح محاصرہ كيا كہ پورے مدينہ ميں خوف وھراس پھيل گيا، تاريخ ميں اس جنگ كو جنگ خندق يا جنگ احزاب كے نام سے ياد كيا جاتا ھے۔

ليكن مولا علي عليہ السلام كي شجاعت و بھادري اور آپ كي وہ تاريخي ضربت جو آپ نے عمر و بن عبدود (جو عرب كا ايك نامور پھلوان تھا) كے سر پر لگائي تھي اس نے اس جنگ كو مسلمانوں كے حق ميں كرديا اور پھر شديد بارش اور طوفان كي وجہ سے مشركين نھايت خوف زدہ ھوگئے اور انھوں نے مدينہ كا محاصرہ ختم كرديا 70، مجموعي طور پر پيغمبر اسلام (ص) نے مدينہ ھجرت كے بعد دس سال كے عرصہ ميں چوھتر جنگوں كا سامنا كيا جن ميں سريہ اور غزوات بھي شامل تھے 71 ان تمام جنگوں ميں انصار نے اھم كردار ادا كيا يھاں يہ كھنا غلط نہ ھوگا كہ اسلام نے انصار كي مدد كي وجہ سے كافي ترقي كي اور اسي نصرت و مدد كي وجہ سے پيغمبر اسلام (ص) نے انھيں انصار كے نام سے ياد كيا۔

مسلمانوں كي تعداد ميں روز بروز اضافہ ھورھا تھا اور اس دوران بعض لوگ اسلام كو حق سمجھتے ھوئے مسلمان ھورھے تھے جبكہ بعض افراد اسلام كي قدرت اور شان و شوكت ديكھ كر يا پھر اس منفعت كے مد نظر مسلمان ھوئے جو انھيں اسلام قبول كرنے كے بعد حاصل ھوسكتي تھي۔

بالآخر آٹھ ھجري ميں مكہ فتح ھوا اور اسلام سارے جزيرة العرب پر چھا گيا، اھل مكہ نے جب اسلام كے سپاھيوں كي يہ شان و شوكت ديكھي تو ان كے پاس اسلام لانے كے علاوہ كوئي دوسري راہ نہ تھي 72، اس وقت مسلمانوں كي تعداد اپنے عروج پر پھنچ چكي تھي ليكن وہ ايماني لحاظ سے مضبوط نہ تھے اور چند حقيقي مسلمان اور پيغمبر (ص) كے مطيع و فرمانبردار افراد كے علاوہ اگر بقيہ تمام افراد كو مصلحتي مسلمان كھا جائے تو بے جانہ ھوگا۔

مسلمانوں كي بڑھتي ھوئي تعداد كي وجہ سے اب انصار جزيرة العرب كے تنھا مسلمان نہ تھے بلكہ مسلمانوں كے جم غفير ميں ايك چھوٹي سي جماعت كي حيثيت ركھتے تھے ليكن پيغمبر اسلام (ص) ھميشہ انصار كي حمايت اور ان كي قدر داني كرتے تھے اس لئے كہ انھوں نے اسلام كے ابتدائي دور ميں كسي قسم كي قرباني سے دريغ نھيں كيا تھا، عرصہ دراز پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تعليم و تربيت كے زير سايہ رھنے كي وجہ سے ان كي اكثريت با ايمان تھي يھاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) نے اپني زندگي كے آخري لمحات ميں بھي انھيں فراموش نہ كيا اور ان كے سلسلے ميں سب كو يہ وصيت فرمائي۔ "انھم كانو عيبتي التي أويتُ اليھا فأحسنوا الي محسنھم و تجاوزوا عن مُسيئتھم" 73 "انصار ميرے قابل اعتماد اور ھم راز تھے ميں نے ان كے پاس پناہ لي لھٰذا ان كے نيك افراد كے ساتھ نيكي اور ان كے بروں سے در گذر سے كام لينا" انصار بھي پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي عنايات اور حمايت كي وجہ سے ھميشہ جوش و خروش سے سرشار رھتے تھے۔

حضرت علي (ع) كي جانشيني كے سلسلے ميں ابلاغ وحي كي كيفيت

سورہ (اذا جاء نصر اللہ والفتح) 74 نازل ھونے كے بعد پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس قسم كے جملے ادا كررھے تھے جن سے ايسا محسوس ھوتا تھا كہ اب آپ كي وفات كے دن نزديك ھيں 75 نيز حجة الوداع ميں آپ (ص) خطبات ميں صريحي يا غير صريحي طور پر اپني وفات كے نزديك ھونے سے باخبر كر رھے تھے 76، تو ايسي صورت ميں يہ ايك طبيعي و فطري بات تھي كہ لوگوں كے ذھن ميں يہ سوال پيدا ھو كہ پيغمبر (ص) كے چلے جانے كے بعد مسلمانوں كے امور كس كي زير قيادت انجام پائيں گے اور آئندہ كا لائحہ عمل كيا ھوگا؟ ظاھري طور پر ھر قوم و قبيلے كي يھي كوشش تھي كہ پيغمبر اسلام (ص) كا جانشين ان ميں سے ھو اور اس سلسلے ميں وہ اپنے آپ كو اس امر كا زيادہ سزاوار سمجھتے تھے اور اسي فكر ميں ڈوبے رھتے تھے۔ اگر چہ پيغمبر اسلام (ص) مواقع پر حضرت علي (ع) كي جانشيني كا اعلان كر چكے تھے 77 ليكن اب تك جو اعلان ھوا تھا معمولاً وہ بھت ھي كم افراد كے سامنے ھوا لھٰذا غدير خم پر يہ وحي آئي كہ اس بارے ميں ھر قسم كے شك و شبہ كو دور كرديا جائے اور حضرت علي عليہ السلام كي جانشيني كا واضح اعلان كيا جائے، وحي كے نزول كے بعد پيغمبر اسلام (ص) مناسب موقع كي تلاش ميں تھے تاكہ اس پيغام كو تمام لوگوں تك پھونچايا جاسكے ليكن چونكہ پيغمبر اسلام (ص) اس وقت كے ماحول سے اچھي طرح واقف تھے لھٰذا ايسے ماحول كو ابلاغ وحي كے لئے مناسب نھيں سمجھتے تھے اور اس انتظار ميں تھے كہ پھلے اچھي طرح ميدان ھموار ھوجائے اور نھايت مناسب موقع ملتے ھي وحي كے اس پيغام كو پھونچا ديا جائے، البتہ اس بات كي طرف بھي اشارہ ضروري ھے كہ وحي الھي نے صرف حضرت علي عليہ السلام كي خلافت اور جانشيني كے اعلان كا حكم ديا تھا اور اس كے اعلان كے لئے مناسب موقع كو پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو صوابديد پر چھوڑ ديا تھا 78 اب اگر بعض روايات 79 اس بات كي نشاندھي كرتي ھوں كہ پيغمبر اسلام (ص) ابلاغ وحي كے سلسلے ميں تاخير سے كام لے رھے تھے تو اس كا مقصد ھر گز كوتاھي نھيں ھے جيسا كہ شيخ مفيد (رح) فرماتے ھيں كہ پيغمبر (ص) پر پہلے ھي وحي نازل ھوگئي تھي ليكن اس كا وقت معين نھيں كيا گيا تھا لھذا پيغمبر اسلام (ص) ايك مناسب موقع كي تلاش ميں تھے اور جب غدير خم كے مقام پر پھنچے تو آيۂ تبليغ نازل ھوئي 80 اور يہ كہ اس سلسلے ميں پہلے ھي وحي آچكي تھي اور پيغمبر اسلام (ص) مناسب موقع كي تلاش ميں ھے اس كے لئے آيۂ تبليغ 81 خود منہ بولتا ثبوت ھے اس لئے كہ آيت ميں كھا گيا ھے "اے رسول (ص) جو كچھ آپ پر وحي كي جاچكي ھے اسے پھونچاديں" اور اس كے بعد آيت تھديد كرتي ھے كہ اگر اس كام كو انجام نہ ديا تو رسالت كا كوئي كام انجام نہ ديا يعني يقيني طور پر اس سلسلے ميں آپ پر پہلے كوئي وحي ضرور نازل ھوئي ھے جب ھي تو آيت ميں كھا گيا ھے كہ جو كچھ آپ پر نازل كيا جاچكا ھے اسے پھونچا ديجئے اور آيت ميں جو تھديد موجود ھے اس سے يہ بات ظاھر ھوتي ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) اسباب كي بنا پر ابلاغ وحي كو مناسب موقع كے لئے چھوڑے ھوئے تھے اور اس كے بعد آيت ميں ارشادِ قدرت ھے ( ( واللہ يعصمك من الناس)) "يعني خدا آپ كو دشمنوں كے شر سے محفوظ ركھے گا"۔

اس آيت اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ابلاغ وحي كي كيفيت پر غور كرنے سے يہ سوال پيدا ھوتا ھے كہ آخر اس وقت كس قسم كے حالات در پيش تھے اور معاشرہ كس نھج پر تھا كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ابلاغ وحي ميں مناسب موقع تك تاخير كردى؟ اگر اس سوال كا صحيح اور درست جواب مل جائے تو اس سلسلے ميں اٹھنے والے بھت سے شبھات اور سوالات كا جواب ديا جاسكتا ھے اور ھميں اس وقت كے مسلمانوں كے سماجي اور سياسي حالات كے بارے ميں كافي حد تك معلومات ھوسكتي ھيں۔

تو آيئے ان سوالات كے صحيح جوابات جاننے كے لئے ھم اس دور كے مسلمانوں كے كچھ اھم سياسي اور سماجي حالات كے بارے ميں بحث اور تحقيق كرتے ھيں۔

1۔ نئے مسلمانوں كي اكثريت

اگر چہ پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي كے آخري لمحات ميں مسلمانوں كي تعداد اپنے عروج پر پھنچ چكي تھي مگر ان ميں اكثريت نئے مسلمانوں كي تھى، اگر چہ ان ميں ايسے افراد بھي تھے جو پختہ ايمان ركھتے تھے ليكن ايسے افراد كي تعداد ان افراد كے مقابلے كچھ بھي نہ تھي جو صلابتِ ايماني كے مالك نہ تھے 82 اس لئے كہ بعض افراد اپنے مفاد كي خاطر مسلمان ھوئے تھے تو بعض اقليت ميں رہ جانے كي وجہ سے اور ان كے پاس مسلمان ھونے كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا، اور بعض افراد ايسے بھي تھے جو آخري دم تك اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے رھے اور جب لڑنے كے قابل نہ رھے تو پھر دوسرا راستہ اپنا ليا۔ ابوسفيان اور اس كے ماننے والے اسي قسم كے افراد تھے اور فتح مكہ ميں ان كا شمار طلقا (آزاد شدہ) ميں ھوتا تھا لھٰذا ايسي صورت حال ميں واضح سي بات ھے كہ اس امر عظيم كو پھونچانا كوئي آسان كام نہ تھا بلكہ يہ بھت سي مشكلات كا پيش خيمہ بن سكتا تھا۔

2۔ مسلمانوں كے درميان منافقين كا وجود

پيغمبر اسلام (ص) كے دور ميں ايك سب سے بڑي مشكل مسلمانوں كے درميان منافقين كا وجود تھا يہ گروہ ظاھري طور پر مسلمان تھا مگر باطني طور پر اسلام پر كسي قسم كا اعتقاد نہ ركھتا تھا بلكہ موقع ملتے ھي اسلام كو نقصان پھونچاتا اور مسلمانوں كي گمراھي كا سبب بنتا۔

قرآن كريم نے اس سلسلے ميں سوروں ميں سخت ترين لھجہ ميں ان سے خطاب كيا ھے جيسے سورہ بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انفال، توبہ، عنكبوت، احزاب، فتح، حديد، حشر اور منافقون نيز مجموعي طور پر قرآن ميں سينتيس مقامات پر كلمۂ نفاق استعمال ھوا ھے۔

يہ افراد جن كي تعداد جنگ احد ميں تمام مسلمانوں كي ايك تھائي تھي "عبد اللہ بن ابى" كي سر كردگي ميں جنگ كرنے سے الگ ھوگئے اور مسلمانوں ميں تفرقہ كا باعث بنے كہ سورۂ منافقون انھيں لوگوں كے بارے ميں نازل ھوا ھے 83 اب آپ خود سوچيں كہ جب كہ نہ ابھي اسلام كے اس قدر طرفدار موجود ھيں اور نہ اس كے پاس كوئي خاص اقتدار ھے اور اعتقاد كو چھپانے كا بھي كوئي خاص مقصد دكھائي نھيں ديتا اس كے باوجود مسلمانوں كي كل آبادي ميں سے ايك تھائي تعداد منافقين كي تھي تو اب آپ اندازہ لگائيں كہ جب اسلام مكمل طور سے بر سر اقتدار آگيا اور سارے جزيرة العرب پر چھا گيا تھا تو ان كي تعداد كس قدر بڑھ چكي ھوگي۔

پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھميشہ اس گروہ كي مخالفت سے دوچار رھتے تھے اور خاص طور پر حجة الوداع ميں يہ تمام افراد پيغمبر اسلام (ص) كے ساتھ تھے اور يہ بات واضح و روشن تھي كہ يہ لوگ كسي بھي صورت حضرت علي عليہ السلام كي خلافت كو قبول نہ كرينگے اور فتنہ و فساد پھيلائيں گے اور امنيت خطرہ ميں پڑ جائے گي اور اس طرح خود اسلام اور قرآن كو نقصان پھنچے گا لھٰذا ايسي صورت حال كے پيش نظر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا فكر مند ھونا خالي از امكان نہ تھا۔

پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي كے آخري لمحات تك منافقين كے وجود سے انكار نھيں كيا جاسكتا يھاں تك كہ عمر آپ كي وفات كا انكار كرتے ھوئے يہ كہہ رھے تھے كہ كچھ منافقين يہ خيال كر رھے ھيں كہ پيغمبر اسلام (ص) وفات پاگئے ھيں 84 اور اسي طرح بعض تاريخي كتابيں اس بات كو بيان كرتي ھيں كہ اسامہ كے جوان ھونے پر اعتراض كر كے ان كي سرداري سے انكار كرنے والے افراد منافقين ھي تھے 85، يہ گروہ پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي ميں آپ كا بدترين دشمن سمجھا جاتا تھا ليكن نھيں معلوم آخر كيا ھوا كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد خلفاء ثلاثہ كے لئے كسي قسم كي مشكل پيش نہ آئي اور يہ گروہ ايك دم سے غائب ھوگيا۔ كيا پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد يہ سب كے سب ايك دم بالكل سچے مسلمان ھوگئے تھے يا كوئي مصلحت ھوگئي تھي يا پھر ايسے افراد بر سر اقتدار آگئے تھے كہ جو منافقين كے لئے كسي بھي طرح مضر نہ تھے؟!

3۔ بعض افراد كي حضرت (ع) سے كينہ پرورى

عربوں كي ايك نماياں خصلت كينہ پروري ھے 86 اور اس بات كے پيش نظر كہ حضرت علي (ع) نے ابتداء اسلام ھي سے متعدد جنگوں ميں شركت كي اور بھت سے افراد آپ كے دست مبارك سے قتل ھوئے اور ان مقتولين كے ورثاء مسلمانوں كے درميان موجود تھے اور يہ افراد شروع سے ھي اپنے دلوں ميں حضرت علي عليہ السلام كي طرف سے كينہ ركھتے تھے لھٰذا يہ امكان تھا كہ يہ لوگ ھرگز آپ كي خلافت پر راضي نہ ھوں گے۔

يہ كھنا كہ يہ لوگ سچے مسلمان ھوگئے تھے اور انھوں نے ماضي كے تمام واقعات و حوادث كو بھلاديا تھا يہ اس بات كي دليل ھے كہ آپ عربوں كي خصلت سے اچھي طرح واقف نھيں ھيں خاص طور پر اس زمانے كے عربوں سے،مثال كے طور پر جب سورۂ منافقون نازل ہوا اور عبد اللہ بن ابى (جو منافقين كا سردار تھا) رسوا ھوگيا تو عبداللہ بن ابي كے بيٹے نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے عرض كي كہ آپ مجھے اجازت ديجئے كہ ميں اپنے باپ كو خود ھي قتل كردوں اس لئے كہ ميں يہ نھيں چاھتا كہ كوئي دوسرا اسے قتل كرے اور ميں اس كا كينہ اپنے دل ميں ركھوں 87، صدر اسلام ميں اس قسم كي بھت سي مثاليں موجود ھيں ليكن غور كيا جائے تو صرف يھي ايك مثال كافي ھے كہ كس طرح سے ايك آدمي اس بات پر راضي ھے كہ وہ اپنے ھاتھوں سے اپنے باپ كو قتل كردے ليكن كوئي دوسرا اسے قتل نہ كرے كھيں ايسا نہ ھو اس كا كينہ اپنے دل ميں لئے ركھے، اس واقعہ سے يہ بات كھل كر سامنے آتي ھے كہ بعض افراد حضرت علي عليہ السلام سے كينہ كيوں ركھتے تھے۔

4۔ حضرت علي (ع) كے جوان ھونے پر اعتراض

بعض افراد دور جاھليت كے افكار ركھنے كي وجہ سے كسي بھي صورت ميں اس بات پر راضي نہ تھے كہ وہ اپنے سے كم سن ايك جوان كي اطاعت كريں يہ لوگ ايك جوان كي حكومت كو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے، مثال كے طور پر عبداللہ بن عباس فرماتے ھيں: عمر كے دور خلافت ميں ايك روز ميں عمر كے ساتھ جارھا تھا انھوں نے ميري طرف رخ كر كے كھا كہ وہ (حضرت علي (ع)) تمام افراد ميں اس امر خلافت كے سب سے زيادہ سزاوار تھے ليكن ھم دو چيزوں سے خوفزدہ تھے ايك يہ كہ وہ كمسن ھيں اور دوسرے يہ كہ وہ فرزندان عبد المطلب كو دوست ركھتے ھيں 88، دوسري مثال يہ كہ جب حضرت علي عليہ السلام كو زبردستي ابوبكر كي بيعت كے لئے مسجد ميں پكڑ كر لائے اور ابو عبيدہ نے ديكھا كہ حضرت علي عليہ السلام كسي بھي صورت بيعت نھيں كر رھے ھيں تو اس نے حضرت علي عليہ السلام كي طرف رخ كيا اور كھا كہ آپ كمسن ھيں اور يہ آپ كي قوم كے بزرگ ھيں اور آپ ان كي طرح تجربہ كار نھيں ھيں لھٰذا ابوبكر كي بيعت كرليں اور اگر آپ آئندہ زندہ رھے تو آپ صاحب فضل و معرفت، متدين، رسول (ص) كے قريب ترين فرد ھونے كي وجہ سے اس امر كے لئے سب سے زيادہ سزاوار ھيں 89، تو حضرت علي عليہ السلام كو امر حكومت كا سب سے زيادہ سزاوار اور مناسب سمجھنے كے باوجود اس بات كو قبول كرنے پر راضي نہ تھے كہ ايك جوان ان پر حكومت كرے۔

اس چيز كا مشاھدہ زيد بن اسامہ كے لشكر ميں بھي كيا جاسكتا ھے جب پيغمبر اسلام (ص) نے اسامہ كو ايك ايسے فوجي دستہ كي سرداري كے لئے منتخب كيا كہ جس ميں قوم كے بزرگان بھي شامل تھے تو بعض افراد نے پيغمبر (ص) كے اس انتخاب پر اعتراض كيا جب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اس اعتراض كا پتہ چلا تو آپ غصہ ھوئے، منبر پر تشريف لائے اور فرمايا: كہ تم لوگ اس سے پھلے اس كے والد كے انتخاب پر بھي اعتراض كرچكے ھو حالانكہ يہ اور اس كے والد سرداري كي لياقت ركھتے تھے اور ركھتے ھيں 90۔

اگر چہ ايك لحاظ سے اس كي وجہ حسد بھي ھوسكتي ھے كيوں كہ جب ان افراد نے اس چيز كا مشاھدہ كيا كہ ايك جوان "حضرت علي (ع) " جيسا كہ جو اس قدر صلاحيت اور لياقت ركھتا ھے كہ رسول خدا (ص) كے نزديك سب سے زيادہ محبوب ھے اور پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے چلے جانے كے بعد يھي جوان ھمارا امير اور حاكم ھوگا تو شدت سے آپ سے حسد كرنے لگے۔

5۔ پيغمبر اسلام (ص) كے احكام كي نافرمانى

مسلمانوں كے درميان بعض ايسے افراد بھي تھے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) كي اطاعت بعض شرائط كے ساتھ كيا كرتے تھے جب تك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي اطاعت ان كے لئے مضر نہ ھوتو كوئي بات نھيں ليكن اگر آپ (ص) كوئي ايسا حكم ديتے كہ جو ان كي خواھشات كے مطابق نہ ھوتا يا يہ كہ وہ اپني ناقص عقل سے اس كي مصلحت درك نھيں كرپاتے تھے تو كھلے عام يا مخفي طور پر اس سے سرپيچي كرتے تھے، مثال كے طور پر حجة الوداع كے موقع پر كچھ فرائض كو انجام دينے سے بعض افراد نے مخالفت كى، پيغمبر اسلام (ص) نے حج كے دوران فرمايا: اگر كوئي شخص اپنے ساتھ قرباني كے لئے جانور نھيں لايا تو وہ اپنے حج كو عمرہ ميں تبديل كردے اور جو اپنے ساتھ جانور لائے ھيں وہ اپنے احرام پر باقي رھيں، بعض افراد نے اس امر كي اطاعت كي اور بعض افراد نے مخالفت كي 91 اور ان مخالفين ميں سے ايك عمر بھي تھے 92 اور اس كي دوسري مثال صلح حديبيہ كے موقع پر عمر كا اعتراض كرنا ھے 93 ، اسي كي ايك اور مثال اسامہ كي سرداري پر اعتراض 94 اور ان كے ساتھ جانے سے انكار كرنا ھے جب كہ پيغمبر اسلام (ص) بار بار اس امر كي تاكيد كر رھے تھے كہ مھاجرين اور انصار سب كے سب اسامہ كے لشكر كے ساتھ مدينہ سے باھر چلے جائيں ليكن بعض بزرگ مھاجرين نے بھانے بنا كر اس امر كي مخالفت كي 95 يھاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) نے ان لوگوں پر لعنت بھي كي جنھوں نے آپ كے اس حكم كي مخالفت كرتے ھوئے اسامہ كے لشكر ميں شركت نھيں كي 96۔

نيز اس كي ايك اور مثال نوشتہ لكھنے كا واقعہ ھے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) كي زندگي كے آخري لمحات ميں پيش آيا 97، پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا كہ قلم اور دوات لے آؤ تاكہ تمھارے لئے ايك ايسي چيز لكھ دوں جس كے بعد تم لوگ گمراہ نہ ھوگے! ليكن عمر نے كھا كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھذيان بك رھے ھيں بعض روايات ميں يہ بھي ھے كہ بعض افراد نے كھا كہ بات وھي قابل قبول ھے جو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے كھي ھے اور بعض نے كھا كہ عمر صحيح كہہ رھے ھيں 98 يہ واقعہ اس بات كي دليل ھے كہ عمر اور بعض دوسرے افراد پيغمبر (ص) كے امر كي مخالفت كرتے ھوئے آپ (ص) پر ھذيان كي تھمت لگا رھے تھے!!! جس كے بارے ميں قرآن نے صريحي طور پر فرمايا: "ما ينطق عن الھويٰ" 99۔

گذشتہ بيان كي روشني ميں اس بات كو اچھي طرح سمجھا جاسكتا ھے كہ آخر پيغمبر اسلام (ص) ابلاغ وحي كے سلسلے ميں كسي مناسب موقع كي كيوں تلاش ميں تھے؟ يقيناً صرف اس لئے كہ پيغمبر اسلام (ص) مسلمانوں كے حالات سے اچھي طرح واقف تھے كہ وہ ان كي مخالفت كريں گے يعني اگر وہ حضرت علي عليہ السلام كي جانشيني اور خلافت كا اعلان كريں تو بعض لوگ كھلم كھلّا پيغمبر كے مد مقابل آجائيں گے اور ھرگز اس امر پر راضي نہ ھونگے ليكن آيۂ تبليغ كے آخر ميں خداوند عالم نے پيغمبر اسلام (ص) كو اطمينان دلايا كہ خداوند عالم آپ كو محفوظ ركھے گا يعني خدا آپ (ص) كو لوگوں كے شر اور ان كي علني مخالفت سے محفوظ ركھے گا۔ اس بات كي تائيدہ وہ روايت كرتي ھے جو جابر بن عبداللہ انصاري اور عبداللہ بن عباس سے تفسير عياشي ميں نقل ھوئي ھے "فتخوّف رسول اللہ ان يقولوا حامىٰ ابن عمّہ وان تطغوا في ذلك عليہ" 100 يعني پيغمبر (ص) كو اس بات كا خطرہ تھا كہ لوگ كھيں گے كہ پيغمبر (ص) نے يہ كام اپنے چچا زاد بھائي كي حمايت ميں كيا ھے اور اس طرح سركشي كريں گے، اگر چہ بعض 101 نسخوں ميں "حامى" كي جگہ خابيٰ اور "تطغوا" كي جگہ يطعنوا آيا ھے كہ ايسي صورت ميں كھا جاسكتا ھے كہ پيغمبر (ص) كا خوف لوگوں كے طعنوں كي وجہ سے تھا، اگر يہ لفظ بھي ھو تو تب بھي ھماري گذشتہ بات پر دلالت كرتا ھے ليكن يہ چيز بعيد ھے كہ پيغمبر محض لوگوں كے طعنوں سے بچنے كي خاطر ابلاغ وحي كو كسي مناسب موقع كے لئے ٹال رھے ھوں، ظاھراً تطغوا والي عبارت زيادہ صحيح ھے، يعني پيغمبر (ص) كو علني مخالفت اور سركشي كا خطرہ تھا۔

ھماري اس وضاحت كے بعد اس اعتراض كا جواب بھي ديا جاسكتا ھے كہ اگر آيت كي مراد يہ تھي كہ ولايت علي (ع) كا اعلان كرو اور پھر خدا نے پيغمبر (ص) كو لوگوں كے شر سے محفوظ ركھنے كا وعدہ بھي كيا تھا تو پھر كيونكر حضرت علي (ع) پيغمبر (ص) كي وفات كے بعد خلافت پر نھيں پھنچ پائے مگر كيا ممكن ھے كہ خدا كا وعدہ پورانہ ھو ؟! 102 اس كا جواب يھي ھے كہ وحي الھي نے وعدہ كيا تھا كہ پيغمبر اسلام (ص) كو لوگوں كي كھلم كھلا مخالفت اور سركشي سے محفوظ ركھے گا اور ايسا ھي ھوا جيسا كہ روايات غدير اس بات كي شاھد ھيں۔

اس كے علاوہ يہ كہ آيت ميں كھا گيا ھے "واللہ يعصمك من الناس" يعني خدا آپ (ص) كو لوگوں كے شر سے محفوظ ركھے گا اور اس سے مراد بھي وھي ھے جو بيان كيا جاچكا ھے كہ خدا رسول (ص) كو لوگوں كي علني مخالفت سے محفوظ ركھے گا اور آيت ميں يہ نھيں كھا گيا "واللہ يعصمہ من الناس" كہ خدا اسے (يعني حضرت علي عليہ السلام كو) لوگوں كے شر سے محفوظ ركھے گا كہ ھم اس آيت كو حضرت علي عليہ السلام كي ظاھري خلافت كے لئے وعدہ الھي قرار ديديں۔

6۔ غدير خم كے بعد اھل بيت (ع) كے خلاف سازشيں

غدير كے واقعہ نے مسلمانوں اور اسلامي معاشرہ كے لئے واضح طور پر ان كے آئندہ كا وظيفہ بيان كرديا تھا، جو لوگ خدا اور رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے مطيع و فرمانبردار تھے انھوں نے اسے دل و جان سے قبول كرليا اور جو لوگ اندروني طور پر اس كے مخالف تھے مگر اس وقت اس كا اظھار كرنے كي قوت نہ ركھتے تھے انھوں نے بھي ظاھري طور پر اسے قبول كرليا اور حضرت علي (ع) كو ان كي جانشيني پر مبارك باد پيش كي اور اس كي واضح مثال ابوبكر اور عمر كا وہ معروف جملہ ھے "بخٍ بخٍ لك يا بن أبي طالب" ۔ 103

جو لوگ حضرت كي جانشيني اور خلافت كے مخالف تھے اور حكومت حاصل كرنا چاھتے تھے اگر چہ ظاھري طور پر اسے قبول كرچكے تھے مگر باطني طور پر بھت سخت پريشان اور فكر مند تھے اور ھر ممكن كوشش كر رھے تھے كہ كسي بھي طرح حضرت علي (ع) كو راستے سے ھٹا كر خود حكومت پر قابض ھوجائيں اور اس بات پر بھت سے شواھد موجود ھيں جن ميں سے بعض كي طرف ھم اشارہ كر رھے ھيں۔

اول: عام شواھد

پيغمبر اسلام (ص) واقعہ غدير كے بعد اكثر حضرت علي (ع) كي جانشيني اور آپ كے فضائل كا تذكرہ كرتے رھتے تھے اور ھميشہ اھل بيت (ع) كے سلسلے ميں وصيت فرماتے تھے اور مسلسل لوگوں كو اپنے چلے جانے كے بعد خطرات سے آگاہ كر كے اتمام حجت كررھے تھے اور اس كي روشن مثال وہ حديث ھے جو اكثر شيعہ اور سني احاديث كي كتابوں ميں نقل ھوئي ھيں كہ پيغمبر اسلام (ص) نے اپني زندگي كے آخري لمحات ميں ارشاد فرمايا: (أقبلت الفتن كقطع الليل المظلم) 104 يعني فتنے پے درپے اور مسلسل تاريك راتوں كي طرح آئيں گے اكثر روايات كے الفاظ يھي ھيں كہ پيغمبر اسلام (ص) اس جملے كي تكرار اس رات زيادہ كر رھے تھے كہ جب آپ اھل بقيع كے لئے استغفار كرنے گئے ھوئے تھے آخر اسلامي معاشرے ميں ايسا كونسا حادثہ رونما ھوا تھا اور كس قسم كے حالات پيش آنے والے تھے جو اس قدر دلسوز كلمات پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زبان سے جاري ھوئے تھے اور وہ بھي زندگي كے آخري دنوں ميں اور ان تمام تر زحمتوں اور مشقتوں كے بعد جو خداوند متعال كے قوانين كے مطابق اسلامي معاشرے كي تشكيل كے سلسلے ميں آپ (ص) نے برداشت كيں، پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زبان سے يہ جملے سننے كے بعد ايك با ايمان مسلمان كا دل غم و اندوہ سے پر ھوجاتا ھے اور وہ آہ سرد كھينچتا ھے آخر ايسا كيوں نہ ھوا كہ پيغمبر اسلام (ص) انتھك محنت كے بعد كم از كم اطمينان اور آرام و سكون كے ساتھ اس امت سے رخصت ھوكر اپنے پروردگار عالم كي طرف رحلت كر جاتے۔

پيغمبر اسلام (ص) كے اس قسم كے بيانات در حقيقت ان سازشوں كي طرف اشارہ تھے كہ جو بعض لوگ مخفي طور پر اسلام كو اس كے اصل محور سے ھٹانے كے سلسلے ميں كوشاں تھے گويا آپ آئندہ اٹھنے والے فتنوں كي پيشين گوئي كر رھے تھے، اب سوال يہ پيدا ھوتا ھے كہ وہ فتنہ گر كون تھے اور ان كے مقاصد كيا تھے؟ يھاں ھماري يھي كوشش ھوگي كہ تاريخي حوالوں كے ذريعہ ان فتنہ گروں كي نشاندھي كرديں۔

دوم: بني اميہ اور ان كے ھم خيال افراد كي سازشيں

بني اميہ ھميشہ اپنے آپ كو حكومت كا زيادہ حقدار سمجھتے تھے اور ھميشہ اس سلسلے ميں بني ھاشم سے نزاع كرتے رھتے تھے اسي وجہ سے اعلان بعثت كے بعد شدت سے آپ (ص) كي مخالفت كر رھے تھے يھاں تك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف سازشيں كر كے لوگوں كو آپ (ص) كے خلاف جنگ كے لئے آمادہ كيا ليكن اس كا نتيجہ ذلت و خواري كے ساتھ شكست اور مجبور ھوكر اسلام قبول كرنے كے علاوہ اور كچھ نہ ھوا مگر حكومت كا نشہ ان كے اندر پھر بھي اپني جگہ باقي رھا۔

يہ لوگ اچھي طرح جانتے تھے كہ جب تك پيغمبر اسلام (ص) زندہ ھيں ان كي تمنائيں اور آرزوئيں پوري نھيں ھوسكتيں لھٰذا وہ لوگ پيغمبر اسلام (ص) كے انتقال كے منتظر تھے ليكن كيوں كہ يہ لوگ مسلمانوں كے درميان كوئي حيثيت نہ ركھتے تھے لھٰذا يہ جانتے تھے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے فوراً بعد حكومت كو ھاتھ ميں نھيں ليا جاسكتا ايسے ميں ضرورت تھي كي وہ حكومت كو حاصل كرنے كے لئے ايك طويل پلان ترتيب ديں اور تاريخ اس بات كي گواہ ھے كہ يہ كام انھوں نے كيا يہ بات صرف ايك دعويٰ نھيں بلكہ بھت سے شواھد اس بات پر دلالت كرتے ھيں جن كي تفصيل كچھ اس طرح ھے۔

دينوري 105 اور جوھري 106 كا كھنا ھے كہ جب بعض افراد نے سقيفہ ميں ابوبكر كي بيعت كي تو بني اميہ عثمان بن عفّان كے گرد جمع ھوكر ان كي خلافت پر اتفاق نظر ركھتے تھے 107، يہ چيز خود اس بات كي شاھد ھے كہ بني اميہ حكومت حاصل كرنا چاھتے تھے اور اس منصب كے لئے عثمان كو پيش كيا جو بني اميہ كے درميان تقريباً ايك معتدل شخص تھے اور دوسرے افراد كي طرح سابقہ بد كرداري سے بر خوردار نہ تھے۔ اس لئے كہ انھيں كو اس وقت اس امر كے لئے بھترين فرد سمجھتے تھے، اگر چہ ھماري نظر ميں يہ اجتماع اس وقت كسي خاص حقيقت پر مبني نہ تھا بلكہ يہ كھا جاسكتا ھے كہ يہ فقط ايك سياسي كھيل تھا تاكہ آئندہ كے لئے ميدان كو ھموار كيا جائے جس كا شاھد يہ ھے كہ جب عمر نے ديكھا كہ بني اميہ عثمان كے گرد جمع ھوگئے ھيں تو كھا كہ آخر تم لوگوں نے ايسا كيوں كيا؟ آؤ اور ابوبكر كي بيعت كرو تو اس مجمع ميں سب سے پھلے عثمان اور پھر تمام بني اميہ نے ابوبكر كي بيعت كي 108۔

جوھري سے روايت ھے كہ جب عثمان كي بيعت ھوئي تو ابوسفيان نے كھا كہ پھلے حكومت قبيلہ تيم كے پاس چلي گئي جب كہ ان كا حكومت سے كيا تعلق؟ اور پھر قبيلہ عدي ميں جاكر اپنے مركز و محور سے دور ھوگئي اور اب يہ اپني صحيح جگہ واپس آئي ھے لھٰذا اسے مضبوطي سے تھامے ركھو، 109 يہ روايت اس قدر گويا ھے كہ جس كي وضاحت كي ضرورت نھيں ھے، البتہ يھاں سوال يہ پيدا ھوتا ھے كہ اگر ايسا تھا تو آخر ابوسفيان نے شروع ھي ميں ابوبكر كي بيعت كيوں نہ كى؟ اور حضرت علي عليہ السلام كے پاس جا كر كھا كہ اگر آپ چاھيں تو ابوبكر كے خلاف مدينہ كو لشكروں سے بھر دوں 110۔

اس سوال كا جواب بعض افراد نے اسے قبيلہ پرستي كے تعصب كہہ كرديا ھے اور كھا ھے كہ ابوسفيان نے قبيلہ پرستي كے تعصب كي بنا پر يہ كام كيا تھا، 111 جيسا كہ پھلي نظر ميں اس قسم كا ھي پيدا ھوتا ھے ليكن ايسا محسوس ھوتا ھے كہ اس امر كي علت كوئي دوسري چيز تھي اور وہ يہ كہ ابوسفيان بني اميہ كے نھايت چالاك اور ھوشيار لوگوں ميں سے ايك تھا لھٰذا يہ بات يقين سے كھي جاسكتي ھے كہ وہ اس كے پيچھے كوئي خاص اور بلند مقاصد ركھتا تھا۔

ممكن ھے كہ اس كام سے اس كا مقصد ايك ساتھ كئي چيزيں حاصل كرنا ھو، ايك يہ كہ ابوبكر كي بيعت كي مخالفت كركے ان كي طرف سے كچھ امتيازات چاھتا تھا اور اگر وہ حضرت علي (ع) كو ابوبكر كے خلاف جنگ پر آمادہ كرنے ميں كامياب ھوجاتا تو اس جنگ كے فاتح بنو اميہ اور ابوسفيان ھوتے اس لئے كہ اس كا مقصد ان دونوں گروھوں كو لڑا كر كمزور كرنا اور بني اميہ كي پوزيشن كو مستحكم كرنا تھا يا كم از كم وہ ابوبكر كو مجبور كر رھا تھا كہ وہ ان كي بيعت اس صورت ميں كرے گا جب كہ وہ اس كے لئے كسي امتياز كے قائل ھوں اور در حقيقت وہ اس امر ميں كامياب بھي ھوا اور اس طرح اس نے كافي مالي فائدہ بھي اٹھايا جيسا روايت كے بقول ابوسفيان جب زكات وصول كر واپس پلٹا تو ابوبكر نے عمر كے كھنے سے جتني جمع شدہ زكوٰة تھي سب كي سب ابوسفيان كي فتنہ گري كو روكنے كے لئے اسے بخش دي اور اس طرح وہ بھي اس پر راضي ھوگيا 112 اس كے علاوہ اس چيز ميں بھي اسے كاميابي حاصل ھوئي كہ حكومت ميں كوئي عھدہ اپنے بيٹے معاويہ كے لئے مخصوص كرسكے113 ،اس وضاحت كے بعد اس چيز كو اچھي طرح سمجھا جاسكتا ھے كہ حضرت علي عليہ السلام نے ابوسفيان كي پيش كش كو ٹھكرا كر اسے اپنے سے كيوں دور كيا اور فرمايا: خدا كي قسم تو اس بات سے فقط فتنہ پروري چاھتا ھے تو ھميشہ اسلام كا دشمن رھا ھے مجھے تيري ھمدردي اور خير خواھي كي ضرورت نھيں ھے! 114 حضرت علي (ع) كے خطبات سے اس بات كو بآساني سمجھا جاسكتا ھے كہ ابوسفيان كا اصل مقصد شر اور فساد پھيلانا تھا اور قبيلہ پرستي تعصب جيسا كوئي مسئلہ نہ تھا۔

اس واقعہ سے متعلق اكثر روايات سے يہ چيز سمجھ ميں آتي ھے كہ بني اميہ ميں فقط ابوسفيان، ابوبكر كي بيعت كا مخالف تھا جيسا كہ جب وہ مسجد ميں بني اميہ كے اجتماع كے درميان گيا اور انھيں ابوبكر كے خلاف قيام كي دعوت دي تو كسي نے بھي اس كا مثبت جواب نہ ديا، 115 اس سے صاف سمجھ ميں آتا ھے كہ يہ مخالفت اور قيام كي دعوت محض ايك دكھاوا تھا اس لئے كہ بني اميہ كے درميان ابوسفيان كي حيثيت اور ليڈري غير قابل انكار چيز ھے اور يہ ھرگز ممكن نہ تھا كہ بني اميہ ابوسفيان كے قول پر كان نہ دھريں اور اسے منفي جواب ديديں۔ اس چيز كو حضرت علي عليہ السلام كے ابوسفيان كي لشكر جمع كرنے والي گفتگو سے سمجھا جاسكتا ھے اس لئے كہ اس نے اس گفتگو ميں بڑے اعتماد كے ساتھ مدينہ كو لشكروں سے بھر دينے كو كھا تھا 116 اور حضرت علي عليہ السلام كے اس جواب سے بھي يہ چيز سمجھي جاسكتي ھے كہ ابوسفيان اس پيش كش ميں كس حد تك سنجيدہ تھا۔

بني اميہ اس چيز كو جانتے تھے كہ پيغمبر اسلام (ص) كے انتقال كے فوراً بعد ان كے لئے ميدان اس قدر ھموار نھيں ھوگا كہ وہ حكومت اپنے ھاتھ ميں لے ليں، لھٰذا اس فتنہ پروري سے ان كا مقصد اپنے لئے ميدان ھموار كرنا اور حكومت كے حصول كے سلسلے ميں پھلا قدم اٹھانا تھا وہ در حقيقت ابوبكر كي خلافت كو قريش سے بني اميہ كي طرف خلافت كے منتقل ھونے كے لئے ايك اھم پل سمجھتے تھے اسي لئے اس سے موافق تھے اور اس كي مدد تك كرتے تھے اگر چہ تاريخي تحريفات كي وجہ سے ان كے تعاون كي فھرست بيان كرنا ايك مشكل كام ھے ليكن بعض قرائن اس چيز كي نشاندھي كرتے ھيں اور جيسے پيغمبر (ص) كے انتقال كے دن عمر، يقين كے ساتھ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے انتقال كا انكار كر رھے تھے اور جيسے ھي ابوبكر پھونچے تو عمر نے ابوبكر كي زبان سے قرآن كي آيت سن كر پيغمبر (ص) كے انتقال كا يقين كرليا 117 يہ بات واضح تھي كہ اس كام سے عمر كا مقصد فقط ابوبكر كے پھنچنے تك حالات كو قابو ميں ركھنا تھا اور قابل غور بات تو يہ ھے كہ فقط عمر ھي پيغمبر (ص) كے انتقال كے منكر نہ تھے بلكہ عثمان بھي پيغمبر (ص) كا انتقال نہ ھونے كے دعويدار تھے اور كہہ رھے تھے كہ وہ مرے نھيں ھيں بلكہ عيسيٰ كي طرح آسمان پر چلے گئے ھيں 118 يہ تمام چيزيں ان كي آپسي ساز باز اور اتفاق رائے كي نشاندھي كرتي ھيں۔

خلاصۂ كلام يہ كہ پيغمبر اسلام (ص) كي وفات كے بعد حكومت كو اپنے ھاتھوں ميں لينے كي كوششيں اس زمانے كے آگاہ افراد سے ھرگز پوشيدہ نہ تھيں جيسا كہ انصار اس بات كو بخوبي جانتے تھے اسي لئے حباب بن منزر نے سقيفہ ميں ابوبكر سے خطاب كرتے ھوئے اس بات كا اظھار كيا تھا كہ ھميں آپ لوگوں سے كوئي ڈر نھيں ھے ليكن ڈر اس بات كا ھے كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ آپ لوگوں كے بعد وہ لوگ برسر اقتدار آجائيں كہ جن كے باپ دادا اور بھائيوں كو ھم نے اپنے ھاتھوں سے قتل كيا ھے 119 اور يقيناً وہ لائق تحسين ھے كہ اس نے اچھي طرح حالات كا رخ ديكھ كر صحيح پيشن گوئي كي تھى، البتہ بني اميہ كے علاوہ بني زھرہ بھي حكومت حاصل كرنا چاھتے تھے اور وہ لوگ سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف پر اتفاق كئے ھوئے تھے 120 ۔ اسي طرح كہ ايك روايت كے مطابق مغيرہ بن شعبہ وہ شخص تھا جس نے ابوبكر اور عمر كو سقيفہ ميں جانے كے لئے ابھارا تھا 121۔

سوم: حكومت حاصل كرنے كے لئے بعض مھاجرين كي كوششيں۔

ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ وہ نماياں افراد تھے جو پيغمبر (ص) كي وفات كے بعد حكومت كے حصول اور حضرت علي (ع) كو مسند خلافت سے ھٹا كر حالات پر قابو پانے ميں سب سے زيادہ كوشاں دكھائي ديتے تھے جس كے بھت سے شواھد موجود ھيں مگر ھم يھاں فقط چند مثالوں پر ھي اكتفا كر رھے ھيں۔

1۔ سقيفہ كے خطبہ ميں عمر كا كھنا تھا كہ "واجتمع المھاجرون الي ابي بكر" يعني مھاجرين ابوبكر كي خلافت پر متفق تھے، اس كے بعد ان كا كھنا تھا كہ ميں نے ابوبكر سے كھا كہ آؤ انصار كے پاس چلتے ھيں جو سقيفہ ميں جمع ھيں ان عبارات پر غور كرنے سے حكومت حاصل كرنے كي ان لوگوں كي كوششوں كا بخوبي اندازہ لگايا جاسكتا ھے اس لئے كہ اگر مھاجرين كا ابوبكر پر اتفاق اور ان كے لئے ان كي رضايت كو محض ايك دعويٰ نہ سمجھا جائے تو سب كي موافقت اور رضايت حاصل كرنے كے لئے كافي مذاكرات اور مسلسل رابطوں كي ضرورت ھے لھٰذا ايسا ھر گز نھيں ھوسكتا كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے انتقال كے فوراً بعد سب كے سب ابوبكر پر اتفاق رائے كرليں اس لئے كہ سقيفہ سے پھلے ظاھراً كوئي جلسہ تشكيل نھيں پايا تھا كہ جس سے تمام مھاجرين كے نظريات كا پتہ چل جاتا كہ وہ كيا چاھتے ھيں اس كا مطلب يہ ھوا كہ يہ لوگ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات سے پھلے ھي ايك ايك مھاجر سے ملتے اور اسے اپني طرف كر ليتے تھے۔

2۔ تاريخ اور احاديث كي اكثر كتابوں ميں يہ بات موجود ھے كہ مھاجرين ميں سے يہ لوگ پيغمبر (ص) كي طرف سے اس بات پر مامور تھے كہ اسامہ بن زيد كي سرداري ميں مدينہ سے باھر چلے جائيں ان روايات ميں سے بعض نے تو ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ تك كے نام بھي لئے ھيں، جيسے وہ روايت كہ جو "صاحب الطبقات الكبرىٰ" نے ذكر كي ھے جس ميں كھا گيا ھے۔ "فلم يبق احد من وجوہ المھاجرين الاوّلين والانصار الّا انتدب في تلك الغزوة و فيھم ابوبكر الصديق و عمر بن الخطاب و ابوعبيدة الجراح وسعد بن ابي وقاص و ……" 122۔ يعني مھاجرين اور انصار كے بزرگوں ميں سے ايك بھي باقي نہ بچا كہ جسے اس غزوہ ميں جانے كو نہ كھا گيا ھو اور ان بزرگوں ميں ابوبكر صديق، عمر بن خطاب، ابوعبيدہ اور سعد بن ابي وقاص وغيرہ بھي شامل تھے۔

ليكن يہ لوگ بھانوں كے ذريعے اس لشكر كے ساتھ جانے ميں ٹال مٹول كرتے رھے اور اس طرح پيغمبر (ص) كي نافرماني كر رھے تھے 123، اگر پيغمبر اسلام (ص) كي اسامہ كے لشكر كے ساتھ جانے پر مسلسل تاكيد اور ان لوگوں كي نافرماني پر غور كيا جائے تو اس سے ان افراد كي نيتوں اور ان كي سازشوں كا اندازہ لگايا جاسكتا ھے۔

3۔ پيغمبر اسلام (ص) اپني زندگي كے آخري لمحات ميں بيماري كي شدت كي وجہ سے بار بار بے ھوش ھورھے تھے ايسے ميں نماز كا وقت آپھونچا،بلال نے اذان كھي ليكن پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كيونكہ مسجد تك جانے كي طاقت نھيں ركھتے تھے لھٰذا لوگوں سے كھا كہ نماز پڑھ ليں 124 اور كسي بھي شخص كو امامت كے لئے معين نہ كيا اسلئے كہ شايد اب يہ لوگوں كي ذمہ داري تھي كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي اتني تاكيدات اور فرامين كے بعد ديكھيں كہ ھميں كس كے پيچھے نماز پڑھني ھے، جيسا كہ بلال سے نقل شدہ روايت بھي اسي چيز كي طرف اشارہ كرتي ھے، بلال كھتے ھيں كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مريض تھے اور جب آپ كو نماز كے لئے بلايا گيا تو آپ نے فرمايا: يا بلال لقد ابلغتُ فمن شاء فليصلّ بالناس ومن شاء فليدع" 125 اے بلال ميں نے اپنے پيغام كو لوگوں تك پھونچا ديا اب جو چاھے لوگوں كو نماز پڑھائے اور جو چاھے نماز نہ پڑھائے۔

يہ بات بھت ھي واضح تھي كہ ايسے ميں امامت كے فرائض كون انجام ديے؟ لازمي سي بات ھے كہ حضرت (ع)! اس لئے كہ حضرت علي عليہ السلام پيغمبر اسلام (ص) كے جانشين اور خليفہ تھے اس كے علاوہ يہ كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے امر كے مطابق تو دوسرے تمام بزرگ انصار اور مھاجرين اس بات پر مامور تھے كہ وہ اسامہ بن زيد كي سرداري ميں مدينہ سے باھر چلے جائيں، ليكن تعجب كي بات ھے كہ اھل سنت كي اكثر كتابوں ميں يہ بات ملتي ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے خود ابوبكر كو حكم ديا تھا كہ وہ آپ كي جگہ نماز پڑھائيں 126، يہ روايات خود ايك دوسرے سے تناقض ركھتي ھيں اس لئے كہ ان روايات ميں ابوبكر نے جو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي جگہ نمازيں پڑھائي ان كي تعداد اور ان كي كيفيت ميں اختلاف پايا جاتا ھے جيسا كہ بعض نے يہ كھا ھے كہ پيغمبر (ص) نے ابوبكر كي اقتداء ميں نماز پڑھي 127 جب كہ بعض كا كھنا ھے كہ ابوبكر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي نماز كو ديكھ كر نماز پڑھ رھے تھے اور باقي تمام افراد ابوبكر كي اقتداء كر رھے تھے 128، اس كے علاوہ بھي مختلف قسم كي روايات كتاب الطبقات الكبرىٰ كے اندر موجود ھيں 129 كہ جن كا ايك دوسرے كے مخالف ھونا خود اس بات كے غلط ھونے كو ثابت كرتا ھے كہ پيغمبر (ص) نے ابوبكر كو نماز پڑھانے كے لئے كھا تھا۔

البتہ يہ بھي يہ ممكن ھے كہ پيغمبر (ص) كي بعض ازواج نے خود اپني طرف سے اس كام كو انجام ديا ھو اور اس كي نسبت پيغمبر (ص) كي طرف ديدي ھو اس بات كي تائيد اس سے ھوسكتي ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے ايك دن اپني بيماري كے ايام ميں فرمايا كہ حضرت علي عليہ السلام كو بلايا جائے ليكن جناب عائشہ نے ابوبكر كو بلا ليا اور حفصہ نے عمر كو اور جب وہ دونوں پيغمبر كے پاس آئے تو پيغمبر (ص) نے ان سے منہ پھير ليا 130۔ يہ روايت اگر چہ نماز كے بارے ميں نھيں ھے ليكن اس كے ذريعہ بعض ازواج كي نافرماني كو سمجھا جاسكتا ھے تو جب ايسے موقع پر كہ جھاں پر پيغمبر (ص) كا قول بالكل صريح ھو اور وہ اس كي نافرماني كرسكتي ھيں تو يھاں پر بھي اپني مرضي سے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي طرف كسي قول كي نسبت دے سكتي ھيں؟؟؟ اس كے علاوہ بھت سي دليليں ھيں جو اس بات كي نشاندھي كرتي ھيں كہ پيغمبر اسلام (ص) نے ابوبكر اور عمر كو اس قسم كا كوئي حكم نھيں ديا تھا اس لئے كہ:

پھلے يہ كہ ابوبكر اس بات پر مامور تھے كہ وہ لشكر اسامہ كے ساتھ مدينہ سے باھر چلےجائيں اور اگر وہ اس امر كي اطاعت كرتے تو ايسي صورت ميں انھيں اس وقت مدينہ سے باھر ھونا چاھيے تھا اور كوئي ايك روايت بھي نھيں ملتي كہ پيغمبر (ص) نے ابوبكر كو لشكر ميں جانے سے مستثنيٰ كيا ھو بلكہ روايات كے بالكل واضح الفاظ ھيں كہ ابوبكر اور عمر كو لشكر اسامہ كے ساتھ جانے كو كھا تھا 131 پھر كس طرح ممكن ھے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ان كو اسامہ كے لشكر كے ساتھ بھيجنے پر مصر بھي ھوں اور يہ حكم بھي ديں كہ تم نماز پڑھاؤ؟!

دوسرے يہ كہ اھل سنت كي بعض روايات اس چيز كو بيان كرتي ھيں كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس بات كا اصرار كر رھے تھے كہ ابوبكر نماز پڑھائيں ليكن جناب عائشہ كہہ رھي تھيں كہ ابوبكر كمزور دل كے مالك ھيں ليكن پيغمبر كے اصرار كي وجہ سے وہ چلے گئے اور نماز پڑھائي اور پيغمبر (ص) اسي بيماري كي حالت ميں كہ جس ميں آپ چل كر مسجد تك نھيں آسكتے تھے دو آدميوں كا سھارا ليكر مسجد تشريف لائے (غالباً وہ دو آدمي حضرت علي عليہ السلام اور فضل بن عباس تھے) ابوبكر پيغمبر (ص) كو ديكھ كر ايك طرف ھوگئے اور پيغمبر (ص) ابوبكر كے پاس بيٹھيں گئے اور اس طرح ابوبكر پيغمبر (ص) كي نماز كو ديكھ كر نماز ادا كرتے تھے اور باقي افراد ابوبكر كي نماز كو ديكھ كر نماز ادا كر رھے تھے 132

اب ھمارا سوال يہ ھے كہ اگر پيغمبر (ص) نے خود ابوبكر كو نماز كي امامت كے لئے كھا تھا اور ابوبكر پيغمبر (ص) كے حكم سے نماز پڑھا رھے تھے تو كيا وجہ تھي كہ پيغمبر (ص) اس شديد بيماري كي حالت ميں كہ جناب عائشہ كے بقول آپ (ص) كے دونوں پاؤں زمين پر خط دے رھے تھے اور آپ (ص) كھڑے ھونے تك كي طاقت نہ ركھتے تھے اور پھر مسجد ميں تشريف لائيں اور نماز كو بيٹھ كر خود پڑھائيں؟ كيا ايسا نہ تھا كہ پيغمبر (ص) شروع ھي سے ابوبكر كي امامت پر راضي نہ تھے اور آپ (ص) نے يہ مصمم ارادہ كرليا تھا كہ جس طرح بھي ممكن ھوسكے انھيں نماز پڑھانے سے روكا جائے يھاں تك كہ آپ (ص) نے يہ بھي گوارا نہ كيا كہ ابوبكر نماز تمام كرليتے، اگر ابوبكر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دستور اور اصرار كے مطابق نماز پڑھا رھے تھے تو يہ ناممكن تھا كہ پيغمبر (ص) اس شديد بيماري كي حالت ميں مسجد آئيں اور بيٹھ كر ھي سھي مگر نماز خود پڑھائيں۔

خلاصۂ كلام يہ كہ پيغمبر (ص) كي جگہ نماز پڑھانے ميں پيش قدمي كرنا ايك ايسا مسئلہ تھا كہ جس سے وہ اپني جانشيني اور خلافت كو ثابت كرنے كي كوشش كر رھے تھے تاكہ لوگ يہ خيال كريں كہ كيونكہ پيغمبر (ص) نے انھيں اس امر كا حكم ديا ھے لھٰذا آپ (ص) كے بعد يھي خليفہ ھونگے بالفرض اگر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس قسم كا كوئي امر كرتے بھي تو يہ امر ان كي جانشيني پر يقيناً دليل نھيں بنتا اس لئے كہ دوسرے افراد پيغمبر (ص) كي صحت و سلامتي كے موقع پر آپ (ص) كي جگہ نماز پڑھا چكے تھے 133 تو اگر يہ امر ان صاحب كي جانشيني اور خلافت كي دليل بن سكتا ھے تو اس جانشيني اور وصايت كے وہ لوگ زيادہ حقدار ھيں جنھوں نے آپ كي صحت و سلامتي كے موقع پر نماز پڑھائي۔

4۔ پيغمبر اسلام (ص) كے گھر كے حالات كو زير نظر ركھنے كي غرض سے آپ (ص) كے گھر كي اندروني خبريں حاصل كرنا بھي حكومت حاصل كرنے كے سلسلے ميں اس گروہ كي سازشوں كا ايك حصہ ھے اور يہ كام جناب عائشہ بنت ابوبكر اور جناب حفصہ بنت عمر كے ذريعہ انجام پاتا تھا، اھل سنت كي بعض روايات كے مطابق پيغمبر (ص) نے اپني زندگي كے آخري لمحات ميں اپني بعض ازواج سے فرمايا تھا كہ "تمھاري مثال ان خواتين كي سي ھے جو يوسف كي مصيبت و ابتلاء كا باعث بنيں" ۔ 134

طبري نے ايك مقام پر نقل كيا ھے كہ پيغمبر (ص) نے فرمايا كہ حضرت علي (ع) كے پاس كسي كو بھيج كر انھيں بلاؤ ايسے ميں جناب عائشہ نے كہا: ابوبكر كو بلا لاؤ اور حفصہ نے كہا كہ عمر كو، جب ابوبكر اور عمر پيغمبر (ص) كے پاس آئے تو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے پاس آئے تو پيغمبر (ص) نے فرمايا كہ يھاں سے چلے جاؤ اس لئے كہ اگر تمھاري ضرورت ھوتي تو تمھيں بلايا ھوتا يہ سن كر وہ دونوں چلے گئے 135

يہ روايت ھماري اس بات كي تصديق كرتي ھے كہ يہ حضرات محض يہ دكھانے كے لئے كہ وہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے قريب ترين افراد ميں سے ھيں جلد بازي كرتے ھوئے آنحضرت (ص) كے پاس پھونچے كہ شايد جو بات وہ حضرت علي (ع) سے كھنا چاھتے ھيں وہ ھميں بتاديں اگر چہ بعض روايات ميں حضرت علي عليہ السلام كا نام ذكر نھيں بلكہ اس قسم كي عبارت موجود ھے، ميرے حبيب يا ميرے دوست كو بلاؤ 136 ليكن تمام روايات اس بات پر متفق ھيں كہ پيغمبر (ص) نے ان افراد كو واپس كرديا حتيٰ كہ آپ نے ان سے منہ تك پھير ليا اگر پيغمبر (ص) نے حضرت علي عليہ السلام كا نام ليا تھا اور كوئي دوسرا لفظ استعمال كيا بھي تھا تب بھي يہ بات تو واضح ھے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ان دونوں كو نھيں بلايا تھا، بھر حال ھر كام ميں خود بخود پھل كرنا حتيٰ كہ پيغمبر (ص) كے گھر پھونچنے ميں بھي پھل كرنا اس چيز كي نشاندھي كرتا ھے كہ وہ پيغمبر (ص) كے گھر ميں بھي حضرت علي عليہ السلام كو راستے سے ھٹا كر حكومت اور ولايت كے حصول كے لئے كوشاں تھے۔

5۔ عمر اور ان كے ھم فكر افراد كا پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو نوشتہ لكھنے سے روكنا بھي خود حضرت علي عليہ السلام كو راستے سے ھٹا كر حكومت حاصل كرنے كي كوششوں كا ايك حصہ ھے اور اس بات ميں شك و شبہ كي گنجائش نھيں كہ عمر نے اس بات كا اندازہ لگا ليا تھا كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حضرت علي عليہ السلام كي خلافت كے سلسلے ميں كچھ لكھنا چاھتے ھيں لھٰذا انھوں نے بھرپور كوشش كي كہ يہ نوشتہ نہ لكھا جائے چاھے اس سلسلے ميں پيغمبر (ص) پر ھذيان ھي كي تھمت لگاني پڑے۔ !!

پيغمبر اسلام (ص) كے نوشتہ لكھنے كے سلسلے ميں تاريخ اور احاديث كي كتابوں ميں بے انتھا روايات موجود ھيں جو سب كي سب اس نكتہ كي طرف اشارہ كرتي ھيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كي طرف ھذيان كي تھمت لگائي گئي اب ان روايات ميں سے بعض نے صريحي طور پر عمر كا نام ليا ھے 137 اور بعض نے كسي خاص شخص كا نام ذكر نھيں كيا ھے ۔ 138

مجموعي طور پر ان تمام روايات ميں عمر كے علاوہ كسي دوسرے شخص كا نام نھيں آيا ھے جو اس بات كو يقيني بناتي ھے كہ ھذيان كي تھمت لگانے والے شخص عمر ھي تھے ليكن كيوں كہ اھل سنت كے بعض راوي عمر كا نام لينا نھيں چاھتے تھے اس لئے كوئي نام ذكر نھيں كيا۔

بعض علماء اھل سنت نے عمر كي طرف سے رسول خدا (ص) پر ھذيان كي تھمت لگائے جانے كي قباحت كو كم كرنے كے لئے اس كي مختلف تاويليں بھي كي ھيں، مثال كے طور پر يہ كہ عمر كا مطلب يہ تھا آپ (ص) پر بيماري كا غلبہ ھوگيا ھے 139 ليكن لغت كے اعتبار سے يہ تاويل كسي خاص اھميت كي حامل نھيں ھے جيسا كہ صاحب السان العرب نے ابن اثير كا قول نقل كيا ھے كہ عمر كا يہ جملہ سواليہ صورت ميں ھونا چاھيے أھَجَرَ تاكہ اس كو اس معني ميں ليا جائے "تغير كلامہ واختلط لأجل مابہ المرض" ان كے كلام ميں تبديلي آگئي ھے اور وہ بيماري كي شدت كي وجہ سے كچھ كا كچھ كہہ رھے ھيں ليكن اگر يہ جملہ سواليہ نہ ھو بلكہ خبريہ ھو (جيسا كہ اكثر روايات ميں ھے) تو يا تو يہ گالي ھے يا پھر ھذيان كے معني ميں ھے پھر وہ كھتے ھيں كہ كيوں كہ يہ بات كھنے والے شخص عمر ھيں لھٰذا ان سے اس قسم كي اميد نھيں ھے۔اگر بالفرض اس تاويل كو قبول كر بھي ليا جائے كہ ھذيان كے معني يہ تھے كہ پيغمبر (ص) بيماري كي شدت كي وجہ سے نہ جانے كيا كيا كہہ رھے رھيں گويا اس حالت ميں پيغمبر (ص) كے كلام كا كوئي اعتبار نھيں ھے تو كيا پيغمبر اسلام (ص) كي طرف اس قسم كے كلام كي نسبت دينا پھلے كلام كے مقابلے ميں كچھ كم قباحت ركھتا ھے؟ جس كے بارے ميں قرآن فرما رھا ھو، "وما ينطق عن الھويٰ ان ھو الّا وحي يوحى" 140 كہ وہ وحي كے بغير بات نھيں كرتے، بھر حال عمر كے كلام كا مطلب كچھ بھي ھو سب سے اھم بات يہ ھے كہ پيغمبر (ص) عمر كے اس جملے كو سننے كے بعد سخت ناراض ھوئے جيسا كہ اھل سنت كي بعض روايات ميں يہ ملتا ھے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم يہ جملہ سننے كے بعد غم و اندوہ ميں ڈوب گئے تھے 141 اور بعض نے يھاں تك كھا ھے كہ پيغمبر (ص) يہ جملے سننے كے بعد اس قدر غصہ ھوئے كہ انھيں اپنے پاس سے اٹھا ديا 142، اس كے بعد جو دوسرے افراد آپ كے پاس موجود تھے كہنے لگے كہ كيا قلم و دوات لائيں؟ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا كہ كيا اب سب كچھ كہنے كے بعد، نھيں اب اس كي ضرورت نھيں ليكن ھاں تم لوگوں كو اپنے اھل بيت عليھم السلام كے ساتھ خير و خوبي كے ساتھ پيش آنے كي وصيت كرتا ھوں 143 يھاں واضح ھے كہ آخر پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے عمر كے كھنے كے بعد كيوں نہ چاھا كہ كچھ لكھين اس لئے كہ اگر پيغمبر (ص) لكھ بھي ديتے تو جو شخص پيغمبر (ص) كي موجودگي ميں گستاخي اور مخالفت كرسكتا ھے تو يقيناً وہ پيغمبر (ص) كے چلے جانے كے بعد اس ميں اضافہ كرتا اور مزيد الٹي سيدھي نسبتيں پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي طرف ديتا اور عملي طور پر يہ تحرير معتبر نہ سمجھي جاتي۔

بعض متعصب علمائے اھل سنت نے يہ مضحكہ خيز دعويٰ كيا ھے كہ پيغمبر اسلام (ص) ابوبكر كي خلافت كے بارے ميں كچھ لكھنا چاھتے تھے! 144 جب كہ نوشتہ سے متعلق جتني بھي روايات نقل ھوئي ھيں ان ميں سے كسي ايك نے بھي ھلكا سا اشارہ بھي اس بات كي طرف نھيں كيا بلكہ روايات كے متن اور دوسرے تمام شواھد اس كے برعكس ھيں كہ جن كا بيان كرنا يھاں اس بحث ميں ممكن نھيں ھے البتہ ھم يھاں ايك چيز كي طرف اشارہ كرتے ھيں اور وہ يہ كہ عمر جو ابوبكر پر ھميشہ جان دينے كو تيار دكھائي ديتے تھے اور در حقيقت يہ عمر ھي كي كوششيں تھيں جن كي وجہ سے ابوبكر منصب خلافت پر فائز ھوگئے اور يہ بات ھر خاص و عام جانتا ھے تو يہ كيسے ممكن تھا كہ وہ ابوبكر كي خلافت كے لئے لكھے جانے والے نوشتہ كو روكيں اور پھر چند ھي گھنٹوں بعد ان كي خلافت كے لئے تلوار نكال ليں اور جناب فاطمہ (ع) كے گھر تك كو آگ لگانے پر تيار ھوجائيں كيا كوئي عاقل انسان اس قسم كےمضحكہ خيز دعوے كو قبول كرسكتا ھے!؟

6۔ ايك اور چيز جو اس گروہ كي سازشوں كي روشن دليل ھے وہ عمر كا پيغمبر (ص) كي وفات سے انكار كرنا ھے يہ واقعہ بھي بھت سي تاريخ اور حديث كي كتابوں ميں موجود ھے 145، عمر كے اس كام كي علت يہ تھي كہ ابوبكر كے پھونچنے تك ماحول كو پرسكون اور قابو ميں ركھا جائے اور ابوبكر كے پھونچتے ھي عمر نے يہ اعلان كرديا كہ پيغمبر (ص) كي وفات ھوگئي ھے، يہ واقعہ ان كے آپس ميں پھلے سے طے شدہ پروگرام كا پتہ ديتا ہے۔

7۔ سقيفہ ميں انصار كے اجتماع كي خبر بھت ھي پوشيدہ طور پر صرف عمر اور ابوبكر كو دي گئي 146 اور جب ابوبكر اور عمر جلدي جلدي سقيفہ كي طرف جارھے تھے تو وہ افراد جو پيغمبر (ص) كے گھر ميں موجود تھے اس ماجرے سے بے خبر تھے اور ابوبكر اور عمر نے اس بات كو تمام مسلمانوں يا كم از كم قوم كے بزرگ افراد كے سامنے پيش نہ كيا كہ اگر كوئي شرارت كرنا چاھتا ھے تو سب كي رائے سے اس كے بارے ميں چارہ جوئي كي جائے، كيا يہ چيز ان كے حكومت كو حاصل كرنے كے سلسلے ميں پھلے سے تيار شدہ سازشوں كي نشاندھي نھيں كرتى؟

سازشوں كے خلاف پيغمبر اسلام (ص) كے اقدامات

ہيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم وحي الھي كے مطابق غدير خم ميں حضرت علي عليہ السلام كو اپني جانشيني پر منصوب كرنے كے باوجود مناسب موقوں پر اس كي ياد آوري كراتے رھے، ليكن بعض لوگوں كي طرف سے حكومت حاصل كرنے كي مسلسل كوششوں كو ديكھتے ھوئے پيغمبر اسلام (ص) اس بات پر مجبور ھوگئے كہ حضرت علي (ع) كي جانشيني اور خلافت كو مضبوط كرنے كے لئے كچھ اور اقدامات بھي كريں ان ميں سے ايك روم كے لشكر سے نبرد آزما ھونے كے لئے لشكر كي تياري بھي تھى، اس لشكر كي تياري پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زندگي كے آخري لمحات ميں ھوئي اور اسامہ بن زيد كو اس لشكر كا سردار بنايا گيا اور تمام انصار و مھاجرين كے بزرگ حضرات خصوصاً ابوبكر، عمر، ابوعبيدہ سے تاكيداً كھا گيا كہ وہ اسامہ كي سرداري ميں مدينہ سے باھر چلے جائيں اور جس مقام پر اسامہ كے والد شھيد ھوئے تھے وھاں كے لئے روانہ ھوجائيں۔

پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس كام كو چند مقاصد كي خاطر انجام دينا چاھتے تھے، ان ميں سے ايك مقصد بقول شيخ مفيد يہ تھا كہ مدينہ ميں كوئي فرد بھي ايسا باقي نہ رھے جو حضرت علي عليہ السلام كي خلافت و حكومت پر ان سے نزاع كرے 147 اور اس سے بھي اھم بات يہ تھي كہ اسامہ جو ابھي سترہ سالہ جوان 148 تھے لشكر كا سردار بنايا گيا جب كہ وہ تمام بزرگ حضرات اور تجربہ كار لوگ موجود تھے جو اس سے پھلے جنگ احد، جنگ بدر اور خندق ميں حصہ لے چكے تھے ليكن اسامہ كو لشكر كا سردار بنا كر پيغمبر (ص) نے سب پر يہ واضح كرديا كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ تم كل كے دن حضرت علي عليہ السلام كے جوان ھونے كا بھانہ بنا كر ان كي اطاعت سے سرپيچي كر بيٹھو۔

جب بعض افراد نے اسامہ كے انتخاب پر اعتراض كيا تو جيسے ھي اس اعتراض كي اطلاع پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو دي گئي تو آپ غصہ ھوئے اور فوراً منبر پر تشريف لائے اور اسامہ كے با صلاحيت اور اس امر كے لئے ان كي لياقت كے بارے ميں تقرير كي 149، ليكن پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد عمر نے ابوبكر سے كھا كہ اسامہ كو لشكر كي سرداري سے ھٹا ديا جائے مگر ابوبكر نے عمر كي داڑھي پكڑ كر كھا كہ آپ كي ماں آپ كے غم ميں بيٹھے، پيغمبر (ص) نے اسے اس امر كے لئے منصوب كيا تھا اب تم چاھتے ھو كہ ميں اسے ھٹادوں 150۔

جو لوگ ھرگز يہ نھيں چاھتے تھے كہ حكومت ان كے ھاتھوں سے چلي جائے وہ اسامہ كے لشكر كے ساتھ جانے سے منع كر رھے تھے اور مختلف بھانوں سے اس ميں تاخير كرا رھے تھے جب اسامہ نے ان افراد كے ان بھانوں كو ديكھا تو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں حاضر ھوئے اور كھا كہ جب تك آپ كي طبيعت بالكل صحيح نھيں ھوجاتي لشكر مدينہ سے باھر نہ جائے اور جب آپ صحت ياب ھوجائيں تو پھر لشكر كوچ كر جائے گا ليكن پيغمبر (ص) نے اسامہ سے كھا كہ حركت كرو اور مدينہ سے باھر چلے جاؤ۔ اسامہ بار بار پيغمبر (ص) كو ان كي بيماري كا حوالہ دے رھے تھے مگر پيغمبر (ص) ھر بار انھيں جانے كے لئے كہہ رھے تھے، يھاں تك كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسامہ سے كھا كہ جو كچھ تمھيں حكم ديا گيا ھے اس پر عمل كرو اور كوچ كر جاؤ اس كے بعد آپ (ص) بے ھوش ھوگئے، پيغمبر (ص) نے ھوش ميں آنے كے بعد پھلا سوال اسامہ كے لشكر كے بارے ميں كيا اور اس بات كي تاكيد كي كہ اسامہ كے لشكر كو بھيجو اور جو شخص بھي ان كے ساتھ جانے سے منع كرے خدا اس پر لعنت كرے اور اس جملے كو كئي بار دھرايا 151۔

آخركار اسامہ كے لشكر نے كوچ كيا اور "جرف" نامي جگہ پر جاكر ٹہر گيا 152، يہ لوگ مسلسل مدينے آتے جاتے رھے يھاں تك كہ جب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم شديد بيماري كي وجہ سے مسجد نہ جاسكے تو ابوبكر فوراً پيغمبر (ص) كي جگہ پر گئے اور نماز شروع كردي۔

پيغمبر (ص) اس سازش كو ناكام بنانے كے لئے اسي حالت ميں حضرت علي عليہ السلام اور فضل بن عباس كا سھارا ليكر مسجد آئے اور ابوبكر كو ھٹنے كے لئے كہا اور ان كي نماز كي كوئي پروا نہ كي اور خود پھر سے نماز پڑھائي 153 پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نماز پڑھانے كے بعد گھر تشريف لے گئے اور ابوبكر، عمر اور چند دوسرے افراد كہ جو مسجد ميں حاضر تھے انھيں بلايا اور كھا كہ كيا ميں نے تم لوگوں كو حكم نھيں ديا تھا كہ اسامہ كے لشكر كے ساتھ مدينہ سے باھر چلے جاؤ، كھنے لگے جي ھاں يا رسول اللہ تو پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا كہ پھر تم لوگوں نے اس پر عمل كيوں نہ كيا؟ ھر ايك نے ايك بھانہ پيش كرديا، پھر پيغمبر (ص) نے تين مرتبہ اس جملہ كي تكرار كى: كہ اسامہ كے لشكر كے ساتھ جاؤ 154، اس سلسلے ميں پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي كوششوں ميں سے ايك كوشش ابوسفيان كو زكٰوة كي جمع آوري كے سلسلے ميں مدينہ سے باھر بھيجنا ھے جس كو مختلف روايات بيان كرتي ھيں 155 اور شايد ابوسفيان كو يہ ذمہ داري دينے كي وجہ بھي يھي تھي۔

مخالفين كي سازشوں كو ناكام بنانے كے لئے پيغمبر (ص) ايك كوشش نوشتہ لكھنا بھي تھا ليكن جيسا كہ پھلے عرض كيا جاچكا ھے كہ بعض افراد نے اسے عملي نہ ھونے ديا ممكنھے كہ يہ سوال پيدا ھو كہ آخر نوشتہ لكھنے كا كام پيغمبر (ص) نے اپني صحت و تندرستي كے زمانہ ميں كيوں نہ انجام ديا تاكہ يہ شبہ ھي پيدا نہ ھوتا۔

تو اس كا جواب يہ ھے كہ پھلي بات تو يہ كہ اس چھوٹے سے واقعہ نے بھت سے لوگوں كے چھروں كو بے نقاب كرديا كہ وہ كس حد تك پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر يقين اور اعتماد ركھتے ھيں۔

دوسري بات يہ كہ پيغمبر (ص) لشكر اسامہ كي ترتيب سے مسئلہ كو حل شدہ ديكھ رھے تھے ليكن بعض افراد كي مخالفت كي وجہ سے مسئلہ برعكس ھوگيا كيونكہ ابھي تك پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے قول كي ايسي كھلي ھوئي مخالفت نہ ھوئي تھي جيسا كہ شيخ مفيد نے ذكر كيا ھے كہ جب پيغمبر (ص) نے ابوبكر، عمر اور بعض دوسرے افراد كي لشكر اسامہ ميں جانے كي مخالفت كو ديكھا تو نوشتہ لكھنے كا ارادہ كيا 156 نتيجہ يہ كہ پيغمبر اسلام (ص) نے حضرت علي عليہ السلام كي خلافت اور جانشيني كو مضبوط كرنے كے لئے ھر ممكنہ قدم اٹھايا مگر اس بات كو بھي مد نظر ركھنا چاھيے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ھرگز اس بات كو نھيں چاھتے تھے كہ حضرت علي عليہ السلام كو لوگوں پر مسلط كرديا جائے يا كوئي ايسا كام كريں جس سے يہ معلوم ھو كہ زبردستي لوگوں پر حضرت علي (ع) كو مسلط كيا جارھا ھے بلكہ آپ چاھتے تھے ابلاغ وحي كے سلسلے ميں اپنے وظيفہ پر اچھي طرح عمل كريں اور لوگوں كو يہ بات سمجھا ديں كہ آپ ان كي فلاح و بھبود اصلاح اور ھدايت كے علاوہ كچھ نھيں چاھتے اور يقيناً آپ (ص) نے ايسا ھي كيا اب جو چاھے ھدايت كا راستہ اختيار كرے اور جو چاھے گمراھي كا۔ حضرت علي عليہ السلام خود بھي يہ نھيں چاھتے تھے كہ جس طرح بھي ممكن ھوسكے سياسي گٹھ جوڑ كر كے اپني حكومت كو مضبوط كيا جائے اس لئے كہ حضرت علي عليہ السلام حكومت كو انسانوں كي ھدايت كے لئے چاھتے تھے اور انسانوں كي ھدايت زور زبردستي اور سياسي حربوں كے بعد ممكن نھيں خاص طور سے جب كہ سياسي گٹھ جوڑ خود نقص غرض كا حصہ ھو۔

حضرت علي عليہ السلام ان تمام چيزوں سے بلند و بالا ھيں كہ وہ حكومت حاصل كرنے كے لئے اس كے پيچھے دوڑ لگائيں اور اسے لوگوں پر تحميل كريں اس لئے كہ اگر لوگ ان كي حكومت كے طلبگار ھوتے تو خود ھي پيغمبر (ص) كي وصيت پر عمل كرتے ورنہ ان كي بھاگ دوڑ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وصيتوں سے زيادہ مؤثر نھيں ھوسكتي تھي اور اس كا ثبوت يہ ھے كہ رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد عباس نے جو پيغمبر (ص) كے چچا تھے حضرت علي عليہ السلام سے فرمايا كہ اپنا ھاتھ آگے بڑھائيے تاكہ آپ كي بيعت كروں اور تمام بني ھاشم آپ كي بيعت كريں، آپ نے فرمايا كہ كيا كوئي ايسا بھي ھے جو ھمارے حق كا انكار كرے؟ عباس نے فرمايا كہ آپ بھت جلد ديكھ ليں گے كہ لوگ ايسا ھي كريں گے 157۔

ھماي نظر ميں جو كچھ عباس ديكھ رھے تھے حضرت علي عليہ السلام اسے بخوبي جانتے تھے ليكن در اصل بات يہ تھي كہ اگر لوگ پيغمبر (ص) كي وصيت پر عمل كرنا چاھتے تو پھر پوشيدہ طور پر كسي بيعت كي ضرورت باقي نھيں رہ جاتي يا آج كي اصطلاح حكومت كا تختہ پلٹنے كي ضرورت نھيں تھى، اگر لوگ حضرت علي عليہ السلام كي قدر و منزلت كو نھيں جانتے اور آپ كي حكومت نھيں چاھتے تو پھر اس كوشش اور محنت كي كوئي معنوي قدر و قيمت نہ ھوتي اور اس كا كوئي خاص فائدہ بھي نہ تھا، اس لئے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو جو كچھ وصيت كرنا تھي وہ كرچكے تھے اب يہ ذمہ داري مسلمانوں كي تھي كہ وہ خدا اور اس كے رسول (ص) پر اعتماد و يقين كر كے ان كي اطاعت كرتے اور يہ بات حضرت علي عليہ السلام كے ان جملوں سے بخوبي سمجھي جاسكتي ھے جو آپ نے عثمان كے قتل كے بعد جب لوگ آپ كے پاس بيعت كرنے كے لئے آئے تو آپ نے تقرير كے دوران ادا كئے۔ دور خلفاء ميں حضرت علي عليہ السلام كا سكوت ھرگز اس بات پر دليل نھيں كہ آپ ان كے پابند، ان كے ھم خيال اور انھيں اس كا حقدار سمجھتے تھے بلكہ بارھا اپني مخالفت كو واضح طور پر بيان كرتے رھے اور اس امر ميں ھرگز كوتاھي سے كام نھيں ليا اور اگر آپ كے موافقين كي تعداد زيادہ ھوتي تو يقيني بات ھے كہ آپ حكومت سے دستبردار نہ ھوتے مگر جو لوگ آپ كے ساتھ تھے ان كي تعداد اتني كم تھي كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد حالات اس بات كي اجازت نھيں ديتے تھے كہ آپ مسلحانہ انداز ميں قيام كريں اور يھي وہ سيرت اور طريقہ كار ھے جس كا مشاھدہ اور دوسرے معصومين (ع) كي زندگي ميں بھي كيا جاسكتا ھے البتہ يہ ايك طويل بحث ھے كہ جس كا يھاں موقع نھيں ھے۔

انصار كي چارہ جوئى

گذشتہ بيان كي روشني ميں يہ بات كھل كر سامنے آگئي كہ انصار سقيفۂ بني ساعدہ ميں اس لئے جمع ھوئے تھے كہ رونما ھونے والے يہ تمام حوادث كسي سے پوشيدہ نہ تھے كہ كوئي ان سے بے خبر ھوتا، انصار اور مھاجرين كا ھر فرد يہ جانتا تھا كہ مدينہ ميں جلد ھي تبديلياں آنے والي ھيں اور حادثات رونما ھونے والے ھيں ليكن كوئي مكمل طور سے اس بات كو نھيں جانتا تھا كہ آخر كيا ھونے والا ھے؟ اسي لئے مختلف گروہ حكومت كے حصول كے لئے مكمل كوشاں تھے۔

لھٰذا يہ مسئلہ واضح طور پر سمجھا جاسكتا ھے كہ رسول اكرم (ص) كي وفات كے بعد مدينہ كے حالات اس قابل نہ تھے كہ جس ميں حضرت علي عليہ السلام كي خلافت اور حكومت كا قيام عمل ميں آتا يھاں تك كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے چچا عباس بن عبدالمطلب بھي اس سلسلے ميں يہ سوال كر رھے تھے كہ كيا لوگ پيغمبر (ص) كے بعد حضرت علي عليہ السلام كي خلافت كو قبول كر ليں گے يا نھيں؟ يہ بات قابل غور ھے كہ عباس كا سوال اس بات كے بارے ميں نھيں تھا كہ حكومت كا لائق اور سزاوار كون ھے؟ اس لئے كہ عباس، حضرت علي عليہ السلام سے زيادہ كسي كو اس امر كے لائق نھيں سمجھتے تھے اور ھميشہ حضرت علي عليہ السلام كو بيعت كي پيشكش كرتے تھے 158، جتنے بھي مآخذ و منابع عباس بن عبدالمطلب كے اس سوال كا ذكر كرتے ھيں ان ميں يہ چيز بيان نھيں ھوئي كہ عباس نے پوچھا ھو كہ پيغمبر (ص) كے بعد ان كي جانشيني كا كون مستحق ھے؟ بلكہ عباس كا سوال يہ ھے كہ آخر پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد كيا ھوگا؟ كيا حكومت بني ھاشم ميں باقي رھے گي يا نھيں۔ شيخ مفيد نے اسے بھترين انداز ميں بيان كيا ھے كہ عباس نے پيغمبر (ص) سے پوچھا وان يكن ھذا الأمر فينا مستقرّاً بعدك فبشّرنا 159 يعني اگر ولايت و حكومت آپ كے چلے جانے كے بعد ھمارے درميان باقي رھے گي تو ھميں اس كي بشارت ديجئے۔ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے جواب ميں فرمايا كہ آپ لوگ ميرے بعد مستضعفين ميں سے ھوں گے، يھاں سوال يہ نھيں كہ يہ حق كس كا ھے بلكہ بحث اس پر ھے كہ يہ حق جو حضرت علي عليہ السلام كا ھے كيا انھيں مل بھي جائے گا يا نھيں؟ عباس واقعہ غدير سے بے خبر نہ تھے مگر اس كے بعد كے حالات و واقعات كو ديكھتے ھوئے اس قسم كے سوالات كر رھے تھے۔

انصار كہ جنھوں نے قريش كے خلاف بڑھ چڑھ كر جنگوں ميں حصہ ليا تھا اس بات سے خوفزدہ تھے كہ اگر پيغمبر (ص) كے بعد حضرت علي عليہ السلام مسند خلافت پر نہ بيٹھے كہ جس پر بھت سے شواھد و قرائن دلالت كر رھے ھيں، تو كيا ھوگا؟ انصار كو زيادہ تر خوف اس بات كا تھا كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ بني اميہ كہ جو حكومت كے حصول كے لئے بھرپور كوشش كر رھے ھيں برسر اقتدار آجائيں تو ايسي صورت ميں انصار كي حالت بدتر ھوجائے گي اور وہ ھميشہ بني اميہ كے انتقام كا نشانہ بنے رھيں گے۔

ايسي صورت ميں انصار كے لئے ضروري تھا كہ آئندہ كے لئے كوئي چارہ جوئي كريں كيوں كہ مدينہ ان كا اپنا وطن تھا اور مھاجرين دوسري جگہ سے ھجرت كر كے ان كے وطن ميں آئے تھے لھذا اس اعتبار سے وہ اپنے آپ كو حكومت كا زيادہ حقدار سمجھ رھے تھے اسي لئے وہ پيغمبر (ص) كي وفات كے فوراً بعد سقيفہ ميں جمع ھوگئے كہ آئندہ كا لائحہ عمل كيا ھوگا اگر كوئي حادثہ پيش آگيا تو انھيں كيا كرنا ھے۔

اس وقت كے تمام قرائن اور شواھد كي روشني ميں جب انھوں نے يہ ديكھا كہ حضرت علي عليہ السلام كو خلافت و حكومت ملنا ممكن نھيں ھے تو بھتر يھي سمجھا كہ اپنے درميان سے ھي كسي ايك كو اس امر كے لئے منتخب كرليں، لھٰذا سعد بن عبادہ كو بلايا كہ وہ اس اجتماع ميں شريك ھوں تاكہ ان كي بيعت كي جائے كيونكہ جب نوبت يھاں تك پھنچ گئي كہ حضرت علي عليہ السلام كو خلافت ملنے والي نھيں ھے تو پھر ان سے زيادہ اس امر كا سزاوار كون ھوسكتا ھے ھماري اس بات كي تائيد كے لئے بھت سے شواھد موجود ھيں جن كي تفصيل كچھ اس طرح ھے۔

1۔ انصار كو حضرت علي عليہ السلام كي خلافت پر كسي قسم كا كوئي اعتراض نہ تھا بلكہ وہ مكمل طور سے اس پر راضي تھے۔ جيسا كہ طبري 160 اور ابن اثير 161 نے نقل كيا ھے كہ سب كے سب يا بعض انصار نے سقيفہ ميں ابوبكر اور عمر كے سامنے يہ بات كھي تھي كہ ھم حضرت علي عليہ السلام كے علاوہ كسي اور كي بيعت نہ كريں گے اور اسي طرح يعقوبي نے بھي اس بارے ميں كھا ھے كہ "وكان المھاجرون والانصار لا يشكون في على" 162 "انصار و مھاجرين كو حضرت علي عليہ السلام كي خلافت پر كوئي اعتراض نہ تھا" اور دوسري جگہ نقل كيا ھے كہ عبد الرحمٰن بن عوف نے انصار سے كھا كہ كيا تمھارے درميان ابوبكر، عمر اور حضرت علي عليہ السلام جيسے افراد موجود نھيں ھيں تو انصار ميں سے ايك نے كھا كہ ھم ان افراد كي فضيلت كے منكر نھيں ھيں اس لئے كہ ان كے درميان ايك ايسا شخص موجود ھے كہ اگر وہ اس امر خلافت كو طلب كرے تو ھم ميں سے كوئي بھي اس كي مخالفت نھيں كريگا يعني علي بن ابي طالب عليہ السلام 163 اس كا مطلب يہ ھے كہ انصار غدير خم كے واقعہ سے بے خبر نہ تھے اور ھرگز حضرت علي (ع) كي خلافت كے منكر نہ تھے اور سقيفہ ميں ان كا جمع ھونا ھرگز حضرت علي عليہ السلام كو خلافت سے دور كرنے كے لئے نہ تھا ليكن وہ يہ بھي ديكھ رھے تھے كہ كچھ لوگ حكومت حاصل كرنے كے لئے بے انتھا كوشش كر رھے ھيں جب كہ حضرت علي عليہ السلام كي طرف سے حكومت كے لئے كسي بھي قسم كي سياسي اور سماجي كوششيں ديكھنے ميں نھيں آرھي تھيں لھٰذا انھيں يقين ھوگيا تھا كہ ايسي صورت حال كے پيش نظر حضرت علي عليہ السلام كسي بھي طرح خلافت پر نھيں آسكتے۔ بلكہ بھتر ھوگا كہ يوں كھا جائے كہ بعض افراد كسي بھي صورت ميں حضرت علي (ع) كو خلافت تك نھيں پھنچنے ديں گے۔ لھٰذا انصار كے لئے ضروري تھا كہ وہ اپنے لئے كوئي چارہ جوئي كريں گويا وہ مستقل طور پر اپنے لئے آئندہ كا لائحہ عمل تيار كرنا چاھتے تھے۔

2۔ انصار كا سقيفہ ميں مھاجرين كو يہ پيشكش كرنا كہ ايك امير ھمارا اور ايك امير تمھارا اس بات كي واضح دليل ھے كہ انصار فقط يہ چاھتے تھے كہ وہ بھي حكومت ميں شريك رھيں اور اس طرح وہ قريش كے احتمالي خطرات سے محفوظ رھنا چاھتے تھے، (گويا ھر صورت ميں حكومت ميں حصہ دار بن كر اپنے آپ كو محفوظ ركھنا چاھتے تھے)۔

3۔ سقيفہ ميں انصار كي گفتگو ان كے اھداف كو واضح كرتي ھے اس كے علاوہ قاسم بن محمد بن ابوبكر كي روايت بھي انصار كے سقيفہ ميں اجتماع كے مقصد كي طرف اشارہ كرتي ھے اور وہ يہ ھے كہ (ولكنا نخاف اَنۡ يليہ اقوام قَتَلنا آبائھم واِخوتھم) 164 ليكن ھميں ڈر اس بات كا ھے كہ كھيں ايسا نہ ھو ان كے بعد وہ لوگ بر سر اقتدار آجائيں كہ جن كے باپ اور بھائيوں كو ھم نے قتل كيا تھا، جيسا كہ دينوري اور جوھري نے نقل كيا ھے كہ انصار نے كھا ھے كہ ھميں ڈر اس بات كا ھے كہ كل كھيں وہ لوگ بر سر اقتدار نہ آجائيں كيونكہ نہ وہ ھم ميں سے ھيں اور نہ تم ميں سے 165۔

اس بيان سے يہ بات بخوبي واضح ھے كہ انصار مكمل طور سے اس بات كو جانتے تھے كہ بعض ايسے افراد حكومت كو حاصل كرنے كے لئے كوشش كر رھے ھيں كہ جو سالھا سال مسلمانوں سے جنگ كرتے رھے ھيں اور يہ وھي لوگ ھيں جن كے باپ اور بھائيوں كو جنگ ميں انصار نے قتل كيا تھا اگر وہ حكومت اپنے ھاتھ ميں لے ليں گے تو انصار ان كے انتقام سے كسي صورت نھيں بچ سكتے اور وہ بني اميہ اور ان كے طرفداروں كے علاوہ كوئي اور نہ تھا، اگرچہ خود ابوبكر سے انھيں اس قسم كا خوف نہ تھا 166 ليكن با تجربہ اور زيرك انصار جيسے حباب بن منذر اس بات كو بخوبي سمجھ رھے تھے كہ اگر آج ابوبكر جيسے لوگ مسند خلافت پر بيٹھ جائيں گے تو كل يقيني طور پر حكومت ان لوگوں كے ھاتھ ميں ھوگي كہ جن كي انصار سے نہ بنے گي اور وہ ان سے انتقام اور بدلہ لينے كي فكر ميں رھيں گے، حباب بن منذر كي يہ پيشين گوئي بيحد لائق تعريف ھے اس لئے كہ انھوں نے جيسي پيشين گوئي كي تھي ويسا ھي ھوا اور ابھي كچھ وقت بھي نہ گزرا تھا كہ فرزندان طلقاء 167 اقتدار ميں آگئے اور اسلام و مسلمين نيز پيغمبر اسلام (ص) كے اھل بيت (ع) پر وہ ظلم ڈھائے كہ جس كي ايك مثال واقعۂ كربلا ھے۔

4۔ در حقيقت سقيفہ ميں انصار كا جمع ھونا ايك مخفيانہ عمل تھا اور كسي كو اس كي اطلاع نہ تھي اب اگر ان كا مقصد تمام مسلمانوں كے لئے خليفہ كا انتخاب تھا تو اس صورت ميں اس قسم كا خصوصي جلسہ ان كي شايان شان نہ تھا، اگر چہ وہ جلسہ كے اختتام پر اس نتيجہ پر پھنچے كہ خليفہ كا تعين كيا جائے، مگر وہ اس بات كو بخوبي جانتے تھے كہ يہ كام تمام مسلمانوں كے نزديك قابل قبول نہ ھوگا جيسا كہ ابو مخنف كي روايت اس چيز كو بيان كرتي ھے 168 كہ اگر مھاجرين نے قبول نہ كيا تو كيا كھيں گے؟ يہ تمام باتيں اس بات پر دلالت كرتي ھيں كہ درحقيقت وہ اپنے لئے سقيفہ كے اجتماع كے ذريعہ آئندہ كا لائحہ عمل تيار كر رھے تھے اور بعد ميں اس نتيجہ پر پھنچے كہ خليفہ كا انتخاب بھي كر ھي ليا جائے۔

5۔ انصار ابوبكر كي تقرير كے بعد كہ جس ميں انھوں نے انصار كو وزارت اور مشاورت كا عھدہ دينے كا وعدہ كيا 169 اختلاف كا شكار ھوگئے، بعض انصار جيسے حباب بن منذر اور سعد بن عبادہ ابوبكر پر اعتماد نہ ركھتے تھے لھٰذا يہ كھا كہ اس كي بات پر توجہ نہ كرو، ليكن بعض دوسرے افراد جيسے، بشير بن سعد كہ جو سعد بن عبادہ كا چچا زاد بھائي تھا اور اس سے حسد اور كينہ ركھتا تھا ابوبكر كي طرف مائل ھوگيا اور سب سے پھلے ابوبكر كي بيعت كي 170 اور انصار ميں دوسرا اختلاف اوس و خزرج كي آپسي رقابت كي وجہ سے پيش آيا كہ جس كے سبب قبيلہ اوس نے ابوبكر كي بيعت كرلي 171 اور پھر جو ھونا تھا وہ ھوا، اس سلسلے ميں ھم شيخ مفيد كا قول نقل كرتے ھيں جو نھايت متين ھے وہ يہ كہ جو كچھ ابوبكر كے حق ميں ھوا اس كي اصل وجہ يہ تھي كہ انصار آپس ميں اختلاف ركھتے تھے نيز طلقاء اور مولفة القلوب بھي يہ نھيں چاھتے تھے كہ اس كام ميں تاخير ھو كہ كھيں ايسا نہ ھو كہ تاخير كے سبب بني ھاشم كو فرصت مل جائے اور يہ حكومت اپني جگہ پر پھونچ جائے اور چونكہ ابوبكر وھاں موجود تھے اس لئے ان كي بيعت كرلي 172۔

گذشتہ مباحث سے يہ نتيجہ نكلتا ھے كہ انصار كي پيشين گوئي اور ان كا خدشہ مكمل طور سے بجا تھا ليكن ان كا يہ اجتماع پيغمبر اسلام (ص) كي تجھيز و تكفين سے پھلے كسي بھي صورت ميں صحيح نہ تھا بلكہ يہ ان كي جلد بازي اور بے نظمي كي دليل ھے جس كے نتيجے ميں دوسرے افراد كو يہ موقع ملا كہ انھوں نے اپني رائے ان پر مسلط كردى، البتہ يہ بھي ممكن ھے كہ انصار پر بھي پھلے ھي سے كام كيا گيا ھو اور انھيں بني اميہ سے بيحد ڈرايا گيا ھو، اگر انصار صبر سے كام ليتے يا اسي سقيفہ ميں حضرت علي عليہ السلام كي حمايت ميں ثابت قدمي كا مظاھرہ كرتے تو يقيني طور پر دوسرے لوگ بآساني حضرت علي عليہ السلام كے ھاتھ سے حكومت لينے ميں كامياب نہ ھوتے اس لئے كہ اس وقت انصار ايك ممتاز مقام ركھتے تھے جس كي دليل خود ابوبكر اور عمر كا انصار كے اجتماع ميں آنا ھے، اس لئے كہ اگر انصار اس امر ميں كوئي اھميت نہ ركھتے تو ابوبكر اور عمر كسي صورت ميں جلدي جلدي اپنے كو اس اجتماع ميں پھونچا كر وھاں اپني حكومت كي بنياد نہ ركھتے۔

61. سعد بن عبادہ بشير بن سعد كے چچا زاد بھائي تھے۔

62. اس روايت كي تمام اسناد كو علامہ اميني نے اپني كتاب "الغدير" ميں بيان كيا ھے۔

64. السيرة النبويہ: ابن ھشام۔ ج2 ص73۔

65. تاريخ طبرى: ج2 ص 372، التفسير الكبير: ج6 ص50۔

66. آيت19۔

69. تاريخ يعقوبى۔ ج2 ص49

70. الكامل في التاريخ۔ ج1 ص568

71. تاريخ يعقوبى۔ ج2 ص50

72. الطبقات الكبرىٰ۔ ج2 ص5، 6 (غزوات كي تعداد 27 اور سريہ كي تعداد 47، غزوہ يعني وہ جنگ جس ميں پيغمبر اكرم (ص.خود شريك تھے، سريہ يعني وہ جنگ جس ميں پيغمبر اكرم (ص.خود شريك نہيں تھے بلكہ كسي كي سپہ سالاري ميں فوج بھيج ديتے تھے)

73. تاريخ يعقوبى: ج2 ص60 (قريش نہ چاھتے ھوئے بھي حكم خدا كے سامنے تسليم ھوگئے)

74. السيرة النبوية ابن ھشام: ج4 ص300، الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص250، 251، انساب الاشراف: ج2، ص72، نھج البلاغہ: خطبہ68، ص52۔

75. سورہ مباركہ نصر: آيت1 (جب خدا كي مدد اور فتح كي منزل آجائے گي)

76. الطبقات الكبرىٰ ج1 ص192، 193۔

77. الطبقات الكبرىٰ ج1 ص181۔

78. جيسے، حديث طير، منزلت وغيرہ۔

79. الميزان في تفسير القرآن۔ ج446

80. تفسير عياشي۔ ج1 ص360، بحار الانوار۔ ج37 ص165، جامع الاخبار۔ ص10۔

81. ارشاد۔ ج1 ص170

82. سورہ مباركہ مائدہ آيت 67

83. اس روايت كي روشني ميں جو يہ بيان كرتي ھے كہ پيغمبر اسلام (ص.كي وفات كے بعد لوگ مرتد ھوگئے تھے، جيسے روايت ابن اسحاق ميں ھے كہ "ارتد العرب" (عرب مرتد ھوگئے.السيرة النبوية: ابن ھشام۔ ج4 ص316۔

84. سني اور شيعہ تفاسير اس چيز كو بيان كرتي ھيں۔

85. انساب الاشراف۔ ج2ص 742

86. تاريخ طبرى۔ ج3 ص184، الكامل في التاريخ ج2 ص5۔

87. تاريخ ادبيات عرب۔ ص35۔

88. تفسير طبري۔ ج14 جز 28، ص148۔ (حديث 26482)

89. السقيفہ و فدك، ص52، 70

91. السيرة النبوية: ابن ھشام ج4 ص299، 300۔ الطبقات الكبرىٰ۔ ج1 ص190، 249، تاريخ يعقوبى۔ ج2ص13، الكامل في التاريخ۔ ج2 ص5۔

92. الطبقات الكبرىٰ۔ ج1ص187، ارشاد۔ ج1 ص174

93. ارشاد۔ ج1 ص174

94. تاريخ طبرى: ج2 ص634

95. السيرة النبوية: ابن ھشام ج4 ص299، الطبقات الكبرىٰ ج1 ص190۔

97. السقيفہ و فدك: ص74، 75۔

98. الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص244۔ انساب الاشراف۔ ج2 ص738، تاريخ طبرى۔ ج3 ص192

100. سورۂ مباركہ نجم: آيت3 (پيغمبر ھرگز اپني مرضي سے بات نھيں كرتے)۔

101. تفسير عياشي۔ ج1 ص360

102. تفسير عياشي۔ ج1 ص360 كا حاشيہ، تفسير ميزان ج6 ص54۔

104.الطبقات الكبريٰ۔ ج1 ص204۔ انساب الاشراف۔ ج3 ص716۔ تاريخ طبرى۔ ج3 ص198، ارشاد۔ ج1 ص181۔ الكامل في التاريخ۔ ج2 ص6۔

105. الامامة والسياسة۔ ص28

106. السقيفہ و فدك۔ ص60

107. "اجتمعت بنو اميہ اليٰ عثمان بن عفان"

109. السقيفہ و فدك ص37

111. كتاب "عبداللہ ابن سبا" علامہ عسكرى، ج1 ص101

112. السقيفہ و فدك ص37

113. تاريخ طبرى۔ ج3 ص209

114. تاريخ طبرى ج3 ص209، ارشاد۔ ج1 ص189

115. الارشاد: ج1 ص190۔ (فحرّضھم علي امر فلم ينھضوا لہ)

116. السقيفہ و فدك: ص37، تاريخ طبرى: ج3 ص209۔

117. السيرة النبوية ابن ھشام: ج4 ص305، 311، تاريخ الطبرى: ج3 ص210، البدايہ والنھايہ: ج5 ص262، انساب الاشراف: ج2 ص742۔

118. انساب الاشراف۔ ج2 ص744۔

119. انساب الاشراف: ج2 ص762، الطبقات الكبرىٰ: ج3 ص182۔

123. الارشاد۔ ج1 ص184۔

124. انساب الاشراف۔ ج2 ص729 والارشاد ج1 ص182 (يصلّي بالناس بعضھم)

125. السقيفہ و فدك۔ ص: 68۔

126. انساب والاشراف: ج2 ص727،729، 731، 732، 735، تاريخ طبرى: ج3 ص197۔

127. الطبقات الكبرىٰ: ج2 ص222، 223، دلائل النبوة۔ ج7 ص191، 192

128. دلائل النبوة: ج7 ص191، 192، الطبقات الكبرىٰ: ج2 ص218 تاريخ الطبرى: ج3 ص197

129. الطبقات الكبرىٰ: ج2 ص215 تا 224 و ج13 ص178 تا 181۔

131. الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص190، 249، السقيفہ و فدك: ص74، 75، تاريخ يعقوبى: ج2 ص113، الكامل في التاريخ: ج2 ص5

133. الطبقات الكبرىٰ: ج4 ص205

136. الامامة والسياسة: ص20۔

137. السقيفہ و فدك: ص73: الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص243، 244۔ الارشاد: ج1 ص184

139. تاريخ الطبرى: ج3 ص193 (حاشيہ.والسقيفہ و فدك: ص73 (ايك روايت كے ضمن ميں)

140. سورہ نجم آيت 3۔

141. انساب الاشراف: ج2 ص738

142. الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص243، والسقيفہ و فدك: ص173 (فرفضہ النبى: پس اس معني ميں نبي (ص.پہلے رافضي ھيں)

143. ارشاد۔ ج1 ص184

144. البداية والنھاية ج5 ص271۔

145. السيرة النبويہ: ابن ھشام ج4 ص305، 311، انساب الاشراف:ج2 ص742، تاريخ طبرى: ج3 ص210۔ البداية والنھاية:ج5 ص262، 263۔

146. انساب الاشراف" ج2 ص764۔ السقيفہ و فدك: ص55۔ تاريخ طبرى: ج3 ص203۔

147. الارشاد: ج1 ص180، 181۔

148. تاريخ يعقوبى: ج2 ص113۔

149. السيرة النبويہ: ابن ھشام ج4 ص299، 300۔ الطبقات الكبرىٰ: ج1 ص190، 249۔

152. السيرة النبويہ: ابن ھشام ج4 ص300 (فخرج اسامہ و خرج جيشہ معہ حتي نزلوا الجرف من المدينہ علي فرسخ)

153. الارشاد: ج:1 ص183۔

154. الارشاد۔ ج:1 ص184

155. السقيفہ و فدك۔ ص37، البتہ انساب الاشراف ج2، ص773 نے اس بات كو واقدي سے نقل كيا ھے كہ اس بات پر اجماع ھے كہ ابوسفيان پيغمبر (ص.كي وفات كے وقت مدينہ ميں تھا لھٰذا ايسي صورت ميں يہ دليل قابل قبول نھيں ھے۔

156. الارشاد: ج1 ص184۔

158. انساب الاشراف: ج2 ص 767، الامامة والسياسة:ص21۔

159. ارشاد: ج1 ص184

160. تاريخ طبرى: ج3 ص202۔

161. الكامل في التاريخ: ج2 ص10۔

162. تاريخ يعقوبى: ج2 ص124۔

163. تاريخ يعقوبى: ج2 ص124

164. الطبقات الكبرى: ج3 ص182، انساب الاشراف: ج2 ص762۔ السقيفہ و فدك: ص49۔

166. الطبقات الكبرىٰ: ج3 ص182

167. آزاد شدہ

168. تاريخ طبرى: ج3 ص218، 219۔

169. تاريخ طبرى: ج3 ص220، الطبقات الكبرىٰ ج3 ص182۔

170. تاريخ طبرى: ج3 ص220۔

171. تاريخ طبرى: ج3 ص221۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


source : http://www.al-shia.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عید فطر احادیث کی روشنی میں
امام حسین علیہ السلام اور تقیہ
بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ
اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي

 
user comment