اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات

پیغمبر کی بیماری نے شدت اختیار کرلی، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آنحضرت کے بستر کے پاس بیٹھی ہوئی باپ کے نورانی اور ملکوتی چہرہ کو دیکھ رہی تھیں۔ جس پر بخار کی شدت کی بنا پر پسینہ کے قطرے جھلملا رہے تھے۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جناب ابوطالب علیہ السلام کا شعر جو پیغمبر کے بارے میں تھا پڑھا۔

وابیض یستقی الغمام بوجھہ      شمال الیتامی عصمة للارامل

یعنی روشن چہرہ اس چہرہ کی آبرو ندی کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے جو یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوہ عورتوں کی نگہداری کرنے والا ہے۔

رسول خدا نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا: بیٹی، شعر نہ پڑھو، قرآن پڑھو:

 و ما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل النقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا وسیجزی اللہ الشا کرین۔

(آل عمران:۱۴۴)

”محمد نہیں ہیں مگر پیغمبر خدا، ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں تو کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا قتل کر دیئے جائیں تو تم اپنے گزشتہ لوگوں کی طرف پلٹ جاؤ گے؟’ اور جو اپنے گزشتگان کے آئین کی طرف پلٹ جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ خدا شکر کرنے والوں کو نیک جزا دے گا۔“

رسول خدا نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے کانوں میں کوئی بات کہی آپ نے گریہ شروع کیا۔ پیغمبر اپنی بیٹی کی اس تکلیف کو برداشت نہ کرسکے دوبارہ آپ نے ان کے کانوں میں ایک بات کہی تو جناب فاطمہ چپ ہوگئیں اور مسکرانے لگیں۔

بعد میں لوگوں نے جناب فاطمہ سے سوال کیا کہ رسول خدا نے آپ سے کیا کہا تھا: کہ پہلی بار آپ روئیں اور دوسری بار مسکرائی تھیں؟ آپ نے جواب دیا: ”پہلی بار آنحضرت سے ان کی رحلت کی خبر سنی تو میں مغموم ہوگئی دوسری بار آپ نے بشارت دی کہ اے فاطمہ میرے اہل بیت یں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی اس پر میں بشاش ہوگئی۔

پیغمبر نے اپنی حیات کے آخری لمحوں میں علی علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا:

”علی میرا سر اپنی آغوش میں لے لو کہ امر خدا آ پہنچا۔“

اے علی! جب میں اس دنیا میں نہ رہوں تو مجھے غسل دینا اور پہلی بار مجھ پر نماز پڑھنا۔ آپ کا سر علی کی گود ہی میں تھا کہ آپ رحمت باری سے جا ملے۔

یہ عظیم مصیبت دوشنبہ ۲۸ صفر سنہ ۱۱ ہجری قمری کو آئی۔ لیکن مورخین اہلسنّت کے اعتقاد کے مطابق پیغمبر کی رحلت ۱۲ ربیع الاول سنہ ۱۱ ہجری قمری کو ہوئی۔

علی نے رسول خدا کے پاکیزہ جسم کو غسل دیا کفن پہنایا اور نماز پڑھی اس عالم میں کہ آسو آپ کی آنکھوں سے رواں تھے اور فرمایا:

”ہمارے اں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ کے رسول! بیشک آپ کے مرنے سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔“

وہ چیز جو دوسرے پیغمبروں کی موت کے بعد منقطع نہیں ہوئی (یعنی نبوت و احکام الہی اور آسمانی خبریں) اگر آپ صبر کا حکم نہ دیتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو میں آپ کے فراق میں اتنا روتا کہ میرے اشکوں کا سرچشمہ خشک ہو جاتا۔(نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶ ص ۷۳۳)

رسول خدا کی رحلت کی خبر نہایت تیزی سے مدینہ میں پھیل گئی، علی علیہ السلام جب غسل و کفن میں مشغول تے۔ اس وقت ایک گروہ سقیفہ پیغمبر کے جانشین کا مسئلہ کرنے میں الجھا ہوا تھا۔

غسل دینے کے بعد پہلے علی علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھی پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے، پھر رسول خدا کو ان کے گھر میں مسجد کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

یہ نور ہرگز نہیں بجھے گا

پیغمبر داربقاء کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن یہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا۔

ان کے آئین مشعل ہدایت کی طرح بشر کے تاریک راستوں میں رہنما ہیں اور کھربوں انسان صدیوں سے ان کے آئین کے پیرو ہیں۔

اب روزانہ ایک ملیارد مسلمان ساری دنیا میں کروڑوں بار ”اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمد رسول اللہ“ کی آواز گلدستہٴ اذان سے سن رہے ہیں اور بے پناہ محبت کے ساتھ اس آواز کے دلبر ترنم کو اپنی زبان پر جاری کرتے اور ان (محمد) پر درود بھیجتے ہیں۔ ان کی آسمانی کتاب کو پڑھتے اور اس سے سبق حاصل کرتے رہت ہیں۔

قرآن کریم ۱۴۴ سورتوں کے جاودانہ اعجاز کے عنوان سے اور محمد کی رسالت پر زندہ گواہ کی حیثیت سے موجود ہے خدا نے ان کے دین کو آخری دین اور ان کو آخری پیغمبر قرار دیا ہے۔ جو ان کے آئین کی پیروی نہ کرے (گمراہ ہے) خدا اس سے اس کی عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور آخرت میں وہ گھاٹے میں رہے گا۔(آل عمران:۸۵)

جی ہاں! یہ نور آج لوگوں کے دلوں اور ان کی عقل و خرد پر جگمگا رہا ہے۔

یہ نور ہر جگہ چمکا اور تھوڑی ہی مدت میں جزیرة العرب سے نکل کر ہر جگہ پھیل گیا۔ روم اور ایران کی مطلق العنان حکومتوں کو اپنے ہالہ میں لے لیا۔ اور ایک طرف قلب فرانس اور اسپین تو دوسری طرف ہند تک پہنچ گیا۔

ڈوبتی ہوئی بشریت کو نجات بخشی اور اس کو ایک عظیم تمدن سے روشناس کرایا۔

ختم نبوت کے بعد یہ نور معصوم رہنماؤں میں درخشندہ ہوا اور ہدایت کے یہ پاک انوار اور نوری پیکر انوار فتنوں کی تیرگی میں انسانوں کی ہدایت کے لیے کمربستہ ہوئے اور انسانیت کو الہی و اسلامی زندگی کی طرف بلایا اور آج بھی نجات بشریت کا واحد راستہ، قرآن و عترت کی پیروی ہے۔

آخر کلام میں عرض ہے کہ مسلمان ان کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے راستہ کو تلاش کرے، ستم کے بوجھ تلے دبا ہوا تیرہ بخت اور حیران و سرگرداں انسان کی رہائی کا واحد راستہ ان کا آئین ہے۔ تحریکیں شروع ہوں گی اور کفر وارتداد و نفاق و ظلم و ستم مغلوب ہوں گے اور کمزور افراد زمانہ کے راہبر اور زمین کے وارث ہوں گے۔ (قصص:۵)

امام مہدی (عجل اللہ لہ الفرج) تشریف لائیں گے پھر ساری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی اور ساری دنیا میں ایک پرچم لہرائے گا۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment