اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

عشق کربلائي

 

يہ ظلم و جبر ہي ايک پياس ہے جو صديوں سے

بجھائي جاتي ہے انسانوں کے خونِ ناحق سے

کو ئي حسين ہو، کوئي مسيح، يا سقراط

لہو کي پياس انھيں ڈھونڈتي ہي رہتي ہے

زباں نکالے ہوئے، تيورياں چڑھائے ہوئے

علي سردار جعفري کے لہجے کا يہ کرب صديوں پہ محيط ہے کہ جب آفرينش کائنات سے ہي حوادث نے اس کي کوکھ ميں جنم لينا شروع کر ديا تھا۔ اور حقيقت ابتدائے آدميت ميں نکھرکے سامنے آگئي کہ حق و باطل کے درميان پہلي معرکہ آرائي ہوئي جب ايک بھائي نے ناآشنائي حق کا زہر اپني رگوں ميں انڈيلتے ہوئے اپنے بھائي کا خون ناحق بہايا۔ چشم تاريخ ملاحظہ کر رہي تھي کہ جہاں آدميت کي گود ميں ہابيل سے گوہر ہيں تو وہاں اس کي آستين ميں قابيل سے سپولے ہي جنم لے رہے ہيں۔ اسي سے حضرت آدم عليہ السلام کي آنکھوں ميں وہ منظر کسي خواب کي طرح ابھر کے سامنے آگيا کہ جب وہ ”مسندِ خلافت اللہ“ کا حلف اٹھانے تشريف لا رہے تھے تو تمام مخلوقاتِ سماوي کو حکم ہوا کہ تم اسے سجدہ کرو، ملائکہ نے نگاہيں اٹھاکے آگ مٹي ہوا اور پاني سے مرکب اس مخلوق کو ديکھا۔ اسي لمحہ بھر کے ”توقف“ ميں ان کي نگاہيں ديکھ چکي تھيں کہ کس حدِ تضاد ميں ان عناصر کي آميزش ہوئي ہے آدميت اور اہلبيت کي صورت ميں آگ و مٹي کا تضاد تو ملاحظہ کر ہي رہے تھے ليکن ان کي نظر اس سے بھي ماوراء قابيل سے نمرود، شداد اور فرعون سے ہوتے ہوئے ان عناصر اربعہ کي ترکيب کے مجسمے انسان کو روزِ عاشورا کے کٹہرے ميں ديکھ رہي تھيں۔ کہ جہاں سفاک قاتل، وحشي درندے بد طينتي اور شيطنت کے تمام اسلحوں سے مسلح نمائندہ حق کے سامنے علم بغاوت اٹھاتے ہوئے تھے۔ فطرت کے الٰہي قوانين توڑ کر نفس امارہ کي پيروي ميں لگے تھے۔ فوراً کہا پروردگار ہماري مجال نہيں ليکن ہم ديکھ رہے ہيں کہ جن عناصر کي آميزش سے ”آدمي“ مجسّم ہوا ہے يہ زمين پر فساد پھيلائے گا۔ تو صدائے خالق عليم ”اني اعلم ما لا تعلمون“ قفل بن کے ان کے ارادوں پر جا پڑي اور يہ فوراً سر بسجود ہوئے تھے

اس تاريخ نے انسانيت کا وہ روپ ديکھا کہ جب انسان سے انسانيت سر چھپائے پھر رہي تھي اور ہوا و ہوس کے بے لگام گھوڑے عرب کا يہ وحشي بدو اپني خواہشات ميں سر مست، انسانيت کي نسبت حيوانيت سے زيادہ قريب تھا۔ اس دور کا انسان اپنے گھر ميں آئي رحمتِ خدا (بيٹي) کو ممتائي سسکيوں سميت رسومات کے قبرستان ميں دفنا دينا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔ جہالت و ناداني کا يہ عالم تھا کہ خود تراشيدہٴ اصنام (idols) کو معبوديت کے ہار پہنا کر اس کي پوجاپاٹ ميں مصروف تھا۔ اس دور کے انسان سے تہذيب ہراساں، اخلاق پريشاں تھا۔ اس دور کا انسان اپنے محيط سے بے خبر، اپني ہستي سے بے پروا اور اپنے ہدف تخليق سے آوارہ ہو کر خواہشات کے نخلستانوں ميں جا بھٹکا۔ ہر سمت ظلم کا جودو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔ معصوم زندگياں شکارچي پنجوں ميں تڑپ رہي تھيں۔ وقت کے وحشي عقاب ماحول کي تلچھٹ (Sediment) سے جہاں جي ميں آتا لقمہٴ رزق لينے جھپٹ پڑتے۔ جنگل کا قانون تھا تلوار و لہو کي باتيں تھيں بات بے بات لڑنا ہي مردانگي تصور کي جاتي اور معمولي و چھوٹے چھوٹے تنازعات ميں برسوں الجھنا اپني قبائل کي رسي ميں پروئے متعصب (Glliberal) ذہنيتيں کٹ مرنے کو ترجيح ديتيں۔ بقول شاعر:

کبھي پاني پينے پلانے پہ جھگڑا

کبھي گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا

ان حالات ميں انسان کو فرازِ عبوديت پہ جھکانے اسلام کا نور چمکا کہ جس نے انسان کي انگلي تھام کر دوبارہ اس کو کھويا ہوا مقام عطا کر ديا۔ فکر انساني کے جمود کا طلسم ٹوٹا اور وہ اپنے مقصد تخليق کے قريب ہونے لگا۔ انبياء ما سلف کے پڑھائے سبق ذہن انساني ميں پھر اجاگر ہونے لگے۔

ليکن اس طرف سے يہ بھي ايک ناقابلِ انکار حقيقت ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہي اس نورِ اسلام کا نسل در نسل جہالت و گمرہي کے پاتال ميں بھٹکنے والے عرب بدوٴوں کي ايک خاطر خواہ تعداد پر کوئي خاص اثر نہ ہوا البتہ محضر يا تثليث کے ان فرزندوں نے اپنے ظاہر منافع اور ماري مناصب کے حصول يا تلوارِ علوي کے خوف سے ”قبول اسلام“ کي صليب عارضي طور پر اپنے گلے ميں لٹکا تو لي مگر وہ پوري طرح اپنے آپ کو اس الٰہي ماحول ميں Adjust نہيں کر پا رہے تھے۔ ادھر شيطان بھي اپنے مذموم ارادوں سميت بوکھلا اٹھا اس نے بھي اپنا وعدہ دہرايا کہ ميں انسانوں کو گمراہ کروں گا۔ لہٰذا اسے بھي ايسے سپوتوں کي تلاش تھي سو وہ بھي تمام تر ابليسي ہتھکنڈوں سے ليس ہو کر ميدان عمل ميں آگيا۔ جس کے لئے ان افراد نے پورا پورا زمينہ فراہم کر ديا۔

ہر ساعت لمحات کا خون پي کر وقت کي بھٹي ميں پک کر ماہ و سال ميں کندن بن رہي تھي اور ہر گذرنے والا لمحہ آنے والے لحظے کو اپني عاقبت اور انجسام کي خبر سنا رہا تھا۔ وقت کي بے رحم موجوں ميں ادہر اسلام کا الٰہي نظام پروان چڑھ رہا تھا اور ادھر يہ طبقہ خاص بھي اوہام پرستي (Supirtition) کي طرف تيزي سے لوٹ رہا تھا۔ اسلام نے نصف صدي سے زائد اس عرصہ حيات سے نشيب و فراز (ups and downs) ديکھ لئے تھے۔ اور اب يہ طبقہ خاص چاہتا تھا کہ کسي نشيب ميں اسلام کا کام اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ اور بالآخر وہ لحظہ بھي آ گيا جس کي پہلي اينٹ سقيفہ ميں رکھي گئي تھي اب ايک مضبوط قلعے کي صورت بن چکا تھا۔ا ور ظالم گذشتہ روايات پہ نئے دور کي چلمن جلا کر فرعونِ وقت کے ہاتھوں ميں دے رہا تھا۔ جونہي اسلام کي اور اسلامي قوانين کي ظاہري باگ ڈور ان کے ہاتھ ميں آئي ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ اور وقت کا اندھا جوگي اپني ٹوٹي بين اٹھائے ”قصرِ فرعونيت“ کے سپولے تلاشنے عرب کے نخلستانوں ميں نکل کھڑا ہوا۔ ضمير و قلم اموي دولت کے آگے جھک گئے۔ فتووٴں کي تال پہ ناچنے والا عرب کا سادہ لوح مسلمان بھي سياست اموي کے اس شاطرانہ کھيل اور کثيف ارادے بھانپ نہ پايا۔ اسلام کے کنويں کے آب درنگ تيزي سے بگڑنے لگے۔ علي کي ذولفقار پہ پلنے والے اموي کتوں نے اپنا مزاج بدلنا شروع کر ديا جو آہستہ آہستہ اپني طينت و سرشت کي طرح لوٹ رہا تھا۔

ضرورياتِ مذہب و دين کا مذاق اڑانا بطورِ فيشن Fashion متعارف ہو چکا تھا۔ اور سر عام يہ کہا جانے لگا کہ نہ معاد ہے نہ قيامت کچھ وحي ہے نہ خدا ہے۔ يہ تو بني ہاشم کا ڈھونگ ہے۔ خداسے دوري رواج پکڑ رہي تھي۔ عشق خداوندي کي شمع چراغ صبحگاہي کي طرح ہڑپڑانے لگي جس اسلام نے انسان کو انسانيت بخشي آج وہي اس انسان کے ہاتھوں زخم خوردہ تھا۔

جہاں ايک طرف خليفہ وقت ابليس کي ڈگڈگي پہ تخت خلافت پہ بندروں کي طرح ناچ رہے تھے وہاں اسلام کے حقيقي پيروکار اپنے دل کي کٹيا ميں شمع توحيد فروزاں کئے تھے۔ عشقِ خداورزي ان کو انگ انگ سے پھوٹ رہا تھا۔ ”اني اعلم ما لا تعلمون“ کے مصاديق کسي بھي مقام پر حق و حقيقت سے لمحہ بھر دور نہ ہوئے۔ جب ہر کوئي اموي ميڈيے کے سامنے دم سادھے بيٹھا تھا اور يزيد کي اپنے کام ميں مامور اپنے فرائض کي انجام دہي ميں ہر وقت پيکار تھيں اس وقت بھي ”ملاقات خدا“ کے عشق سے سرفراز تھے۔  ادھر ابليسيت اپنے کيل کانٹوں سے ليس کارزار ميں نکل پڑي اور ادھر يہ الٰہي نمائندے اپنا مقصد پانے ميں آگئے۔ تاريخ کے معدے ميں يہ حقيقت ہضم نہيں ہو رہي تھي کہ لوگ برسوں کے تعصبات کي سے ظالم و مظلوم ميں تميز نہيں کر پا رہے تھے اور اسلام بہت بے آبرو ہو کر چند افراد ميں محدود ہوکے رہ گيا تو اسلام کو آبرو کي پڑي تھي اور حسين کو اسلام کي فکر لاحق تھي کوئي اس کا پرسان حال نہ تھا اميدوں نے رخت سفر پاس نے ڈيرے ڈال ديئے آسمان کو کسي ہاتف غيبي کي توقع، زمين کو طوفانِ نوح کا انتظاردے ايسے ميں اسلام نے اس درندے کي پناہ لي جہاں وہ بچپنے سے پل رہا تھا۔ بقول محسن نقوي:

اسلام کھو چکا تھا غبارِ يزيد ميں

کرتا نہ کربلا ميں جو بيعت حسين کي

کون حسين؟ وہ حسين کہ جو مزاج نبوت تھا۔ جو روحِ شجاعانِ عرب تھا جو وارثِ ضميرِ رسالت تھا جو اعتبارِ موجِ کوثر تھا، جو شمع حريم حيدري تھا، جو خاتمِ حق کا نگين تھا، جو خاورِ صدق و صفا تھا، جو منارہٴ عظمت تھا، جو وکيلِ شرافتِ آدم تھا، جو اميرِ خلد جواني تھا، جو آبروئے سلسبيل تھا، جو شاہدِ گلِ پيرہن تھا، جو محورِ گيتي ودگرگوں تھا، جو مہبطِ آوازِ حق تھا۔

کون حسين؟ وہ حسين کہ جو مورث اقطاب عالم، طبع، پيغمبر حشم، يزدان وقار، صاحب سيف و قلم، قنديل اصول، کعبہ حسن و قبول، فردوس آغوش بتول، راکب دوش رسول تھا۔

کون حسين؟ وہ حسين کہ جو شہريار زندگي تھا، جو راتح مرگ تھا، جو گشتگانِ عشق کا سردار تھا، کون حسين؟ وہ کہ جو امير بے عديل تھا، جو صدق خليل تھا، جو مخزنِ جنسِ ہدايت تھا، جو بدر چرخ سرفروش تھا، جو شمع حلقہ شب عاشورا تھا۔

حسين اسلام کے کرب سے پوري طرح آگاہ تھے کہ اگر آج ابليس کے ان پيروکاروں کے سامنے قيام نہ کيا تو انسانيت پھر سے حيوانيت کي طرف لوٹ جائے گي۔ کوئي ذي تنفس نطق حق و حقيقت سے آگاہ نہ ہو پائے گا اور ہميشہ ہميشہ کے لئے يہ فکري اضطراب ذہن انساني کي پرتوں ميں الجھا رہے گا۔ لہٰذا چشم تاريخ نے وہ منظر ديکھے جو اس سے پہلے کسي بھي طور پر رونما نہ ہوئے تھے۔ جنہوں نے انسان کو معراج انساني پہ پہنچا ديا اور اہلبيت و يزيد کو ہم آہنگ کرکے دنيا کے سامنے بے نقاب (Univeil) کر ديا۔ عشق الٰہي پروان چڑھا، لوگوں کے دلوں ميں اسلام کا وقار اس قدر معتبر ہو گيا کہ قيامت تک يزيديت گالي بن کے رہ گئي۔ انقلاب کربلا کي تاثير ذہن انساني پہ تا حشر امر ہو گئي۔ اور اس کي بنيادي وجہ (Main resion) خود کربلا والوں کا اپنا عرفان نفس اور اس ذات حقيقي کي معرفت اور اس کے نتيجے ميں اِس پروردگار سے عشق کي آگ تھي جس نے اس واقعے کو ”صبح ازل سے شام ابد تک“ انفراديت بخشي۔ کربلا والوں نے زندگي کا ہر لمحہ لقاء اللہ کي خاطر گذارا۔ کيونکہ جس طرح عرض کيا ہے اشارةً اور بھي علل و اسباب قيام امام حسين ہو سکتے ہيں ليکن بنيادي وجہ يہ تھي کہ لوگ ذات خداوند قدوس سے دور ہو رہے تھے۔ اور کربلا والوں کا پہلا ہدف يہي تھا کہ اس عرب کے صحراووٴں ميں اس بھٹکي ہوئي انسانيت کي انگلي تھام کر دوبارہ سے فراز عبوديت پہ لايا جائے۔ اور يہ اسي صورت ميں ممکن تھا جب يہ خدا سے خود اس قدر قريب ہوں خود ان کے اندر يہ صفت موجود ہو تب جاکے يہ صلاحيت (Preparedess) پيدا ہوتي ہے کہ دوسروں کو بھي اس راہ پہ لے آئيں۔ اور کربلا ميں علي اصغر سے لے کر حبيب ابن مظاہر تک سبھي اس صفتِ عظيمہ سے تھے۔

قرآن مجيد ميں مقصد تخليق انسان بيان ہوا ہے يا ايھا الانسان انک کادحٌ اليٰ ربک کدحاً فملاقيہ۔ ملاقاتِ پروردگار ہي ہدف اصلي تخليق ہے۔ اور يہي وہ شوق تھا جس کے آرام و سکون کي بجائے آگ پيتے انگارے اگلتے صحرا ميں انھيں نکلنے پر مجبور کر ديا۔ جب حرمان کي آگ لگي ہو تو گوشہ نشيني (Seelusion) سے نکل کر انسان ميدانِ عمل ميں آتا ہے۔ لالہ زار کربلا کربلا بسانے سبدِ گل فروش ميں جو پھول سما سکے وہ اس اشتياق و عشق ميں پروئے ان موتيوں کي آبرو اس قدر پڑھ گئي کہ اس سفر ملکوتي (Supernat) ميں وہي راستہ بن گئے سالک و سلک ايک ہو گئے۔ (Union of direiplspath)

يہ آتشِ عشق تھي جو وصالِ يار کے بغير بجھ نہيں سکتي تھي مولائے کائنات نے فرمايا کہ لم تسکن وقتہ الحرمان حتيٰ متحق الوجدان۔

کربلا والوں کے اس عشق کو بيان کرنے کے لئے ايک مثال کے ذريعے مطلب واضح کرنا چاہوں گا۔

آفاس بيل جسے عشق پيچاں بھي کہا جاتا ہے کي خصوصيت يہ ہے کہ اس کي جڑيں اور پتے نہيں ہوتے۔ بلکہ فقط ايک نحيف سي ٹہني کي صورت ميں پتي ہے۔ زرد رنگ کي يہ بيل عموماً بڑے درختوں پہ پائي جاتي ہے۔ کسي بھي درخت تھوڑي سي ڈال ديں تو چند ہي دنوں ميں رنگ کا ايک غلاف پورے درخت پہ نظر آئے گا۔ اس کي خوراک ہوا ہے اور اسي درخت کے پتوں وغيرہ سے آتي ہے۔ اس بيل کے طفيل چند دن پہلے جو ايک تناور درخت تھا بالکل سوکھ جاتا ہے۔ عشق بيان کرنے کے لئے يہي مثال دي جاتي ہے۔ تفکرات عرفاء و حکماء ذرا مختلف ہيں شبہ مشترک ميں اگر تعبير کريں تو ”العشق ھو حفظ الموجود“ کسي بھي شئي موجود کو حفظ کرنے کو عشق کہيں گے۔

مراتبِ عشق کا اندازہ بھي اس موجود کي ہمت و عظمت (Gmpetance) سے لگايا جا سکتا ہے جتنا وہ موجود عظيم ہوگا اتنا ہي اس کا عشق بھي بلند ہوگا۔ اور اس کي حفاظت پہ مامور عاشق بھي اتنا ہي زيادہ کوشاں ہوگا۔ ہر بات پہ اسي کا تذکرہ، اپنے خيالات و تدبرات اسي موجود کي ذات پہ مرتکز رکھے گا۔ کوئي اور ذکر اسے زيب نہيں ديتا، بقول محبوب خزاں صاحب کے:

يا تو اسي کا تذکرہ کرے ہر شخص

يا پھر ہم سے کوئي بات نہ کرے

بنابر ايں جب حفظ الموجود ہي عشق تو يہ کاملاً ايک عقلي اور شعاري (Pereptive)  فعل ہے۔ نہ لا شعوري۔ يہ تو سراپا حضور ہے جس ميں عقل و ادراک (Pereption) کي مکمل دخالت ہے۔ بقولِ اقبال:

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولين ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دين بت کدہ تصورات

ہمارے ہاں يہ کلمہ ذرا زيادہ ہي مظلوم واقع ہوا ہے، اس کي نا مناسب تشريحات بھي اسي لئے ہيں کہ موجود کا ادراک درست نہيں ہے۔ اسي لئے اس کلمے کو اکثراً غريزہ جنسي کے لئے استعمال کيا جاتا ہے اور بعض اوقات عشق کي تعريف ميں کہہ بھي ديتے ہيں کہ عشق جسمانيات سے شروع ہو کر جسمانيات کي حد تک ہے يعني وہ موجود فقط جسم ہي ہو سکتا ہے يہ بھي آفاس بيل کي طرح غريزہ جنسي سے شروع ہوتا ہے ليکن رفتہ رفتہ جسم و جسمانيات سے نکلتے ہوئے تلطيف ہو کر جنبہ جسماني گنوا ديتا ہے اور مکمل طور پر ايک حالت روحاني اختيار کر ليتا ہے۔

ليکن بعض حکماء نے فرمايا کہ عشق کي دو قسميں ہيں عشق جسماني کي ابتداء و انتہاء جسم ہي ہے ليکن عشق روحاني کي ابتداء بھي روح (Sout) ہے اور انتہاء بھي اسي پر ہے۔

يہ وہ منزل عشق ہے جہاں حفظ موجود کا محرکِ عاشق کے رگ و پے ميں دوڑ رہا ہوتا ہے اور يہ احساس کسي بھي لمحے آرام و سکون سے بيٹھنے نہيں ديتا۔ اس گوہر کي حفاظت ہر بات پہ مقدم نظر آتي ہے خصوصاً جب وہ موجود واجب الوجود (Neecssary Existment) کي صورت ميں ہو تو کيا قرار ملے گا؟ کيا سکون نصيب ہوگا؟ حرمان کي يہ کسک کسي پل بيٹھنے نہيں ديتي۔ ہر لمحے اسي کاخيال ہر پل دل اس کي طرف دوڑے جائے۔امام حسين اور ان کے ساتھيوں ميں يہ برابر کي تڑپ تھي۔ ان کے اندر عشق کا سمندر موجزن تھا بالکل اسي طرح کہ جيسے کي ضدي اور سرکش لہريں آغوشِ سمندر ميں تلاطم مچانے کے بعد کسي ساحل کي دل آويز لورياں سننے کے بعد وہيں اس کي گودي ميں سو جاتي ہيں۔ ان کے اندر بھي ايک طوفان خيز اور تلاطم آميز لہريں مچل رہي تھي جو اپني مراد پانے کي خاطر بے قرار ہيں۔ يہ دنيا ان کے لئے زندان تھي جس ميں وہ محبوس تھے۔ يہ جسم و جسمانيت سے ماوراء کسي اور حقيقت ميں گم تھے اور اس حقيقت کو کاملاً محسوس کر رہے تھے جو ہدفِ انسانيت تھا۔ ان کي منطق ميں اب تلوار و شمشير کے زخم کي کاٹ معني نہيں رکھتي تھي۔ معشوق کے ديدار کي خاطر اس قدر محو تھے کہ کسي شئي ديگر کا احساس نہ تھا۔ ايسے ميں رسول خدا ان کے بارے ميں فرما ديں: لايجدون الم مس الحديد۔۔۔ تو تعجب کيسا؟ اور اسي حقيقت کے اعتراف ميں امير الموٴمنين عليہ السلام جنگ صفين سے واپس پہ فرمايا کہ مناخ رکاب و مصارع عشاق شھداً لا يبقھم من کان قبلھم و لا بحقھم من بعد ھم۔

عشق کے اس روحاني سفر ميں موت و حيات کا تصور ہي لغو ہے۔ وہاں حيات مطلق ہے۔ جب عاشق جمالِ يار کي خاطر خود کو کٹوا بھي دے تو يہي اس کے کمال عشق کا تقاضا ہے۔ بقول مير تقي مير:

عشق کي راہ نہ چل خبر ہے شرط

اول گام ترکِ سر ہے شرط

اس کي ذات کي تکميل ہي اسي سے ہوتي ہے کہ معشوق کے سامنے خود کو قربان کر دے اور مکمل طور پر تلطيف ہو کر اسي کي ذات ميں گم ہو جائے۔ اور اس عالم شھود (The world intution) ميں تصور موت باطل ہے۔ وہ سراسر فنا في الحفظ الموجود ہے۔ بقول علامہ اقبال:

اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا

نقشِ کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا

مزيد فرماتے ہيں کہ:

عشق کے مضراب سے ہے نغمہ تارِ حيات

عشق سے نورِ حيات، عشق سے نارِ حيات

روح و بدن کي اس تلچھٹ (Sediment) پہ سجا يہ پيکرِ محسوس جب اپنے عاميانہ تفکر کي آغوش ميں پل کر موت کو نابودي اور بربادي تصور کرتا ہے تو عشاق اس کي عقل پہ ماتم کرتے ہيں کيونکہ عشق کے اس ملکوتي Supirnat سفر ميں ان کا کمالِ وجودي Enistential Enecellece يہي ہے کہ فنا في اللہ ہو جائيں۔ اس لئے موت تو زندگي کے ايک مرحلے سے دوسرے مرحلے ميں منتقل ہونے کا نام ہے۔ اور انتقال کا يہ مرحلہ خداوند متعال اپنے خاص وسائط کے ذريعے انجام ديتا ہے يعني ملک الموت کے ذريعے سے ليکن جب عشق مطلق Absolute ہو جاتا ہے تو وسائط کي يہ مساوي قيودات بھي ختم ہو جاتي ہيں۔ اماں و مکاں کے يہ عارضٰ پردے ہي چاک ہو جاتے ہيں اس کے بعد منزل اقرب من حبل الوريد آتي ہے۔ عاشق و معشوق کے درميان کوئي حجاب نہيں رہتا کسي کو دخالت کي اجازت نہيں ہے اب مصارع عشاق ميں ملک الموت کو جانے کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔ بلکہ بقول ام ايمن:فاذا برزت منک العصابة اليٰ مضاجعھا تولّيٰ اللہ قبّض روحھا بنبضہ۔

اس منزل پہ عاشق و معشوق کے اس ارتباط ميں اگر خود خداوند متعال ان برگزيدہ ہستيوں کا خون بھي اپنے پاس رکھوائے کيا تعجب کيسا۔۔۔؟ جس طرح امام حسين کي زيار ت ميں ہم پڑھتے ہيں اشھد انّ ذلک سکن في الخلد اسي طرح باقي کربلا والوں کے بارے ميں ابن عباس نے يہ روايت ہے کہ سب قتل امام حسين عليہ السلام نے رسول خدا کے ہاتھوں ميں ايک شيشي ديکھي کہ جس ميں خون جمع کر رہے ہيں ميں نے پوچھا يہ کيا ہے يہ تو آپ نے فرمايا :ھذہ دماء الحسين و اصحابہ ارفعھا اليٰ اللہ تعاليٰ

حقيقت ہي يہي تھي کہ ان افراد نے نور حق پيدا کرنے کي خاطر قدس جبروت The wored of holy spiritual sealities کي طرف اپني باطني و فکري توجہات کو سميٹے رکھا يہي چيز وہ سبب خاص بني جس کے کربلا والوں کے اندر وہ انقلاب برپا کر ديا جو ہميں بہت سوں ميں نہيں ملتا۔ ان کے ہر گام ميں للھيّة نماياں تھي ان کي حيات کا ہر لمحہ قلمرو مادي (Matesra Domain) سے نکل کر عالم حقيقت Gmmatesial کا حصہ بن چکا تھا روز حق ان پہ آشکار تھا کوئي شئي مادي راہزن بن کے ان کے دل ميں اتر نہيں سکتي تھي۔

ان کا يہ کمال وجودي Existential excellecee باعث بنا کہ کائنات عالم کے لئے ہدايت بن گئے۔ کربلا کے بعد حق و باطل پوري طرح واضح ہمارے سامنے موجود ہے شفاف ہتھيلي کي طرح۔ دو ہي تو کردار رہ گئے حسينيت يا يزيديت۔ حسينيت کا نام خدا کي طرف لے جانا جبکہ آج بھي يزيديت کي پوري کوشش اسي ميں ہے لوگ خدا سے دور رہيں۔ آج بھي کربلا کے کتنے محاز کھلے ہيں ہمارے لئے اور برسوں سے الجھ رہے ہيں ہم۔ نہ وہ شکست فاش ہو رہے ہيں اورنہ فتح ہمارا مقدر بن رہي ہے۔ معصوم ہوتا ہے ہم ميں اب بھي کوتوہياں ہيں جن کا بر وقت ازالہ نہ کيا گيا تو تباہي و بربادي ہمارا مقدر بن سکتي ہے۔ ورنہ جس طرح کل يوم عاشورہ و کل ارض کربلا تا حشر ہے اسي طرح استغاثہ حسيني ھل من ناصرٍ عنصرنا بھي تا ابد فضائے امکان ميں گونج رہا ہے لبيک کہنے والا بھي کوئي ہو۔ آخر ميں جوش مليح آبادي کي مسدس پيش خدمت ہے:

اے قوم! وہي پھر ہے تباہي کا زمانہ                   اسلام ہے پھر تيرِ حوادث کا نشانہ

کيوں چپ ہے اسي شان سے پھر چھيڑ ترانہ      تاريخ ميں وہ جائے گا مردوں کا فسانہ

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلي ہو                  لازم ہے کہ ہر فرد حسين ابن علي ہو 

 

 

 

 


source : http://www.al-shia.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment