اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

7 صفر 127ھ ولادت امام موسیٰ*الکاظم علیہ السلام

فرزند رسول ص امام موسیٰ الکاظم علیہ الصلوۃ و السلام بن امام جعفر الصادق علیہ الصلوۃ و السلام

سات صفر ۱۲۸ھء میں آپ کی ولادت ہوئی ۔ اس وقت آپ والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق(ع) مسند ِ امامت پرمتمکن تھے اور آپ کے فیوض علمی کادھارا پوری طاقت کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔اگرچہ امام موسی(ع)کاظم(ع) سے پہلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبدالله پید اہوچکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت روحانی امانت کاحامل جو رسول کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ا یک دوسرے کے بعد چلی آرہی تھی ، یہی پیدا ہونے والا مبارک بچہ تھا ۔

نام ونسب

اسم مبارک موسی(ع)، کنیت ابو الحسن(ع) اور لقب کاظم(ع) تھا اور اسی لیے امام موسی(ع)کاظم کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق (ع) تھے جن کاخاندانی سلسلہ حضرت امام حسین(ع) شہید کربلا کے واسطہ سے پیغمبر ِ اسلام حضرت محمد مصطفےٰ تک پہنچتا ہے ۔ 

آپ کی مالدہ ماجدہ حمیدہ(ع) خاتون ملک ِ بر بر کی باشندہ تھیں ۔

ولادت 

سات صفر ۱۲۸ھء میں آپ کی ولادت ہوئی ۔ اس وقت آپ والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق(ع) مسند ِ امامت پرمتمکن تھے اور آپ کے فیوض علمی کادھارا پوری طاقت کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔اگرچہ امام موسی(ع)کاظم(ع) سے پہلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبدالله پید اہوچکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت روحانی امانت کاحامل جو رسول کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ا یک دوسرے کے بعد چلی آرہی تھی ، یہی پیدا ہونے والا مبارک بچہ تھا ۔

نشو ونما اور تربیت 

آپ کی عمرکے بیس برس اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق(ع) کے سایہ تربیت میں گزرے۔ ایک طرف خدا کے دیئے ہوئے فطری کمال کے جوہر اور دوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبر کے بتائے ہوئے مکارم ِاخلاق کی بھولی ہوئی یاد کو ایساتازہ کر دیا کہ انھیں ایک طرح سے اپنا بنا لیا اور جس کی بنا ء پر ”ملت جعفری “ نام ہوگیا ۔ امام موسی(ع)کاظم(ع) نے بچپنہ او رجوانی کاکافی حصہ اسی مقدس آغوش تعلیم میں گزارا۔ یہاں تک کہ تمام دُنیا کے سامنے آپ کے کمالات وفضائل روشن ہوگئے اور امام جعفر صادق(ع) نے اپنا جانشین مقرر فرمادیا ۔ باوجود کہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجود تھے مگر خدا کی طرف کامنصب میراث کا ترکہ نہیں ہے بلکہ ذاتی کمال کو ڈھونڈھتا ہے ۔ سلسلہ معصومین(ع) میں امام حسن(ع) کے بعد بجائے ان کی اولاد کے امام حسین(ع) کاامام ہونا اور اولاد امام جعفر صادق (ع) میں بجائے فرزند اکبر کے امام موسیٰ کاظم(ع) کی طرف امامت کامنتقل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ معیار امامت میں نسبتی وراثت کو مدِنظر نہیں رکھا گیا ہے ۔ 

امامت

۱۴۸ھء امام جعفر صادق(ع) کی شہادت ہوئی ، اس وقت سے حضرت امام موسی(ع)کاظم(ع) بذاتِ خود فرائض امامت کے ذمہ دار ہوئے ۔ اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بادشاہ تھا ۔ یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ دیواروں میں چنوا دیئے گئے یاقید رکھے گئے تھے ۔ خود امام جعفر صادق (ع) کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اور مختلف صورت سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھیں یہاں تک کہ منصور ہی کا بھیجا ہوا زہر تھا جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ہورہے تھے ۔ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی بوجھ حکومت کے کاندھوں پر رکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ شخصوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی ۔ جن میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا ۔ اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبدالله فطح جو امام موسی(ع)کاظم(ع) کے سن میں بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسی(ع)کاظم (ع)اور ان کی والدہ حمیدہ خاتون۔

امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کاتحفظ بھی کامیاب ثابت ہوا۔ چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پہنچی تو اس نے پہلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظہار رنج کیا۔ تین مرتبہ انااللهِ واناالیہ راجعون کہ اور کہا کہ اب بھلاجعفر (ع) کا مثل کون ہے ؟ ا س کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق(ع) نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہوتو اس کا سر فوراً قلم کردو ۔ حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انہوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ہیں جن سے پہلے آپ خود ہیں ۔ یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کیے جاسکتے ۔ اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رہا لیکن امام موسی(ع)کاظم(ع) سے کوئی تعرض نہیں کیا اور آپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رہے ۔ یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شہر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے ۱۵۷ھء میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی ۔ اس لئے وہ امام موسی(ع)کاظم (ع)کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوا ۔

دور ابتلا

۱۵۸ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا بیٹا مہدی تحت سلطنت پر بیٹھا ۔ شروع میں تو اس نے بھی امام موسی(ع)کاظم(ع) کے عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نہیں گیا مگر چند سال کے بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور ۱۶۴ھء میں جب وہ حج کے نام سے حجاز کی طرف آیاتو امام موسی(ع)کاظم(ع) کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا ۔ ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے ۔ پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت (ع) کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا ، مہدی کے بعد اس کابھائی ہادی ۱۲۹ھء میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مہینے تک اُس نے سلطنت کی ۔ اس کے بعد ہارون رشید کازمانہ آیا جس میں پھر امام موسی(ع)کاظم(ع) کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نہیں ہوا 

اخلاق واوصاف 

حضرت امام موسیٰ کاظم(ع) اسی مقدس سلسلہ کے ایک فرد تھے جس کو خالق نے نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا ۔ا س لیے ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق واوصاف کا مرقع تھا ۔بے شک یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض افراد میں بعض صفات اتنے ممتاز نظر آتے ہیں کہ سب سے پہلے ان پر نظر پڑتی ہے ، چنانچہ ساتویں امام(ع) میں تحمل وبرداشت اورغصہ کوضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب ”کاظم(ع) “ قرار پایا گیا جس کے معنی ہیں غصے کو پینے والا ۔ آپ کو کبھی کسی نے تر شروئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نہیں دیکھا اور انتہائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظر آئے ۔ مدینے کے ایک حاکم سے آپ کو سخت تکلیفیں پہنچیں ۔ یہاں تک کہ وہ جناب امیر(ع) کی شان میں بھی نازیبا الفاظ

استعمال کیا کرتا تھا مگر حضرت (ع) نے اپنے اصحاب کو ہمیشہ اس کے جواب دینے سے روکا ۔

جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایات کیں اور یہ کہا کہ ہمیں ضبط کی تاب نہیں ۔ ہمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو حضرت(ع) نے فرمایا کہ ” میں خود اس کاتدارک کروں گا ۔“ اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت(ع) خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ہوا‘ ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا ۔ حضرت(ع) نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاہتے تھے ۔ سب نے کہا ، یقیناً حضور(ع) نے جو طریقہ استعمال فرمایا وہی بہتر تھا ۔ اس طرح آپ نے اپنے جدِ بزرگوار حضرت امیر(ع) کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو آج تک نہج البلاغہ میں موجود ہے کہ اپنے دشمن پہ احسان کے ساتھ فتح حاصل کرو کیونکہ یہ دو قسم کی فتح میں زیادہ پُر لطف کامیابی ہے۔ بیشک اس کے لیے فریق ِ مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ہے اور اسی لیے حضرت علی(ع) نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ”خبردار یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہوجائے گا ۔،،

یقیناً ایسے عدم تشدد کے موقع کو پہچاننے کے لیے ایسی ہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے جیسی امام(ع) کو حاصل تھی مگر یہ اس وقت میں ہے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایسا عمل ہوچکا ہو جو اس کے ساتھ انتقامی جواز پیدا کرسکے لیکن اس کی طرف سے اگو کوئی ایسا اقدام ابھی ایسا نہ ہوا تو یہ حضرات بہر حال ا س کے ساتھ احسان کرنا پسند کرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجتقائم ہو اور اسے اپنے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش سے بھی کوئی عذر نہ مل سکے ۔بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جو جناب امیر(ع) کو شہید کرنے والا تھا ۔ آخری وقت تک جناب امیر(ع)احسان فرماتے رہے ۔ اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو امام موسیٰ کاظم (ع)کی جان لینے کاباعث ہوا ، آپ برابر احسان فرماتے رہے ، یہاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس امام موسیٰ کاظم (ع) کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا ۔ ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم کی رقم خود حضرت ہی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ہوا تھا ۔ آپ کو زمانہ بہت ناساز گار ملا تھا ۔ نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی ۔ بس آپ کی خاموش سیرت ہی تھی جو دنیا کو آلِ محمد کی تعلیمات سے روشناس کراسکتی تھی ۔ 

آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میں ابتدا بھی نہ فرماتے تھے ۔ اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے ، اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے ”عبد صالح “ کے لقب سے یاد جاتا تھا ۔ آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شہرہ تھااور فقراء مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے ہر نماز کے صبح کے تعقیبات کے بعد آفتاب کے بلند ہونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے ۔ قرآن مجید اور پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آواز سے متاثر ہو کر روتے تھے ۔

ہارون رشید کی خلافت اور امام موسیٰ کاظم(ع) سے مخالفت

۱۷۰ھء میں ہادی کے بعد ہارون تخت ِ خلافت پر بیٹھا ۔ سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق(ع) کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق(ع) کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ہارون #کو معلوم ہوچکا ہوگا ۔ وہ تو امام جعفر صادق(ع) کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ہاتھ باندھ دیئے تھے اور شہر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ہونے دیا تھا اب ہارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی ۔ تخت ِ سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پہلے تصور پیدا ہوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں قائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم(ع) کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلا ت ان کی وجہ سے نوبرس تک ہارون کو بھی کسی کھلے ہوئے تشدد کا امام (ع) کے خلاف موقع نہیں ملا ۔

 

اس دوران میں عبدالله ابن حسن(ع) کے فرزند یحییٰ کاواقعہ درپیش ہوا ور وہ امان دیئے جانے کے بعد تمام عہدو پیمان کوتوڑ کردردناک طریقے پر پہلے قید رکھے گئے او رپھر قتل کئے گئے ۔ باوجودیکہ یحییٰ کے معاملات سے امام موسیٰ کاظم (ع)کو کسی طرح کا سروکار نہ تھا بلکہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت(ع) ان کو حکومت ِ وقت کی مخالفت سے منع فرماتے تھے مگر عداوت ِ بنی فاطمہ کاجذبہ جو یحییٰ ابن عبداللهکی مخالفت کے بہانے سے ابھر گیا تھا اس کی زد سے امام موسیٰ کاظم(ع) بھی محفوظ نہ رہ سکے ۔ ادھر یحییٰ ابن خالد بر مکی نے جو وزیر اعظام تھا امین (فرزند ہارون رشید) کے اتالیق جعفر ابن محمد اشعث کی رقابت میں اس کے خلاف یہ الزام قائم کیا کہ یہ امام موسی(ع) کاظم کے شیعوں میں سے ہے اور ان کے اقتدار کاخواہاں ہے ۔

براہ راست اس کا مقصد ہارون کو جعفر سے برگزشتہ کرنا تھالیکن بالواستہ ا س کا تعلق حضرت امام موسی(ع) کاظم کے ساتھ بھی ۔ اس لیے ہارون کو حضرت (ع) کی ضرر رسانی کی فکر پیدا ہوگئی۔اسی دوران میں یہ واقعہ ہو اکہ ہارون رشید حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں آیا ۔اتفاق سے اسی سال امام موسی کاظم(ع) بھی حج کو تشریف لائے ہوئے تھے ۔ ہارون نے اپنی آنکھ سے اس عظمت اور مرجعیت کا مشاہدہ کی جو مسلمانوں میں امام موسی کاظم(ع) کے متعلق پائی جاتی تھی ۔ اس سے بھی اس کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اس کے بعد اس میں محمد بن اسمٰعیل کی مخالفت نے اورا ضافہ کر دیا ۔ 

واقعہ یہ ہے کہ اسمٰعیل امام جعفر صادق (ع) کے بڑے فرزند تھے اور اس لیے ان کی زندگی میں عام طور پر لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ امام جعفر صادق(ع) کے قائم مقام ہوں گے ۔ مگر ان کا انتقال امام جعفر صادق (ع) کے زمانے میں ہوگیا اور الوگوں کا یہ خیال غلط ثابت ہوا ۔ پھر بھی بعض سادہ لوح اصحاب اس خیال پر قائم رہے کہ جانشینی کاحق اسمٰعیل میں منحصر ہے ۔ انھوں نے امام موسیٰ کاظم(ع) کی امامت کو تسلیم نہیں کیا چنانچہ اسماعیلیہ فرقہ مختصر تعداد میں سہی اب بھی دنیا میں موجود ہے- محمد، ان ہی اسمٰعیل کے فرزند تھے اور اس لئے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ایک طرح کی مخالفت پہلے سے رکھتے تھے مگر چونکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور وہ افراد کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتے تھے اسی لئے ظاہری طور پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے یہاں آمدورفت رکھتے تھے اور ظاہر داری کے طور پر قرابت داری کے تعلقات قائم کئے ہوئے تھے-

ہارون رشید نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پر غور کرتے ہوئے یحییٰبرمکی سے مشورہ لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اولاد ابوطالب(ع) میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسٰی بن جعفر(ع) کے پورے پورے حالات دریافت کروں- یحییٰجو خود عداوتِ بنی فاطمہ میں ہارون سے کم نہ تھا اس نے محمد بن اسمٰعیل کا پتہ دیا کہ آپ ان کو بلا کر دریافت کریں تو صحیح حالات معلوم ہو سکیں گے چنانچہ اسی وقت محمد بن اسمٰعیل کے نام خط لکھا گیا-

شہنشاہِ وقت کا خط محمد ابن اسمٰعیل کو پہنچا تو انہوں نے اپنی دنیوی کامیابی کا بہترین ذریعہ سمجھ کر فوراً بغداد جانے کا ارادہ کر لیا- مگر ان دنوں ہاتھ بالکل خالی تھا- اتنا روپیہ پاس موجود نہ تھا کہ سامان سفر کرتے- مجبوراً اسی ڈیوڑھی پر آنا پڑا جہاں کرم و عطا میں دوست اور دشمن کی تمیز نہ تھی- امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے پاس آ کر بغداد جانے کا ارادہ ظاہر کیا- حضرت(ع) خوب سمجھتے تھے کہ اس بغداد کے سفر کی بنیاد کیا ہے- حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفر کا سبب دریافت کیا- انہوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ہوئے کہا کر قرضدار بہت ہو گیا ہوں- خیال کرتا ہوں کہ شاید وہاں جا کر کوئی صورت بسر اوقات کی نکلے اور میرا قرضہ ادا ہو جائے- حضرت (ع) نے فرمایا- وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے- میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا تمام قرضہ ادا کر دوں گا-

افسوس ہے کہ محمد نے اس کے بعد بھی بغداد جانے کا ارادہ نہیں بدلا- چلتے وقت حضرت(ع) سے رخصت ہونے لگے- عرض کیا کہ مجھے وہاں کے متعلق کچھ ہدایت فرمائی جائے- حضرت(ع) نے اس کا کچھ جواب نہ دیا- جب انہوں نے کئی مرتبہ اصرار کیا تو حضرت(ع) نے فرمایا کہ” بس اتنا خیال رکھنا کہ میرے خون میں شریک نہ ہونا اور میرے بچوں کی یتیمی کے باعث نہ ہونا“ محمد نے اس کے بعد بہت کہا کہ یہ بھلا کون سی بات ہے جو مجھ سے کہی جاتی ہے، کچھ اور ہدایت فرمایئے- حضرت(ع) نے اس کے علاوہ کچھ کہنے سے انکار کیا- جب وہ چلنے لگے تو حضرت(ع) نے ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم انہیں مصارف کے لئے عطا فرمائے- نتیجہ وہی ہوا جو حضرت(ع) کے پیش نظر تھا- محمد ابن اسمٰعیل بغداد پہنچے اور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کے مہمان ہوئے اس کے بعد یحییٰکے ساتھ ہارون کے دربار میں پہنچے مصلحت وقت کی بنا پر بہت تعظیم و تکریم کی گئی- اثناء گفتگو میں ہارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے- محمد نے انتہائی غلط بیانیوں کے ساتھ وہاں کے حالات کا تذکرہ کیا اور یہ بھی کہا کہ میں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ سنا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ ہوں- اس نے کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ محمد نے کہا کہ بالکل اسی طرح جس طرح آپ بغداد میں سلطنت قائم کئے ہوئے ہیں- اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پہنچتا ہے اور وہ آپ کے مقابلے کے دعوے دار ہیں-

یہی وہ باتیں تھیں جن کے کہنے کے لئے یحییٰ برمکی نے محمد کو منتخب کیا تھا ہارون کا غیظ و غضب انتہائی اشتعال کے درجے تک پہنچ گیا- اس نے محمد کو دس ہزار دینار عطا کر کے رخصت کیا- خدا کا کرنا یہ کہ محمد کو اس رقم سے فائدہ اٹھانے کا ایک دن بھی موقع نہ ملا- اسی شب کو ان کے حلق میں درد پیدا ہوا- صبح ہوتے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے- ہارون کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوا لئے مگر محمد کی باتوں کا اثر اس کے دل میں ایسا جم گیا تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے-

چنانچہ 179ئھ میں پھر ہارون رشید نے مکہ معظمہ کا سفر کیا اور وہاں سے مدینہ منورہ گیا- دو ایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے روزانہ کئے- جب یہ لوگ امام(ع) کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت(ع) روضئہ رسول پر ہیں- ان لوگوں نے روضہ پیغمبر (ع) کی عزت کا بھی خیال نہ کیا- حضرت(ع) اس وقت قبر رسول کے نزدیک نماز میں مشغول تھے- بے رحم دشمنوں نے آپ کو نماز کی حالت میں ہی قید کر لیا اور ہارون# کے پاس لے گئے- مدینہ رسول کے رہنے والوں کی بے حسی اس سے پہلے بھی بہت دفعہ دیکھی جا چکی تھی- یہ بھی اس کی ایک مثال تھی کہ رسول کا فرزند روضئہ رسول سے اس طرح گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا مگر نام نہاد مسلمانوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو کسی طرح کی آواز بطور احتجاج بلند کرتا- یہ بیس شوال 179ئھ کا واقعہ ہے-

ہارون نے اس اندیشے سے کہ کوئی جماعت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو رہا کرنے کی کوشش نہ کرے دو محملیں تیار کرائیں- ایک میں حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو سوار کیا اور اس کو ایک بڑی فوجی جمعیت کے حلقے میں بصرہ روانہ کیا اور دوسری محمل جو خالی تھی اسے بھی اتنی ہی جمعیت کی حفاظت میں بغداد روانہ کیا- مقصد یہ تھا کہ آپ کے محل قیام اور قید کی جگہ کو بھی مشکوک بنا دیا جائے یہ نہایت حسرت ناک واقعہ تھا کہ امام(ع) کے اہل حرم اور بچے وقت رخصت آپ کو دیکھ بھی نہ سکیں اور اچانک محل سرا میں صرف یہ اطلاع پہنچ سکی کہ حضرت(ع) سلطنت وقت کی طرف سے قید کر لئے گئے اس سے بیبیوں اور بچوں میں کہرام برپا ہو گیا اور یقیناً امام(ع) کے دل پر بھی اس کا جو صدمہ ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے- مگر آپ کے ضبط و صبر کی طاقت کے سامنے ہر مشکل آسان تھی-

معلوم نہیں کتنے ہیر پھیر سے یہ راستہ کیا گیا تھا کہ پورے ایک مہینہ سترہ روزکے بعد سات ذی الحجہ کو آپ بصرہ پہنچائے گئے- کامل ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رہے- یہاں کا حاکم ہارون کا چچا زاد بھائی عیسٰی ابن جعفر تھا شروع میں تو اسے صرف بادشاہ کے حکم تعمیل مدنظر تھی بعد میں اس نے غور کرنا شروع کیا- آخر ان کے قید کئے جانے کا سبب کیا ہے- اس سلسلے میں اس کو امام(ع) کے حالات اور سیرت زندگی اور اخلاق و اوصاف کی جستجو کا موقع بھی ملا اور جتنا اس نے امام(ع) کی سیرت کا مطالعہ کیا اتنا اس کے دل پر آپ کی بلندی اخلاق اور حسن کردار کا قائم ہو گیا- اپنے ان تاثرات سے اس نے ہارون کو مطلع بھی کر دیا- ہارون پر اس کا الٹا اثر ہوا کہ عیسٰی کے متعلق بدگمانی پیدا ہو گئی- اس لئے اس نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو بغداد میں بلا بھیجا- فضل ابن ربیع کی حراست میں دے دیا اور پھر فضل کا رجحان شیعیت کی طرف محسوس کر کے یحییٰبرمکی کو اس کے لئے مقرر کیا- معلوم ہوتا ہے کہ امام(ع) کے اخلاق واوصاف کی کشش ہر ایک پر اپنا اثر ڈالتی تھی- اس لئے ظالم بادشاہ کو نگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی-

شہادت

سب سے آخر میں امام(ع) سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت(ع) کوانگور میں زہر دیا گیا- 25رجب 183ئھ میں 55سال کی عمر میں حضرت(ع) کی وفات ہوئی بعد وفات آپ کی نعش کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نہیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توہین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ہوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا- مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ہو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام(ع) کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشہور ہے دفن کیا-


source : http://www.alqlm.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں

 
user comment