اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

حسین علیہ السلام وارث انبیاء علیہم السلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہر خاندان کی ایک میراث ہوتی ہے۔ اور اس کی حفاظت اس خاندان کے تمام افراد کا فریضہ ہوتا ہے۔ یہ خاندان جتنا بڑا اور عظیم ہوتا ہے، یہ میراث بھی اتنی ہی خاص اور ارزشمند ہوتی ہے۔ خاندان کے افراد خاص تدابیر کے ذریعے اس کی حفاظت  کرتے ہیں، اغیار اور نااہلوں کی پہنچ سے اسے دور رکھتے ہیں۔ بعض اوقات تو حفاظت کے لیے جان بھی دینے سے پرہیز نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ سب اس وقت ہوتا ہے کہ جب خاندان کے افراد اس میراث کو جانتے ہوں،  اس کی قدر و قیمت سے واقف ہوں،  اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان میں احساس اور ذمہ داری ہو۔ تب کہیں جاکے اس کی کماحقہ حفاظت ہوتی ہے اور آئندہ نسلوں تک پہنچتی ہے۔ ہر نسل یہ امانت آنے والی نسل کو سونپتی ہے، قدر و قیمت سے آگاہ کرتی ہے، اور امانتداری و حفاظت کا حلف لیتی ہے۔ اسی طرح نسلوں اور صدیوں تک یہ میراث محفوظ رہتی ہے۔ وقت کے گذرنے کے ساتھ جب اغیار کو اس کی ارزش کا اندازہ ہوتا ہے، تو اہل خاندان کے لیے حفاظت کا عمل مشکل اور مشکل تر ہوتاجاتا ہے، کیونکہ وہ اس میراث کو چہیننے یا ضائع کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے ہر نسل کی ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے۔

خیر یہ تو ایک حقیقت تھی۔ اب ذرا ایک اور تاریخی حقیقت کی جانب متوجہ ہوں۔

ایک بہت بڑا اور عظیم خاندان تاریخ کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یا بہتر الفاظ میں، تاریخ اس کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ جب انسان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ تاریخ جناب آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ اور وہ ہی اس عظیم خاندان کے جد ہیں۔ ان کو خدا نے ایک امانت سونپی۔ ایک نہایت عظیم امانت سونپی۔ ایسی امانت کہ جس کو کائنات میں انسان کے علاوہ کوئی برداشت نہ کرسکا۔ لیکن انسان نے اپنی عظمت اور قدرت کا مظاہرہ کیا اور بےشمار سختیوں کے باوجود اس امانت کو خدا سے لے لیا، اور اس کی حفاظت کا حلف اٹھایا۔ یہ امانت سب سے پہلے آدم و حوّا علیہم السلام کو سونپ دی گئے۔ اس شجاعت اور ہمت کے سبب ان کو خلافت الہی کا مقام دیا گیا۔ اور کائنات کو ان کا تابع کردیا گیا۔

خیر یہ امانت میراث کے طور پر اس عظیم خاندان میں محفوظ رہی۔ہر نسل کے بزرگ نے اس کو اگلی نسل کے حوالے کیا۔ آدم ع نے شیث ع کے حوالے کیا، اور اسی طرح سلسلہ انبیاء میں یہ امانت  چلتی رہی اور ان عظیم ہستیوں نے جان و مال کا لحاظ کیے بغیر اس کی حفاظت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔  یہ میراث نسلوں میں منتقل ہوتی رہی۔ نوح ع، ابراہیم ع، اسماعیل ع، عیسی ع اور آخر میں ہمارے نبی عظیم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس امانت کے  حامل اور حافظ رہے۔ ویسے حاملوں اور حافظوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن یہاں سب کا ذکر ضروری نہیں۔ جب نبی کریم ص کے ہاتھ یہ امانت سونپی گئی۔ اس کی حفاظت بہت مشکل ہوگئی تھی کیونکہ آپ ص سب سے آخری نبی ہونے کے ساتھ، سب سے عظیم بھی تھے۔ آپ کے شانوں پر نہ صرف اس امانت کا وزن تھا بلکہ اس کے ساتھ تمام گذشتہ انبیاء و رسل کی خدمات، زحمات اور قربانیوں کا بوجھ بھی تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ بات بھی تھی کہ اس خاندان انسان کے کچھ افراد اتنا اپنے خاندانی اصول  سے دور ہوگئے تھے کہ اب اس خاندان کے لحاظ سے ان کا شمار غیروں میں ہوتا تھا اور وہ اس میراث عظیم کی تباہی کے در پئے تھے۔ چنانچہ آپ ص نے بڑی مشکل اور مشقت کے ساتھ اس رسالت کو پورا کیا۔ اس مشکل کام میں اپنے خاندان کو بھی ساتھ لیا۔ اور ان کو بھی عظیم قربانیوں کے لیے تیار کیا۔

اس میراث کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ آپ ص کے ماننے والوں نے کیا کیا۔ بہت لمبی داستان ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود نہیں۔

اصل بات جو کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے۔

یہ میراث کیا ہے۔ اس کا جواب آپ خود ہی جان گئے ہوں گے۔ لیکن اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے یہ بیان کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ میراث کی ارزش جاننے کے لیے۔ اس میراث کے ورثا کا سلوک دیکھنا ہوگا۔ یعنی ورثا اس کی حفاظت کے لیے کس حد تک جانفشانی کرتے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ خاطر میں لائیے۔

یہ میراث سن51ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو سونپی گئی۔ یہ دور وہ ہے کہ امت مسلمہ اپنے نبی ص کی میراث سے بہت دور جاچکی ہے۔ اس میراث کی حفاظت کو بھول چکی ہے۔ اور ایسے لوگ وراثت کے مدعی ہیں جن کے بارے میں امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ \"وہ ایک فاجر و فاسق شخص ہے۔ میں اس کی بیعت ہرگز نہیں کروں گا۔\"

اس وقت اصلی وارث کی نشاندہی ضروری ہے۔ چنانچہ اس میراث عظیم کا وارث حقیقی اپنے خاندان کے ساتھ میراث انبیاء کی حفاظت کو نکلتا ہے۔ حسین علیہ السلام اپنی تمام دولت، وہ بھائی ہوں، بہنیں ہوں، اولاد ہوں، غلام ہوں، دوست ہوں، یار ہوں، کہ پیسے ہوں۔ سب کو جمع کرتے ہیں۔ اور منزل معہود کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ رستے میں بار بار یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں حصول حکوت کے لیے نہیں جارہا۔ دولت یا سلطنت حاصل کرنے نہیں جارہا۔ میں شہادت کا رتبہ پانے جارہا ہوں۔ جہاں کوئی لشکر آپ سے ملنے آیا، اعلان کردیا کہ اگر دولت کی خواہش ہے تو میں ویسے ہی تمہاری جیبیں بھر دیتا ہوں۔ لیکن میرے ساتھ نہ آو۔ کیونکہ حسین ع موت سے ملنے جارہا ہے۔

کربلا میں امام علیہ السلام کئی مقاصد سے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تمام عالم کو یہ دکھا دیں کہ، میراث انبیاء کا وارث حقیقی کون ہے۔ اور مسلمانوں کو اس کی ارزش سے آگاہ کردیں۔ کہ مسلمانو، دیکھو کہ حسین نے اپنا سب کچھ اس پر قربان کردیا۔ بھائی، بھنیں، اولاد، دوست، عزیز، دولت، سب کچھ اس میراث کی حفاظت کے لیے قربان کردیا۔ تو اسی سے اندازہ کریں کہ اس میراث کی کیا قیمت ہے۔ جس کے لیے امام حسین علیہ السلام جیسی شخصیت نے اتنی عظیم قربانی دی۔ صرف یہ نہیں اپنے بعد، اپنی تحریک کا علم، اپنی بہن جناب زینب سلام اللہ علیہا کے حوالے کیا۔ اور جناب زینب س نے کتنی مشقتیں جھیلیں، ان کے بیان سے یہ قلم قاصر ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے تمام مسلمانوں پر، بلکہ تمام انسانوں پر حجت تمام کردی۔ رہتی دنیا تک اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم کو اس میراث کی قدر و قیمت معلوم نہیں۔ ہم اس کو نہیں جانتے۔ یہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا ایک چھوٹا سا اثر ہے۔ اس کے اثرات ایک دو یا تین صفحات میں بیان نہیں کیے جاسکتے۔

اب جو بات ہمارے لیے سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ، یہ میراث اب ہمارے سامنے ہے۔ ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں؟ کیا ہم اسلام پر عمل پیرا ہیں؟ کیا اگر اسلام کو دوبارہ کسی عظیم قربانی کی ضرورت ہو تو ہم امام حسین ع کی طرح اپنا سب کچھ لٹا سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی جان دینے کو تیار ہیں؟ کیا ہم اس میراث کی حفاظت کررہے ہیں، یا ابھی بھی کسی حسین علیہ السلام کے منتظر ہیں کہ آ کر ہمیں اس میراث کی قدر و قیمت بتائے؟

اگر مسلمانوں میں شعور اجاگر ہوجائے، اور مسلمان اس راہ پر گامزن ہو جائیں، تو یہ دنیا میں عزیز ہوجائیں گے، کوئی باطل قدرت ہمارے سامنے سر نہ اٹھا پائے گی۔ یہ تو دنیا کی بات ہے۔ آخرت میں جو ہوگا وہ تصور سے بڑھ کر ہے۔

خدایا! وارث انبیاء، امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کے صدقے!

مسلمانوں کو شعور، آگہی اور ہمت دے۔

کربلا کے مقصد کو جاننے کی قدرت دے۔

اسلام حقیقی پر گامزن ہونے کی توفیق و جرات دے۔

 

 


source : ttp://smn121.blogspot.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں

 
user comment