اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی جوان بیٹا ہوتا؟

آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، یہ نکتہ قابل غور ہے وہ تو اللہ کے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء کی آخری کڑی ہیں۔ اللہ رب العزت نے اس بات پر کیوں زور دیا کہ میرا رسول تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں یعنی یا وہ کسی جوان بیٹے کے باپ نہیں؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی جوان بیٹے کا باپ یا مخاطبین میں سے کسی مرد کا باپ ہونے والا شخص اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا مثلاً 

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور جوان بیٹوں کے باپ بھی ہیں۔ حضرت اسحق اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد گرامی بھی ہیں۔ اس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام خود نبی ہیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کے والد بھی ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے پیغمبر اور حضرت سلیمان علیہ السلام آپ کے فرزند ارجمند۔ 

بنی اسرائیل میں نسل در نسل نبوت کا سلسلہ جاری رہا، پیغمبروں کی اولاد (بیٹے) بھی پیغمبر ہوئی۔ تو پھر اللہ رب العزت نے کیوں فرمایا کہ میرا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں، یا کسی جوان مرد کے باپ نہیں۔ آخر اس میں کیا حکمت کار فرما ہے؟ رسول ہونا کسی مرد کے باپ ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ 

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدائے علیم و خیبر نے اس نکتے پر اس لئے زور دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں۔ وہ میرے آخری نبی ہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مرد کے باپ ہوتے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بیٹا ہوتا اور وہ جوان ہوتا تو دو صورتیں ممکن ہوتیں۔ 

1۔ ایک یہ کہ وہ بیٹا بھی اللہ کا رسول یا نبی ہوتا جیسا کہ سابقہ انبیاء کے باب میں ہم نے دیکھا کہ اگر باپ نبی ہے تو بیٹے کو بھی خدا نے نبوت عطا کی۔ 

2۔ دوسری صورت یہ تھی کہ بیٹا نبی نہ ہوتا یعنی دو ہی امکانات ممکن تھے پہلی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین نہ رہتے، بیٹا بھی جوان ہوکر نبی بنتا تو سلسلہ ختم نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم نہ ہوتا اور یہ بات خدا کے فیصلے کے خلاف ہوتی اس لئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ختم نبوت کی صفت سے سرفراز کیا ہے۔ دوسری صورت میں اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بیٹا جوان ہوتا اور نبی نہ بنتا تو دوسرے نبیوں کی امتیں طعنہ دیتیں کہ ہمارے نبی کا تو بیٹا بھی نبی تھا، ہمارے پیغمبر کا تو پوتا بھی پیغمبری کی صفت فاخرہ سے نوازا گیا، ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری نسل میں نبوت تھی۔ کوئی اعتراض کرسکتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکارو! تمہارے پیغمبر کا تو بیٹا بھی ہوا لیکن اسے نبوت سے سرفراز نہ کیا گیا۔ اس اعتراض میں بظاہر دوسرے انبیاء کے مقابلے میں شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک طرح کی کمی آجاتی اور اس جہت سے دیگر انبیاء فضیلت لے جاتے لیکن اللہ رب العزت کو یہ بات منظور نہ تھی جس طرح اسے یہ منظور نہ تھا کہ آمنہ کے لال کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج نہ سجایا جائے اسی طرح اسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی جوان بیٹا ہو اور نبوت کی سعادت سے محروم رہے، ظاہراً ہی سہی خدا کو کسی حوالے سے بھی یہ بات منظور نہ تھی کہ کوئی پیغمبر فضیلت میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ جائے اس کی مثال یوں ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اے محبوب فرما دیں ان کا فروں اور مشرکوں کو جو کبھی عیسیٰ کو میرا بیٹا سمجھتے ہیں اور کچھ عزیر کو میرا فرزند قرار دیتے ہیں۔ 

قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَO

آپ (ان احمقوں سے) کہئیے کہ اگر (خدائے) رحمٰن کا بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوں۔ 

(الزخرف، 43 : 81)

مدعا یہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کا بیٹا ہوتا تو میں اس کی عبادت نہ کرتا؟ اللہ کی شان کا تقاضا ہوتا کہ اس کا بیٹا بھی الوہیت کا حامل ہوتا۔ اگر رب کا بیٹا ہوکر رب نہ بنتا تو اس کی فضیلت میں کمی آجاتی۔ لوگ طعنہ دیتے کہ خدا کا بیٹا ہوکر خدا نہ بن سکا۔ اسی طرح اگر (نعوذ باللہ) کوئی خدا کا بیٹا ہوتا اور وہ بھی الوہیت کے منصب میں اللہ تعالی کا شریک ہوتا تو ظاہر ہے باپ کے ساتھ خدائی میں شراکت دار ہوتا، اور یوں تصور توحید ختم ہوجاتا۔ اس لئے فرمایا : 

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌO

(اے نبی مکرم) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔ 

(الاخلاص، 112)

اللہ جل شانہ نے اس مختصر سورہ پاک میں عقیدہ توحید کی تمام جزئیات اور شرک کی ممکنہ شکلوں کو باطل قرار دیا، عقائد اسلامیہ کا یہ خوبصورت خلاصہ اپنے اعجاز و اختصار کے باوجود اتنا جاندار ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ اخلاص کو قرآن کا تیسرا جزو قرار دیتے ہوئے فرمایا جس نے تین مرتبہ اس سورت کو پڑھا گویا اس نے پورا قرآن پڑھ لیا۔ (متفق علیہ)


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment