اگر شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق ذبح اسماعیل سے جوڑا نہ جائے تو بات مکمل نہیں ہوتی، شہادت کا عمل ادھورا رہ جاتا ہے اور بات مکمل طور پرسمجھ میں نہیں آتی۔ حضر ت اسماعیل کی قربانی کو صرف ’’ذبح،، کے لفظ سے ذکر کیا گیا۔ ان کی جگہ مینڈھے کی قربانی ہوئی تو اسے ’’ذبح عظیم،، کہا گیا۔ اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مینڈھے کی قربانی کو ذبح عظیم اور پیغمبر کے بیٹے کی قربانی کو محض ذبح کہا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ذبح عظیم سے مراد کونسی قربانی ہے؟ ذبح عظیم یقیناً وہی قربانی ہوگی جو ذبح اسمٰعیل سے بڑی قربانی کی صورت میں ادا ہوگی۔
اسماعیل علیہ السلام حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر اور نور نظر تھے۔ قطع نظر اس کے کہ نبی اور صحابی کے مرتبے میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن نسبت ابراہیمی سے نسبت مصطفوی یقیناً ارفع و اعلیٰ ہے علاوہ ازیں سیدنا حسین علیہ السلام کو سبط پیغمبر اور پسر بتول و حیدر ہونے کے ساتھ ساتھ نسبت ابراہیمی بھی حاصل ہے۔ نیز شہادت امام حسین چونکہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی باب ہے اس لئے کائنات کی اسی منفرد اور یکتا قربانی کو ہی ذبح عظیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لہذا بڑی صداقت کے ساتھ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے ضمن میں جس ذبح عظیم کا فدیہ دیا گیا وہ ایک مینڈھا نہ تھا بلکہ وہ لخت جگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کی قربانی تھی۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو بڑے خوبصورت شعری قالب میں ڈھالا ہے۔
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنئی ذبح عظیم آمد پسر
source : http://www.alhassanain.com