اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

تاریخ اسلام انگنت واقعات و حوادث سے عبارت ہے ۔سر زمین عرب پر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی بعثت روئے زمین کا سب سے بڑا واقع ہے آنحضرت ﷺ نے اللہ کے اس دین کی تبلیغ کی جسے انسانوں کی فلاح و بہبود اور نظام معاشرت کے آفاقی قوانین کابہترین مجموعہ اللہ تعالی نے خود قرار دیا قرآن مجید میں ارشاد ہو تا ہے کہ ؛

ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے ۔

اسلام حق کی بشارت اور عدل مطلقہ کے قیام کی ضمانت ہے ،اسلام ایک جانب توحید کی تلقین کرتا ہے تو دوسری جانب رسالت کی تصدیق اور تیسر ی جانب قرآن کو مسلمانوں کے لئے صراط مستقیم قرار دیتا ہے ۔

ابتداء میں اسلام کی ضیا پاشی نے ظلمات کی آنکھیں چندھیا دی تھیں یہی وجہ ہے کہ عرب عصبیت اور مشرکانہ رسوم یکلخت قصہء پا رینہ بن گئیں۔اسلام نے اللہ تعالی کی حاکمیت اور انسانی بندگی کے رہنماء اصولوں کو اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے جن پر عمل پیرا ہو نے سے مسلمان دنیاوی اور اخروی نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔اسلام نے جہاں خاندانی ، علاقائی اور ملکی سطح پر ایک متوازن معاشرے کی تشکیل کے رہنماء اصول بیان فرمائے وہیں حق اور صداقت کا پرچم بلند کرنے اور حق کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کی تعلیم دی ہے قرآن مجید کی صورة بقراء میں ارشاد خداوندی ہے کہ ؛

ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے ۔

 قرآن مجید کی اس آیت میں شہید کی اس افضل ترین خوبی کا ذکر کیا گیا ہے جو روئے زمین پر کسی بھی عام بشر کو حاصل نہیں ۔اسلام میں جہاد کی تعلیم دیتے ہوئے اس فلسفے کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے کہ جہاد محض قتل و غارت گری نہ ہو ۔جہاد امن کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔جہاد ہمیشہ ظلم ،ناانصافی اور کفر کے خاتمے کے لئے کیا جاتا ہے ۔اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا مرتبہ اتنا اعلی وا رفع ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔

آنحضرت نے اپنی زندگی میں بیشتر غزوات میں حصہ لیا اور مسلمانوں کو جہاد کی فضیلت اور اس کے اثرات سے آگہی بخشی ۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی حق کے قیام کے لئے تلوار زنی کی ۔

تاریخ اسلام میں شہادت امام حسین  کا واقعہ حق مطلقہ کے قیام کے لئے نواسہ رسول ﷺ کی عظیم قربانی ہے جس نے دین خالص کو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لئے کھول کر بیان کردیا ۔عراق کی سر زمین اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ اسی سرزمین پر جنگ جمل ، جنگ صفین ، جنگ نہروان اور واقعہ ء کربلا وقوع پذیر ہوا۔

حضرت امام حسین اورحضرت امام حسن  حضرت علی  بن ابو طالب کے فرزند اور رحمت اللعالمین ﷺ کے نواسے تھے ۔آپ نے نبی اکرم ﷺ کی آغوش میں تربیت پائی ۔آپ  کی عفت مآب والدہ حضرت فاطمہ تھیں جن کے احترام میں آنحضرت ﷺ خود کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ان عظیم ہستیوں نے حسنین  کی پرورش کی یہی وجہ تھی کہ آپ کی شخصیت میں ایمان کامل دکھائی دیتا ہے ۔

حضرت حسین  نے خلفائے راشدین کے زمانے میں اسلام کی سربلندی اور اس کے فروغ کا مشاہدہ کیا ۔حضرت علی کی شہادت کے بعد آپ کے  بڑے بھائی حضرت امام حسن اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان ہو نے والے معاہدے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا بھی آپ نے تفصیلی مشاہدہ کیا ۔امیر معاویہ کی وفات سے قبل یزید کی بیت کے واقعے نے آپ کو یہ سو چنے پر مجبور کر دیاکہ اسلام ایک صدی مکمل کرنے سے قبل ہی خطرات سے دو چار ہونے والاہے ۔اسلام کو بچا نے اور اسلامی تعلیمات کی حقانیت کو کو آشکار کرنے کے لئے خروج ناگزیر ہو چکا ہے ۔

حضرت امام حسین  وسیع اسلا می سلطنت میں پیدا ہو نے والی خرابیوں اور دین الہی کے نام پر قیصر و کسری کی سلطنتوں کے قیام کے مخالف تھے ۔واقعہ ء کربلا کو مختلف مورخین اپنے اپنے نقطہء نظر سے بیان کرتے ہیں لیکن اس حقیت سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا کہ امام حسین  نے تاریخ انسانی کی عظیم قربانی دیکر ظلم ،جبر ،اور استبداد کے سامنے ایسا بند باندھا کہ رہتی دنیا تک ان کی قربانی ظلم ناانصافی اور استبداد کے لئے ایک استعارہ بن گئی ۔آج ہر ظلم کے سامنے اٹھنے والی آواز حسینیت کی آواز کہلاتی ہے ۔اسی لئے کہتے ہیں کہ ؛

انسان    کو  بیدار  تو  ہو    لینے دو 

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

حضرت امام حسین نے جب مدینے سے رخت سفر باندھا تو آپ کی رکاب میں نہ فوج تھی نہ تیر و تفنگ ،نہ آلات حرب تھے نہ سامان رسد کے ذخائر آپ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سفر کی صعو بتیں برداشت کرتے ہو ئے امن کے شہر مکہ پہنچے ۔ذی الحج کے مہینے کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے وفود سے ملاقاتوں نے اسلامی مملکت میں پائی جانے والی برائیوں کو جب آپ پر آشکار کیا توآپ  نے کہا کہ فیصلے کی گھڑی آگئی ہے ۔اس وقت یزیدیت کا سرطان عالم اسلام کو مفلوج بنانے پر کمر بستہ تھا ۔امام حسین  نے تاریخ کے نازک موڑ پر حق و صداقت کا پر چم بلند کرنے اور خاندان رسالت کے وارث ہو نے کا حق ادا کرنے کا فیصلہ کیا ۔

کربلا کے میدان میں نواسہء رسول امام حسین اور یزیدی فوج کا مقابلہ نہیں تھا یہ مقابلہ آفاقی سچائی اور ظلمت کی قوتوں کا مقابلہ تھا ۔یہ عدل وانصاف کا معر کہ تھا یہ ظالم اور مظلوم کی پنجہ آزمائی تھی۔یہ جبر اور اختیار کی جنگ تھی ۔امام حسین نے ثابت کیا کہ جبر ، ظلم اور استبداد کے پروردہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں دنیاوی طور پر ان کی طاقت کتنی ہی مستحکم کیوں نہ ہو ان کی حیثیت اللہ کے دین کی سر بلندی کا فریضہ انجام دینے والوں کے لئے کبھی بھی ایک پر کاہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی ۔

 آپ  نے کربلا کی زمین پر بچوں نوجوانوں اور اپنے خاندان کے افراد کی قربانی دیکر طاغوتی قوتوں کو اس بے سروسامانی میں بھی شکست فاش دی ۔ میدان کربلا میں کسے فتح ملی اور کسے شکست کا سامنا کرنا پڑا آج یہ بات سب پر عیاں ہے ۔فانی جسموں پر فتح حاصل کرنے والے تاریخ انسانی میں مطعون ہو ئے اور جانوں کا نزرانہ پیش کرنے والوں نے حق کی سر بلندی کا فریضہ اس انداز میں انجام دیا کہ تاریخ اس جیسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

شاہ است حسین بادشاہ است حسین 

دین است حسین دیں پناہ است حسین

سر داد نہ  داد دست  در  دست یزید 

حقا کہ  بنائے  لا  الہ  است   حسین 


source : http://www.thearynews.com/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام
حضرت فاطمہ زہراء

 
user comment