اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اھل بیت علیھم السلام ، رشد و کمال کے لئے واسطہ

کوئی بھی دانہ زمین سے رابطہ اور زمین کے واسطہ کے بغیر سبزہ نھیں بنتا اور رشد نھیں کرتا اور نہ ھی پھل دیتا ھے۔

البتہ زمین اور مٹی کو بھی پاک ھونا چاہئے ورنہ اگر زمین آلودگی سے بھری ھو نہ صرف یہ کہ دانہ سبزہ نھیں بنتا بلکہ دانہ بھی نیست و نابود ھوجاتا ھے، اس بنا پر دانہ ،پاک و صاف زمین کے بغیر اپنی مخصوص حیات تک نھیں پہنچ سکتا یعنی نہ سبزہ ھوگا، نہ رشد کرے گا اور نہ پھل دے گا۔

<وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِی خَبُثَ لاَیَخْرُجُ إِلاَّ نَکِدًا۔۔۔>[1]

”اور پاکیزہ زمین کا سبزہ بھی اس کے پروردگار کے حکم سے خوب نکلتا ھے اور جو زمین خبیث ھوتی ھے اس کا سبزہ بھی خراب نکلتا ھے۔۔۔۔“

واسطہ نہ صرف دانہ اور گٹھلی کے لئے لازمی شرط ھے بلکہ ہر حقیقت کے لئے واسطہ ایک حیاتی شئے ھے یہاں تک کہ یہ بھی کہا جاسکتا ھے: کوئی بھی چیز دوسری چیز کے واسطہ کے بغیر متحقق نھیں ھوتی اور مطلوبہ کمال تک نھیں پہنچ سکتی۔

جی ہاں مکان ، معمار اور مزدروں کے واسطہ کے بغیر نھیں بنایا جاسکتا، بدن کا رشد بغیر غذا کے ممکن ھی نھیں، آنکھیں بغیر نور کے نھیں دیکھ سکتیں، کان صدائی موجوں کے بغیر نھیں سن سکتے، اس بنا پر یہ ماننا پڑے گا کہ بلا شک و شبہ انسان بھی اپنی مناسب شان و منزلت تک بغیر واسطہ کے نھیں پہنچ سکتا۔

انسان کی شان یہ ھے کہ خلیفة اللٰھی اور علم آدم کے مقام اور ہدایت و کرامت اور انسانیت کی بلندی پر پہنچے، لیکن کیا کسی لازمی واسطہ کے بغیر ان بلند مقام تک پہنچ سکتا ھے؟ ہرگز نھیں!

اور یہ کہ انسان کس واسطہ کے ذریعہ انسانیت کی وادی اور آدمیت کے دائرے میں کہ جو وھی عالم ایمان، اخلاق و عمل صالح اور آخر کار تقویٰ ھے، کیسے پہنچ سکتا ھے، یہ ایک ایسی حقیقت ھے جس کو قرآن کی زبان سے سننا چاہئے۔

اھل بیت علیھم السلام کا واسطہ ھونا

قرآن کریم صرف پاک و معصوم انسانوں کو مخلوق و خالق کے درمیان صاحب مقام وساطت جانتا ھے تاکہ ان کو ایمان و عمل اور اخلاق اور لقاء حق تک پہنچا سکیں، اور وہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کے علاوہ نھیں ھیں جو انسان کو خدا و قیامت، انسان کو ماضی اور مستقبل سے آگاہ کرنے والے اور قرآن کریم کی تعلیم و حکمت تک پہنچانے والے ھیں، وہ اھل بیت جن میں تباھی و بربادی، نقص و عیب چاھے ظاہری ھو یا باطنی، نھیں پائی جاسکتی جیسا کہ خود انھیں حضرات نے اپنی ہر طرح کی پاکیزگی کو بیان کیا ھے:

”اِٴنَّا اٴَھْلُ بَیْتٍ قَدْ اٴَذْھَبَ اللّٰہُ عنَّا الْفَوَاحِشَ، مَاظَھَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ۔“[2]

”ھم اھل بیت سے خداوندعالم نے ہر طرح کے رجس کو دور کیا ھے چاھے وہ ظاہری ھو یاباطنی“۔

نیز رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) آیہٴ تطھیر کے بارے میں فرماتے ھیں:

”نَحْنُ اٴَھْلُ بَیْتٍ طَھَّرَھُمْ اللّٰہُ۔“[3]

”ھم اھل بیت کو خداوندعالم نے ہر رجس سے پاک رکھا ھے“۔

حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام ایک بہت اھم حدیث میں فرماتے ھیں:

”اِنَّمَا اٴَمَرَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِطَاعَةِ الرَّسُولِ، لِاٴَنَّہُ مَعصُومٌ مُطَھَّرٌ لاَ یَاٴمُرُ بِمَعْصِیَتِہِ، وَاِنَّمَا اٴمَرَ بِطَاعَةِ اٴُولِی الاٴمرِ؛ لِاٴَنَّھُمْ مَعْصُومُونَ مُطَھَّرُونَ لاَ یَاٴمُرُونَ بِمَعْصِیَتِہِ۔“[4]

”خداوندعالم نے حکم دیا ھے کہ رسول (ص) کی اطاعت کرو، کیونکہ وہ معصوم اور پاک ھیںاور کبھی بھی گناہ کا حکم نھیں دیتے اور اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیا ھے کیونکہ وہ (بھی) معصوم اور پاک ھیں اور کبھی بھی گناہ کا حکم نھیں دیتے“۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

”اِنَّا اٴَھْلُ بَیْتٍ اٴَکْرَمَنَااللّٰہُ بالاسلامِ، واخْتَارَنَا وَاصْطَفَانَا وَاجْتَبَانَا فَاٴذْھَب عَنَّا الرِّجْسَ وَطَھَّرَنَا تَطْھِیْراً ۔ وَالرِّجْسُ ھُوَالشّکُّ، فَلاٰنَشُکُّ فِی اللّہِ الحَقِّ وَدِینِہِ اٴَبَدَاً، وَطَھَّرَنَا مِنْ کُلِّ اٴَفَنٍ وَغَیَّةٍ۔“[5]

”ھم اھل بیت کو خدا نے اسلام کے ذریعہ عظمت عطا کی اور ھمیں تمام مخلوقات کے درمیان سے انتخاب کیا، اور رجس و آلودگی کو ھم سے دور رکھا اور ہر طرح کی طہارت سے نوازا، آلودگی اور رجس وھی شک ھے (اور چونکہ شک کو ھم سے دور رکھا) ھم ہرگز خدائے حق تعالیٰ اور اس کے دین میں شک نھیں کرتے، اور ھمیں سست رائے اور گمراھی سے پاک رکھا“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

”اِٴنَّا لاَ نُوصَفُ وَکَیْفَ یُوْصَفُ قَوْمٌ رَفَعَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الرِّجسَ۔“[6]

”ھماری توصیف نھیں کی جاسکتی اور کیسے اس گروہ کی توصیف کی جاسکتی ھے کہ جس سے خداوندعالم نے ہر طرح کے رجس کو دور کر دیاھے“۔

اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”اِٴنَّ الشَّکَّ وَالْمَعْصِیَةَ فِی ا لنَّارِلَیسَا مِنَّا وَلاَ اِٴلَیْنَا۔“[7]

”شک اور گناہ آتش جہنم میں ھیں ، یہ دونوں ھم میں نھیں پائے جاتے اور نہ ھی ھم ان کی طرف مائل ھوتے ھیں“۔

اور حضرت امام علی نقی ہادی علیہ السلام جامعہ کبیرہ میں فرماتے ھیں:

”اٴشھَدُ اٴَنَّکُم الٴائمَّةَ الرَّاشِدُونَ الْمَھدیُّونَ الْمَعْصُومُونَ الْمَکرَّمُونَ۔۔۔عَصَمَکُمُ اللّٰہُ مِنَ الزَّلَلِ، وَآمَنَکُم مِنَ الفِتَنِ، وَ طَھَّرَکُم مِنَ الدَّنَسِ، وَاٴذھَبَ عَنکُمُ الرِّجسَ وَطَھَّرَکُم تَطھِیراً۔“[8]

”میں گواھی دیتا ھوں کہ بے شک تم ہدایت کرنے والے اور ہدایت یافتہ امام ھو، ہر خطا و غلطی سے معصوم ھو اور باکرامت اور با عظمت ھو، خداوندعالم نے تمھیں لغزشوں سے محفوظ رکھا اور فتنوں سے امان دی، معنوی رجس سے پاک کیا اور تم سے آلودگی کو برطرف کیا اور تمھیں ہر طرح کی طہارت سے آراستہ کیا“۔

جی ہاں، ہر عیب و نقص سے پاک و پاکیزہ خدا نے وحی، نبوت اور امامت کو ہر نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ خاندان میں قرار دیا تاکہ انسان اپنے واسطہ سے اپنی شان تک پہنچ جائیں اور ایمان و اخلاق، عمل صالح اور جامع و مکمل تربیت تک پہنچ جائیں اور کفر و شرک اور ھوا پرستی اور گناھوں سے محفوظ رھیں، نبوت و امامت کے زیر سایہ دنیا و آخرت کو آباد کریں اور آخر کار لقاء اللہ تک پہنچ جائیں اور ھمیشہ کے لئے بہشت جاویدانی میں جگہ پائیں۔

<۔۔۔کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ ۔۔۔>[9]

”( یہ) وہ کتاب ھے جسے ھم نے آپ پر نازل کیا ھے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے (جھل و گمراھی کی) تاریکیوں سے نکال کر (معرفت، عدالت اور ایمان کے) نور کی طرف لے آئیں۔۔۔۔“

<یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ ۔۔۔>[10]

”اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرو ،رسول اور صاحبان امر (جو ائمہ اھل بیت علیھم السلام اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی طرح مقام عصمت رکھتے ھیں) کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ھیں۔۔۔۔“

گزشتہ صفحات میں شیعہ و سنی کتابوں سے ایک بہت اھم روایت نقل ھوئی جس میں اولی الامر (کہ جن کی اطاعت خدا و رسول (ص) کی اطاعت کے ھمراہ ھے) پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے بیان کے مطابق آپ کی نسل سے بارہ امام معصوم ھیں کہ اس روایت میں ان بارہ کے نام بھی بیان کئے گئے ھیں۔[11]

پس یہ معلوم ھوا کہ ائمہ معصومین اور اھل بیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے واسطہ کے بغیر ایمان، عمل صالح،اخلاق حسنہ اور جامع و کامل تربیت تک پہنچنا کسی کے لئے ممکن نھیں ھے اور اس بارگاہ سے اس باگارہ میں جانا ضلالت و گمراھی کے عین مطابق اور ھلاکت و نابودی کے دلدل میں پھنس جانا ھے۔

اھل بیت علیھم السلام تربیت کرنے والے، معلم، مہربان ہدایت کے مشتاق، امت کی دستگیری کرنے والے، نجات اور سعادت کے دروازے کھولنے والے اور ضلالت و بدبختی کی راہ کو بند کرنے والے ھیں، اور ایک جملہ میں جیسا کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور شیعہ و سنی کتابوں میں نقل ھونے والی اھم روایتوں کے مطابق اھل بیت علیھم السلام ”صراط مستقیم“ ھیں وھی صراط مستقیم جس کا تذکرہ قرآن مجید میں مکرر کیا گیا ھے۔

اھل بیت علیھم السلام انسان کو خدا سے متصل کرنے والے

انسان فطرت کی بنیاد پر کمال کی طرف کشش رکھتا ھے اور خداوندعالم کمال مطلق ھے، لہٰذا انسان فطری طور پر خدا کی نسبت کشش رکھتا ھے اور اس بات کی کوشش کرتا ھے کہ وہ خود کو کمال تک پہنچائے اور نقص و کمی سے نجات پائے، اس وجہ سے اگر حجاب و غفلت میں مبتلا نہ ھو تو اپنا دل خدا کے سپرد کردیتا ھے، کیونکہ کمال کا دلدادہ ھے اور خدا سے یہ دلدادگی اس بات کی سبب اور باعث ھوگی کہ خدا کی طرف قدم اٹھانے میں شوق اور اشتیاق پیدا ھوگا۔

<۔۔۔ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیہ>[12]

 

”۔۔۔تواپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ھے تو ایک دن اس کا سامناکرے گا۔“

اورچونکہ کمال مطلق تک پہنچنا اس کے درجوں کو طے کرتے ھوئے ممکن ھے، لہٰذا جب تک نیچے درجے کی منزلوں کو طے نہ کیا جائے بلند و بالا درجوں تک پہنچنا ممکن ھی نھیں ھے کیونکہ اس نظام کائنات میں کسی مرتبہ سے گزرے بغیر اس سے بلند مرتبہ پر نھیں پہنچا جاسکتا، درجوں کو طے کرنا ترقی ھو یا تنزلی،ایک ضروری اور لازمی چیز ھے۔

لہٰذا اگر کوئی بلند و بالا مراتب اور کمال کی چوٹی اور مطلق جمال تک پہنچنا چاھے تو سب سے پھلے نبوت محمدی (صلی الله علیه و آله و سلم) کی اقتدا کی منزل میں قدم رکھے جو کمال مطلق کا سب سے پھلا مظہر ھے ، اور اس منزل میں داخل ھونے سے پھلے ولایت علوی کی اقتدا کی منزل میں وارد ھو؛ کیونکہ صاحب ولایت علویہ باب پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم) ھے:

”اٴنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ، وَعَلِیٌّ بَابُھَا۔“[13]

”میں شہر علم ھوں اور علی اس کا دروازہ“۔

انسان ولایت علوی سے تمسک کئے بغیر اور علم علوی کے موجیں مارتے ھوئے سمندر سے فیضیاب ھوئے بغیر، کمال مطلق کی حقیقت تک نھیں پہنچ سکتا۔

یہ دعویٰ کہ علی علیہ السلام کو چھوڑ کر پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) تک اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) سے خدا تک پہنچا جاسکتا ھے ، ایک شیطانی اور باطل دعویٰ ھے اور ایک ایسا مطلب ھے کہ جس کا متحقق ھونا غیر ممکن اور ایک لفظ میں محال ھے۔

پس جو شخص کمال مطلق کا دلدادہ ھے اور اس تک پہنچنا چاہتا ھے تو اس کو اپنے روحانی اور معنوی نیز عملی سفر شروع کرنے سے پھلے اپنے دل کی روحی اور قلبی فکری اور باطنی ظلمتوں اور کدورتوں کو اھل بیت علیھم السلام کے نور کی روشنی اور نبوت و ولایت کی اقتدا کے ذریعہ دور کرے، کیونکہ اھل بیت علیھم السلام کی ولایت اور ان کی اقتدا کے بغیر پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) تک نھیں پہنچا جاسکتا، اور نہ ھی لقائے حق تک پہنچا جاسکتا ھے اور نہ ا نسان کے اعمال درجہ مقبولیت تک پہنچ سکتے ھیں۔

حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام سے فرمایا:

”مَنْ سَرِّہِ اٴنْ یَلْقیٰ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ آمِنَا مُطَھَّراً  لا یَحْزُنُہُ الْفَزَعُ الاٴَکْبَرُ، فَلْیَتَوَلَّکَ وَلْیَتَولَّ ابْنَیْکَ الحَسَنَ وَالحُسَیْنَ، وَعَلي بنِ الحسینِ وَمُحَمَّدَ بنَ عليٍّ وَجَعْفَرَ بنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسی بنَ جَعْفَر ، وعلي بنَ موسی، ومحمّداً و علیّاً وَالحسنَ، ثمَّ المھديّ وَھو خَاتَمُھمْ۔“[14]

”جو شخص اس بات پر خوش ھو کہ خدا کا امن و امان کے عالم میں اور پاکیزہ طور پر دیدار کرے اور قیامت کی عظیم وحشت اس کو غمگین نہ کرے تو اُسے چاہئے کہ تمہاری ، تمہارے دو فرزند حسن و حسین اور علی ابن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علی بن موسیٰ و محمد و علی و حسن اور آخر میں مہدی (علیھم السلام) جو خاتم امامت ھے ؛ کی ولایت و اقتدا کو دل و جان سے قبول رکھے“۔

نیز رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) نے ایک بہت اھم روایت میں فرمایا:

 ”مَابَالُ اٴقوامٍ اِٴذَا ذُکِرَ عِندَھُمْ آلُ اِبراہِیمَ فَرِحُوا وَاسْتَبشِرُوا، وَاِذَا ذُکِرَ عِندَھُمْ آلُ مُحَمَّدٍ اشْمَاٴزَّتْ قُلُوبُھُم؟!وَالَّذِي نَفَسُ بِیَدِہِ، لَو اٴنْ عَبْداً جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِعَمَلِ سَبْعِینَ نَبِیّاً، مَا قَبِلَ اللّٰہُ ذَلِکَ مِنہُ حَتّی یَلقاہ بِولایَتِي، وَوَلاَیَةِ اٴھلِ بَیْتِي۔“[15]

”کیا ھوگیا ھے ان قوموں کو کہ جب بھی ان کے سامنے خاندان ابراھیم کا تذکرہ آتا ھے تو وہ خوش و خرم ھوجاتے ھیں، لیکن جب بھی ان کے سامنے خاندان محمد (ص) کی بات آتی ھے تو وہ ناراحت اور پریشان ھوجاتے ھیں؟! قسم ھے اس خدا کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمد(ص) کی جان ھے اگر (ایسا ) بندہ روز قیامت ستر (۷۰) انبیا کا عمل لے کر حاضر ھو تو بھی خداوندعالم اس کو قبول نھیں کرے گا مگر یہ کہ میری اور میرے اھل بیت کی ولایت کے ساتھ خدا سے  ملاقات کرے“۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام زیارت جامعہ میں فرماتے ھیں:

”وَاٴشْرَقَتْ الاٴَرْضُ بِنُورِکُمْ، وَفَازَ الفَائِزُونَ بِولایَتِکُمْ، بِکُمْ یْسُلَکُ اِلیٰ الرِّضْوَانُ وَعَلیٰ مَنْ جَحَدَ وِلاَیَتَکُمْ غَضَبُ الرحمنِ۔“

” اور زمین تمہارے (علم و امامت و رہبری اور ولایت) کے نور سے روشن ھے اور کامیاب ھونے والے تمہاری ولایت کے ذریعہ کامیاب ھیں، تمہاری وجہ سے رضوان الٰھی کی راہ کو طے کیا جاتا ھے اور تمہاری ولایت کے منکر پر غضب الٰھی نازل ھوتا ھے“۔

اس بنا پر جو شخص کمال مطلق تک پہنچنے کا دلدادہ ھواور اس تک پہنچنے کا بہت زیادہ شوق رکھتا ھو تو اُسے چاہئے کہ پھلی منزل میں (اھل بیت علیھم السلام کی شناخت کے بعد) اپنے پورے وجود سے ان حضرات کی پیروی کرے اور اس راستہ کے ذریعہ اپنے کو کمال مطلق اور وصال الٰھی تک پہنچائے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

<۔۔۔إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ ۔۔۔>[16]

”۔۔۔کہہ دیجئے کہ اگر تم لو گ اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو۔خدا بھی تم سے محبت کرے گا۔۔۔۔“

اگر تم کمال مطلق کے عاشق ھو اور کمال مطلق تمہارا محبوب ھے تو میری پیروی کرو کہ میں فیض مقدس، نور السموات و الارض، کمال اطلاقی اور اسم اعظم کا مظہر ھوں، تاکہ تم محبوب حق بن جاؤ۔

لہٰذا حقیقت میں اھل بیت علیھم السلام کی محبت انسان کے کمال مطلق کی محبت میں سرچشمہ رکھتی ھے۔ جو شخص کمال مطلق کو فطرت کی بنیاد پر تلاش کرے اور اس تک پہنچنا چاھے اور اس نے اپنے ہدف کو نھیں بھلایا ھے اور اسی راہ پر گامزن ھے تو ایسا شخص سمجھتا اور دیکھتا ھے کہ اس کمال مطلق تک پہنچنے کے لئے اس کمال تک پہنچے اور اپنے وجود اور معرفت کو تکمیل کرتے ھوئے بلند درجوںتک پہنچائے۔

اگر اسلام، محبوب شریعت ھے تو اس کی وجہ یہ ھے کہ ایک راہ ھے اور اگر فضائل اور اخلاق حسنہ محبوب ھیں تو اس کی وجہ راہ ھے اور اگر اھل بیت علیھم السلام محبوب ھیں تو اس کی وجہ یہ ھے کہ وصال حق تک پہنچنے کے لئے بہترین راہ ھے، جیسا کہ حضرت امام ہادی علیہ السلام نے زیارت ناحیہ میں اھل بیت علیھم السلام کو ”صراط اقوم“ سے تعبیر کیا ھے اور بعض روایات میں انھی حضرات نے اپنے کو صراط مستقیم کے عنوان سے یاد کیا ھے:

”نَحْنُ الصِّرَاطُ المُسْتَقِیْم۔“[17]

”ھم صراط مستقیم ھیں“۔

اھل بیت علیھم السلام نہ صرف یہ کہ راہ ھیں اور نہ صرف یہ کہ خود عالی کمال اور مطلق کمال ھیں بلکہ اللہ کی وہ رسی ھیں جو زمین و آسمان کے درمیان واسطہ ھے کہ ان حضرات سے تمسک کے ذریعہ خود کو کمال مطلق سے متصل کیا جاسکتا ھے۔

یہ حضرات مقام فیض منبسط اور فیض اقدس یعنی مظہر اول (جو حقیقت محمدی ھے) کی زمین کی سرحدوں تک پھیلا ھوا ھے۔

<اٴَلَمْ تَرَی إِلَی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ ۔۔۔>[18]

”کیا آپ نے (اپنے پروردگار کی قدرت و حکمت کو) نھیں دیکھا کہ اس نے کس طرح سایہ  پھیلا دیا ھے۔۔۔۔“

تاکہ کمال مطلق کا ہر عاشق انسان اس سے متمسک ھوجائے اور اس معنوی اور حقیقی وسیلہ کے ذریعہ خود کو حضرت حق تک پہنچائے۔

<وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ ۔۔۔>[19]

”اور اس تک پہنچنے کا (ایمان، عمل صالح اور اس کی بارگاہ کے مقرب کی عزت و آبرو کے ذریعہ) وسیلہ تلاش کرو۔۔۔۔“

اور ھمیشہ کے لئے رضوان الٰھی میں کہ جس کی ایک صفت ظل ممدود (یعنی پھیلا ھوا سایہ) ھے اور اس میں قرار پانا اھل بیت علیھم السلام کی اطاعت کا نتیجہ ھے، جگہ پائے اور وہاں خداوندعالم کی مادی اور معنوی نعمتوں سے فیضیاب ھو۔

اھل بیت علیھم السلام وھی حبل اللہ متین اور مستحکم وسیلہ و ریسمان ھیں جو ذات مکنون سے سایہ تک، اور سایہ کے پھیلنے تک، نور تک، عقل تک، مثال و وھم تک، جسم و مادہ اور مٹی اور خاک تک پھیلا ھوا ھے اور ساتوں آسمان اور ساتوں زمین میں پھیلا ھوا ھے، لہٰذا جو شخص غایت غایات اور کمال مطلق اور ذاتمکنون تک پہنچنا چاھے تو ان حضرات کے وسیلہ اور ریسمان سے فیضیاب ھو تاکہ ان سے متمسک ھوجائے اور خود کو اس بلندی تک پہنچا سکے کہ اس کے لئے شائستہ اور ضروری ھے۔

بلا شک و شبہ جو شخص اپنے محبوب (جو کمال مطلق ھے) تک پہنچنا چاھے اور معرفتی اور وجودی کمالات پیدا کرنے کے لئے کوشش کرتا ھے اور چاہتا ھے کہ عین اللہ، ید اللہ ، سمع اللہ، وجہ اللہ اور نور اللہ نیز ان دیگر حقائق کی طرح بننا چاہتا ھے اور وہ چاہتا ھے کہ اس کی ذات اس حد تک کامل ھوجائے کہ خدا کا محبوب بن جائے تو اسے چاہئے کہ زمین سے آسمان تک پھیلے ھوئے اسماء کے مراتب کو اھل بیت علیھم السلام کے ذریعہ طے کرے۔

[1] سورہٴ اعراف (۷)، آیت۵۸۔

[2] الفردوس، ج۱، ص۵۴؛ مناقب، ج۲، ص۱۷۶؛ بحار الانوار، ج۲۳، ص۱۱۶، باب۷، حدیث۲۹۔

[3] درّ منثور، ج۶، ص۶۰۶۔

[4] علل الشرائع ، ج۱، ص۱۲۳، باب۱۰۲، حدیث۱؛ الخصال، ج۱، ص۱۳۹، حدیث۱۵۸؛ وسائل الشیعہ، ج۲۷، ص۱۲۹، باب۱۰، حدیث۳۳۳۹۸؛ بحار الانوار، ج۷۲، ص۳۳۷، باب۸۱، حدیث۸۔

[5] امالی ، طوسی، ص۵۶۱؛ مجلس یوم الجمعة، حدیث۱۱۷۴؛ بحار الانوار، ج۱۰، ص۱۳۸، باب۹، حدیث۵۔

[6] اصول کافی، ج۲، ص۱۸۲، باب المصافحة، حدیث۱۶؛الموٴمن، ۳۰، باب۲، حدیث۵۵؛ بحار الانوار،۲۷، ص۳۰ باب۱۰۰، حدیث۲۶۔

[7] اصول کافی، ج۲، ص۴۰۰،باب الشک، حدیث۵؛ المحاسن، ج۱، ص۲۴۹، باب ۲۹، حدیث۲۵۹؛ وسائل الشیعة، ج۲۷، ص۱۶۲، باب۱۲، حدیث۲۲۴۹۴؛ بحار الانوار، ج۶۹، ص۱۲۷، باب۱۰۰، حدیث۱۰۔

[8] تہذیب، ۶، ص۹۷، حدیث۱؛ بحار الانوار، ج۹۹، ص۱۲۹، باب۸، حدیث۴؛ فرائد السمطین، ج۲، ص۱۸۔

[9] سورہٴ ابراھیم (۱۴)، آیت۱۔

[10] سورہٴ نساء (۴)، آیت۵۹۔

[11] مناقب ، ج۱، ص۲۸۲؛ ینابیع المودة، ج۳، ص۲۸۳۔

[12] سورہٴ انشقاق (۸۴)، آیت۶۔

[13] امالی، صدوق، ص۳۴۳، مجلس نمبر ۵۵، حدیث۱؛ الاشاد مفید، ج۱، ص۳۳؛ ارشاد القلوب، ج۲، ص۲۱۲؛ خصال، ج۲، ص۵۷۴، حدیث۱؛ عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۶۶، باب۳۱، حدیث۲۹۸؛ وسائل الشیعة، ج۲۷، ص۳۴، باب۵، حدیث ۳۳۱۴۶؛ بحار الانوار، ج۴۰، ص۲۰۱، باب ۹۴، حدیث۴۔

[14] الغیبة، طوسی، ص۱۳۶؛ مناقب، ج۱، ص۲۹۳، (تھوڑ ے فرق کے ساتھ)؛ بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۵۸، باب۴۱، حدیث۷۷۔

[15] امالی، طوسی، ص۱۴۰، مجلس نمبر ۵، حدیث۲۲۹؛ کشف الغمة، ج۱، ص۳۸۴؛ بحار الانوار، ج۲۷، ص۱۷۲، باب۷، حدیث۱۵۔

[16] سورہٴ آل عمران (۳)، آیت ۳۱۔

[17] معانی الاخبار، ص۳۵، باب معنی الصراط، حدیث۵؛ تفسیر صافی، ج۱، ص۵۴؛ بحار الانوار، ج۲۴، ص۱۲، باب۲۴، حدیث۵۔

[18] سورہٴ فرقان (۲۵)، آیت۴۵۔

[19] سورہٴ مائدہ (۵)، آیت ۳۵۔


source : http://www.sadeqeen.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ادب و سنت
زیارت حضرت فاطمہ معصومہ قم (ع)
کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی

 
user comment