اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

ہر چیز کے سرچشمہ کو تلاش کرنا چاہئے

مقدمہ :

امام ہادی علیہ السلام وہ امام ہیں جنھوں نے بہت زیادہ قید و بند میںزندگی بسر کی ،حضرت کو شیعوں سے جدا کرکے ”عسکر “ نامی ایک فوجی علاقہ میں رکھا گیاتھا جس کی وجہ سے آپ کے بہت سے اقوال ہم تک نہیں پہو نچ سکے ۔

بنی امیہ اور بنی عباس کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ انھوں نے اہل بیت علیہم السلام اور عوام کے درمیان رابطہ کو قطع کردیا تھا ،اگر لوگوں کا رابطہ اہل بیت علیہم السلام سے قطع نہ ہوتا تو آج ہمارے پاس ان عظیم شخصیتوں کے اقوال کی بہت سی کتابیں موجود ہوتیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام اور اور امام صادق علیہ السلام کے دور میںجو تھوڑی سی مہلت ملی اس میں بہت زیادہ علمی کام ہوا ۔لیکن بعد میں یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے زمانہ سے پھر قید و بند کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔بہرحال امام ہادی علیہ السلام کے کم ہی سہی مگر کچھ کلمات قصار ہم تک پہونچے ہیں ۔ اور مناسبت کی وجہ سے آج آپ کا ایک کلمہ قصار نقل کررہے ہیں۔

متن حدیث :

خیر من الخیر فاعلہ واجمل من جمیل قائلہ وارجح من العلم حاملہ والشر من الشر جالبہ و احول من الحول راکبہ

نیکی کو انجام دینے والا نیکی سے بہتر اور اچھی بات کہنے والا ہے چھے کلام سے بہتر ہے ،علم سے عالم افضل ہے ، شر کو انجام دینے والا شر سے بھی برا ہے اور وحشت پھیلانے والاوحشت سے بھی زیادہ وحشتناک ہے ۔

حدیث کی شرح :

امام علیہ السلام ان پانچ جملوں میں بہت اہم نکات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ،ان پانچ جملوں کے کیا معنی ہیں ․ ؟ ان میں سے تین جملے نیکی کے بارے میں اور دو جملے شر کے بارے میں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ امام علیہ السلام ایک بنیادی چیز کی طف اشارہ فرما رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمیشہ اہر چیز کی اصل علت کو تلاش کر نا چاہئے ۔اگر نیکیاں پھیلانا اور اچھائیوں کو عام کرنا پیش نظر ہے تو پہلے نیکیوںکے سرچشمہ کو تلاش کرو ۔ اور اسی طرح اگر برائیوں کو روکنا چاہتے ہو تو پہلے برائیوں کی جڑ کو تلاش کرو۔نیکی اور بدی سے زیادہ اہم ان دونوں کے انجام دینے والے ہیں ۔سماج میںیہ ہمیشہ مشکل رہی ہے اورآج بھی موجود ہے، کہ جب لوگ کسی برائی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو کچھ افراد صرف معلول کو ہی دیکھتے ہیں اوراس کی علت کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔جس کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو پاتے ۔وہ ایک کو ختم کرتے ہیں دوسرا اس کی جگہ پر آجاتا ہے ۔وہ دوسرے کو ختم کرتے ہیں تیسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔آخر ایسا کیوں؟ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ علت کو چھوڑکر معلول کو تلاش کرتے ہیں ۔میں ایک سادی سی مثال بیان کرتا ہوں کچھ افراد ایسے ہیں جن کے چہروں پر مہاسے نکل آتے ہیں یا پھر کچھ افراد کے بدن کی جلد پر پھنسیاں نکل آتی ہیں ان حالات میں کچھ لوگ مرحم کو تلاش کرتے ہیں تاکہ یہ مہاسے یا پھنسیاںختم ہوجائیں مگر کچھ لوگ اس حالت میں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ بدن کی جلد کا تعلق بدن کے اندرونی نظام سے ہے لہٰذا اس انسان کے جگر میں ضرور کوئی خرابی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ مہاسے یاپھنسیاں جلد پر ظاہر ہوئے ہیں ۔بدن کی جلد ایک ایساصفحہ ہے جو انسان کے جگر کے عمل کو ظاہر کرتاہے ۔مرحم وقتی طور پر تو آرام کرتا ہے لیکن اگر اصلی علت ختم نہ ہو تو یہ مہاسے یاپھنسیاں دوبارہ نکل آتے ہیں ۔اسی طرح اگر انسان وقتی طور درد کو ختم کرنے کے لئے کسی مسکن دوا کا استعمال کرے تو صحیح ہے مگر ساتھ ساتھہ اس کی اصل علت کو بھی جانناچاہئے ۔

آج ہمارے سماج کے سامنے دو اہم مشکلیں ہیں جو دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ان میںسے ایک منشیات اور دوسری جنسی بے راہ روی ہے ۔ منشیات کے استعال کے سلسلے میں سن کی شرح بہت نیچے آگئی ہے، کم عمر بچے بھی منشیات کا استعمال کررہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ایک سرحدی شہر میں ۱۵۰ / ایسی خواتین کے بارے میں پتہ چلا ہے جو منشیات کا استعمال کرتی ہیں جبکہ عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ خواتین منشیات کی لت میں نہیں پڑتی ہیں۔

لیکن کچھ اسباب کی بنا پر منشیات کی لت بچوں ،نوجوانوں،جوانوںاور خواتین میں بھی پھیل گئی ہے ۔اس برائی سے مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نشہ کرنے والے افرادکو پکڑیں اور منشیات کے اسمگلروںکو پھانسی پر لٹکائیں۔ یہ ایک طریقہ ہے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہئے۔ مگر یہ اس مشکل کا اساسی حل نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ منشیات کے استعمال کی اصل وجہ کیا ہے ۔کیا یہ بیکاری ،بے دینی یا سماجی آداب و رسوم کے نہ جاننے کی وجہ سے ہے ، یا پھر اس کے پیچھے ان غیر ملکی طاقتوںکا ہاتھ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے جوان منشیات میں مبتلا ہو جائیں تو اس ملک میںنفوذ پید ا کرنے کی راہ کا ایک اہم مانع ختم ہو جاتا ہے ۔ہمیں تاریخ کونہیں بھولنا چاہئے جب انگریزوں نے چین پر تسلط جمانا چاہا تو انھوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ چینیوں کے درمیان تریاک کو رواج دیا جائے ۔چینی اس بات کو سمجھ گئے اور انگریزوںکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے مگر انگریزوں نے فوجی طاقت کے بلبوتے پر چین میں تریاک وارد کردی۔ تاریخ میںیہ واقعہ جنگ تریاک کے نام سے مشہور ہوگیا ۔اور انھوں نے چین میں افیم کو داخل کرکے وہاں کے لوگوںکو افیم کے جال میں پھنسا دیا اور ظاہر ہے کہ جب کسی ملک کے جوان نشے کہ جال میں پھنس جاتے ہیں تو پھر وہ ملک دشمن کا سامنا نہیں کرپاتا ۔اسی وقت سے انگریزوں نے اس افیمی جنگ کی بنیاد ڈالی اور اب بھی مختلف شکلوں میں اس سے کام لیا جارہاہے ۔امریکیوںنے افغانستان پر اپنا تسلط جمایا تو یہ سمجھا جار ہا تھا کہ وہ اپنے نعروں کے مطابق منشیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گے۔لیکن اب یہ سن نے کو مل رہا ہے کہ منشیات کی کھیتی اور زیادہ بڑھ گئی ہے ۔امریکہ کے حقوق بشر اورفساد و منشیات سے مقابلہ کے تمام نعرے کھوکھلے ہیں ۔وہ تو فقط اپنے نفع اورنفوذ کے پیچھے ہیں اس کے لئے چاہے پوری دنیا ہی کیوں نہ نابود ہو جائے ۔

ہر چیزکے سرچشمہ کو تلاش کرنا چاہئے اور اپنے جوانوں کو دین سے آگاہ کرنا چاہئے۔، دین سب سے اہم عامل ہے ۔ ایک مذہبی بچہ کبھی بھی نشہ نہیں کرے گا ،جب لامذہب ہو جائے گا تو نشہ کرے گا ۔

دوسرا مسئلہ بیکار ہی ہے جب بیکاری پھیلتی ہے تو لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کام میں (منشیات کی خریدو فروش ) اچھی آمدنی ہے ۔ لہذا اس کام کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، اور اس طرح بیکا آدمی منشیات کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔اگرہم دشمن کے پرچار کی فکر نہ کریں تو پھران سے کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ بس ہمیں چاہئے کہ ہم ان علتوں کو تلاش کریں صرف معلول کو تلاش کرلینا ہی کافی نہیں ہے۔

علت کو سمجھنے کے لئے جلسہ و سیمینار وغیرہ منعقد ہونے چاہئے تاکہ اندیشمندان بیٹھ کر کوئی راہ حل نکال سکیں معمولی اور سادے مسائل کے لئے تو بڑے بڑے سمینار منعقد کئے جاتے ہیں مگر ان اہم مسائل کے حل کے لئے کسی سیمینار کا انعقادنہیں کیاجاتا ۔

دوسری مشکل جو تیزی سے پھیلتی جارہی ہے وہ جنسی بے راہ وی ہے ، اور آج ہما را جوان طبقہ اس جال میں پھنسا ہوا ہے ۔کیا مختلف سڑکوں یا مختلف مقامات پر بسیجی یا غیر بسیجی گروہ، یا پولس وغیرہ کو مامور کرکے لڑکوں اور لڑکیوں کے نامشروع روابط کو روکنے سے یہ مسئلہ ختم ہے جائے گا ؟یا یہ مسلہ پھر کسی دوسری جگہ سے سر اٹھائے گا ؟ ہمیںیہ دیکھنا چاہئے کہ اس کا اصل ریشہ کیا ہے ۔اس کا ایک ریشہ شادیوں کا کم ہونا ہے ،شادیاں چند چیزوں کی وجہ سے مشکل ہو گئیں ہیں ۔

1.

توقعات کا بڑھ جانا : 2.

تکلفات کا بڑھ جانا 3.

مہر کی رقم کا بڑھ جانا 4.

ا خرجات کا زیادہ ہو جانا اور اسی کے ساتھ ساتھ ایک ریشہ تحریک کرنے والے وسائل کا پھیلاو بھی ہے ۔کچھ جوان کہتے ہیں ان حالات میں اپنے اوپر کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے ۔ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ تم یہ چاہتے ہو کہ غیر اخلاقی فلمیں دیکھیں ،لڑکیوں سے آنکھیں لڑائیں ،غیر اخلاقی سی ،ڈی دیکھیں،خراب قسم کے میگزین پڑھیں اور اس کے باوجود یہ کہتے ہوکہ کنٹرول کرنا مشکل ہے ۔تم پہلے تحریک کرنے والے عوامل کو روکو۔جب تک تحریک کرنے والے عوامل سادی شکلوں میں موجود رہیں گے (جیسے :سی،ڈی،کہ اس میں فساد کی ایک پوری دنیا سمائی ہے یاانٹر نیت کہ جس نے فساد کی تمام امواج کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے اور دنیا کو اخلاقی و دگر جہتوں سے تباہ کرڈالاہے ) ایک جوان کسی طرح بھی اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔

کبھی کبھی شادیوں کے موقعوں پر ایسے پروگرام کئے جاتے ہیں جو ناپاک ،تحریک کرنے والے اور غیر مشروع ہیں۔سینکڑوںجوانوں کے دامن شادی کے انھیں پروگراموںمیں آلودہ ہو جاتے ہیں۔کیوں کہ مردو زن باہم شریک ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہیں اس حالت میں کہ رقص و موسیقی کا غلبہ ہوتا ہے ۔جوان یہ چاہتے ہیں کہ ان پروگراموں میںشرکت کریں اور بعد میںیہ بھی کہتے ہیںکہ ہم سے اپنے آپ پر کنٹرول کیوں نہیں ہوتا ؟تحریک کرنے والے عوامل کو ختم کرنا چاہئے ،شادی کی مشکلات کو آسان کرنا چاہئے ۔بس اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ کسی نیتجہ پر پہونچیں ،تو اصلی ریشہ کے بارے میں فکر کرنی چاہئے

گوش اگر گوش تو ونالہ اگر نالہ

آنچہ البتہ بجای نرسد فریاد است

اور حالت یہ ہے کہ نہ آپ کو ان باتوں کے سننے والے افراد ملیں گے اور نہ ہی یہ باتیں بتانے والے افراد میسر ہوں گے ۔


source : http://fazaelhadis.blogspot.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment