اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

بچپن میں نبوت یا امامت ملنا کس طرح ممکن ہے؟

یہ بات صحیح ہے کہ عام طور پر انسان کی عقل کی ترقی ایک موقع پر ہوتی ہے، لیکن ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیشہ معاشرہ میں کچھ عجیب و غریب قسم کے افراد پائے جاتے ہیں،ان کی عقل کی پرواز بہت زیادہ ہوتی ہے، تو پھر کیا ممانعت ہے کہ خداوندعالم اس وقت کو بعض مصلحت کی بنا پر مختصر کردے اور بعض انسان کے لئے کم مدت میں اس مرحلہ کو طے کرالے، کیونکہ عام طور پر بچہ ایک سال کے بعد بولنا شروع کرتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ولادت کے وقت ہی بولنے لگے اور وہ بھی پُر معنی مطالب جو بڑے بڑے ذہین لوگوں کے الفاظ ہوتے ہیں۔

(1)سورہ مریم ، آیت  ۱۲․

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ شیعوں کے بعض ائمہ کس طرح بچپن میں مقام امامت تک پہنچ گئے، ان کا یہ اعتراض بے بنیاد ہے۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے صحابی” علی بن اسباط“ نے روایت کی ہے کہ میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا (جبکہ امام علیہ السلام کی عمر کم تھی) میں امام کے قد و قامت کو غور سے دیکھ رہا تھا تاکہ ذہن نشین کرلوں اورجب مصر واپس جاؤں تو دوستوں کے لئے آپ کے قدو قامت کو ہو بہو بیان کروں، بالکل اسی وقت جب میں یہ سوچ رہا تھا تو امام علیہ السلام بیٹھ گئے (گویا امام میرے سوال کوسمجھ گئے ) اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے علی بن اسباط! خداوندعالم نے امامت کے سلسلہ میں وہی کیا جونبوت کے بارے میں انجام دیا ہے، کبھی ارشاد ہوتا ہے: <ٍ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا > ( ہم نے یحییٰ کو بچپن میں نبوت و عقل و درایت عطا کی“ اور کبھی انسان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: <حَتّٰی إذَا بَلَغَ اَشدہُ وَبَلَغَ اٴرْبَعِیْنَ سَنَة․․․>(احقاف/۱۵) (جب انسان بلوغ کامل کی حد تک پہنچا تو چالیس سال کا ہوگیا) ، پس جس طرح خدا کے لئے یہ ممکن ہے کہ انسان کو بچپن ہی میں نبوت و حکمت عطا فرمائے جبکہ وہی چیز انسان کی عقل کو چالیس سال میں مکمل فرمائے۔(1)

مذکورہ آیت ان لوگوں کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اعتراض کرتے ہیں کہ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں کیونکہ اس وقت آپ کی عمر ۱۰ سال تھی اور دس سال کے بچہ کا ایمان قابل قبول نہیں ہے۔

(قارئین کرام!)  یہاں پر اس نکتہ کا ذکر بےجانہ ہوگا جیساکہ ہم حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں پڑھتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ کے کچھ بچے

(1) نور الثقلین ،، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵․

ان کے پاس آئے اور کہا: ”اذہب بنا نلعب“( آؤ چلو آپس میں کھیلتے ہیں) تو جناب یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”ما للعب خلقنا“ ( ہم کھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں) اس موقع پر خداوندعالم نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:<وآتَیْنَاہُ الحُکْمَ صَبِیِّاً>(1)

البتہ اس چیز پر توجہ رکھنا چاہئے کہ یہاں پر ”کھیل“ سے مراد بیہودہ اوربے فائدہ کھیل مراد ہے ورنہ اگر کھیل سے کوئی منطقی اور عاقلانہ فا ئد ہ ہو تو اس کا حکم جدا ہے۔(۲)

(1) نور الثقلین ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵(سورہ مریم، آیت ۱۲)

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ ۲۷․

۲۸۔ وحی کی اسرار آمیز حقیقت کیا ہے؟ 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم ”وحی“ کی حقیقت کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ وحی ایک  ایسا”ادراک“ ہے جوہمارے ادراک اور سمجھ کی حد سے باہرہے، بلکہ یہ ایک ایسا رابطہ ہے جوہمارے جانے پہچانے ہوئے ارتباط سے باہر ہے، پس ہم عالم وحی سے اس لئے آشنا نہیں ہو سکتے کہ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

لہٰذاایک خاکی انسان عالم ہستی سے کس طرح رابطہ پیداکرسکتا ہے؟ اور خداوندعالم جو ازلی، ابدی اور ہر لحاظ سے لامحدود ہے کس طرح محدود او رممکن الوجود سے رابطہ برقرار کرتا ہے؟ وحی نازل ہوتے وقت پیغمبر اکرم  (ص) کس طرح یقین کرتے تھے کہ یہ رابطہ خدا کی طرف سے ہے؟!

یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا مشکل ہے، اور اس کے سمجھنے کے لئے زیادہ کوشش کرنا (بھی) بے کار ہے۔

ہم یہاں یہ عر ض کرتے ہیں کہ اس طرح کارابطہ موجود ہے،چنانچہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اس طرح کے رابطہ کی نفی پر کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے برخلاف اپنی اس دنیا میں بھی کچھ ایسے راز ہوتے ہیں جن کو ہم بیان کرنے سے عاجز ہیں، اور ان خاص رابطوں کے پیش نظر ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے احساس اور رابطہ کے مافوق بھی احساس، ادراک اور آنکھیں موجود ہیں۔

مناسب ہے کہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال کا سہارا لیا جائے۔

فرض کیجئے کہ ہم کسی ایسے شہر میں زندگی بسر کرتے ہوں جہاں پر صرف اور صرف نابینا لوگ رہتے ہوں (البتہ پیدائشی نابینا ) اوروہاں صرف ہم ہی دیکھنے والے ہوں، شہر کے تمام لوگ”چار حسّ “ والے ہوں (اس فرض کے ساتھ کہ انسان کی پانچ حس ہوتی ہیں)اور صرف ہم ہی ”پانچ حس “والے ہوں، ہم اس شہر میں ہونے والے مختلف واقعات کو دیکھتے ہیں اور شہر والوں کو خبر دیتے ہیں، لیکن وہ سب تعجب کرتے ہیں کہ یہ پانچویں حس کیا چیز ہے،جس کی کارکردگی کا دائرہ اتنا وسیع ہے؟ اور ان کے لئے جس قدر بھی بینائی کے بارے میں بحث و گفتگو کریں تو بے فائدہ ہے، ان کے ذہن میں ایک نامفہوم شکل کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا، ایک طرف سے اس کا انکار بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کے مختلف آثار و فوائد کا احساس کرتے ہیں، دوسری طرف چونکہ بینائی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں دیکھا ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ وحی ”چھٹی حسّ“ کا نام ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا ادارک اور عالم غیب اور ذات خداسے رابطہ ہے جوہمارے یہاں نہیں پایا جاتاہے، جس کی حقیقت کو ہم نہیں سمجھ سکتے، اگرچہ اس کے آثار کی وجہ سے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

ہم تو صرف یہی دیکھتے ہیں کہ صاحب عظمت افراد ایسے مطالب جو انسانی فکر سے بلند ہیں؛ اس کے ساتھ انسانوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو خدا اور دین الٰہی کی طرف بلاتے ہیں، اورایسے معجزات پیش کرتے ہیں جو انسانی طاقت سے بلند و بالاہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عالم غیب سے رابطہ ہے، جس کے آثار واضح و روشن ہیں لیکن اس کی حقیقت مخفی ہے۔

کیا ہم نے اس دنیا کے تمام رازوں کو کشف کرلیا ہے کہ اگر وحی کی حقیقت کو نہ سمجھ سکیں تو اس کا انکار کر ڈالیں؟

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم حیوانات کے یہاں بعض پُراسرار چیزیں دیکھتے ہیں جن کی تفسیر و توضیح سے عاجز ہیں، مگر مہاجر پرندے جو کبھی کبھی ۱۸۰۰۰/ کلومیٹر کا طولانی سفر طے کرتے ہیں اور قطب شمال سے جنوب کی طرف یا اس کے برعکس جنوب سے شمال کی طرف سفر کرتے ہیں، کیا ان کی پُراسرار زندگی ہمارے لئے واضح ہے؟

یہ پرندے کس طرح سمت کا پتہ لگاتے ہیں اوراپنے راستہ کو صحیح پہچانتے ہیں؟ کبھی دن میں اور کبھی اندھیری رات میں دور دراز کا سفر طے کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم ان کی طرح بغیر کسی وسیلہ اور گائڈ کے ایک فی صدبھی سفر کریں تو بہت جلد راستہ بھٹک جائیں گے، یہ وہ چیز ہے جس کے سلسلہ میں علم و دانش بھی ابھی تک پردہ نہیں اٹھاسکی، اسی طرح بہت سی مچھلیاں دریا کی گہرائی میں رہتی ہیں اور انڈے دینے کے وقت اپنی جائے پیدائش تک چلی جاتی ہیں کہ شاید ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہو، یہ مچھلیاں کس طرح اپنی جائے پیدائش کو اتنی آسانی سے تلاش کرلیتی ہیں؟

ان کے علاوہ اس دنیا میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو ہمیں انکار اور نفی سے روک دیتی ہیں،اس جگہ ہمیں شیخ الرئیس ابو علی سینا کا قول یاد آتا ہے ”کْلُّ ما قرَع سمَعکَ مِن الغرائبِ فضعہ فی بقعة لإمکان مالم یذدکَ عنہ قاطعُ البرہانِ“ (اگر کوئی عجیب و غریب چیز سننے میں آئے تو اس کا انکار نہ کرو ، بلکہ اس کے بارے میں یہ کہو کہ ممکن ہے، جب تک کہ اس کے برخلاف کوئی مضبوط دلیل نہ مل جائے!)

منکر ِوحی کی دلیل

جب بعض لوگوں کے سامنے وحی کا مسئلہ آتا ہے تو جلد بازی میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: یہ چیز علم اور سائنس کے برخلاف ہے!

اگر ان سے سوال کیا جائے کہ یہ کہاں علم اور سائنس کے برخلاف ہے؟ تو یقین کے ساتھ  اور مغرور لہجہ میں کہتے ہیں :جس چیز کوعلوم طبیعی اور سائنس ثابت نہ کرے تو اس کے انکار کے لئے یہی کافی ہے، اصولی طور پر وہی مطلب ہمارے لئے قابل قبول ہے جو علوم اور سائنس کے تجربوں سے ثابت ہوجائے!!

اس کے علاوہ سائنس کی ریسرچ نے اس بات کو ثابت نہیں کیا ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی حس موجود ہے جس سے ماوراء طبیعت کا پتہ لگایا جاسکے، انبیاء بھی ہماری ہی طرح انسان تھے ان کی اور ہماری جنس ایک ہی ہے، تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کے یہاں ایسا احساس اور ادراک پایا جاتا ہو جو ہم میں نہ ہو؟

ہمیشہ کا اعتراض اور ہمیشہ کاجواب

مادہ پر ستوں کا اعتراض صرف ”وحی“ کے سلسلہ میں نہیں ہے وہ تو ”ما وراء طبیعت“ کے تمام مسائل کا انکار کرتے رہتے ہیں، اور ہم اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہر جگہ یہی جواب پیش کرتے ہیں:

یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنس کا دائرہ ،صرف(مادی ) دنیا تک ہے ، اور سائنس کی بحث و گفتگو کا معیار اور آلات :لیبریٹری ، ٹلسکوپ، میکرواسکوپ وغیرہ ہیں اور اسی دائرے میں گفتگو ہوتی ہے، سائنس ان معیار اور وسائل کے ذریعہ ”جہان مادہ“ کے علاوہ کوئی بات نہیں کہہ سکتی نہ کسی چیز کو ثابت کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کا انکار کرسکتی ہے، اس بات کی دلیل بھی روشن ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام وسائل محدود اور خاص دائرے سے مخصوص ہیں۔

بلکہ علم و سائنس کے مختلف آلات کسی دوسرے علم میں کارگر نہیں ہوسکتے، مثال کے طور پر اگر ”سِل“ کے جراثیم کو بڑی بڑی نجومی ٹلسکوپ کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اگر ”پلوٹن“ ستارے کو میکروسکوپ اور ذرہ بین کے ذریعہ نہ دیکھا جاسکے تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے!!

کسی چیز کی پہچان اور شناخت کے لئے اسی علم کے آلات اوروسائل ہونا ضروری ہے، لہٰذا ”ماوراء طبیعت“ کی پہچان کے صرف عقلی دلائل ہی کارگر ہوسکتے ہیں جن کے ذریعہ اس عظیم دنیا  کے راستے ہمارے لئے کھل جاتے ہیں۔

جو افراد علم کو اس کی حدود سے خارج کرتے ہیں وہ نہ عالم ہیں اور نہ فیلسوف، یہ لوگ صرف دعو یٰ کرتے ہیں حالانکہ خطاکار اور گمراہ ہیں۔

ہم صرف یہی دیکھتے ہیں کہ کچھ عظیم انسان آئے اور ہمارے سامنے کچھ مطالب بیان کئے، جو نوع بشر کی طاقت سے باہر تھے، جس کی بنا پر ہم سمجھ گئے کہ ان کا ”ماوراء طبیعت“ سے رابطہ ہے، لیکن یہ رابطہ کیسا ہے؟ یہ ہمارے لئے بہت زیادہ اہم نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ہاں اس طرح کا رابطہ موجود ہے۔(1

(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۴۹۶․

۲۹۔ کیا پیغمبر اکرم  (ص) امّی تھے؟

”اُمّی“ کے معنی میں تین مشہور احتمال پائے جاتے ہیں: پہلا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے سبق نہ پڑھا ہو، دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس کی جائے پیدائش مکہ ہو اور مکہ میںظاہر ہوا ہو، اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے قوم او رامت کے درمیان قیام کیا ہو، لیکن سب سے زیادہ مشہور و معروف پہلے معنی ہیں، جو استعمال کے موارد سے بھی ہم آہنگ ہیں، اور ممکن ہے تینوں معنی باہم مراد ہوں۔

اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کہ”پیغمبر اکرم  (ص)کسی مکتب اور مدرسہ میں نہیں گئے “اور قرآن کریم نے بھی بعثت سے پہلے آنحضرت  (ص) کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے:< وَمَا کُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتَابٍ وَلاََتخُطُّہُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ>(1)

”اور اے پیغمبر! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہ میں پڑجاتے“۔

(1) سورہ عنکبوت ، آیت ۴۸․

یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت پورے حجاز میں پڑھے لکھے لوگ اتنے کم تھے کہ ان کی تعداد انگشت شمار تھی اور سبھی ان کوجا نتے تھے، مکہ میں جو حجاز کا مرکز شمار کیا جاتا تھا لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد ۱۷/ سے زیادہ نہیں تھی اور عورتوں میں صرف ایک عورت پڑھی لکھی تھی۔(1)

ایسے ماحول میں اگر پیغمبر اکرم  (ص) نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو  یقینی طور پریہ بات مشہور ہوجاتی، بالفرض اگر (نعوذ باللہ) آنحضرت  (ص)کی نبوت کو قبول نہ کریں، تو پھر آپ اپنی کتاب میں اس موضوع کی نفی کیسے کرسکتے تھے؟ کیا لوگ اعتراض نہ کرتے کہ تم نے تعلیم حاصل کی ہے، لہٰذا یہ بہترین شاہدہے کہ آپ نے کسی کے پاس تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔

بہر حال پیغمبر اکرم  (ص) میں اس صفت کا ہونا نبوت کے اثبات کے لئے زیادہ بہتر ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس شخص نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو وہ اس طرح کی عمدہ گفتگوکرتا ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آنحضرت  (ص) کا خداوندعالم اور عالم ماوراء طبیعت سے واقعاً رابطہ ہے۔

یہ آنحضرت  (ص) کی بعثت نبوت سے پہلے، لیکن بعثت کے بعد بھی کسی تاریخ نے نقل نہیں کیا کہ آپ نے کسی کے پاس لکھناپڑھنا سیکھا ہو، لہٰذا معلوم یہ ہو ا کہ آپ اولِ عمر سے آخر ِعمر تک اسی ”اُمّی“  صفت پر باقی رہے۔

لیکن یہاں پر سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے معنی جاہل ہونا نہیں ہے، اور جو لوگ لفظ ”اُمّی“ کے جاہل معنی کرتے ہیں وہ اس فرق کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔

 اس بات میں کوئی مانع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم  (ص) تعلیم الٰہی کے ذریعہ ”پڑھنا“ یا ”پڑھنا

(1) فتوح البلدان بلاذری ،مطبوعہ مصر، صفحہ ۴۵۹․

اور لکھنا“ جانتے ہوں، بغیر اس کے کہ کسی انسان کے پاس تعلیم حاصل کی ہو، بے شک اس طرح کی معلومات انسانی کمالات میں سے ہیں اور مقام نبوت کے لئے ضروری ہیں۔

حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات اس بات پر بہترین شاہد ہیں، جن میں بیان ہوا ہے : پیغمبر اکرم  (ص) لکھنے پڑھنے کی قدرت رکھتے تھے۔(1)

 لیکن ان کی نبوت میں کہیں کوئی شک نہ کرے اس قدرت سے استفادہ نہیں کرتے تھے،اور جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کی طاقت کوئی کمال محسوب نہیں ہوتی، بلکہ یہ دونوں علمی کمالات تک پہنچنے کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ علم واقعی اور کمال حقیقی، تو اس کا جواب بھی اسی میں مخفی ہے کیونکہ کمالات کے وسائل سے آگاہی رکھنا خود ایک واضح کمال ہے۔

لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا تصور ہے جس طرح کہ سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے:

< یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ>(۲) یا اس کے ماننددوسری آیات، اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر اکرم  (ص) لوگوں کے سامنے لکھی ہوئی کتاب (قرآن) سے پڑھتے تھے، یہ بھی ایک غلط فہمی ہے، کیونکہ تلاوت کے معنی لکھی ہوئی کتاب پڑھنا بھی ہیں اور زبانی طور پر پڑھنا بھی، جو لوگ قرآن، اشعار یا دعاؤں کو زبانی پڑھتے ہیں ان پر بھی تلاوت کا اطلاق بہت زیادہ ہو تا ہے۔(۳)

(1) تفسیر برہان ، جلد ۴، صفحہ ۳۳۲، سورہٴ جمعہ کی پہلی آیت کے ذیل میں․

(۲) سورہ جمعہ ، آیت ۲․”(وہ رسول) انھیں کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“۔

(۳) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۰․

۳۰۔ معراج؛ جسمانی تھی یا روحانی اور معراج کا مقصد کیا تھا؟

شیعہ ،سنی تمام علمائے اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ رسول اسلام کو یہ عالم بیداری میں معراج ہوئی، چنا نچہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیات کا ظاہری مفہوم بھی اس بات پر گواہ ہے کہ یہ بیداری کی حالت میں معراج ہوئی۔

 اسلامی تواریخ بھی اس بات پر گواہ ہیں چنا نچہ بیان ہوا ہے : جس وقت رسول اللہ نے واقعہٴ معراج کو بیان کیا تو مشرکین نے شدت کے ساتھ اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بہانہ بنالیا۔

  یہ بات خود اس چیز پرگواہ ہے کہ رسول اللہ  (ص)ہرگز خواب یا روحانی معراج کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اتناشور وغل نہ کرتے ۔

لیکن جیساکہ حسن بصری سے روایت ہے : ”کان فی المنام روٴیا رآہا“ (یہ واقعہ خواب میں پیش آیا )

اور اسی طرح حضرت عائشہ سے روایت ہے :  ” والله ما فقد جسد رسول الله  (ص) ولکن عرج بروحہ“

”خداکی قسم بدن ِرسول اللہ  (ص)ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمان پر گئی“۔

ظاہراً ایسی روایات سیاسی پہلو رکھتی ہیں۔(1)

 معراج کا مقصد

یہ بات ہمارے لئے واضح ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم  دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افرادخیال کرتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاہی کی بنا پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑکر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں جس میں سے ایک مسڑ” گیور گیو“ بھی ہیں وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں جنہیں پھرسے پہچاننا چاہئے“(۲) میں کہتے ہیں:

”محمد اپنے سفرِ معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حساب کتاب میں مشغول ہے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سنتے تھے مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں“

یہ عبارت نشاندھی کرتی ہے کہ وہ قلم لکڑی کا تھا، اور وہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتاتھا اور اس سے آواز پیدا ہوتی تھی ،اوراسی طرح کی اور بہت سے خرافات اس میں موجود ہیں “۔

جب کہ مقصدِ معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات بالخصوص عالم بالا میں موجودہ عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت ورہبری کے لئے ایک نیا احساس اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں ۔

معراج کاہدف واضح طورپر سورہٴ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہٴ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان ہوا ہے۔

(1)تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۵․

(۲)مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمہ کا نام ہے “ محمد پیغمبری کہ از نوباید شناخت “ صفحہ ۱۲۵․

اس سلسلہ میں ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہوئی ہے جس میں آپ سے مقصد معراج پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

”إنَّ الله لا یُوصف بمکانٍ ،ولایُجری علیہ زمان ،ولکنَّہ عزَّوجلَّ اٴرادَ اٴنْ یشرف بہ ملائکتہ وسکان سماواتہ، و یکرَّمھم بمشاھدتہ ،ویُریہ من عجائب عظمتہ مایخبر بہ بعد ھبوطہ“ (1)

”خدا ہرگز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتاہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باشندوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطاکرے نیزآپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکران کولوگوں کے سا منے بیان کریں“۔ (۲)

(1) تفسیر برہان ، جلد ۲، صفحہ ۴۰۰․

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۶․

۳۱۔ کیا معراج ،آج کے علوم سے ہم آہنگ ہے؟

گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں واقعہٴ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یہی نظریہ تھا ان کے خیال میں اس طرح تویہ ماننا پڑتا ہے کہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس میں مل گئے؟(1)

لیکن” بطلیموسی “نظریہ ختم ہو گیا تو آسمانوں کے شگافتہ ہونے کا مسئلہ ختم ہوگیا البتہ علم ہیئت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھر ے ہیں مثلاً:

۱۔ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کششِ ثقل ہے جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مداراور مرکزِ ثقل سے نکلنے کے لئے کم از کم چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔

۲۔دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔

(1)بعض قدیم فلاسفہ کا یہ نظریہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ، اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں --”خرق “(پھٹنا)اور ”التیام“(ملنا)ممکن نہیں ․

۳۔ایسے سفر میں تیسری رکاوٹ اس حصہ میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے جبکہ جس حصہ پر سورج کی بلا واسطہ روشنی پڑرہی ہے اور اسی طرح اس حصہ میں جان لیوا سردی ہے جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ہے۔

۴۔ اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطرناک شعاعیں ہیں کہ جو فضا ئے زمین کے اوپر موجود ہیں مثلا کا  سمک ریز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ریز ultra violet ravsاور ایکس ریز x ravsیہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے ارگانزم organismکے لئے نقصان دہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں (زمین پر رہنے والوں کے لئے زمین کے اوپر موجودہ فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم ہوجاتی ہے )

۵۔اس سلسلہ میں ایک اور مشکل یہ ہے کہ خلامیں انسان کا وزن ختم ہوجاتا ہے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باشندہ بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلا میں جا پہنچیں تو اس کیفیت سے نمٹنا بہت ہی مشکل ہے ۔

۶۔اس سلسلہ میں آخری مشکل زمانہ کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دورحاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہو گاکہ اس کی رفتار اس سے زیادہ ہو ۔

ان سوالات کے پیش نظر چندچیزوں پر توجہ ضروری ہے:

۱۔ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام تر مشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔

۲۔اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا تھابلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعہ صورت پذیر ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے۔

زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معجزہ عقلاً محال نہیں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھی عقلاً ممکن ہے ، توباقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل ہوجاتے ہیں ۔

جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں، اور ایسے لباس پہنے کہ جو اسے انتہائی گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ سکیں اور مشق کے ذریعہ بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ،یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعہ یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لا محدود طاقت کے ذریعہ یہ کام نہیں کرسکتا ؟

ہمیں یقین ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لئے انتہائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفرمیں در پیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے انہیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ،ہاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا، براق ؟ رفرف ؟ یا کوئی اور ․․․؟یہ مسئلہ قدرت کاراز ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر تیز ترین رفتار کے بارے میں مذکورہ نظریہ آج کے سائنسدانوں کے درمیان متزلزل ہوچکا ہے اگر چہ آئن سٹائن اپنے مشہور نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہے۔

آج کے سائنسداں کہتے ہیں کہ امواج جاذبہRdvs of at f fion \" \" زمانے کی احتیاج کے بغیر آن واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑتی ہیں یہاں تک کہ یہ احتمال بھی ہے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے نظام موجودہیں کہ جوروشنی کی رفتارسے زیادہ تیزی سے مرکزِ جہان سے دور ہوجاتے ہیں (ہم جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے اور ستارے اورشمسی  نظام تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں) (غور کیجئے )

مختصر یہ کہ اس سفر کے لئے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نہیں ہے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں کہ واقعہٴ معراج کو عقلی طورپر محال سمجھا جائے ،اس راستہ میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے جو وسائل درکار ہیں وہ موجود ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔

بہرحال واقعہٴ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالہ سے ناممکن ہے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے ، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ ہونے کو سب قبول کرتے ہیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہئے۔(1) (۲)

(1)معراج ، شق القمر اور دونوں قطبوں میں عبادت کے سلسلہ میں ہماری کتاب ”ہمہ می خو اہند بدا نند“ میں رجو ع فر مائیں ․

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷․

 


source : http://www.islamshia-w.co
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟
کیا تمام انسانی علوم قرآن میں موجود ہیں ؟
کو نسی چیزیں دعا کے اﷲ تک پہنچنے میں مانع ہوتی ...
صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
جنت ماں کے قدموں تلے / ولادت کے دوران مرنے والی ...
کیا شب قدر متعدد ھیں ؟ اور کیا دن بھی شب قدرکا حصھ ...
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟
بدعت كیا ہے اور كن چیزوں كو بدعت میں شمار كیا جاتا ...

 
user comment