اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

امام زین العابدین علیہ السلام اخلاق کی دنیامیں

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں ،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکرکے کہا،میں تم کوکہہ رہاہوں، آپ نے فرمایا،میں حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“ جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کررہاہوں (صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے آکرکہاکہ فلاں شخص آپ کی برائی کررہاتھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو، جب وہاں پہنچے تواس سے فرمایابھائی جوبات تونے میرے لیے کہی ہے، اگرمیں نے ایساکیاہوتوخدامجھے بخشے اوراگرنہیں کیاتوخداتجھے بخشے کہ تونے بہتان لگایا۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ مسجدسے نکل کرچلے توایک شخص آپ کوسخت الفاظ میں گالیاں دینے لگا آپ نے فرمایاکہ اگرکوئی حاجت رکھتاہے تومیں پوری کروں، ”اچھالے“ یہ پانچ ہزاردرہم ،وہ شرمندہ ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ پربہتان باندھا،آپ نے فرمایامیرے اورجہنم کے درمیان ایک گھاٹی ہے،اگرمیں نے اسے طے کرلیاتوپرواہ نہیں جوجی چاہے کہواوراگراسے پارنہ کرسکاتومیں اس سے زیادہ برائی کامستحق ہوں جوتم نے کی ہے (نورالابصار ص ۱۲۷ ۔ ۱۲۶) ۔

علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک شامی حضرت علی کوگالیاں دے رہاتھا،امام زین العابدین نے فرمایا بھائی تم مسافرمعلوم ہوتے ہو،اچھا میرے ساتھ چلو،میرے یہاں قیام کرو،اورجوحاجت رکھتے ہوبتاؤتاکہ میں پوری کروں وہ شرمندہ ہوکرچلاگیا(حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیان کیاکہ فلاں شخص آپ کوگمراہ اوربدعتی کہتاہے،آپ نے فرمایاافسوس ہے کہ تم نے اس کی ہمنشینی اوردوستی کاکوئی خیال نہ کیا، اورا سکی برائی مجھ سے بیان کردی،دیکھویہ غیبت ہے ،اب ایساکبھی نہ کرنا(احتجاج ص ۳۰۴) ۔

جب کوئی سائل آپ کے پاس آتاتھا توخوش ومسرورہوجاتے تھے اورفرماتے تھے خداتیرابھلاکرے کہ تومیرازادراہ آخرت اٹھانے کے لیے آگیاہے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔ امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ کاملہ میں فرماتے ہیں خداوندمیراکوئی درجہ نہ بڑھا،مگریہ کہ اتناہی خودمیرے نزدیک مجھ کوگھٹا اورمیرے لیے کوئی ظاہری عزت نہ پیداکرمگریہ کہ خودمیرے نزدیک اتنی ہی باطنی لذت پیداکردے۔

امام زین العابدین اورصحیفہ کاملہ

کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجوہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔

اسے علماء اسلام نے زبورآل محمداورانجیل اہلبیت کہاہے (ینابیع المودة ص ۴۹۹ ،فہرست کتب خانہ طہران ص ۳۶) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں جن میں میرے نزدیک ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔

امام زین العابدین عمربن عبدالعزیزکی نگاہ میں

۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعداس کابیٹاولید بن عبدالملک خلیفہ بنایاگیایہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابرتھا اسی کے عہدظلمت مین عمربن عبدالعزیزجوکہ ولیدکاچچازادبھائی تھا حجازکاگورنرہوایہ برامنصف مزاج اورفیاض تھا ،اسی کے عہدگورنری کاایک واقعہ یہ ہے کہ ۸۷ ھ ء میں سرورکائنات کے روضہ کی ایک دیوارگرگئی تھی جب اس کی مرمت کاسوال پیداہوا، اوراس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے توعمربن عبدالعزیزنے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہی کوسب پرترجیح دی (وفاء الوفاء جلد ۱ ص ۳۸۶) ۔

اسی نے فدک واپس کیاتھا اورامیرالمومنین پرسے تبراء کی وہ بدعت جومعاویہ نے جاری کی تھی، بندکرائی تھی۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرمارہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولیدبن عبدالملک نے آپ کوزہردیدیا،اورآپ بتاریخ ۲۵/ محرم الحرام ۹۵ ھ مطابق ۷۱۴ کودرجہ شہادت پرفائزہوگئے امام محمدباقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی ،علامہ ابن حجر،علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کوزہردے کر شہیدکیا،وہ ولیدبن عبدالملک خلیفہ وقت ہے (نورالابصار ص ۱۲۸ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص ۴۴۴ ، مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعدآپ کاناقہ قبرپرنالہ وفریادکرتاہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص ۱۷۹ ، شہادت کے وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی۔

آپ کی اولاد

علماء فریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے گیارہ لڑکے اورچارلڑکیاں چھوڑیں۔(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،وارجح المطالب ص ۴۴۴) ۔

علامہ شیخ مفیدفرماتے ہیں کہ ان پندرہ اولادکے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام محمدباقر آپ کی والدہ حضرت امام حسن کی بیٹی ام عبداللہ جناب فاطمہ تھیں۔ ۲ ۔ عبداللہ ۳ ۔ حسن ۴ ۔زید ۵ ۔عمر ۶ ۔ حسین ۷ ۔عبدالرحمن ۸ ۔سلیمان ۹ ۔علی ۱۰ ۔محمد اصغر ۱۱ ۔حسین اصغر ۱۲ ۔خدیجہ ۱۳ ۔فاطمة، ۱۴ ۔علیہ ۱۵ ۔ ام کلثوم (ارشاد مفید فارسی ص ۴۰۱) ۔


source : http://www.islamshia-w.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں

 
user comment